”تم اس سوشل سرکل میں آکر دیکھو، جہاں میں ہوتا ہوں تمہیں کوئی ایک آدمی بھی سیکریٹری کے بغیر نہیںملے گا۔ یہ سیکریٹری بھی میں نے ہارون کمال کے کہنے پر رکھی ہے۔ امبر کے کہنے پر رکھی ہے۔” وہ دونوں ترکی بہ ترکی ایک دوسرے کی باتوں کا جواب دے رہے تھے۔
”ہارون کمال جائے بھاڑ میں… اور اگر امبر کے کہنے پر تم نے رخشی کو سیکریٹری رکھا ہے تو اب وہ ہی تم سے اس کو جاب سے نکالنے کے لیے کہے گی۔ تو تم اسے نکال دینا۔” منصور علی اس بار کچھ نہیں کہہ سکے۔ وہ صرف منیزہ کو دیکھتے رہے پھر انہوں نے کہا۔
”یہ نہیں ہوسکتا میں اسے جاب پہ رکھ کر نکال نہیں سکتا۔”
”کیوں نہیں نکال سکتے۔ اگر تم نے اسے صرف امبر کے کہنے پر رکھا ہے تو امبر کے لیے ہی نکال دو۔”
”نہیں، امبر کہے گی تب بھی نہیں۔ یہ کوئی مذاق نہیں ہے کہ میں آج ایک شخص کو جاب پر رکھوں اور کل اسے کسی وجہ کے بغیر جاب سے نکال دوں۔”
”شخص کو نہیں، لڑکی کو… شخص کی تو بات ہی نہ کرو… تم منصور علی، تم ایک تیسرے درجے کے انتہائی گھٹیا آدمی ہو۔ تمہیں شرم آنی چاہیے رخشی کے ساتھ… گلچھڑے اڑاتے ہوئے ۔ وہ تمہاری بیٹی کی دوست ہے۔ تمہاری بیٹی کی ہم عمر ہے… اور تم… تم اپنی عمر دیکھو۔ اپنے بچوں کو دیکھو۔” اس سے پہلے کہ وہ کچھ اور کہتیں منصور علی نے منیزہ کے چہرے پر تھپڑ کھینچ مارا۔
تھپڑ اتنا زور دار نہیں تھا جتنا اس بات کا صدمہ تھا کہ انہیں یہ تھپڑ منصور علی نے مارا تھا۔ بیس سالہ ازدواجی زندگی میں منصور علی نے تھپڑ تو ایک طرف کبھی ان سے اونچی آواز میں بات بھی نہیں کی تھی۔ وہ بیس سال تک آئیڈیل شوہر کے ہر معیار پر پورے اترے تھے اور اب چند ہفتوں میں منیزہ نے ان کی شخصیت کے کچھ نئے رخ دیکھے تھے۔ کچھ اور پرتیں، کچھ اور پہلو… اور سب سے تاریک، سب سے سیاہ ترین پہلو یہ تھا جو وہ اب اس وقت دیکھ رہی تھیں۔
گال پر ہاتھ رکھے وہ بے یقینی سے اپنے سامنے چلاتے اس مرد کو دیکھتی رہیں جس کے ساتھ انہوں نے زندگی کے بیس سال گزارے تھے، اور وہ کہہ رہے تھے۔
”بند کرو… اپنی بے ہودہ گفتگو… بند کرو… بچوں کاذ کر میری عمر کاتذکرہ… میں تنگ آگیا ہوں تمہاری ان باتوں سے۔ تمہارے پاس جھگڑے کے علاوہ اور کچھ ہے؟ طنز کے علاوہ کچھ اور کہہ سکتی ہو تم؟” منصور علی اب بلند آواز میں دھاڑ رہے تھے۔
”میری زندگی کی سب سے بڑی غلطی یہ ہے کہ میں نے تم سے شادی کی۔ بلکہ شادی کی کیا، شادی ہو گئی۔ تم نے میری زندگی کو جہنم بنا کر رکھا ہے۔ میں تنگ آگیا ہو اس جہنم سے… تم سے… تمہاری اولاد سے۔”
”میری اولاد سے… اب یہ صرف میری اولاد ہے؟”
”ہاں یہ صرف تمہاری اولاد ہے، تم جیسی، تمہاری اولاد… میری حماقت یہ ہے کہ میں اس گھر میں آجاتا ہوں مجھے تو اس گھر میں بھی نہیں آنا چاہیے۔”
”تو پھر کہاں رہنا چاہیے… رخشی کے گھر؟”
”ہاں رخشی کے گھر… وہ ہر لحاظ سے تم سے بہتر ہے۔ ہر لحاظ سے۔” منصور علی کہتے ہوئے ڈرائنگ روم میں چلے گئے۔
منیزہ بھی ان کے پیچھے ڈرائنگ روم میں چلی آئیں۔ ”اگر وہ ہر لحاظ سے بہتر ہے تو تم یہاں کیوں آئے ہو۔ جاؤ… اس کے پاس چلے جاؤ۔ دفع ہو جاؤ اس کے پاس۔” وہ ہذیانی انداز میں گال پر ہاتھ رکھ کر چلائیں۔
”چلا جاؤں گا اس کے پاس… تمہارا یہ شوق بھی پورا کر دوں گا۔”
”اور اس کے بعد تم دیکھنا میں پورے خاندان کو اکٹھا کرکے تمہیں کتنا ذلیل کروں گی۔” منیزہ اب حلق کے بل چلا رہی تھیں۔
”مجھے کوئی فرق نہیں پڑے گا۔ رتی برابر بھی فرق نہیں پڑے گا۔”
”یہ وقت بتائے گا۔”
”نہیں، یہ میں بتاؤں گا۔ تم دیکھ لوگی۔ لوگ میرے سامنے گونگے ہو جائیں گے، کوئی مجھے میرے منہ پر ایک لفظ بھی نہیں کہہ سکے گا۔”
”میرا خاندان تمہیں زندہ نہیں چھوڑے گا۔”
”تم اور تمہارا خاندان، مائی فٹ، تم لوگ ہو کیا میرے سامنے۔ اتنا مان ہے تمہیں اپنے خاندان پر۔ تو یہاں کیوں ہو… دفع ہو جاؤ اپنے خاندان کے پاس…”
”چلی جاؤں گی۔ چلی جاؤں گی۔ تم ایک بار رخشی سے شادی تو کرو۔ پھر دیکھنا میں دوبارہ تمہاری شکل دیکھنا تک پسند نہیں کروں گی۔ میں بچوں کو بھی اس گھر سے اپنے ساتھ لے جاؤں گی۔”
”ضرور کیوں نہیں، جس وقت چاہے ایسا کر لینا۔ مجھے نہ تمہاری پرواہ ہے نہ تمہارے بچوں کی۔” منصور اپنے کپڑے لے کر باتھ روم میں چلے گئے۔
امبر تمام رات جاگتی رہی۔ منیزہ کی طرح اسے بھی منصور کا انتظار تھا اور وہ بھی یہ جان چکی تھی کہ منصور گھر نہیں آئے۔
اس رات اپنے کمرے میں بیٹھ کر اس نے پچھلے چند ہفتوں کے بارے میں پہلی دفعہ سوچنا شروع کیا او رپہلی بار ہی اس کی چھٹی حس اسے خبردار کرنے لگی۔ سب کچھ ٹھیک نہیں تھا۔
رخشی کو منصور کے پاس جاب اس نے نہیں دلوائی تھی۔ اس نے منصور سے صرف رخشی کی جاب کے لیے سفارش کی تھی۔ منصور نے رخشی کو اپنے پاس جاب دینے کے بعد اس کو بتایا تھا کہ وہ رخشی کو اپنی سیکریٹری کے طور پر رکھ چکے ہیں۔ رخشی نے اسے اس بارے میں تب تک اطلاع نہیں دی تھی جب تک منصور نے اسے اس بارے میں نہیں بتا دیا۔
منصور کے پاس جاب کرنے کے بعد رخشی نے اپنی رہائش تبدیل کر لی تھی۔ وہ صرف ایک بار اس کے گھر گئی تھی اور اس کا لائف اسٹائل دیکھ کر حیرانی آمیز انداز میں خوش ہوئی تھی، اسے شک نہیں ہوا تھا کہ یہ منصور کی ضرورت سے زیادہ عنایات کا نتیجہ ہے۔
منصور کے پاس جاب کرنے کے بعد رخشی اور اس کی ملاقات تقریباً نہ ہونے کے برابر رہ گئی تھی۔ وہ دونوں اب صرف فون پر ہی بات کرتی تھیں۔ اگر کبھی وہ ملاقات کے لیے اصرار بھی کرتی تب بھی رخشی اسے ٹال دیتی۔ حتیٰ کہ چھٹی والے دن بھی اس کے پاس امبر سے نہ ملنے کے لیے کوئی بہانہ ہوتا تھا۔
اور ایک ماہ سے کچھ زیادہ عرصے سے تو وہ فون پر بھی رخشی سے بات نہیں کر سکی تھی۔ ہر بار فون کرنے پر اس کی بات صاعقہ سے ہی ہوتی تھی اور صاعقہ کے پاس رخشی کے حوالے سے بہت سے بہانے ہوتے تھے۔
منیزہ غلط نہیں تھی۔ جب سے رخشی منصور کے پاس کام کر رہی تھی وہ باپ کے مزاج میں آنے والی تبدیلیاں دیکھ رہی تھی۔ منصور علی کے پاس اب اس کے لیے بھی وقت نہیں ہوتا تھا۔
اس نے چند بار منصور علی سے شکایت کی تھی، مگر منصور علی نے اپنی مصروفیات کا بہانا کر دیا تھا۔ وہ منیزہ اور منصور کے درمیان موجود تلخی اور کشیدگی کو بھی پہلی بار ہی دیکھ رہی تھی۔
امبر، صبح فجر کے بعد سوئی اور جس وقت بیدار ہوئی تب سہ پہر ہو رہی تھی۔ منصور تب بھی گھر پر نہیں تھے۔ منیزہ نے اسے منصور کے ساتھ اپنے جھگڑے کے بارے میں بتایا۔ امبر اس بار کچھ نہیں بول سکی تھی۔ اس کے بد ترین خدشات کی تصدیق ہو گئی تھی۔ منیزہ کی طرح اس نے بھی منصور سے رابطہ کرنے کی کوشش کی۔ کال ریسیو نہیں کی گئی، منصور یقینا اس وقت ان میں سے کسی بات نہیں کرنا چاہتے تھے۔
دوسرا رستہ رخشی سے بات کرنے کا تھا۔
٭٭٭
فون صاعقہ نے اٹھایا۔ امبر کی سمجھ میں فوری طور پر نہیں آیا کہ وہ اسے کیا کہہ کر مخاطب کرے۔ ”آنٹی…” اس سے پہلے صاعقہ کے لیے یہ لفظ استعمال کرتے ہوئے، کبھی بھی دوسری بار سوچنا نہیں پڑا تھا، مگر آج سب کچھ مختلف تھا۔
”میں امبر بول رہی ہوں۔” اس نے صاعقہ کے لیے کوئی بھی لفظ استعمال کرنے سے گریز کیا۔ صاعقہ یک دم بہت محتاط ہو گئی۔
”امبر کو یاد نہیں کہ اس سے پہلے صاعقہ کے لہجے میں یہ احتیاط نظر آئی تھی یا نہیں… شاید اس سے پہلے اس نے کبھی غور نہیں کیا تھ۔ آج پہلی بار وہ دوسروں کے لہجوں پر غور کر رہی تھی۔
”اوہ… ہاں امبر… کیسی ہو؟” امبر کوشش کے باوجود صاعقہ کے لہجے میں کوئی گرم جوشی نہیں ڈھونڈ سکی۔ وہ گرم جوشی جو رخشی سے دوستی کے آغاز میں اس کے لہجے میں چھلکتی تھی۔
”میں رخشی سے بات کرنا چاہتی ہوں۔” امبر نے صاعقہ کے سوال کا جواب دیے بغیر کہا۔
”رخشی تو گھر پر نہیں ہے۔” صاعقہ نے کہا۔
”پھر کہاں ہے؟ آفس میں ہے؟” امبر کا انداز بہت دو ٹوک تھا۔
”نہیں آفس میں تو نہیں ہے۔ وہاں سے تو اس وقت تک آجاتی ہے۔ وہ اصل میں بازار گئی ہے۔ کچھ شاپنگ کے لیے۔” صاعقہ اب قدرے روانی سے بول رہی تھی۔
”تمہیں کوئی پیغام دینا ہے تو تم مجھے بتا دو، میں دے دوں گی۔”
”میں اس سے خود بات کرنا چاہتی ہوں میں دوبارہ فون کرلوں گی۔” اس نے کچھ کہے بغیر ریسیور رکھ دیا۔
اسے اپنی کنپٹیوں میں درد محسوس ہو رہا تھا۔ رخشی کا نام ہتھوڑے کی طرح برس رہا تھا۔ اس نے اٹھ کر کمرے کے چکر لگانے شروع کر دیے رخشی کو دیکھ کر وہ جان گئی تھی، احسان فراموشی کی کوئی حد نہیں ہوتی۔ کم از کم بعض لوگوں کے لیے اور یہ اس کی بدقسمتی تھی کہ رخشی ان بعض لوگوں میں شامل تھی۔
اس سے بھی زیادہ وہ بدقسمتی یہ تھی کہ وہ اس کی دوست تھی۔ وہ دوست جس کی طرف دوستی کا ہاتھ اس نے بڑھایا تھا۔ جس پر اس کے احسانوں کا کوئی شمار نہیں تھا۔ اس نے زندگی میں کبھی احسانوں کو شمار کرنے کی کوشش نہیں کی تھی۔ اسے اس کی ضرورت ہی نہیں پڑی تھی۔ مگر وہ آج زندگی میں پہلی بار کسی پر اپنے کیے گئے احسانو ںکو یاد کرنے پر مجبور ہو گئی تھی۔
وہ تمام تحفے جو وہ وقتاً فوقتاً اسے دیا کرتی تھی۔ تحفے کی قیمت کی پرواہ کیے بغیر اسے یاد نہیں، اس نے کتنی بار رخشی کی مالی مدد کی تھی۔ کتنی بار اس کی مختلف فرمائشیں پوری کی تھیں۔ وہ جسے بے تکلفی اور گہری دوستی کے اظہار کے طور پر لیتی تھی۔ وہ گہری دوستی تھی نہ بے تکلفی۔ وہ صرف اس کا استعمال تھا۔ اس کے پاس موجود چیزوں کا استعمال تھا۔
وہ پہلی بار رخشی کے نزدیک اپنی اہمیت، اپنا رول سمجھنے کی کوشش کر رہی تھی۔ اس کی کوئی اہمیت نہیں تھی۔ اس کا رول صرف ایک Provider کا تھا۔
امبر منصور علی کی اہمیت صرف یہ تھی کہ وہ ایک اونچے خاندان کی امیر لڑکی تھی۔ اس میں کوئی ایسی خوبی نہیں تھی جس کی بنا پر رخشی جیسی لڑکی اس کی دوستی کو اہمیت دینے پر مجبور ہوتی۔ یا شاید رخشی کی زندگی کے فریم ورک میں پیسہ اتنا اہم ہو گیا تھا کہ وہ ان بنیادی انسانی صفات سے محروم ہو گئی تھی۔ جس سے کسی دوسرے شخص کو خوبیوں کوجانچتے ہوئے اس کی وقعت کا اندازہ کیا جاسکے۔
پیسہ ہی اسے کھینچ کر امبر کی طرف لے گیا تھا۔ اس سے زیادہ پیسہ کھینچ کر منصور کی طرف لے گیا تھا، کسی تیسرے شخص کے پاس اس سے زیادہ پیسہ ہوتا تو وہ اس کی طرف چلی جاتی۔
کمرے میں ٹہلتے ہوئے امبر منصور علی پہلی بار اپنی غلطیوں کا اعتراف کر رہی تھی۔ رخشی کے بارے میں مختلف اوقات میںمختلف لوگوں کی تنبیہہ اسے یاد آرہی تھی۔
اس نے ہر ایک کی بات کو ایک کان سے سن کر دوسرے کان سے اڑا دیا تھا۔ بہت لاپرواہی اور بے فکری کے ساتھ… اسے رخشی سے کبھی کوئی خطرہ محسوس نہیں ہوا تھا۔ مگر یک دم ہی لاپروائی اور بے فکری کا وہ دور ختم ہو گیا تھا اور اس کی وجہ وہ لڑکی تھی جسے وہ اپنا بہترین دوست سمجھتی تھی۔