تھوڑا سا آسمان — قسط نمبر ۱۵ (آخری قسط)

چہرے بدلتے ہیں ، کہانی نہ بدلتی ہے نہ ختم ہوتی ہے۔
٭٭٭
”میرے لیے زندگی میں سب سے اہم چیز پیسہ ہے۔ یہ آپ کے پاس ہو تو سمجھو دنیا پاؤں کے نیچے ہے۔ یہ ہاتھ میں نہ ہوتو سمجھو آپ زمین پر نہیں پا تال میں رہتے ہیں ۔میرے لیے انسانی رشتوں کی کوئی اہمیت نہیں ہے۔ یہ بے کار کے بندھن اور پھندے کم از کم میرے جیسا پریکٹیکل آدمی افورڈ نہیں کر سکتا۔ میرے لیے ایسی چیروں کی کوئی اہمیت نہیں ہے اور میری کا میا بی کا راز بھی یہی ہے۔ تم نے بہت سے کامیاب لوگ دیکھے ہوں گے۔ بعض کہتے ہوں گے ان کی کامیابی کے پیچھے کسی کی دعائیں ہیں، بعض کہتے ہیں ، ان کی کامیابی ان کی محنت کا نتیجہ ہے۔ بعض کہتے ہیں یہ پراپرپلاننگ کا کمال ہے مگر میں کچھ اور ہی کہتا ہوں۔ہاں جاوید! میری کامیابی کا راز میری خود غرضی اور بڑی حد تک ریشنل ہونا ہے۔ ”
وہ آج پھر اسے کامیابی کے آزمودہ نسخے بتا رہا تھا۔
”سعد ! تم اگر یہ سب نہ بھی کہو تو بھی میں جانتا ہوں کہ پیسے کی تمہاری زندگی میں بہت اہمیت ہے اور صرف تمہاری زندگی میں کیوں ، ہم سب کی زندگی میں اس کی اہمیت ہے۔ تمہارا کیا خیال ہے۔ دنیا میں پیسے کو اتنی اہمیت دینے والے کیا تم واحد آدمی ہو۔ ”
جاوید اس کی باتوں سے قطعاً متاثر نہیں ہوا تھا۔ سعد ایک دم کھلکھلا کر ہنس پڑا ۔
”نہیں جاوید! پیسے کے معاملے میں میں جتنا شدید ہوں ، اتنا کوئی دوسرا نہیں ہو سکتا اور مجھے پیسے سے جتنی محبت ہے، پیسے کو مجھ سے اس سے زیادہ محبت ہے۔ ”
اس کے لہجے میں واضح طور پر تفا خر تھا ۔ جاوید نے آج کے سکندر اعظم کو دیکھا جو ہر وقت اپنی فتوحات کی کہانیاں رقم کرتا رہتا تھا۔ گالف کی ٹی کو زمین میں لگاتے ہوئے وہ رک گیا۔ اسے سعد آفاق پر بے اختیار رشک آیا ۔ اس نے جو کہا تھا، سچ کہا تھا۔ بہت سے لوگ اتنے مکمل ہوتے ہیں کہ ان کی اکملیت پر کبھی کبھی یقین نہیں آتا ۔ سعد آفاق بھی ایسا ہی ایک بندہ تھا۔ جاوید پچھلے سات سال سے اسے جانتا تھا اور اس کے ساتھ ہونے والی ہر ملاقات اسے سعد آفاق کا مزید اسیر کرتی جارہی تھی۔ اس میں کچھ ایسا ضرور تھا کہ جو بھی ایک بار اس سے ملتا وہ دوسری بار ملنے کی خواہش ضرور رکھتا۔ وہ کوئی سچا اور کھرا آدمی نہیں تھا اور اس نے کبھی اس کا دعویٰ بھی نہیں کیا تھا اور وہ دو اور دو22پر یقین رکھنے والا آدمی تھا پھر بھی اس کی مادیت پر ستی لوگوں کو اس سے متنفر نہیں کرتی تھی بلکہ مسحور کر دیتی تھی کہ ہر ایک کو سعد آفاق بننے کی چاہ ہونے لگتی تھی۔
اسے بہت عادت تھی اپنے بارے میں بات کرنے کی۔ اپنے وجود کے بارے میں، اپنی زندگی کے بارے میں، اپنی کامیابیوں کے بارے میں۔ اپنے منصوبو ں کے بارے میں اور اپنی خواہشات کے بارے میں اس کا پورا وجود صرف ”میں ”بن کر رہ گیا تھا اور حیرت کی بات ہے کہ لوگ پھر بھی اس ”میں ” سے بیزار ہوتے تھے نہ نفرت کرتے تھے۔
شاید سعد آفاق جس طبقے سے تعلق رکھتا تھا، وہاں صرف اپنا وجود ہی نظر آتا ہے۔ کسی دوسرے کی ذات اور ہستی کے بارے میں سوچنے کی روایت ہی نہیں ہے۔ اس نے بھی اپنی کلاس کے لوگوں کی طرح آنکھوں پر ”بلائنڈز ” لگوالیے تھے جو اسے اپنے علاوہ کسی دوسرے کے اندر جھانکنے ہی نہیں دیتے تھے۔
”میں بعض دفعہ یہ سوچتا ہوں سعد !کہ کیا تم سے کبھی کوئی غلطی ہوسکتی ہے۔ آئی مین کوئی ایسا کام جسے کرکے تم پچھتا ؤ یا جس کی وجہ سے تم کو نقصان اٹھا نا پڑے۔ فوری طور پر نہ سہی دیر سے ہی سہی لیکن پھر مجھے خیال آتا ہے کہ تم سے کوئی غلطی ہو ہی نہیں سکتی ۔ تم ہر چیز بہت کیلکو لیٹ کر کے کرتے ہو۔تم کو اپنے ہر عمل کے آگے پیچھے کا بہت اچھی طرح پتا ہوتا ہے، اسی لیے تو تم دوسروں سے اتنا آگے ہو۔ میں تو تصور بھی نہیں کر سکتا کہ تم کبھی، کہیں کوئی ٹھوکر کھاؤ گے۔”




سعد آفاق نے اس کی بات پر ایک ہلکا سا قہقہہ لگایا۔
”تو تم اس انتظار میں ہو کہ میں کوئی غلطی کروں اور منہ کے بل گروں ۔ ہے نا۔ ”اس نے گیند کو ہٹ کرتے ہوئے کہا۔
”نہیں ، میں نے یہ کب کہا ہے ۔ تم میری بات ہی نہیں سمجھے ۔ میں تو یہ …”جاوید نے وضاحت دینے کی کوشش کی۔
”میں تمہاری بات کو بہت اچھی طرح سمجھ چکا ہوں ۔ دیکھو جاوید! یہ واقعی صحیح ہے کہ میں غلطی بہت کم کرتا ہوں ۔ میں نے اپنی زندگی میں غلطی کی گنجائش بہت کم رکھی ہے لیکن پھر بھی اگر کوئی غلطی ہو جاتی ہے تو میں تمہاری طرح اس پر پچھتانے نہیں بیٹھتا ۔ میری ڈکشنری میں پچھتاوے کا لفظ نہیں ہے۔ میں اپنے گلے میں اس قسم کے پھندے ڈال کر نہیں چلتا ۔ زندگی ہے تو غلطی بھی ہوگی اور غلطی ہو تو پچھتاوا نہیں ہونا چاہیے ۔ بس اس غلطی کو اپنے ماضی سے کاٹ کرپھینک دینا چاہیے ۔ ذہن کے قبرستان میں کہیں دفن کر دینا چاہیے جس شخص کو یہ گر آجاتا ہے ، سمجھو اسے دنیا میں جینے کا طریقہ آجاتا ہے پھر زندگی کی ریس میں اس سے کوئی بھی نہیں جیت سکتا۔ ”
وہ جاوید کے ساتھ گولف کورس پر چلتے ہوئے اسے اپنی زندگی کی فلاسفی بتا رہا تھا۔ جاوید چہرے پر مسکراہٹ کے لیے اسے دیکھ رہا تھا۔
”ویسے یار! ٹھیک ٹھیک بتاؤ کہ واقعی تم کبھی غلطی کرتے ہو؟ کیا زندگی میں کبھی تم نے غلطی کی ہے؟”
اسعد نے اس کی بات پر ایک بار پھر قہقہہ لگایا ۔ ”میں نے تم سے کہا ہے ناکہ میں اپنی غلطیاں بھول جایا کرتا ہوں اور جس چیز کو انسان اپنی مرضی سے بھلا دے، اسے بھلا کیسے یاد آسکتی ہے، اسی لیے مجھے بھی اپنی کوئی غلطی یاد نہیں ہے۔ ویسے بھی میں اپنے سے زیادہ دوسروں کی غلطیوں کو یاد رکھتا ہوں۔ اس سے مجھے کافی فائدہ ہوتا ہے۔ ”
اس کے لہجے میں وہی پر انا تفا خر تھا جولوگوں کو مرعوب کر دیا تھا۔ جاوید بھی بس اسے دیکھ کررہ گیا۔
٭٭٭
وہ واقعی بد صورت تھی۔ سیاہ رنگت، بھدے ہونٹ ، ٹیٹرھے میڑھے دانتوں اور چھوٹے قد نے اسے ایک عجیب سی مخلوق بنا دیا تھا اور جو کسررہ گئی تھی، وہ بچپن میں تین چا ر بار دایاں بازو تڑوانے کی وجہ سے پوری ہو گئی۔ بار بار سیڑھیوں سے گرنے کی وجہ سے اس کا دایاں بازو ایک ہی جگہ سے دو بار ٹوٹ گیا تھا اور پھر ٹھیک طرح سے جڑنہ سکا۔ ماں باپ کے پاس اتنے پیسے نہیں تھے کہ وہ اسے کسی اچھے ڈاکٹر کو دکھا پاتے اور نہ ہی انہیں اس مریل مخلوق میں کوئی دلچسپی تھی۔
نتیجہ یہ ہوا کہ اس کا بازو ٹھیک طرح سیدھا ہو سکتا تھا، نہ وہ اس سے کوئی وزنی چیز اٹھاسکتی تھی۔ ماں باپ کو شاید شروع ہی سے اس کی قسمت اور مستقبل کا اندازہ ہو گیاتھا، اس لیے انہوں نے شروع ہی سے اسے تعلیم کے ساتھ ساتھ مختلف ہنر سکھانے شروع کر دیے تھے تاکہ وہ کم از کم اپنا بوجھ اٹھانے کے قابل ہوجائے اور صا لحہ کے بارے میں ان کے سارے خد شات درست ثابت ہوئے تھے۔
سولہ سال سے اس کے لیے رشتے تلاش کیے جارہے تھے۔ سولہ سال سے وہ مسترد کی جارہی تھی جس عمر میں لڑکیوں کے دل و دماغ میں چاہت کے شگوفے کھلنا شروع ہوتے ہیں ، اس عمر میں اس کے اندر کیکر کے کانٹوں بھرے درختوں نے سر ابھارنا شروع کر دیا تھا۔وہ اپنی ہر کمی، ہر خامی ، ہر بد صورتی سے واقف تھی اور وہ …. وہ پوری دنیا کو اندھا کر دینا چاہتی تھی۔ ہر ماہ بڑے جتن کے بعد کہیں نہ کہیں سے ایک رشتہ اس کے لیے ڈھونڈ نکالا جاتا۔ ہر ماہ وہ نئی امید، نئی خواہش اور نئی آس کے ساتھ بن سنور کر ان لوگوں کے سامنے پیش ہوتی۔ اور ہر بار اسے مسترد کردیا جاتا۔ پسند یدگی کی کوئی جھلک کسی کے چہرے پر جھلکتی، نہ کسی کی آنکھوں میں لہراتی۔ ہر ریجیکشن اس کے دل اور بنجروجود کو اور بے مصرف اور زبان کو اور کڑوا کر جاتی۔ 35سال کی ہوتے ہوتے وہ سراپاز ہربن چکی تھی۔ کیکر کے پودے اب درخت بن چکے تھے کانٹوں سے بھرے ہوئے ٹنڈمنڈ درخت، جن پر کہیں بھول کر بھی سبز رنگ کا کوئی پتا نمودار ہوتا تھا نہ کوئی کونپل پھوٹتی تھی ۔ صالحہ احسان لڑکی سے عورت کہلانے لگی تھی۔
پچھلے سولہ سال سے مسترد ہونے والا وجود اب ریجیکشن کا پورٹر یٹ بن چکا تھا۔ ذلت، بے عزتی، بے قدری اور بے حسی کا ۔ بس فرق یہ تھا کہ یہ پورٹریٹ ایک زندہ انسان کا تھا جس پر سولہ سال سے لگائے جانے والے ہر رنگ کے اسٹروک خشک ہونے کے بعد سیاہ رنگ میں بدل جاتے تھے اور اب یہ پورٹریٹ وہی سیاہ رنگ دنیا میں انسان کے وجود پر لگا دینا چاہتا تھا جو لوگ صالحہ احسان کو جانتے تھے، ان میں سے کوئی بھی اسے پسند نہیں کرتا تھا۔ اس کی سیاہ رنگت، ٹیڑھے دانت، چھوٹا قد اسے ناپسند کیے جانے کی وجہ تھے مگر بنیادی وجہ اس کی زبان تھی۔ وہ کڑوی ، تلخ اور زہریلی زبان جسے وہ ہمیشہ ایک نشتر کی طرح استعمال کرتی تھی، اسے کسی کی پروا نہیں تھی، نہ کسی کا لحاظ ۔ وہ غصے میں آتی تو چیختی چلاتی گالیاں بکتی جاتی۔ اتنا چیختی کہ اس کی بدصورتی یک دم دوگنی ہو جاتی۔ وہ گالی سے بہتان اور بہتان سے بد دعا تک ہر نشتر، ہر ہتھیار ، ہر حربہ استعمال کرتی۔ زبان کے استعمال میں کوئی کبھی اسے ہرا نہیں سکا۔ لوگوں نے آہستہ آہستہ اس سے دور رہنا شروع کر دیا تھا، اور وہ یہی چاہتی تھی۔ لوگ پاس ہوتے تو بہت کچھ کہتے تھے۔ اس بہت کچھ میں ایک بھی ایسی چیز ایسا لفظ نہیں ہوتا تھا جو صالحہ احسان کو خدا کی بنائی ہوئی ایک چیز سمجھ کر کہا جاتا جو بھی کہا جاتا وہ اللہ کی طرف سے اسے چوک کربنانے والی چیز سمجھ کر کہا جاتا۔ لوگ اس سے دور ہٹتے گئے۔ وہ اپنے خول میں سمٹتی گئی۔ ایک …دو …تین اس نے یکے بعد دیگرے اپنے وجود کے ارد گرد بہت سی دیواریں چننا شروع کر دی تھیں ۔ ہر دیوار پہلے سے زیادہ سخت ، پہلے سے زیادہ بے ڈھنگی تھی مگر صالحہ احسان خوش تھی۔
لوگ کسی شخص کے پاس رہیں یا دور رہیں ، وہ چپ کبھی نہیں رہتے۔ انہیں بات تو کرنی ہی ہوتی ہے۔ انہیں کچھ نہ کچھ تو کہنا ہی ہوتا ہے اور صالحہ احسان جیسے وجود تبصرہ کے لیے سب سے اچھا موضوع ہوتے ہیں ان کے بارے میں ہر قسم کی بات کہی جاسکتی ہے۔ چاہوتو ان کے ظاہری وجود کے بارے میں بات کرو، چاہو تو ان کے باطنی دجود کے بارے میں بات کرو ، چاہو تو ان کامذاق اڑاؤ چاہو تو ان کا تماشا بناؤ۔ جتنی ورائٹی صالحہ احسان میں تھی، کسی اور میں نہیں تھی۔ ترس سے لے کر طنز تک لوگ اس کے لیے ہر چیز، ہر جذبہ استعمال کر سکتے تھے، ماسوائے ایک چیز کے، ماسوائے ایک جذبے کے …محبت کے۔
35سال کی عمر تک وہ اپنے ہر رول میں ناکام رہی تھی۔ اگر بیٹی، بہن ، نند ، پھوپھی ، خالہ، ہر رشتے میں وہ دوسروں کے لیے باعث تکلیف رہی تھی تو اتنی ہی تکلیف اور اذیت اس نے ان رشتوں سے پائی بھی تھی۔
وہ بعض دفعہ پوری پوری رات آئینے کے سامنے بیٹھی اپنے وجود پر نظریں جمائے رکھتی۔ خود کو گھورتی رہتی پھر سوچتی”’کیا دنیا میں میری ضرورت تھی؟۔ میرے وجود کے بغیر دنیا میں کون سی کمی واقع ہو جاتی ۔ ہاں شاید لوگوں کو تماشا بنانے کے لیے، مذاق اڑانے کے لیے میرے جیسی مضحکہ خیز چیز نہ ملتی۔ ” وہ ایک زہریلی مسکراہٹ کے ساتھ سوچتی پھر اپنے کا بک جیسے تنگ کمرے میں پھرنے لگتی۔ ”کیا اللہ مجھے بتا سکتا ہے، اس نے دنیا میں میرے لیے سزا کے علاوہ کیا رکھاہے؟ ذلت کے علاوہ اور کیا مخصوص کیا ہے؟کیا خدا بتا سکتا ہے کہ اس نے میرے جیسے بے کار اور ناکارہ وجود کو دنیا میں کون سے انقلاب کے لیے پیدا کیا ہے؟ کیا خدا بتا سکتا ہے، میرے نہ ہونے سے کون کس چیز سے محروم ہو جاتا؟ کیا خدا بتا سکتا ہے، اس نے میرے جیسا عذاب دنیا پر کیوں نازل کیا؟”
وہ پاگلوں کی طرح ساری ساری رات خدا سے سوال کرتی رہتی مگر جواب …. جواب نہیں ملا۔
٭٭٭




Loading

Read Previous

تھوڑا سا آسمان — قسط نمبر ۱۴

Read Next

ٹی وی لاؤنج — ثاقب رحیم خان

Leave a Reply

آپ کا ای میل ایڈریس شائع نہیں کیا جائے گا۔ ضروری خانوں کو * سے نشان زد کیا گیا ہے

error: Content is protected !!