”ابھی کسی کو ان کی شادی کا پتا نہیں ہے، وہ رخشی کو طلاق دے دیں تو بات یہیں دب سکتی ہے، ورنہ یہ تو ایک بہت بڑا اسکینڈل بن جائے گا۔ تم کو رخشی سے بھی تو بات کرنی چاہیے تھی، اسے کچھ شرم دلاتیں۔”
”کر چکی ہوں میں اس سے بات۔” امبر نے مردہ دلی سے کہا۔ ”وہ پاپا کو کبھی نہیں چھوڑے گی۔ اس کے ہاتھ تو سونے کی کان آگئی ہے۔ وہ اتنی احمق تو نہیں ہے کہ سونے کی اس کان کی ملکیت کو میرے جیسی بے وقوف دوست کے کہنے پر چھوڑ دے۔ پاپا نے اسے گھر بھی لے دیا ہے، اس کے نام کر دیا ہے۔”
”یہ تم سے کس نے کہا؟”
”اس نے خود بتایا۔”
”ہاں نوازشات تو منصور چچا شروع سے ہی اس پر بہت کرتے رہے ہیں۔ ہم لوگ یہ سمجھتے رہے کہ وہ تمہاری دوست ہے، اس لیے وہ اسے یہ اسپیشل ٹریٹمنٹ دے رہے ہیں۔”
”مسعود انکل کو تو پتا تھا کہ پاپا اور رخشی کا افیئر چل رہا ہے، شبانہ آنٹی نے خود ممی کو بتایا پھر انہوں نے شروع میں ہی کیوں ہمیں نہیں بتا دیا۔”
”مجھے نہیں پتا کہ پاپا کو اس بارے میں کتنی معلومات تھیں اور اگر وہ اس سارے معاملے کو جانتے تھے تو انہوں نے کیوں تم لوگوں کو نہیں بتایا مگر امبر! میں پھر بھی یہ کہنے پر مجبور ہوں کہ یہ سب کچھ تمہاری حماقت کی وجہ سے ہوا۔ تمہیں رخشی جیسی لڑکی کو منصور چچا تک نہیں پہنچانا چاہیے تھا۔” امبر خاموش رہی، اس نے اس بار طلحہ کو ٹوکنے کی کوشش نہیں کی۔
”ایسی لڑکیاں یہی سب کچھ کرنے کے لیے موقع کی تاک میں ہوتی ہیں۔ پتا نہیں کیسے پھانسا ہے اس نے منصور چچا کو۔”
”یہ سب پاپا کا قصور ہے، وہ اچھے ہوتے تو کچھ بھی نہ ہوتا۔ رخشی انکی بیٹی کی عمر کی تھی۔ وہ اسے بیٹی سمجھتے تو کچھ بھی نہ ہوتا مگر وہ… وہ خود اچھے انسان نہیں تھے ہوتے تو رخشی لاکھ کوشش کرتی، وہ اس کے جال میں نہ پھنستے۔”
”تم رخشی جیسی لڑکیوں کے چکروں اور فریبوں کو نہیں جانتیں۔”
”مجھے جاننے کی ضرورت بھی نہیں ہے۔ میں صرف یہ جانتی تھی کہ میرا باپ میرا آئیڈیل تھا۔ میں ان کو جو سمجھتی تھی وہ سب غلط تھا۔ وہ بھی ایک بہت عام سے آدمی تھے، بہت عامیانہ سوچ اور ذہنیت رکھنے والے آدمی۔” وہ بات کرتے کرتے رونے لگی پھر اس نے کریڈل دبا کر رابطہ منقطع کر دیا۔
٭٭٭
”منصور چچا نے رخشی کے ساتھ دوسری شادی کر لی ہے۔” طلحہ نے شبانہ کو اطلاع دیتے ہوئے کہا وہ ابھی گھر آیا تھا۔
”کیا کہہ رہے ہو۔” شبانہ کا دل بلیوں اچھلا۔
”امبر نے اطلاع دی ہے مجھے، میں نے پاپا کو بلوایا ہے، وہ گھر آتے ہیں تو میں یہ معاملہ ان کے ساتھ ڈسکس کرتا ہوں۔”
”دیکھو ذرا تم منصور کو… یہ عمر تھی اس کی شادی کی، خاندان کی ناک کٹوا دی اس نے۔” شبانہ نے اپنی اندرونی مسرت کو چھپاتے ہوئے کہا۔ یہ تصور کہ منیزہ کی راجدھانی اس سے چھن گئی ہے، ان کو محظوظ کر رہا تھا مگر طلحہ کے سامنے وہ اس خوشی کا اظہار نہیں کرسکتی تھیں۔
”مجھے تو اسی دن شک ہو گیا تھا جب میں نے منصور کو اس لڑکی کے ساتھ دیکھا تھا۔” شبانہ نے اپنی بات جاری رکھی۔ ”جو بے تکلفی وہ دکھا رہی تھی، وہ ایسے ہی نہیں دکھائی جاتی۔ ارے خود بتاؤ کوئی سیکریٹری کے ساتھ اس طرح گلچھڑے اڑاتا پھرتا ہے۔” شبانہ بولتی رہیں۔
”اور آپ نے فوراً منیزہ چچی کو سب کچھ بتا دیا۔” طلحہ نے ناراضی سے ماں کو دیکھا۔
”تو اور کیا کرتی، میں نے کچھ غلط تو نہیں کیا۔”
”اور اب امبر اور منیزہ چچی سمجھ رہی ہیں کہ ہم نے سب کچھ جانتے ہوئے بھی ان سے سب کچھ چھپایا۔”
”لو اس میں بھلا ہمارا کیا قصور ہے۔ ہم پہلے انہیں کچھ بتاتے، تب بھی برا بنتے۔ اب بتایا ہے تو اب بھی برا بن رہے ہیں۔” شبانہ ناراض ہوئیں۔ ”منیزہ کو تو اپنے شوہر کو الزام دینا چاہیے، اس تمام معاملے کے لیے یا پھر امبر کو… جس نے رخشی کو منصور کے ہاں ملازمت دلوائی، ہمارا س میں کیا قصور۔”
”یہ تو آپ کہہ رہی ہیں اور ویسے آپ کو ضرورت کیا تھی منیزہ چچی سے اتنی ہمدردی جتانے کی۔ آپ انہیں کچھ نہ بتاتیں تو کم از کم ہم کہہ سکتے تھے کہ ہمیں اس معاملے کا کچھ پتا نہیں مگر آپ نے انہیں سب کچھ بتانے کے ساتھ ساتھ یہ بھی کہہ دیا کہ پاپا نے آپ کو کچھ بھی منیزہ چچی کوبتانے سے منع کیا ہے۔” طلحہ نے جھلا کر کہا۔
”اب تم یہ سب کچھ اپنے باپ کو بتانے مت بیٹھ جانا۔” شبانہ یک دم خائف ہوئیں۔
”انہوں نے مجھے منیزہ کو کچھ بھی بتانے سے منع کیا تھا۔
”خیر پاپا کو تو اب سب کچھ بتانا ہی پڑے گا۔” طلحہ نے صاف گوئی سے کہا۔ ”آپ یا میں نہیں بتائیں گے تو منیزہ چچی بتا دیں گی، بہتر ہے ہم پہلے ہی انہیں ذہنی طور پر اس کے لیے تیار کر دیں۔”
”میری تو سمجھ میں نہیں آرہا کہ اب آگے کیا ہو گا۔ منصور نے شادی تو کر لی ہے مگر اب جائیداد کا کیا ہوگا، کہیں اس نے رخشی کے نام جائیداد کر دی تو۔” شبانہ کو فکر ہونے لگی۔
”اس کام کا آغاز وہ کر چکے ہیں۔ امبر بتا رہی تھی کہ انہوں نے کوئی گھر اسے خرید کر دیا ہے۔” طلحہ نے بتایا۔
”اس کے نام کر دیا ہے؟”
”یہ تو میں نے اس سے نہیں پوچھا۔”
”لیکن اگر خرید کر دیا ہے تو نام کر دیا ہو گا۔ رخشی بڑی تیز لڑکی ہے، کچھ نہ کچھ تو اس شادی کے عوض اس نے لیا ہی ہوگا۔”
”اور اگر اس نے فیکٹری بھی اس کے نام کر دی تو۔” شبانہ اور ڈریں۔
”خیر منصور چچا اتنے بے وقوف نہیں ہیں کہ فیکٹری اس کے نام کر دیں۔”
”بے وقوفی کا تم مت کہو، عقل آتے دیر لگتی ہے، جاتے نہیں۔ فرض کرو، کل کو وہ فیکٹری بھی اس کے نام کرا دیتا ہے تو ہم لوگوں کا کیا ہوگا۔”
”پاپا کو چاہیے، وہ منصور چچا سے بات کریں کہ وہ رخشی کو طلاق دے دیں۔”
”ہاں، کل کو اگر اس کے ہاں کوئی اولاد اور وہ بھی بیٹا ہو گیا تو مسئلہ ہو جائے گا۔” شبانہ نے کہا۔
”آپ اور پاپا دونوں اس سلسلے میں منصور چچا سے بات کریں۔” طلحہ نے کہا۔
”میں ایک بات تمہیں صاف صاف بتا رہی ہوں، اگر منصور نے جائیداد کے معاملے میں اس طرح کی کوئی حرکت کی تو میں اس کی بیٹیوں کو اس گھر میں نہیں لاؤں گی۔ یہ تم کان کھول کر سن لو۔” طلحہ خاموشی سے ماں کو دیکھتا رہا۔
٭٭٭
منصور علی نے موبائل آف کر دیا اور موبائل آف کرنے کے ساتھ ہی انہوں نے انٹر کام کا ریسیور اٹھا کر آپریٹر سے کہا۔ ”جس کا بھی فون آئے، تم بتا دینا کہ میں آفس میں نہیں ہوں۔ چاہے رخشی ہی کا فون کیوں نہ ہو۔”
”آپریٹر اور آفس کے لوگ اگرچہ اس بات سے واقف نہیں تھے کہ منصور علی رخشی سے شادی کر چکے ہیں مگر وہ رخشی اور منصور کے تعلقات کی ”خصوصی نوعیت” کو ضرور جانتے تھے۔ اب اس وقت منصور کی یہ اچانک آنے والی ہدایت ان کے لیے حیرت کا باعث بنی تھی۔
”اوکے سر!” آپریٹر نے مستعدی سے جواب دیا اور اگلے ہی کچھ لمحوں کے بعد جب اس نے یکے بعد دیگرے بار بار رخشی کی کالز اٹینڈ کیں تو اسے معاملے کی نزاکت کا احساس ہونے لگا۔
منصور علی خود اپنے آفس میں کسی بھوکے شیر کی طرح… چکر کاٹ رہے تھے ان کی سمجھ میں نہیں آرہا تھا کہ وہ کیا کرے۔ انہیں رخشی سے بے حد محبت تھی۔ کم از کم یہ وہ بات تھی جس میں کوئی شبہ نہیں تھا مگر وہ اتنے دلیر نہیں تھے کہ وہ رخشی کے کہنے پر اس طرح اسے بچانے کے لیے وہاں چل پڑتے۔ وہ اپنے آفس میں بیٹھے بیٹھے بھی اندازہ لگا سکتے تھے کہ ان کے وہاں پہنچنے پر منیزہ سے انہیں کس طرح کی گفتگو سننی پڑ سکتی تھی۔ ان کی جگہ کوئی بیس پچیس سال کا آدمی ہوتا تو شاید رخشی کے لیے دل میں اس طرح کے جذبات کی موجودگی میں بے خوف و خطر اندھا دھند اس کی کال ملنے پر چل پڑتا مگر پینتالیس سال کی عمر میں انسان کی عقل ہر وقت اس کے پاس رہنے لگتی ہے اور دل کے معاملات بھی اس کی دسترس سے باہر نہیں رہتے، اسی لیے منصور علی بھی رخشی کے گھر کے بجائے اپنے آفس میں بیٹھے ہوئے تھے۔
وہ کمرے کے چکر لگاتے ہوئے بار بار اپنی ایک ہاتھ کی مٹھی کو دوسرے ہاتھ پر مار رہے تھے۔ وہ اندازہ کر سکتے تھے کہ رخشی ان کے اس طرح فون بند کر دینے پر کس طرح کی کیفیات سے دوچار ہوئی ہوگی اور اس وقت ان کے بارے میں کیا سوچ رہی ہو گی اور وہ تصور کی آنکھ سے اپنے آپ کو معذرتیں کرتے بھی دیکھ رہے تھے۔ انہوں نے ان لفظوں کی تلاش بھی شروع کر دی تھی جو انہیں رخشی کے پاس پہنچنے پر آج اس کے سامنے بولنے تھے۔
اور پھر اچانک اس طرح اضطراب اور بے چینی کے عالم میں ٹہلتے ٹہلتے انہیں ہارون کمال کا خیال آیا، وہ رک کر اپنے موبائل کی طرف گئے اور ہارون کے موبائل پر اسے کال کرنے لگے۔ ہارون نے ان کی کال گاڑی میں سنی تھی۔ وہ ابھی کچھ دیر پہلے ہی وہاں سے نکل کر اپنے آفس کی طرف جارہا تھا۔
”ہاں منصور… کیا بات ہے۔” ہارون نے منصور کی آواز سنتے ہی پوچھا۔ منصور نے مختصر الفاظ میں اپنا مسئلہ بیان کیا۔ ہارون کمال کے چہرے پر بے اختیار مسکراہٹ ابھر آئی تو وہ ڈرامہ شروع ہو چکا تھا جس کا اسے انتظار تھا۔
اپنی مسکراہٹ دباتے ہوئے اس نے بے حد تشویش کا اظہار کیا۔
”ویری بیڈ! میں منیزہ بھابھی سے اس طرح کی حرکت کی توقع نہیں کرتا تھا۔”
”اب تمہیں اندازہ ہوا ہوگا، یہ کس طرح کی جاہل عورت ہے جس کے ساتھ میں نے اپنی ساری زندگی ضائع کردی۔” منصور علی کو اپنے غصے کا اظہار کا موقع مل گیا۔
”ہاں، میں اچھی طرح اندازہ لگا سکتا ہوں۔ شائستہ ایسی حرکت کرے تو میں تو…”
”شائستہ بھابھی اور منیزہ میں زمین آسمان کا فرق ہے۔ شائستہ بھابھی اس جیسی چھچھوری حرکتیں کبھی نہیں کر سکتی، وہ کبھی اس طرح کی گھٹیا زبان بھی نہیں بول سکتیں جیسی یہ عورت استعمال کر رہی ہے مگر تم مجھے بتاؤ کہ اب میں کیا کروں۔”
”دیکھو، رخشی کا غصہ بالکل ٹھیک ہے۔ منیزہ بھابھی نے اس کی پوزیشن بے حد آکورڈ کر دی ہے۔” ہارون کمال نے گاڑی کی پچھلی سیٹ کی پشت سے ٹیک لگا لی وہ مزید مطمئن ہو گیا تھا۔
”دوسری شادی کوئی جرم تو نہیں کہ اس پر اس طرح کے ری ایکشن کا اظہار کیا جائے اور پھر منیزہ بھابھی کو جو بات کرنی ہے، وہ تم سے کرتیں۔ رخشی بے چاری کا اس سارے معاملے میں کیا قصور ہے۔ اس نے تو تمہارے کہنے پر تم سے شادی کی ہے، ورنہ وہ تو رضا مند ہی نہیں تھی۔”