”میں جانتا ہوں، وہ غصہ کرنے میں حق بجانب ہے لیکن وہ میری صورت حال کو بھی تو سمجھنے کی کوشش کرے۔” منصور علی نے بے چینی کے عالم میں اس کی بات کاٹتے ہوئے کہا۔ میں اس وقت اگر وہاں جاؤں گا تو منیزہ میرے ساتھ بھی اسی طرح کا برتاؤ کرے گی، تم کو اس کے مزاج کا اندازہ نہیں ہے۔”
”نہیں، خیر اب تو مجھے اچھی طرح اندازہ ہو چکا ہے۔”
”اسے تو رخشی کے گھر دوبارہ نہیں آنا، نہ ہی اس کالونی میں رہنا ہے مگر مجھے تو وہیں جانا ہے، بار بار… مجھے وہاں کے لوگوں، ان کی نظرں، ان کی باتوں کا سامنا کرنا ہے او رمیں جانتا ہوں وہ یہ سب کچھ اسی لیے کر رہی ہے تاکہ میں اور رخشی وہاں نہ رہ سکتیں۔”
”خیر، یہ تو بچکانہ سوچ ہے۔ ظاہر ہے رخشی قانونی طور پر تمہاری بیوی ہے، تم اسے اس طرح کے ردِّ عمل سے گھبرا کر چھوڑ تو نہیں سکتے۔” ہارون کمال نے جیسے کچھ اندازہ لگانے کی کوشش کی۔
‘میں اسے چھوڑنے کا سوچ بھی نہیں رہا۔” منصور نے فوراً کہا۔ ”میں صرف تم سے یہ سب کچھ ڈسکس کرنا چاہتا تھا کہ مجھے اب کیا کرنا چاہیے، ان تمام حالات میں۔”
”فی الحال تو تم نے جو کیا ہے، ٹھیک ہی کیا ہے۔ وہاں اس وقت تمہارا جانا مناسب نہیں ہے۔” ہارون کمال نے اپنی مسکراہٹ دباتے ہوئے بظاہر ہمدردانہ انداز میں ان سے کہا۔ کچھ دیر بعد جب بھابھی وہاں سے چلی جائیں تو تم رخشی کے پاس جانا اور اس سے معذرت کر لینا۔”
”یہ تو میں کروں گا ہی مگر میں اس مسئلے کا کوئی حل نکالنا چاہتا ہوں۔ منیزہ تو اب روز روز وہاں آجایا کرے گی۔”
”اس مسئلے کا حل تو صرف تم ہی نکال سکتے ہو اور یہ حل کوئی اتنا مشکل نہیں ہے۔” ہارون کمال نے اس بار بے حد سنجیدگی سے دو ٹوک انداز میں کہا۔
”تم بھابھی سے اس معاملے میں بات کرو۔ ان سے کہو کہ وہ رخشی کو قبول کر لیں اور اگر وہ ایسا کرنے کے لیے تیار نہیں ہیں تو پھر…” وہ دانستاً رکا۔
”تو پھر کیا؟”
”تو پھر تم انہیں طلاق دے دو، تمہاری ویسے بھی ان کے ساتھ انڈر اسٹینڈنگ نہیں ہے۔” فوری طور پر منصور، ہارون کی تجویز پر کچھ نہیں کہہ سکے۔
ہارون نے ان کی خاموشی کو فوراً محسوس کر لیا۔
”میں جانتا ہوں، یہ مشکل فیصلہ ہے مگر تمہیں اپنی زندگی کے سکون اور آرام کے لیے یہ قدم اٹھانا ہی پڑے گا، ورنہ اس طرح تمہاری زندگی کیسے گزرے گی۔” ہارون کمال کی آواز میں ہمدردی کوٹ کوٹ کر بھری ہوئی تھی۔
”اور رخشی کو تو تم جانتے ہو، وہ پہلے ہی اس شادی پر تیار نہیں تھی… اسی وجہ سے… اب روز روز یہ تماشا ہونے لگا تو وہ تمہیں چھوڑ کر چلی جائے گی۔”
”ایسا کبھی نہیں ہوگا۔” منصور نے بے اختیار کہا۔
”یہ تمہارا خیال ہے، وہ کیا کرے گی، یہ تم نہیں کہہ سکتے۔ بہر حال میری تو یہی خواہش ہے کہ تمہارا معاملہ خوش اسلوبی سے نمٹ جائے اور تمہیں منیزہ بھابھی کو نہ چھوڑنا پڑے لیکن اگر صورتِ حال ایسی بن جاتی ہے کہ منیزہ بھابھی کو طلاق دینے کے علاوہ دوسرا کوئی راستہ نظر نہیں آتا تو پھر تمہیں اس قدم کے لیے بھی تیار رہنا چاہیے۔” ہارون کمال نے کہا۔ ”اور ویسے بھی تم طلاق سے پہلے منیزہ بھابھی کو یہ آپشن دے رہے ہو کہ وہ رخشی کو قبول کر لیں۔ اب اگر وہ قبول نہیں کرتیں اور تم انہیں طلاق دیتے ہو تو یہ سراسر ان کی حماقت ہے، کم از کم اس فیصلے کی ذمہ داری تم پر نہیں ہو سکتی۔ میری بات سمجھ رہے ہو نا؟” ہارون نے کہتے کہتے پوچھا۔
”ہاں… ہاں… میں بہت اچھی طرح سمجھ رہا ہوں مگر مجھے صرف بچوں…” ہارون نے اس کی بات کاٹ دی۔
”منصور! بچوں اور اپنی زندگی میں سے ایک کا انتخاب کر لو، وہ کل کو بڑے ہوں گے، شادیاں کریں گے اور اپنی اپنی زندگی بسر کریں گے، ان میں سے کوئی تمہارے بارے میں سوچے گا بھی نہیں اور تم ان کے لیے اپنی زندگی کو خراب کرنے پر تلے ہو اور ویسے بھی ان پر جتنا اثر پڑنا تھا، وہ تمہاری اس شادی سے پڑ چکا ہے، اب طلاق دینے سے ان کو اور کچھ نہیں ہو گا۔ عام بات ہے طلاق… آج کل کے بچے اس سے اتنا متاثر نہیں ہوتے اور تمہارے بچے تو بہت چھوٹے بھی نہیں ہیں۔”
وہ ان کی برین واشنگ کرنے میں مصروف ہو گیا۔
”ہاں، اگر کوئی اور راستہ نہیں نکلتا تو پھر شاید مجھے یہی قدم اٹھانا پڑے گا۔” منصور اس کی بات سنتے سنتے بڑبڑائے۔
”تم آج ہی منیزہ بھابھی کو اس بارے میں صاف صاف بتا دینا تاکہ وہ دوبارہ کبھی رخشی کے گھر نہ جاسکیں۔” ہارون کمال نے انہیں ایک اور ہدایت دی۔
منصور نے کچھ دیر اور اس سے بات کرتے رہنے کے بعد فون بند کر دیا۔
”انہوں نے اگلے چند گھنٹے اسی طرح اپنے آفس میں ٹہلتے ہوئے گزارے پھر انہوں نے اپنے گھر فون کیا۔ فون ملازم نے اٹھایا۔
”منیزہ گھر پر ہے؟” منصورعلی نے پوچھا۔
”نہیں صاحب! بیگم صاحبہ تو گھر پر نہیں ہیں۔ امبر بی بی ہیں، ان سے بات کرواؤں۔”
”نہیں، ان سے بات کروانے کی ضرورت نہیں ہے۔” منصور علی نے فوراً کہا۔
”رحیم! جب منیزہ گھر آجائے تو تم میرے آفس فون کرکے مجھے بتاؤ اور دیکھو، منیزہ کو اس کا پتا نہیں چلنا چاہیے۔” ملازم حیران ہوا۔
”ٹھیک ہے صاحب جی! میں آپ کو بتا دوں گا۔” اس نے حامی بھرلی۔
منصور نے فون رکھ دیا۔ انہیں زیادہ انتظار نہیں کرنا پڑا۔ صرف دس منٹ کے بعد ہی آپریٹر نے انہیں ملازم کا پیغام پہنچا دیا۔ منصور علی نے سکون کا سانس لیا، اپنا کوٹ اٹھاتے ہوئے وہ اپنے آفس سے نکل گئے۔ انہیں اب رخشی کی ناراضی دور کرنا تھی اور اس نقصان کی تلافی کرنی تھی جو منیزہ کر چکی تھی۔ اپنی گاڑی ڈرائیو کرتے ہوئے وہ دل ہی دل میں ایک بار پھر ان جملو ںکو دہرانے لگے جو وہ پچھلے کئی گھنٹوں میں تصور میں اس سے کہہ رہے تھے۔
رخشی کے گھر پہنچنے پر چوکیدار نے گیٹ کھولتے ہوئے انہیں کچھ بتانے کی کوشش کی۔ منصور ہاتھ کے اشارے سے اسے خاموش رہنے کا اشارہ کرتے ہوئے گاڑی اندر لے گئے۔ رخشی پہلے گھر پر موجود ہونے کی صورت میں گاڑی کی آواز پر لاؤنج کے دروازے پر ان کا استقبال کرتی تھی۔ آج وہ باہر نہیں آئی تھی۔ منصور علی ایسے ہی ردِّ عمل توقع کر رہے تھے۔ گھر میں مکمل خاموشی تھی۔
وہ گاڑی میں سے اتر کر پورچ میں سے ہوتے ہوئے لاؤنج میں داخل ہو گئے اور کچھ دیر تک وہ اپنی جگہ سے ہل نہیں کسے۔ لاؤنج میں صوفوں اور میزوں کے علاوہ کوئی چیز سلامت نظر ہیں آرہی تھی۔ وہاں کوئی نہیں تھا۔ البتہ فرش ڈیکوریشن پیسز کے ٹکڑوں سے بھرا ہوا تھا۔ کھڑکیوں کے شیشے بھی ٹوٹے ہوئے تھے۔ ان کا دماغ گھومنے لگا۔ فوری طور پر ان کا ذہن منیزہ کی طرف گیا۔ کیا وہ اندر آئی تھی اور یہ سب کچھ اس نے کیا تھا اور اگر یہ سب کچھ اس نے کیا تھا تو پھر رخشی کے ساتھ اس نے کیا کیا ہوگا؟
وہ یک دم گھبرا گئے، انہوں نے بلند آواز میں رخشی کو آواز دی۔
”رخشی۔ رخشی۔” جواب میں مکمل خاموشی رہی اپنا کوٹ لاؤنج کے صوفہ پر پھینکتے ہوئے وہ تیزی سے کوریڈور سے ہوتے ہوئے اپنے بیڈ روم کی طرف بڑھے، کچن میں موجود ملازمہ باہر آگئی۔ وہ شاید ان کی آواز سن کر ہی باہر آئی تھی۔
”سلام صاحب”
”رخشی کہاں ہے؟” منصور نے اس کے سلام کو نظر انداز کرتے ہوئے کہا۔
”بیگم صاحبہ اپنے بیڈ روم میں ہیں۔” منصور کی بے اختیار جان میں جان آئی۔
”لاؤنج میں کیا ہوا؟” منصور علی نے پوچھا۔
”بیگم صاحبہ غصے میں تھیں، انہوں نے چیزیں توڑ دیں۔”
”کون؟” منصور کے ذہن میں اب بھی منیزہ ہی آئی۔ ”رخشی نے؟”
”جی رخشی بیگم صاحبہ نے” منصور یک دم کچھ خفیف سے ہو گئے۔
”ٹھیک ہے، تم جا کر لاؤنج کو صاف کرو۔” وہ آگے بڑھ گئے انہیں یہ توقع تھی کہ رخشی بہت غصے میں ہو گی مگر یہ توقع نہیں تھی کہ وہ اتنی توڑ پھوڑ کرے گی۔ بیڈ روم طرف جاتے ہوئے بھی انہیں اسی قسم کے منظر کی توقع تھی مگر وہاں ایک اور منظر ان کا منتظر تھا۔
بیڈ روم کا دروازہ کھولتے ہی ان کا دل اچھل کر حلق میں آگیا۔ بیڈ پر ایک سوٹ کیس کھلا ہوا تھا اور رخشی اس میں کپڑے رکھنے میں مصروف تھی۔ اس نے دروازہ کھولنے کی آواز پر بھی منصور علی کی طرف یا دروازے کی طرف دیکھنے کی زحمت نہیں کی۔ وہ مکمل طور پر اپنے کام میں مگن تھی۔ اس کے چہرے پر تناؤ تھا اور اس کے ماتھے پر شکنیں تھیں۔ مگر وہ پھر بھی بے حد سکون اور اطمینان سے اپنا سامان پیک کرنے میں مصروف تھی۔ منصور علی نے ایک ہی نظر میں اس کے چہرے کا تفصیلی جائزہ لے لیا تھا۔ وہ کچھ دیر صم بکم کی تصویر بنے دروازے میں کھڑے رہے پھر انہوں نے جیسے اپنے اوسان بحال کرنے کی کوشش کی۔
”یہ… یہ کیا ہو رہا ہے؟” انہوں نے بے حد کمزور لہجے میں کمرے کے دروازے کو بند کرتے ہوئے آگے بڑھتے ہوئے کہا۔ رخشی نے کوئی جواب نہیں دیا۔ وہ اپنے کام میں مصروف رہی۔
”یہ۔کیا کر رہی ہو تم رخشی؟” منصور نے ایک بار پھر کہا۔
رخشی نے سوٹ کیس بند کر دیا۔ اس کی پیکنگ یقینا مکمل ہو چکی تھی، وہ اب زپ بند کرنے لگی تھی جب منصور نے اس کا ہاتھ پکڑ کر اسے روکنے کی کوشش کی۔ وہ جیسے کرنٹ کھا کر پیچھے پلٹی۔ بجلی کی سی تیز رفتاری کے ساتھ ہی اس نے اپنا ہاتھ بھی پیچھے کھینچا تھا۔
”تم گھر چھوڑ کر کیوں جارہی ہو؟” وہ چپ چاپ منصور علی کو گھورتی رہی پلکیں جھپکائے بغیر۔ بے حس و حرکت۔ منصور علی کو اس کی نظروں سے الجھن ہونے لگی۔ وہ اب بے چین ہو رہے تھے۔ اس کی خاموشی انہیں کھل رہی تھی۔
”رخشی! میں جانتا ہوں۔ تم ناراض ہو۔ تم کو ناراض ہونے کا حق ہے لیکن اس طرح گھر چھوڑ کر جانا اپنا گھر چھوڑ کر جانا۔”
رخشی نے سرد لہجے میں ان کی بات کاٹ دی۔ ”یہ گھر ہوتا تو میں کبھی چھوڑ کر نہ جاتی یہ گھر نہیں ہے۔”
”تو پھر کیا ہے۔”
”آپ کو پتا ہو گا یہ کیا ہے۔” اس نے منصور علی کی آنکھوں میں آنکھیں ڈالتے ہوئے کہا۔
”یہ میرا اور تمہارا گھر ہے۔” منصور علی نے ایک ایک لفظ پر زور دیتے ہوئے کہا۔
”میرا اور تمہارا؟ وہ زہریلے انداز میں ہنسی۔ ”میرا اور تمہارا گھر ہے اور میں اور آپ ہیں کون؟”
”کیا یہ تمہیں پوچھنے کی ضرورت ہے؟”