تھوڑا سا آسمان — قسط نمبر ۷

”ہاں، یہ مجھے پوچھنے کی ضرورت ہے۔ بہت ساری باتیں خود سے پتا نہیں چلتیں۔ جب کسی دوسرے سے پتا نہ چلے کچھ بھی کنفرم نہیں ہوتا۔”
”ہم دونوں میاں بیوی ہیں۔” وہ ایک بار پھر ہنسی اس بار اس کا انداز پہلے سے بھی زیادہ چبھتا ہوا تھا۔
”یہ میں چند گھنٹے پہلے سمجھتی تھی۔ مجھے غلط فہمی تھی۔ آپ بتائیں اسے کیا کہیں گے غلط فہمی یا خوش فہمی؟ میں سمجھتی تھی کہ ہم دونوں واقعی شادی شدہ ہیں اور یہ میرا گھر ہے۔ میں غلط تھی۔ یہ میرا گھر تھا نہ ہی آپ سے میرا کوئی تعلق تھا۔”
”رخشی! میں” منصور علی نے کچھ کہنے کی کوشش کی رخشی نے تیزی سے ان کی بات کاٹی۔
”تعلق ہوتا منصور صاحب تو آپ اس وقت گیٹ پر ہوتے جب آپ کی بیوی، ہر دل عزیز بیوی، میری عزت کے چیتھڑے اڑا رہی تھی۔”
”میں۔” منصور نے پھر کچھ کہنے کی کوشش کی رخشی نے ہاتھ اٹھا کر اسے خاموش کروا دیا۔
”سنئے اس وقت صرف میری سنئے۔ اس وقت کوئی وضاحت کوئی جھوٹ نہیں سنوں گی میں۔ اس وقت آپ صرف میری سنیں۔ اس کا چہرہ سرخ ہو رہا تھا۔ منصور نے پہلی بار اسے اتنے غصے میں دیکھا تھا اور وہ خاموش ہو گئے تھے۔
”مجھے آپ کی ضرورت پڑی اور آپ۔ آپ چھپ گئے۔ گھر، میاں بیوی، شوہر کیا ہوتا ہے۔ جانتے ہیں۔” وہ اب جیسے انہیں چیلنج کر رہی تھی۔
”میں نے آپ سے صرف اس لیے شادی کی تھی کہ آپ مجھے تحفظ دیں گے ورنہ کیا تھا آپ میں؟” منصور علی دم سادھے سن رہے تھے۔
”میرے باپ کی عمر ہے آپ کی۔ میں نے سوچا، جانے دو عمر سے کیا ہوتا ہے۔ مجھے دیکھیں اور اپنے آپ کو دیکھیں، شکل و صورت میں کہیں آپ میرے برابر آتے ہیں۔” منصور علی کے چہرے کا رنگ بدلنے لگا۔




”میں نے کہا دفع کرو۔ شکل و صورت سے کیا ہوتا ہے… میں غیر شادی شدہ تھی۔ آپ پانچ بچوں کے باپ۔” منصور علی بے حس و حرکت تھے۔
”میں نے کہا چھوڑو۔ یہ فرق بھی کیا معنی رکھتا ہے۔ کس نے نہیں روکا مجھے اس شادی سے۔ کس نے نہیں سمجھایا مجھے۔ سب نے۔ ہر ایک نے۔ میں نے کسی کی نہیں سنی۔ میں نے سوچا کہ مجھے آپ سے تحفظ ملے گا۔” وہ بول رہی تھی۔
”دیوار بن کر کھڑے ہوں گے آپ میرے آگے۔ حماقت کی انتہا دیکھیے۔ دیوار؟” وہ دم بھر کو رکی۔ ”آپ کے لیے ساری دنیا کی ذلت میں نے جان بوجھ کر مول لی۔ ساری دنیا کی۔ بے وقوف تھی میں۔” وہ کہہ رہی تھی۔
”بڑے جو کہتے ہیں ٹھیک کہتے ہیں میری عمر کا شوہر ہوتا اور مجھ سے محبت کرتا تو کسی میں ہمت نہیں ہو سکتی تھی کہ اس گیٹ پر کھڑے ہو کر میرے بارے میں کچھ کہہ دے۔” منصور علی کی ہمت جواب دے رہی تھی۔ اب وہ پچھتا رہے تھے کہ وہ کیوں اس وقت وہاں نہیں آگئے۔ ان کی سمجھداری اب ان کے گلے کی ہڈی ثابت ہو رہی تھی۔
”اور آپ۔ آپ نے فون بند کر دیا۔ میری بات تک سننے سے انکار کر دیا۔ صرف اپنے آپ کو۔ اپنی عزت کو بچایا۔ میرا نہیں سوچا۔ منصور صاحب پھر بہتر ہے کہ میں ابھی اپنی خوش فہمیوں سے باہر آجاؤں۔” یہاں سے نکلوں گی تو بہت ہاتھ پکڑنے والے مل جائیں گے۔ ایسے آدمی جو میری ایک آواز پر میری مدد کو دوڑیں گے۔ آپ کی طرح نہیں کریں گے۔” منصور علی کا دل ڈوب رہا تھا۔
”آپ جائیں اپنی بیوی کے پاس۔ آپ اسی کے قابل ہیں۔” وہ سوٹ کیس اٹھانے کے لیے جھکی۔
”مجھے ایک موقع دو۔ صرف ایک موقع رخشی! تمہیں دوبارہ مجھ سے کبھی کوئی شکایت نہیں ہو گی۔” منصور علی نے بالآخر اپنی خاموشی توڑ دی۔ ان کے لہجے میں بے حد لجاجت تھی۔
”زندگی میں کوئی کسی کو موقع بھی نہیں دیتا۔ جو دیتا ہے وہ بے وقوف ہوتا ہے۔” وہ بڑبڑائی۔
”میں تم سے بے پناہ محبت کرتا ہوں میں تم پر ثابت کر دوں گا۔”
”کیا کروں گی میں ایسی محبت کا جو میرے کام نہیں آسکتی۔ لفظوں کے علاوہ کچھ اور ہے آپ کے پاس؟” وہ غرائی۔
”نہیں کچھ نہیں ہے آپ کے پاس۔ کچھ بھی نہیں۔ مجھے بے وقوف بہت بنا لیا آپ نے۔ مزید نہیں بنوں گی۔ کسی اور کو بنائیے اب۔”
”رخشی پلیز۔ مجھے چھوڑ کر مت جاؤ میں۔ میں مرجاؤں گا۔”
”کوئی کسی کے بغیر نہیں مرتا۔ آپ میرے لیے نہیں مر سکتے تو پھر میرے بغیر بھی نہیں مریں گے۔” اس نے بے رخی سے کہا وہ اب سوٹ کیس کھینچ کر بیڈ سے نیچے اتار رہی تھی۔
”میں تمہیں یہاں سے جانے نہیں دوںگا۔” منصور علی نے سوٹ کیس اس کے ہاتھ سے کھینچ لیا۔
”کیسے روکیں گے آپ مجھے؟ کس طرح روک سکتے ہیں؟”
”روک سکتا ہوں۔ میں تمہارا شوہر ہوں؟”
”میں یہاں سے وکیل کے پاس جاؤں گی اور یہ کاغذی رشتہ ختم ہو جائے گا۔”
”تم ایسا کیسے کر سکتی ہو، تم کو مجھ سے محبت ہے۔” منصور علی نے بے یقینی سے کہا۔
”کبھی تھی اب نہیں ہے۔” وہ پھر غرائی او راس نے سوٹ کیس کھینچنے کی کوشش کی۔
”اگر میں ہاتھ جوڑوں تو کیا تم مجھے معاف کر دو گی؟”
”ضرورت نہیں ہے اس کی۔ آپ اپنے گھر جائیں۔ اپنی بیوی سے معافی مانگیں جس کے ساتھ آپ کو زندگی گزارنی ہے۔ میرا اور آپ کا رشتہ تو ختم ہو گیا ہے۔”
”وہ میری بیوی نہیں ہے۔” منصور علی بے اختیار جھلائے۔ ”میں نفرت کرتا ہوں اس عورت سے۔ تم سمجھنے کی کوشش کیوں نہیں کرتیں۔”
”بہت اچھی طرح سمجھ چکی ہوں میں سب کو۔ نفرت کرتے ہیں آپ اس عورت سے؟” وہ چیلنج کرنے والے انداز میں بولی۔
”ہاں نفرت کرتا ہوں اس سے؟”
”طلاق دے سکتے ہیں اسے۔ ابھی۔ اسی وقت؟” منصور علی کچھ بول نہیں سکے۔ وہ تلخی سے مسکرائی۔
”نہیں دے سکتے۔ نفرت کرتے ہیں۔” اس نے منصور علی سے سوٹ کیس کھینچ لیا۔
”رخشی وہ۔ وہ اگر دوبارہ ایسی حرکت کرے گی تو میں۔ میں اسے طلاق دے دوں گا۔ میں تم سے وعدہ کرتا ہوں۔”
”نہیں۔ ایسی حرکت ایک بار ہی کافی ہے۔ آپ اگر یہ چاہتے ہیں کہ میں اس گھر میں رہوں تو آپ کو اس عورت کو طلاق دینی ہوگی۔ میں اب دوسری بیوی بن کر اس گھر میں نہیں رہوں گی۔” وہ کہہ رہی تھی۔
”میں اگر آپ کے ساتھ رہوں گی تو اس گھر میں۔ اس گھر میں جہاں آپ رہتے ہیں۔ جسے ساری دنیا آپ کے گھر کے حوالے سے پہچانتی ہے۔ آپ کی واحد بیوی کے طور پر۔ دوسری یا تیسری بیوی کے طور پر نہیں۔”
”مجھے کچھ وقت دو۔ میں اسے طلاق دے دوں گا۔ میں تم سے وعدہ کرتا ہوں۔” منصور علی نے شکست خوردہ انداز میں کہا۔
”جتنا وقت چاہیں لے لیں۔ پھر جب فیصلہ کر لیں تو میرے پاس آجائیں تب میں آپ کے پاس چلی آؤں گی۔”
”تم اس گھر میں رہو۔”
”نہیں میں یہاں نہیں رہوں گی۔” اس کا لہجہ حتمی تھا۔
”تم کو مجھ پر اعتبار نہیں ہے؟”
”نہیں۔ مجھے آپ پر اعتبار نہیں ہے۔ جو تھا وہ آپ نے چند گھنٹے پہلے ختم کر دیا۔”
”میں اپنی پوزیشن کلیئر کر سکتا ہوں تم مجھے وضاحت کا موقع تو دو۔”
”میں نہیں دوں گی اور مجھے اس بات میں بھی کوئی دلچسپی نہیں ہے کہ آپ کی پوزیشن کلیئر ہوئی ہے یا نہیں۔ میں اس گھر سے جارہی ہوں۔”
”رخشی پلیز۔ رک جاؤ۔”
”روکنے کا طریقہ میں آپ کو بتا چکی ہوں۔ اس کے علاوہ دوسرا کوئی طریقہ نہیں ہے۔ منیزہ کو طلاق دے دیں، اگر آپ یہ چاہتے ہیں کہ رخشی آپ سے طلاق نہ لے۔”
”میں تمہیں کبھی طلاق نہیں دوں گا۔ کبھی نہیں۔ یہ تم اچھی طرح جانتی ہو۔”
”میں آپ سے طلاق لے لوں گی، یہ آپ بھی جانتے ہیں۔”
”میں نے تم سے کچھ وقت مانگا ہے۔”
”میں نے آپ کو وقت دے دیا ہے۔”
”مگر تم پھر گھر چھوڑ کر کیوں جارہی ہو؟”
”یہ میرا گھر نہیں ہے۔ بتا چکی ہوں آپ کو۔ جہاں رہنا چاہتی ہوں، اس کے بارے میں بھی بتا چکی ہوں۔”
”میں تم سے محبت کرتا ہوں۔”
”مجھے اس کا ثبوت چاہیے۔”
”تم جانتی ہو۔ یہ بات۔ آج سے پہلے تو تمہیں کبھی ثبوت کی ضرورت نہیں پڑی۔”
”آج سے پہلے منیزہ کبھی میرے دروازے پر بھی نہیں آئی۔”
”وہ دوبارہ کبھی نہیں آئے گی۔”
”آ بھی جائے تو میں اسے یہاں ملوں گی نہیں۔”
”وہ بے وقوف عورت ہے۔”
”نہیں میں، میں بے وقوف عورت ہوں۔”
”رخشی پلیز، ایک موقع۔”
”نہیں ایک موقع بھی نہیں۔ میں جارہی ہوں۔”
”ٹھیک ہے میں اسے طلاق دے دیتا ہوں۔”
”ابھی اور اسی وقت۔”
”ہاں ابھی اور اسی وقت۔” رخشی دروازے کے پاس جاتے ہوئے رک گئی۔ فاتحانہ نظروں سے اس نے شکست خوردہ منصور علی کو دیکھا۔
٭٭٭




Loading

Read Previous

تھوڑا سا آسمان — قسط نمبر ۶

Read Next

تھوڑا سا آسمان — قسط نمبر ۸

Leave a Reply

آپ کا ای میل ایڈریس شائع نہیں کیا جائے گا۔ ضروری خانوں کو * سے نشان زد کیا گیا ہے

error: Content is protected !!