”کیوں؟” رخشی نے اطمینان سے سوال کیا۔
”اس کیوں کا جواب دینا ضروری نہیں ہے۔ بس میں یہ چاہتی ہوں، تم یہ جاب چھوڑ دو۔” امبر نے اس بار تلخی سے کہا۔
”پر کیوں کا جواب ضروری ہوتا ہے امبر! تم ایک حکم دے رہی ہو مجھے، مجھے پتہ تو چلنا چاہیے آخر تم یہ حکم کیوں دے رہی ہو؟” رخشی کا اطمینان بے مثال تھا۔
”میں تم سے اس کی وجوہات پر بحث کرنا نہیں چاہتی، صرف یہ چاہتی ہوں کہ تم یہ جاب چھوڑ دو۔”
”یہ جاب چھوڑ دوں تو کیا کروں؟” رخشی نے عجیب سے لہجے میںکہا۔
”وہ تمہارا مسئلہ ہے۔ تم اتنی سمجھ دار ہو چکی ہو کہ کہیں اور جاب ڈھونڈ سکو۔ تمہیں اب کسی کی مدد کی ضرورت نہیں پڑے گی۔” امبر نے اکھڑ انداز میں دو ٹوک لہجے میں کہا۔
”اسی لیے تو میں یہ جاب چھوڑنا نہیں چاہتی۔ ابھی تم نے سمجھ داری کی بات کی ہے تو میری سمجھ داری تو مجھ سے یہی کہہ رہی ہے کہ میں یہ جاب نہ چھوڑوں۔ منصور علی کے ساتھ کام کرنا مجھے بہت اچھا لگ رہا ہے۔” رخشی نے کہا۔
”مگر تمہارا پاپا کے ساتھ کام کرنا مجھے اچھا نہیں لگ رہا۔” امبر غرائی۔
”تم نے خود مجھے منصور علی کے پاس جاب دلوائی تھی۔”
”میں نے تمہیں پاپا کے پاس جاب نہیں دلوائی تھی۔ میں نے صرف پاپا کو جاب دلوانے کے لیے تمہاری مدد کرنے کا کہا تھا۔ میں نہیں جانتی تھی کہ تم پاپا کے پاس ہی جاب کرنے لگو گی۔”
”تم نے منصور علی سے میری سفارش کی۔ منصور علی نے مجھے رکھ لیا۔ انہیں سیکرٹری کی ضرورت تھی، مجھے جاب کی۔”
”اگر میری ہی سفارش پر تمہیں انہوں نے جاب دی تھی تو پھر اب میں یہی چاہتی ہوں کہ تم ان کے پاس کام نہ کرو۔”
”تو امبر! یہ بات تم غلط آدمی سے نہیں کہہ رہیں؟ تمہیں یہ سب منصور علی سے کہنا چاہیے۔ انہوں نے مجھے جاب پر رکھا تھا، وہی مجھے جاب سے نکال سکتے ہیں۔”
”دوسرے لفظوں میں تم مجھ سے یہ کہہ رہی ہو کہ تم جاب نہیں چھوڑو گی۔”
”دوسرے لفظوں میں؟ میرا خیال ہے کہ میں بہت صاف لفظو ںمیں تمہیں یہی بتا رہی ہوں کہ میں جاب نہیں چھوڑوں گی۔” رخشی نے چند لمحوں کے لیے توقف کیا۔ پھر بولی ”تم وجہ بتانے پر تیار نہیں میں جاب کیوں چھوڑوں تو پھر میں تمہاری ایک فضول سی ضد نما خواہش پر اپنی جاب تو نہیں چھوڑ سکتی۔”
”وجہ! وجہ جاننا چاہتی ہو تم؟ نہیں رخشی! تم وجہ جاننا نہیں چاہتیں تم اتنی معصوم نہیں ہو کہ وجہ نہ جانتی ہو۔”
”معصوم تو کوئی بھی نہیں ہوتا۔ آج کی دنیا میں اگر کوئی معصوم تمہیں نظر آئے تو مجھے ضرور دکھانا… معصوم تو تم بھی نہیں ہو۔” رخشی کے لہجے کی سرد مہری اب عروج پر تھی۔
”میں۔ میں معصوم نہیں ہوں۔ میں بے وقوف ہوں۔ دنیا کی سب سے بڑی بے وقوف۔ میں نے اپنی آستین میں تم جیسا سانپ پال لیا۔” امبر کو اس کے الفاظ نے بڑی طرح مشتعل کیا۔
”تو کیا میں نے تمہیں کاٹ لیا؟”رخشی کو امبر کی بات نے جیسے محظوظ کیا۔ ”میں نے تمہیں نہیں کاٹا امبر؟ تم میری بیسٹ فرینڈ ہو۔” اس کا لہجہ تمسخر لیے ہوئے تھا۔
”نام مت لینا دوستی کا اپنی زبان سے۔ تم جیسی لڑکیاں اس لفظ کا مطلب نہیں جانتیں۔”
”اوکے… مجھ جیسی لڑکیاں اس لفظ کا مطلب بھی نہیں جانتیں… بس تم نے یہی بتانے کے لیے مجھے فون کیا تھا۔”
”مجھے شرم آرہی ہے تم سے یہ کہتے ہوئے کہ تم، تم نے میرے پاپا کو ٹریپ کر لیا ہے۔ تم ان کے ساتھ افیئر چلا رہی ہو صرف چند مادی چیزوںکے لیے تم، تم انہیں بے وقوف بنا رہی ہو۔” امبر نے غصے سے کانپتی ہوئی آواز میں کہا۔
”یہ سب کچھ تمہیں کس نے بتایا ہے؟” رخشی نے اپنے اعصاب پر قابو رکھتے ہوئے کہا۔
”یہ مت پوچھو کہ یہ سب کچھ کس نے بتایا ہے۔ تم نے دنیا کو اندھا سمجھ لیا ہو گا مگر دنیا اتنی اندھی نہیں ہے۔ کبھی نہ کبھی تو تمہارا بھانڈا پھوٹنا ہی تھا۔”
”امبر کافی لعنت ملامت ہو چکی ہے اب بس کرو۔ تم چونکہ غصے میں ہو اور تم سمجھ نہیں پارہیں کہ تم کیا کہنا چاہ رہی ہو اور کیا کہہ رہی ہو۔ اس لیے میں برا نہیں مان رہی ورنہ جو کچھ تم کہہ رہی ہو اس کے بعد مجھے تمہاری شکل تک نہیں دیکھنی چاہیے۔ بات کرنا تو دور کی بات ہے۔”
”تم میری شکل نہیں دیکھو گی رخشی! میں خود تمہاری شکل دیکھنا نہیں چاہتی۔ تم سے دوستی میری زندگی کی سب سے بھیانک اور خوفناک غلطی ہے… سب سے خوفناک۔ ممی ٹھیک کہتی تھیں تم اس قابل نہیں تھیں کہ تمہارے ساتھ تعلق رکھا جاتا۔”
”تم اور تمہاری ممی کے فرمان۔” رخشی ہنسی۔
”رخشی! میرے پاپا کا پیچھا چھوڑ دو ورنہ تمہارا بہت برا حشر ہو گا۔ میں تمہیں خبردار کر رہی ہوں۔”
”امبر! تم ایک بار پھر غلط آدمی سے اپنی بات کہہ رہی ہو۔ میرا خیال ہے، یہ درخواست بھی تمہیں منصور علی کے سامنے ہی پیش کرنی چاہیے میں اس سلسلے میں بھی تمہاری کوئی مدد نہیں کر سکتی۔”
”تمہیں شرم آنی چاہیے اپنی حرکتوں پر۔ تم نے میرے پاپا کو ٹریپ کر لیا ہے، انہیں بے وقوف بنا رہی ہو تم۔”
”اچھا؟… مگر تمہارے پاپا تو کہتے ہیں۔ انہیں مجھ سے محبت ہے۔” امبرکچھ دیر اس کی بات کے جواب میں کچھ بول نہیں پائی۔ رخشی اس طرح منصور علی کی بات کو کھلم کھلا دہرائے گی۔ اسے اندازہ نہیں تھا۔
”انہیں تمہارا اصلی چہرہ دیکھنے میں دیر نہیں لگے گی اور جب وہ تمہارا اصلی چہرہ دیکھ لیں گے تو وہ تمہیں دھکے مار کر نکال دیں گے۔”
”کہاں سے؟ رخشی نے بے حد انجان بے کر کہا۔ اپنے آفس سے؟ اپنے دل سے؟ یا پھر اپنے گھر سے؟” امبر کے حلق کو جیسے کسی نے دونوں ہاتھوں سے جکڑ لیا۔
”گھر سے؟”
”ہاں۔ تمہیں نہیں پتا۔ میں تو سمجھ رہی تھی تمہیں پتہ ہوگا۔ آخر تمہیں ہر چیز کا تو پتہ ہی ہے، اس بات کا کیوں پتہ نہیں ہے کہ میں ان کے گھر میں رہتی ہوں۔” رخشی نے بڑے ناز اور انداز سے رک رک کر گھر کا ایڈریس دہرایا۔
”تمہارے پاپا نے یہ گھر مجھے لے کر دیا ہے، میری شادی کے تحفے کے طور پر؟” امبر کے سر پر جیسے کسی نے بم بلاسٹ کر دیا تھا۔
”دیا تو انہوں نے اور بھی بہت کچھ تھا مجھے مگر یہ ذرا یادگار قسم کا تحفہ تھا۔ اس لیے تم سے اس کا ذکر کر رہی ہوں۔” رخشی اس طرح بتا رہی تھی جیسے امبر نے یہی سب کچھ سننے کے لیے فون کیا تھا۔
”اب تم خود سوچو، صرف جاب ہوتی تو میں چھوڑ دیتی مگر میں تو ان کی بیوی بھی ہوں۔ یہ دوسرا والا عہدہ کیسے چھوڑ سکتی ہوں۔ تم سمجھ رہی ہو نا میری بات؟”
امبر کا پورا وجود جیسے آندھیوں کے کسی جھکڑ کی زد میں آیا ہوا تھا۔
”منصور نے بڑے اصرار کے ساتھ شادی کی ہے مجھ سے بے چارے پہلی شادی، بیوی اور بچوں کے ہاتھوں بہت تنگ تھے۔” رخشی نے افسوس بھرے لہجے میں کہا۔
”میں اگر تمہاری ممی اور تمہیں نہ جانتی ہوتی تو میں کبھی ان کی بات پر یقین نہ کرتی… کیونکہ ویسے دیکھنے میں اتنے خوش باش لگتے ہیں مگر تمہارے گھر کاماحول تو میں نے خود دیکھا ہی ہوا ہے ”وہ ذرا اس خاندانی” ماحول سے تنگ آگئے تھے۔” رخشی بہت روانی سے کہتی جارہی تھی۔
”اب تو چند ماہ ہو گئے ہیں ہماری شادی کو۔ بہت خوش ہیں ویسے منصور علی۔ ان کی خوشی کا اندازہ تو تمہیں ان کے اپنے گھر سے غائب رہنے سے بھی ہوتا ہوگا۔”
”تم جھوٹ بول رہی ہو۔”
”اچھا چلو اگر تمہیں یہ کہہ کر تسلی ہوتی ہے تو تم یہی سمجھ لو۔” رخشی نے اس طرح کہا جیسے اسے امبر کو تسلی دینا مقصود ہو۔
”پاپا تم سے کبھی شادی نہیں کرسکتے۔”
”کیوں وہ مجھ سے شادی کیوں نہیں کر سکتے… اگر وہ میرے ساتھ افیئر چلا سکتے ہیں اور تم کم از کم افیئر کے بارے میں تو یہ نہیں کہہ سکتیں کہ وہ بھی میرا گھڑا ہوا جھوٹ ہے تو پھر وہ مجھ سے شادی کیو ںنہیں کر سکتے۔” رخشی نے مذاق اڑانے والے انداز میں کہا۔
”پاپا کو تم سے شادی کی ضرورت نہیں ہے۔ وہ ایک خوشگوار شادی شدہ زندگی گزار رہے ہیں۔” امبر نے اپنے اعصاب پر قابو پاتے ہوئے کہا۔ جواب میں رخشی بے اختیار کھلکھلا کر ہنسی، اتنی بری طرح کہ کوشش کے باوجود وہ اگلے کئی سیکنڈز تک اپنی ہنسی پر کنٹرول نہیں کر پائی۔
”اف… مائی گاڈ! تم نے مجھے بہت ہنسایا ہے امبر! میں نہیں جانتی تھی تمہارا سینس آف ہیومر اتنا اچھا ہے، مائی گڈنیس۔ خوشگوار شادی شدہ زندگی۔” اس نے ایک بار پھر ہنسنا شروع کر دیا۔
”تم اپنی ممی اور ان کی نیچر کو تو بہت اچھی طرح جانتی ہو۔ تم ہی مجھے بتاؤ… کیا ان کے ساتھ کوئی مرد خوش رہ سکتا ہے۔”
”شٹ اَپ”
”یو شٹ اَپ!” رخشی نے امبر کو ترکی بہ ترکی جواب دیتے ہوئے کہا۔ ”میں اب تک تمہارا لحاظ کر رہی تھی اور بہتر ہے تمہارے اور میرے درمیان لحاظ کا رشتہ ضرور قائم رہے ورنہ آگے چل کر بڑی مشکل ہو جائے گی۔” رخشی نے اس بار بے حد سنجیدگی سے کہا۔
آگے چل کر؟ کون سا آگے رخشی! تم، تم تمہارا نہ کوئی آگے ہے نہ پیچھے۔ اوکے تم نے پاپا کے ساتھ شادی کر لی ہو گی۔ مگر کتنے دنوں کے لیے؟ یہ زندگی بھر کا رشتہ تو ہو نہیں سکتا۔ اس کے بعد تم کیا کرو گی؟ کہاں جاؤ گی۔”
”یہ تمہاری بدقسمتی ہے امبر! یا پھر منصور علی کی خوش قسمتی کہ میں نے ان کے ساتھ ساری عمر رہنے کا فیصلہ کیا ہے ویسے مجھے یہ جان کر خوشی ہوئی کہ تمہیں، بڑی جلدی میری بات پر اعتبار آگیا ہے ورنہ کچھ دیر پہلے تو تم یہ ماننے پر تیار ہی نہیں تھیں کہ منصور علی نے مجھ سے شادی کر لی ہے۔” رخشی نے تمسخر آمیز انداز میں کہا۔
”تم نے پاپا سے ان کی جائیداد ان کے پیسے کے لیے شادی کی ہے اور یہ بنیاد قائم نہیں رہے گی۔”
”ہر رشتے کی بنیاد میں کہیں نہ کہیں پیسہ ضرور آتا ہے پھر کیا ہے۔ مان لیا میں نے منصور علی سے پیسے کے لیے شادی کی ہے۔ تو کیا برائی ہے اس میں۔ ہر آدمی میں کچھ نہ کچھ تو دیکھا جاتا ہے میں نے منصور میں پیسہ دیکھ لیا کیا فرق پڑتا ہے۔”
”ہاں۔ تمہارے جیسی لڑکیوں کو تو نہیں پڑتا۔ وہ تو ان کو پڑتا ہے جن کا کوئی خاندان ہو۔ حسب نسب ہو۔ تم جیسوں کو کیا فرق پڑتا ہوگا۔”
”ویسے منصور علی نے مجھ سے محبت کی شادی کی ہے اگر تمہارے خیال میں رشتے یا تعلق کی بنیاد محبت پر ہونی چاہیے تو پھر منصور علی کی طرف سے اس بنیاد میں محبت ہی شامل ہے۔” وہ اب بھی مذاق اڑانے والے موڈ میں تھی۔