”منصور جھگڑتا ہے؟” شبانہ نے چونکنے کی اداکاری کرتے ہوئے کہا۔ ”وہ تو بڑے ٹھنڈے مزاج کا آدمی تھا۔ اسے کیا ہوا؟”
”آپ جان تو گئی ہیں کہ انہیں کیا ہوا ہے؟ مجھے تو حیرت ہے کہ انہوں نے اس طرح مجھے دھوکا دے کر اس لڑکی کو سیکریٹری رکھا اور وہ لڑکی اس کا تو میں وہ حشر کروں گی کہ وہ یاد رکھے گی۔”
”منیزہ! دیکھو تم میرا نام کسی کے سامنے مت لینا ورنہ مسعود، طلحہ اور اسامہ میرا بھی حشر کر دیں گے تمہیں میں نے بتایا ہے کہ مسعود مجھے تمہیں کچھ بھی بتانے سے منع کر رہے تھے۔ وہ بھی یہ نہیں چاہتے کہ منصور ان سے جھگڑا کرے۔” شبانہ کو اچانک اپنی فکر ہونے لگی۔
”آپ فکر نہ کریں بھابھی! مجھے آپ کا نام لینے کی ضرورت ہے بھی نہیں… آپ نے بہت اچھا کیا کہ مجھے یہ سب کچھ بتا دیا… آپ نہ بتاتیں تب بھی وہ سب کچھ کہاں تک مجھ سے چھپا رہ سکتا تھا۔ منصور ساری عمر تو مجھے اندھیرے میں نہیں رکھ سکتے تھے۔ آپ سے مجھے یہ سب کچھ پتا نہ چلتا تو کسی اور سے پتا چل جاتا۔” منیزہ نے سنجیدگی سے کہا۔
”میں تمہاری کیفیت کوسمجھ رہی ہوں مگر پھر اس موقع پر جھگڑا کرنے کا کوئی فائدہ نہیں اسے آرام سے بیٹھ کر سمجھاؤ… بلکہ پوچھو کہ وہ ایسا کیوں کر رہا ہے؟” شبانہ نے سمجھایا، انہیں یک دم فکر ہونے لگی تھی کہ یہ جھگڑا کہیں ان کے اپنے گھر میں نہ پہنچ جائے۔
”نہیں بھابھی! اس بار ان سے آرام سے بیٹھ کر کوئی بات نہیں کر سکتی۔ اس باران سے بات اسی طرح ہو گی جس طرح میں چاہتی ہوں انہیں بھی تو پتا چلنا چاہیے کہ وہ اپنی بیوی کو اس طرح دھوکا نہیں دے سکتے۔ بیس، اکیس سال کی شادی کے بعد اب انہیں میں اچھی نہیںلگتی۔ انہیں یک دم مجھ میں خامیاں نظر آنے لگی ہیں۔ مجھے بھی تو انہیں بتانا چاہئے کہ ساری خامیاں خود ان کے اندر ہیں۔” وہ اب بہت غصے کے عالم میں مسلسل کہہ رہی تھیں۔
”مجھے افسوس اس بات کا ہے کہ مسعود بھائی نے اس سارے معاملے میں ان سے بات کرنے کے بجائے یہ سب کچھ مجھ سے چھپایا… یہی کام طلحہ اور اسامہ نے بھی کیا۔”
منیزہ اب بری طرح بپھری ہوئی تھیں اور شبانہ کی سمجھ میں نہیں آرہا تھا کہ وہ انہیں کس طرح ٹھنڈا کریں۔ اب انہیں پچھتاوا ہو رہا تھا کہ انہوں نے خوامخواہ میں ہی منیزہ کو یہ
سب کچھ بتایا۔
”منیزہ! صرف مسعود، طلحہ اور اسامہ ہی نہیں امبر کو بھی رخشی کی منصور کے آفس میں ملازمت کے بارے میںپتا ہے۔ بلکہ یہ ملازمت امبر کے کہنے پر ہی دی گئی ہے۔” منیزہ کچھ دیر تک کچھ بھی نہیں بول سکیں۔
”مسعود نے مجھے یہ بتایا تھا، اگر اس میں کسی کی غلطی ہے تو امبر کی غلطی ہے۔ اس نے بھی تو تمہیں دھوکے میں رکھا ہے۔” شبانہ اٹھ کھڑی ہوئیں۔
”میں اب چلتی ہوں، بہت زیادہ دیر ہوگئی ہے۔ میں دوبارہ کسی دن چکر لگاؤں گی۔” شبانہ کہتے ہوئے چلی گئیں۔
منیزہ وہیں بیٹھی رہیں۔ وہ شبانہ کو رخصت کرنے کے لیے بھی دروازے تک نہیں آئیں۔
شبانہ کے لاؤنج سے نکلتے ہی منیزہ نے ملازم کو آوازیں دینا شروع کر دیں اور جب ملازم آگیا تو انہوں نے اسے امبر کو بلانے کے لیے کہا۔ امبر اس وقت اپنے کمرے میں ہی تھی۔ وہ کچھ دیر پہلے ہی شبانہ سے ملنے کے بعد اوپر آئی تھی۔ ملازم کے بلاوے پر وہ ایک بار پھر نیچے آگئی۔
منیزہ اب بھی لاؤنج میں بیٹھی تھیں۔ ”آنٹی چلی گئیں؟” امبر نے لاؤنج میں آتے ہی کہا مگر منیزہ کے چہرے پر ایک نظر ڈالتے ہی وہ کچھ محتاط سی ہو گئی۔ منیزہ کا چہرہ لال بھبھوکا ہو رہا تھا، امبر کے لیے یہ اندازہ کرنا مشکل نہیں تھا کہ وہ بے حد غصے میں تھیں۔
”تم نے رخشی کو منصور کے پاس سیکریٹری کی جاب دلوائی ہے؟” منیزہ نے کسی تمہید کے بغیر کہا۔
امبر کا منہ چند لمحوں کے لیے کھلے کا کھلا رہ گیا۔ وہ کم از کم اس وقت ان سے اس سوال کی توقع نہیں رکھتی تھی۔ ابھی کچھ دیر پہلے جب وہ نیچے موجود تھی تو منیزہ اور شبانہ دونوں بہت ہی خوشگوار موڈ میں تھیں۔
امبر کی خاموشی نے منیزہ کے اشتعال کو اور ہوا دی۔
”مجھے تو تم سے یہ سوال پوچھنا ہی نہیں چاہیے تھا، مجھے سمجھ لینا چاہے تھا کہ یہ کام تم ہی کر سکتی ہو؟”
”ممی! آپ میری بات سنیں!” امبر نے بالآخر اپنی گھبراہٹ پر تھوڑا قابو پاتے ہوئے کہا۔
”تمہیں میں نے کتنی بار رخشی کی مدد کرنے سے روکا تھا؟ کتنی بار میل جول سے روکا تھا؟ تم نے میری بات ماننے کی بجائے اسے منصور کے پاس سیکریٹری رکھوا دیا؟”
”ممی! اسے جاب کی ضرورت تھی۔” امبر منمنائی۔
”بھاڑ میں جائے وہ اور اس کی ضرورت… تم نے ساری دنیا کا ٹھیکہ لیا ہوا ہے؟ ساری دنیا کی لڑکیوں کو جاب کی ضرورت پڑے گی تو تم انہیں منصور کے پاس رکھو دو گی تاکہ وہ اور منصور عیش کرتے پھریں؟”
”ممی! آپ کس طرح کی فضول بات کر رہی ہیں؟” امبر نے بے اختیار بلند آواز میں کہا۔ ”آپ کو پاپا اور رخشی کے بارے میں اس طرح کی باتیں کرنے سے پہلے سوچنا چاہیے۔ جاب کرنا کوئی برا کام نہیں ہے۔”
”تم اپنی بکواس بند کرو… میں تمہاری کافی بک بک سن چکی ہوں۔ تمہاری وہ دوست تمہارے باپ کے ساتھ ہوٹلز میں ڈنر کرتی پھر رہی ہے اور تم مجھے بتا رہی ہو کہ جاب کرنا بہت اچھا کام ہے۔ کل کو تمہارا باپ اسے اس گھر میں لے آئے گا، اس سے شادی کر لے گا۔ تم تب بھی یہی کہنا کہ جاب کرنا بہت اچھی بات ہے۔” امبر بے یقینی سے منیزہ کو دیکھنے لگی۔
”آپ کیا کہہ رہی ہیں…؟ آپ کو کوئی غلط فہمی ہوئی ہے۔” اس کے حلق سے بمشکل نکلا۔
”مجھے غلط فہمی ہوئی ہے، مجھے…؟ شبانہ بتا کر گئی ہیں مجھے، کل رات انہوں نے منصور اور رخشی کو کسی ہوٹل میں دیکھا ہے اور منصور پچھلے کئی ہفتوں سے جو کچھ گھر پر کر رہے ہیں تم اچھی طرح جانتی ہو اور تم مجھ سے کہہ رہی ہو کہ مجھے غلط فہمی ہوئی ہے۔” منیزہ اس کے بالمقابل کھڑی بے اختیار اشتعال اور طیش کے عالم میں بلند آواز میں بول رہی تھیں۔
”تمہارا باپ اس لڑکی کے ساتھ گھوم رہا ہے، اسی لیے اسے اب اس گھر میں کچھ بھی اچھا نہیں لگ رہا۔ نہ میں، نہ تم لوگ… اور تم… تم… یہ سب تمہاری ہمدردیو ںکی وجہ سے ہو رہا ہے۔ تمہاری ڈھٹائی کی وجہ سے۔” وہ اب انگلی سے اس کی طرف اشارہ کر رہی تھیں۔
”پاپا… پاپا… اس طرح کے نہیں ہیں ممی… اور رخشی… رخشی تو ان کی بیٹیوں کے برابر ہے۔ میرے برابر ہے۔” امبر کی زبان اب لڑکھڑا رہی تھی۔
”بیٹیوں کے برابر ہونا اور بات ہے۔ بیٹی ہونا دوسری بات ہے تمہاری عمر کی ہر لڑکی تمہارے باپ کو اپنی بیٹی نہیں لگے گی۔” منیزہ نے بے حد تلخ لہجے میں کہا۔
”ممی! میں پاپا سے کہتی ہوں کہ وہ رخشی کو کہیں اور جاب دلوا دیں۔ اپنے پاس سیکریٹری کے طور پر نہ رکھیں۔ پھر تو آپ کے سارے خدشات ختم ہو جائیں گے”
”نہیں یہ سب تم نہیں کہو گی۔ اب یہ سب میں کہوں گی… منصور علی سے اور رخشی سے اس زبان میں بات کروں گی جو وہ سمجھتی ہے، اور تم… مجھے اگر دوبارہ رخشی سے تمہارے رابطے کا پتا چلا تو میں… میں تمہیں بھی ٹھیک کردوں گی۔ اب دفع ہو جاؤ یہاں سے۔”
امبر کچھ دیر وہاں کھڑی منیزہ سے کچھ کہنے کی کوشش کرتی رہی مگر پھر ناکام ہو کر قدرے الجھن اور اضطراب کے عالم میں وہاں سے چلی آئی۔
٭٭٭
منیزہ اس رات دیر تک منصور علی کا انتظار کرتی رہیں مگر منصور علی نہیں آئے پھر انہوں نے ان کے موبائل پر فون کیا… موبائل آف تھا۔ منیزہ نے باری باری فیکٹری اور آفس کے تمام نمبر ڈائل کیے۔ رات کے بارہ بجے وہاں اس کی کال کون ریسیو کر سکتا تھا۔
منیزہ نے اس کے بعد طلحہ کو فون کیا۔ وہ گھر پر تھا۔ ”منصور چچا کا مجھے پتا نہیں۔ وہ دوسرے آفس میں ہوتے ہیں۔ میں نہیں جانتا وہ کب وہاں سے نکلتے ہیں۔” اس نے منیزہ کی انکوائری پر کہا۔
”مسعود بھائی کو پتا ہے وہ کتنے بجے نکلتے ہیں؟” منیزہ نے اپنے لہجے کو نارمل رکھتے ہوئے کہا۔
”میں پاپا سے پوچھتا ہوں مگر پاپا کو بھی پتا نہیں ہو گا۔ میں نے آپ کو بتایا نا، انکل دوسری فیکٹری میں ہوتے ہیں۔ ہو سکتا ہے کسی کام کی وجہ سے آج لیٹ ہو گئے ہوں۔ آپ فکر نہ کریں آجائیں گے۔” طلحہ نے کہا۔ منیزہ کچھ دیر اس سے باتیں کرتی رہیں پھر انہوں نے فون بند کر دیا۔
منصور علی اس رات گھر نہیں آئے، وہ اگلے دن دس گیارہ بجے کے قریب گھر آئے، منیزہ کا غصہ تب تک آسمان کو چھو رہا تھا وہ ان کے پیچھے ہی بیڈ روم میں چلی آئیں۔ وہ کپڑے تبدیل کرنے کی تیاری کر ہے تھے، منیزہ کو اپنے پیچھے آتے دیکھ کر وہ قدرے محتاط ہو گئے۔
”تم رات کو کہاں تھے؟” منیزہ نے کسی تمہید کے بغیر اکھڑے ہوئے لہجے میں پوچھا۔ منصور نے سر اٹھا کر انہیں دیکھا۔ آپ جناب کا وہ رشتہ جو پچھلے بیس سال سے ان کے درمیان تھا وہ چند منٹوں میں ختم ہو گیا تھا۔
”تمہیں اس سے کوئی دلچسپی نہیں ہونی چاہیے۔” منصور نے بھی اتنے ہی اکھڑے ہوئے انداز میں کہا۔
”کیوں دلچسپی نہیں ہونی چاہیے میں بیوی ہوں تمہاری۔ مجھے پتا ہونا چاہیے کہ تم راتوں کو کہاں غائب رہتے ہو۔”
”بیوی ہو تو بیوی رہو۔ چوکیدار بننے کی ضرورت نہیں۔ میں رات کو جہاں چاہوں غائب رہوں، تم کون ہوتی ہو پوچھنے والی؟” وہ بھی اٹھ کھڑے ہوئے۔
”کیا مجھے تمہیں دوبارہ بتانا پڑے گا کہ میں بیوی ہوں تمہاری… تم سے پوچھنے کا حق رکھتی ہوں۔”
”تم بیوی ضرور ہو مگر… مجھ پر کسی قسم کا کوئی حق نہیں رکھتیں۔”
”تو پھر کون حق رکھتا ہے… رخشی؟” منیزہ نے بے حد تحقیر آمیز انداز میں کہا۔
منصور علی ان کے منہ سے رخشی کا نام سننے کے لیے بالکل بھی تیار نہیں تھے۔ وہ کچھ دیر کے لیے کچھ بھی بول نہیں سکے۔ اس وقت ان کے پیروں کے نیچے سے واقعی زمین نکل گئی تھی۔ کچھ دیر کے لیے وہ سمجھ ہی نہیں سکے کہ منیزہ نے رخشی کا نام کس پیرائے میں لیا تھا۔ وہ اسے کس حوالے سے جانتی ہیں۔ ان کی سیکرٹری کے طور پر یا ان کی بیوی کے طور پر، اپنی گھبراہٹ کو چھپانے کے لیے وہ قدرے برہمی سے ڈرایسنگ روم کی طرف بڑھنے لگے مگر منیزہ ان کے راستے میں آگئیں۔
”کیا ہوا؟ جواب نہیں دیا تم نے؟ شاک لگا ہے نا۔” وہ اب چند قدموں کے فاصلے پر ان کا راستہ روکے کھڑی تھیں۔ ”توقع نہیں تھی میرے منہ سے ر خشی کا نام سننے کی۔ تم تو یہ سمجھ رہے تھے کہ مجھ سے سب کچھ چھپالو گے… دوسروں کو مجھے بتانے سے روک دو گے، تو کوئی مجھے کچھ بتائے گا ہی نہیں۔”
”رخشی میری سیکریٹری ہے۔” منصور علی نے بالآخر اپنی گھبراہٹ پر قابو پا لیا۔ ”اور اگر تمہیں اس کے بارے میں پتا چل گیا ہے تو یہ کوئی بہت بڑا کارنامہ نہیں ہے تمہارا… جلد یا بدیر تمہیں اس کے بارے میں پتا چلنا ہی تھا۔”
”ساری زندگی تم کسی سیکریٹری کے بغیر بزنس کرتے رہے۔ اب یک دم تمہیں سیکرٹری رکھنے کی کیا ضرورت آن پڑی، وہ بھی مجھے بتائے بغیر… مجھ سے چوری چھپے؟”
”ساری عمر میں فیکٹری نہیں چلاتا رہا تھا۔ اب ضرورت پڑی تو رکھ لی۔ ساری عمر، میں اس سوشل سرکل میں موو نہیں کیا۔ جس میں اب موو کر رہا ہوں۔”
”تمہیں فیکٹری جاتے ہی سیکریٹری کی ضرورت آن پڑی۔ یا پھر رخشی کو دیکھتے ہی سیکریٹری کی ضرورت محسوس ہونے لگی۔”