”یہ بہت بڑا فیصلہ ہے۔”
”شادی کا فیصلہ ہمیشہ ہی بڑا ہوتا ہے۔” رخشی اپنے زیورات اتارتے ہوئے لاپروائی سے بولی۔
”مگر منصور علی کے ساتھ دوسری شادی…؟… کیا تم نے واقعی اس کے بارے میں اچھی طرح سوچ لیا ہے؟” صاعقہ تشویش میں مبتلا تھی۔
”بہت اچھی طرح بلکہ ضرورت سے زیادہ اچھی طرح۔” رخشی کے انداز میں اب بھی لاپروائی تھی۔ ”شادی ساری زندگی کا معاملہ ہوتا ہے۔” رخشی، صاعقہ کی بات پر بے اختیار ہنسی۔
”امی! یہ کسی عام لڑکی کے لیے پوری عمر کا معاملہ ہوتا ہوگا۔ ہم جیسوں کے لیے نہیں۔ شادی کر رہی ہوں اگر ٹھیک رہی تو بہت اچھی بات ہے۔ نہ رہی تو دوبارہ کسی اور سے کی جاسکتی ہے۔ ترپ کے پتے اس وقت تک میرے ہاتھ میں ہیں، جب تک میرے چہرے پر جھریاں نہیں آجائیں اور آپ جانتی ہیں ابھی میرے چہرے پر جھریاں آتے بہت سال لگیں گے۔” وہ اب صاعقہ کی طرف مکمل طور پر متوجہ تھی۔
”پھر بھی… دوسری شادی مجھے کچھ بہتر نہیں لگ رہی۔ کیا منصور اپنی بیوی کو طلاق دے دے گا؟”
”نہیں، وہ اپنی فیملی کو کچھ بھی نہیں بتائے گا۔”
”یعنی وہ تمہیں بھی رکھے گا اور پہلی بیوی کو بھی؟”
”ہاں! فی الحال تو ایسا ہی ہے، آگے چل کر کیا ہو گا، یہ دیکھا جائے گا۔”
‘ایسی شادیاں ہمیشہ ناکام رہتی ہیں۔” صاعقہ نے کہا۔
”شادی سے زیادہ دوغلا، جھوٹا، ناکام اور لنگڑا رشتہ اور کوئی ہے ہی نہیں۔ مجھے شادی کی ناکامی سے خوف نہیں آتا…” رخشی کے لہجے میں بے پناہ تلخی عود کر آئی۔ ”میں نے آپ کی ”کامیاب شادی” دیکھی ہے۔ اپنی بہنوں کی ”کامیاب شادی” دیکھی ہے۔ منصور علی کی ”کامیاب شادی” دیکھی ہے۔ چلیں اب ایک ناکام شادی ہی سہی۔” وہ اب اپنے بیڈ پر پڑی ہوئی ساڑھی کو دیکھ رہی تھی جو اس نے کچھ دیر پہلے پہنی ہوئی تھی۔
”منصور علی اگر شادی کرنا ہی چاہتا ہے تو تم اس سے کہو کہ وہ اپنی بیوی کو طلاق دے دے۔”
”اور وہ کہے گا میں نہیں دوں گا تو…؟” رخشی نے ترکی بہ ترکی کہا۔
”تو ٹھیک ہے پھر تم اس سے شادی مت کرنا۔”
”پھر کیا کروں۔ آپ اس گھر سے دوبارہ پرانے گھر جانا پسند کریں گی؟ گاڑی کے بجائے ویگنوں کے دھکے کھانا چاہیں گی؟ اس عدم تحفظ کے ساتھ زندگی گزارنا چاہیں جس عدم تحفظ کے ساتھ پہلے گزار رہی تھیں؟ اگر آپ کا جواب ہاں میں ہے تو میں منصور علی کو نہ میں جواب دے دیتی ہوں۔” صاعقہ خاموش رہی، رخشی نے یک گہرا سانس لیا۔
”زندگی میں ہر سودا اپنی قیمت پر نہیں ہوتا۔ بعض سودے گاہک کی مرضی سے کرنا پڑتے ہیں۔ اس کی شرائط پر۔ اس کی بتائی ہوئی قیمت پر… منصور علی اچھا آدمی ہے۔ دوسری بیوی کے طور پر بھی رہنا برا نہیں ہے۔ اگر وہ سب کو اس شادی کے بارے میں بتا دے… اور وہ کہہ رہا ہے کہ وہ اس کے بارے میں بتا دے گا۔” رخشی اب ساڑھی کو تہہ کرنے لگی۔
”میں بھی چاہتی ہوں کہ امبر کی شادی ہو ہی جائے۔ تب ہی وہ اس سارے معاملے کے بارے میں اپنے گھر والوں کو بتائے۔”
”تم نے امبر کے ردِّ عمل کے بارے میں سوچا ہے؟”
”ہاں سوچا ہے، جانتی ہوں بہت برا ہوگا، اس کی جگہ کوئی بھی ہو اچھا تو محسوس نہیں کرے گی، اس ساری صورتِ حال پر… اور اسی لیے چاہتی ہوں کہ اس کی شادی ہو جائے پھر یہ سارا مسئلہ سامنے آئے۔ جب اس کی شادی ہو جائے گی تو وہ اپنے گھر کے بارے میں سوچے گی۔ میرے اور منصور علی کے بارے میں وقت ضائع نہیں کرے گی۔ وہ اچھی لڑکی ہے اس نے بہت کچھ کیا ہے میرے لیے… مگر منیزہ کے ساتھ مجھے کوئی ہمدردی نہیں ہے۔ میں اسی لیے انتظار کرنا چاہتی ہوں امبر کی شادی ہو جائے اس کے بعد منصور اپنی فیملی کو سب کچھ بتا دے گا۔ پھر میں سوچوں گی مجھے آگے کیا کرنا ہے۔” صاعقہ خاموشی سے کھڑی اسے دیکھتی رہی۔
٭٭٭
رخشی اور منصور علی کی شادی بہت دھوم دھام سے ہوئی تھی۔ منصور علی ایسا نہیں چاہتے تھے، مگر یہ رخشی کا اصرار تھا اور منصور علی کو تو اس کے سامنے گھٹنے ٹیکنے پڑے۔ شادی میں منصور علی کی طرف سے ان کے چند بہت قریبی دوستوں نے شرکت کی تھی، جن میں سے ایک ہارون کمال بھی تھا۔ مگر رخشی اور صاعقہ کا تمام خاندان اس شادی میں مدعو تھا۔
منصور علی کی عمر کچھ زیادہ تھی مگر وہ ہینڈسم تھے اور اگر رخشی اور صاعقہ کو اس بات پر اعتراض نہیں تھا تو کسی کو بھی نہیں ہو سکتا تھا۔ یہ بات کسی کو بھی پتہ نہیں تھی کہ منصور علی کی یہ دوسری شادی ہے۔ شاید صاعقہ کے خاندان کو یہ پتہ بھی ہوتا تب بھی وہ منہ کھولنے کی ہمت نہ کر سکتے۔ وہ رخشی کے ملبوسات اور زیورات دیکھ کر انگشت بدنداں تھے… اور یہ جان کر بھی… کہ رخشی اب ڈیفنس کی ایک بہت بڑی کوٹھی میں جارہی ہے جو اس کے شوہر نے شادی سے پہلے اس کی پسند کے مطابق خرید کر اس کے نام کر دی تھی۔
منصور علی اور رخشی کا ولیمہ اگلے دن اسی کوٹھی میں ہوا تھا اور صاعقہ کا خاندان بھی مدعو تھا۔ وہ کچھ اور بونے ہو گئے تھے۔
یہ کوٹھی واحد چیز نہیں تھی جو شادی پر رخشی کے نام کی گئی تھی۔ منصور علی نے رخشی کو ایک بڑی گاڑی بھی تحفے میں دی تھی اور حق مہر میں بھی ایک بڑی مالیت کی رقم کے ساتھ اسے شادی پر دیے جانے والے زیورات بھی لکھ دیے تھے۔
شادی کے ایک ہفتہ کے بعد وہ دونوں ہنی مون پر یورپ چلے گئے تھے۔ منصور علی پہلے بھی بیرون ملک آتے جاتے رہتے تھے۔ ان کے گھر والوں میں سے کسی کو شک نہیں ہوا کہ ان کے اس ٹورکی نوعیت مختلف تھی۔ منیزہ سے ان کی بول چال کئی ہفتوں سے بند تھی اور رخشی سے شادی کے بعد وہ رات کو بھی گھر نہیں گئے تھے۔ صرف دن کے وقت آفس جاتے ہوئے وہ ایک چکر گھر کا لگاتے، کپڑے تبدیل کرتے۔ ناشتہ کرتے اور فیکٹری چلے جاتے۔ ایک ہفتہ اسی طرح گزارنے کے بعد وہ رخشی کے ساتھ بیرون ملک چلے گئے۔
٭٭٭
شبانہ نے جب منصور اور رخشی کو ایک ساتھ دیکھا، تب منصور اور رخشی کو واپس پاکستان آئے ابھی دو دن ہی ہوئے تھے۔
اگرچہ مسعود نے شبانہ کو رخشی او رمنصور کی بے تکلفی یا سیکریٹری کے طور پر اس کی اپائمنٹمنٹ کے بارے میں کسی کو بھی بتانے سے منع کیا تھا مگر شبانہ دوسرے ہی دن منیزہ کے گھر پر تھیں۔
منیزہ نے بڑی گرم جوشی کے ساتھ ان کا استقبال کیا تھا۔ وہ خاصے عرصے کے بعد منیزہ کی طرف آئی تھیں۔ خود منیزہ بھی کافی عرصے سے ان کی طرف نہیں گئی تھیں۔
رسمی باتوں کے بعد چائے پیتے ہوئے شبانہ نے بظاہر بڑے معمول کے لہجے میں منیزہ سے کہا۔
”یہ منصور کہاں ہوتا ہے آج کل، نظر ہی نہیں آتا؟”
”وہ پہلے کب نظر آتے تھے شبانہ بھابھی! پہلے بھی تو اسی طرح مصروف رہتے تھے۔” منیزہ نے کہا۔
”اچھا… تم کہہ رہی ہو کہ وہ مصروف ہے تو میں یقین کر لیتی ہوں ورنہ پرسوں تو میں نے اسے سیر و تفریح کرتے دیکھا ہے۔” شبانہ نے بسکٹ اٹھاتے ہوئے کہا۔
”سیر و تفریح کرتے ہوئے؟ آپ نے کہاں دیکھا ہے اسے؟” منیزہ کے ماتھے پر بل آگئے۔
”میں اور مسعود رات کو باہر نکلے ہوئے تھے، ایک ہوٹل میں، میں نے منصور کو دیکھا تھا۔”
”ہاں وہ گئے ہوں گے وہاں کسی بزنس ڈنر کے سلسلے میں… آپ کو بتایا نا کہ آج کل تو وہ اتنے مصروف ہوتے ہیں کہ کھانا بھی ہم لوگوں کے ساتھ گھر پر نہیں کھاپاتے۔” منیزہ نے اطمینان کا سانس لیتے ہوئے کہا۔
”بزنس ڈنر تو نہیں تھا۔ اس کے ساتھ کوئی لڑکی تھی۔” منیزہ کے پیروں کے نیچے سے زمین نکل گئی۔
”لڑکی…؟”
”ہاں لڑکی تھی۔ تم جانتی ہو اسے اچھی طرح۔” شبانہ نے مسکراتے ہوئے نارمل انداز میں کہا۔ ”وہ امبر کی دوست نہیں ہے رخشی! جس کا ذکر بھی کیا تھا کچھ عرصہ پہلے میں نے تم سے… وہی جس نے طلحہ کو فون کیا تھا۔ وہی اس کے ساتھ تھی۔”
منیزہ بے یقینی کے عالم میں دم سادھے شبانہ کو دیکھتی رہیں۔ شبانہ نے اپنی بات جاری رکھی۔
”دونوں بڑے اچھے موڈ میں تھے۔ وہ لڑکی خاصی سجی سنوری ہوئی تھی۔ خود منصور بھی بڑا خوش نظر آرہا تھا۔ میں نے تو بڑے عرصے کے بعد اسے اس طرح قہقہے لگاتے دیکھا ہے۔” شبانہ منیزہ کی کیفیات سے محظوظ ہوتے ہوئے اپنی بات جاری رکھے ہوئے تھیں۔
”پہلے تو میں بہت پریشان ہو گئی کہ یہ آخر منصور کے ساتھ کیسے آگئی اور پھر رات کے اس وقت ہوٹل میں… مگر پھر مسعود نے مجھے بتایا کہ وہ منصور کی سیکریٹری ہے۔ منصور نے کچھ عرصہ پہلے ہی اسے اپائنٹ کیا ہے۔” منیزہ کے جیسے کاٹو تو لہو نہیں تھا۔
”میں نے مسعود سے کہا کہ آخر منصور کو کسی لڑکی کو سیکریٹری رکھنے کی کیا ضرورت پیش آگئی ہے، اس سے پہلے بھی تو وہ سیکریٹری کے بغیر ہی بزنس کرتا رہا ہے، پھر اب ایسی کیا قیامت ٹوٹ پڑی تھی کہ اسے سیکریڑری رکھنی پڑی۔ مگر مسعود کہہ رہے تھے کہ یہ منصور کا اپنا فیصلہ ہے اور وہ اس سے اس معاملے پر کچھ نہیں کہہ سکتے تھے۔ انہوں نے مجھے بھی سختی سے منع کیا کہ میں تم کو منصور کی سیکریٹری کے بارے میں نہ بتاؤں مگر میں رہ نہیں سکی…”
اس بار شبانہ کے لہجے میں بڑی ہمدردی تھی۔ منافقانہ ہمدردی۔
”میں تو اس لڑکی کو دیکھ کر پریشان ہو گئی تھی۔ خاص طور پر منصور کے ساتھ اس کی اتنی بے تکلفی دیکھ کر، وہ لڑکی اتنی خوبصورت ہے کہ اچھے سے اچھے آدمی کی نیت خراب ہو سکتی ہے اور ایسی لڑکیاں تو بس موقع کے انتظارمیں ہوتی ہیں۔ میں نے سوچا کہ میں تمہیں اس بارے میں بتا دوں تاکہ تم منصور سے بات تو کرو اس لڑکی کے سلسلے میں… آخر منصور کو ضرورت کیا ہے اس عمر کی لڑکی کو سیکریٹری کے طور پر رکھنے کی۔”
منیزہ کی بے یقینی اور شاک اب غصے میں تبدیل ہو چکا تھا، ان کا خون بری طرح کھول رہا تھا۔
”مجھے پہلے ہی شک تھا کہ یہ آج کل کسی لڑکی میں دلچسپی لے رہے ہیں۔ ورنہ اس طرح کی باتیں پہلے تو کبھی نہیں کرتے تھے جیسے اب کرنے لگے ہیں۔ نہ ہی اس طرح جھگڑتے تھے جیسے اب جھگڑتے ہیں۔” وہ پھنکاریں۔