تھوڑا سا آسمان — قسط نمبر ۱۵ (آخری قسط)

ایس پی کی آنکھیں پریس فوٹوگرافرز کے کیمروں کی فلیش لائٹ سے چندیارہی تھیں ۔ اس نے اپنی زندگی میں اس سے پہلے کبھی اتنی پُر ہجوم پریس کانفرنس سے خطاب نہیں کیا تھا۔ اسے یہ اندازہ تھاکہ یہ کیس ایک بہت بڑا اسکینڈل بن کر سامنے آنے والاتھا۔ مگر اسے یہ توقع نہیں تھی کہ پریس اس سارے معاملے میں اتنی دلچسپی دکھائے گا۔
اے ایس پی اس کی برابروالی کرسی پر بیٹھا صرف یہ طے کر رہا تھا کہ آئندہ وہ اپنے نیچے کام کرنے والے تھانوں پر زیادہ بہتر چیک رکھے گا۔ اور وہاں وقتاً فوقتاً وزٹ کر تا رہے گا۔ چاہے ایس پی اس کے ساتھ ہویا نہ ہو۔ وہ اس لمحے کو کوس رہا تھا جب اس دن اس نے اس تھانے کا وزٹ ملتوی کیا تھا جہاں سے یہ لاش ملی تھی۔ اور یہ ایک اتفاق ہی تھا کہ ایس پی کے اچانک وزٹ پر آجانے کی وجہ سے اس کے ساتھ اس تھانے میں جانا پڑا۔ اور وہ لاش ایس پی کی نظروں میں آگئی ۔ ورنہ وہ آج اس پریس کانفرنس سے خود خطاب کر رہا ہوتا۔ وہ پچھلے دو ہفتوں سے دن رات خود کو کوس رہا تھا اور اس کی تسلی ابھی تک نہیں ہوئی تھی۔
”ہارون کمال نے اپنے جرم کا اعتراف کر لیا ہے اور اس کی اپنی بیوی اور بیٹے نے بھی اس کے خلاف گواہی دی ہے۔ اس کی وجہ سے پولیس کا کام کچھ آسان ہوگیا۔” ایس پی اپنے بیان کے آخری حصے کی چند لائنز کو دہرا رہا تھا۔
”اب اس کیس کے بارے میں آپ کے سوالات کا جواب دینے سے پہلے ایک بار پھر اپنے اے ایس پی رانا افتخار علی اور متعلقہ پولیس اسٹیشن کے کانسٹیبل . . . ”ایس پی اس کانسٹیبل کا نام لے رہا تھا۔ جس نے زندگی میں پہلی بار کسی پریس کانفرنس کو اٹینڈکیا تھا۔ اور اس کا رنگ مکمل طور پر فق تھا۔
لاش کو برآمد کرنے میں ہیڈکانسٹیبل کا بہت ہاتھ ہے۔ اور ابتدائی تفتیش کا سارا کریڈٹ اے ایس پی رانا افتخار علی کو جاتا ہے۔ ”
اے ایس پی نے ایس پی کے تعریفی کلمات پر مسکراتے ہوئے دانت پیسے۔
”ابتدائی تفتیش . . .”اس نے شروع سے آخر تک کیس حل کر کے ایس پی کو پلیٹ میں پیش کیا تھا۔
سر ہارون کمال کی اپنی بیٹی نے خود کشی کیوں کی؟”سوالات کا سلسلہ شروع ہو چکاتھا۔




”مسز ہارون کمال اور ان کے بیٹے نے جو بیانات دیے۔ اس میں انہوں نے کہا کہ وہ یہ پتا چلنے پر بہت اپ سیٹ ہوگئی تھی کہ پولیس ہارون پر امبر کے قتل کا کیس چلانے والی ہے۔ میرا اپنا ذاتی خیال ہے کہ ہو سکتا ہے ہارون نے اپنی بیوی اور بچوں کے سامنے اس قتل کے حوالے سے اعترف جرم کیا ہو اور یہ بات اس کی بیٹی برداشت نہ کر سکی ہو۔پولیس ابھی تحقیق کر رہی ہے۔ اگر مزید و جوہات سامنے آئیںتو انہیں بھی آپ لوگوںکے سامنے پیش کر دیا جائے گا۔ ”ایس پی نے کہا۔
”کیا منصور علی کو رہا کر دیا گیاہے؟” ایک اور رپورٹر نے سوال کیا۔
”ہاں’منصور علی کو رہا کر دیا گیا ہے کیونکہ اپنی بیٹی کے قتل کے الزام سے تو وہ بری ہوگئے تھے’لیکن اپنی سابقہ بیوی اور بیٹوں پر قاتلانہ حملہ کے مقدمے میں وہ گرفتار تھے۔ لیکن ان کی سابقہ بیوی اور بچوں نے اپنے الزامات واپس لے لیے ہیں اور میں نے جیسا کہ آپ کو بتایا کہ منصور علی کی ذہنی حا لت ٹھیک نہیں ہے تو ہم نے انہیں ان کے بیٹے کے حوالے کر دیا ہے۔ ان کے بیٹے نے ……ان کی دوسری بیوی رخشی کے ساتھ ہونے والی جائیداد کے تنازعہ کے سلسلے میں ہم سے مدد کی درخواست کی کیونکہ منصور علی کی دوسری بیوی نے اپنے چند ساتھیوں کی مدد سے منصور علی کے خاندانی گھر اور فیکٹری پر قبضہ کر لیا تھا۔
پولیس نے مداخلت کر کے کورٹ کے ذریعے گھر تو سیل کروادیا ہے اور فیکٹری کے انتظامات کو وقتی طور پر دونوں فریقین کے وکیلوں کے سپرد کر دیا ہے۔ کورٹ بعد میںجو فیصلہ کرے گی اس کے مطابق فریقین کے درمیان جائیداد کی تقسیم ہو جائے گی۔”
”ہم نے سنا ہے کہ منصور علی نے اپنی دوسری بیوی کو بھی طلاق دے دی ہے؟” ایک اور رپورٹر نے پوچھا ۔
”یہ معاملہ بھی متنازعہ ہے۔ منصور علی کے بیٹے اور وکیل کے مطابق ان کی دوسری بیوی رخشی نے منصور علی سے طلاق لے لی تھی مگر رخشی اب اس بات پر اصرار کر رہی ہیں کہ ایسا نہیں ہوا اور ان کے درمیان صرف اختلافات ہوئے تھے، طلاق نہیں ہوئی۔ منصور علی کی ذہنی حالت ابھی ایسی نہیں ہے کہ وہ اس بات کی تصدیق یا تر دید کر سکیں ۔ اس لیے شاید فریقین اس سلسلے میں بھی کورٹ میں جائیں ۔”
ایس پی نے ایک اور رپورٹر کے اٹھے ہوئے ہاتھ کی طرف اشارہ کرنے ہوئے کہا۔
”اور اب یہ آخری سوال ہے۔ ”ایس پی نے پریس کانفرنس ختم کرنے کا عندیہ دیتے ہوئے کہا
٭٭٭
فاطمہ نے دستک کی آواز پر دروازہ کھولا ۔ شہیر ثانی کو کچھ دیر پہلے ہی کراچی جانے کے لیے ائیر پورٹ چھوڑنے گیا تھا۔ ثمر اندر کمرے میں سو رہا تھا۔
وہ دروازہ کھولنے پر چند لمحوں کے لیے ساکت ہوئی تھی ۔ مگر چند ماہ پہلے کی طرح اس کے پیروں کے نیچے سے زمین نہیں نکلی …البتہ اسے شائستہ کو دیکھتے ہی اس پر ترس آیا۔
وہ چند ماہ پہلے کی اس خوبصورت اور حسین عورت کا صرف سایہ ہی لگ رہی تھی۔ جسے اس شہر کی سب سے اسٹائلش عورت کہا جاتا تھا۔ سادہ شلوار قمیض میں میک اپ کے بغیر سفید ہوتے ہوتے جاتے بالوں اور جھریوں زدہ چہرے کے ساتھ وہ اس کے سامنے کھڑی تھی۔ اس کی آنکھیں متورم سرخ اور اس کے گرد حلقے پڑے ہوئے تھے، یوں جیسے وہ ایک طویل عرصے سے سو نہ سکی ہو۔ اس پر فاطمہ ہی نہیں کسی کو بھی ترس آسکتا تھا۔
فاطمہ نے راستہ چھوڑ دیا۔ شائستہ اندر آگئی اور صحن کے وسط میں کھڑی ہو گئی۔
”آپ اندر آئیں ۔ آکر بیٹھیں ۔ ”فاطمہ نے اس سے کہا۔
”نہیں . . .میں صرف چند منٹوں کے لیے آئی ہوں۔ ” اس کی آواز میں بھی کوئی طنطنہ نہیں نہیں تھا۔
صحن کے وسط میں ایک دوسرے کے بالمقابل کھڑی ان دونوں عورتوں کو دیکھ کر کوئی بھی اندازہ کر سکتا تھا کہ زندگی کس پر ”مہربان ”رہی تھی اور کس پر نہیں ۔
چھوٹے قد کی وہ بد صورت ‘سیاہ رنگت والی عورت جس کے چہرے پر سکون اور اعتماد تھا۔ یا پھر شاید یہ اطمینان قلب تھا جو اس کے چہرے سے جھلکتا تھا۔ زندگی کی دوڑ کے اختتام کے قریب وہ جیتنے والوں میں تھی۔
دراز قد خوبصورت عورت کے چہرے پر کچھ بھی نہیں تھا۔ اس کی آنکھیں تک خالی تھیں ۔ جو واحد شے اس کے چہرے پر نظر آتی تھی، وہ شکست تھی۔ کوئی بھی اسے دیکھ کرجان سکتا تھا۔ کہ ”شکست”کس کو کہتے ہیں ۔
”مجھے نایاب کے بارے میں پتا چلا ، بہت دکھ ہوا۔ ”فاطمہ نے بات کا آغاز کیا۔ وہ شائستہ کی آنکھوں کی طرف دیکھنے سے گریز کر رہی تھی۔ اس کی آنکھوں میں دیکھنا بہت مشکل تھا۔ کہ وہ اس کی اندرونی اذیت کو آشکار کر رہی تھیں۔
مجھے امبر کی موت کے بارے میں جان کر بہت دکھ ہوا۔ شائستہ نے اس کی بات سن کر ایک لمحے کے لیے کچھ سوچا ، نایاب کا باتھ روم میں پڑا بے حس و حرکت و جود اس کے ذہن کی اسکرین پر چند لمحوں کے لیے لہرایا۔
”ہم نے وہ کاٹا ہے جو بویا تھا۔ ”
فاطمہ نے اسے کہتے سنا۔ وہ چند لمحوں کے لیے بول نہیں سکی۔ اسے اندازہ نہیں تھا وہ شائستہ کے منہ سے اس طرح کا اعتراف سنے گی۔
شائستہ اب اپنا شولڈر بیگ کھول رہی تھی۔ اس نے اندر سے ایک بڑا لفافہ نکالا اور فاطمہ کی طرف بڑھا دیا۔
”یہ کیا ہے؟”فاطمہ نے حیرانی سے اسے دیکھا۔
”ہارون کی جائیداد تقسیم ہو گئی ہے۔ کیونکہ اسد جائیداد میں سے اپنا حصہ چاہتا تھا اس لیے جائیداد تقسیم کرنا پڑی ۔ یہ شہیر، ثمر اور ثانیہ کا حصہ ہے۔ گویہ اتنا تو نہیں جتنا ہونا چاہیے یا جتنا میں چاہتی تھی مگر پھر بھی یہ…”
وہ بات کرتے کرتے رکی۔ یوں جیسے لفظ ڈھونڈ رہی ہو۔
”اسٹاک مارکیٹ میں ہماری کمپنی کے شیئرز کریش کر گئے ہیں ہارون نے بینکوں سے بہت زیادہ رقم قرض لی ہوئی تھی۔ اس اسکینڈل کے بعد سب کچھ تباہ ہو گیا ہے۔ آنے والے چند ماہ میں صورت حال اور خراب ہو جائے گی۔ میں اس لیے پہلے ہی ان تینوں کو کچھ نہ کچھ دے دینا چاہتی تھی۔ ”
فاطمہ نے ایک نظر اس کے ہاتھ میں پکڑے لفافے پر ڈالی پھر مستحکم آواز میں کہا۔
”اس کی ضرورت نہیں ہے۔ وہ تینوں اپنے پاؤں پر کھڑے ہو رہے ہیں اس کے بغیر بھی وہ بہت اچھی زندگی گزار سکتے ہیں ۔ آپ یہ واپس لے جائیں ۔ ”
فاطمہ نے اس کی آنکھوں میں اذیت کو بڑھتے دیکھا۔
”میں جانتی ہوں انہیں کسی چیز کی ضرورت نہیں ہے۔ جیسی زندگی تم نے انہیں گزارنا سکھادی ہے۔ میں نہیں سکھا سکتی تھی۔ پھر بھی اسے دینے سے صرف اس احساس جرم میں کچھ کمی ہو جائے گی جسے میں ہر وقت اپنے سر پر اٹھائے ہوئے ہوں۔”
وہ رکی ، فاطمہ کو محسوس ہوا وہ اپنے آنسوؤں پر قابو پانے کی کوشش کر رہی ہے۔
”اگر کسی نے عذاب کو دیکھنا ہو فاطمہ ! تو وہ مجھے دیکھے۔ شائستہ ہارون کمال کو۔”فاطمہ کو اپنے رونگٹے کھڑے ہوتے محسوس ہوئے۔
”میں مجسم بد قسمتی ہوں ۔ نہ میرا کوئی ماضی ہے، نہ میرا کوئی مستقبل ، میں صرف حال میں کھڑی ہوں ، مجھ سے بڑھ کر تماشا اللہ نے کسی کا کیا بنایا ہو گا۔ ”
وہ اذیت ناک انداز میں ہنسی۔ فاطمہ کا دل موم کی طرح پگھلنے لگا۔
”شہیر کے ساتھ میں نے زیادتی کی تھی مگر ثمر اور ثانیہ کے بارے میں ، میں نہیں جانتی تھی۔ کاش جان جاتی۔
بہت پہلے۔ پھر شاید یہ سب کچھ نہ ہوتا ۔ میں بیرون ملک جارہی ہوں ۔ دو بارہ کب آؤں گی، نہیں جانتی۔ بس تم سے ایک درخواست ہے میں …میں شہیر سے کبھی ملنے آؤں تو مجھے ملنے دینا۔ میں اس بار تمہاری اجازت سے اس سے ملوں گی۔ ”
اس کے لہجے میں لجاجت تھی۔ فاطمہ نے بے اختیار سرہلادیا۔ شائستہ کی حالت اس وقت قابل رحم تھی۔
شائستہ نے مزید کچھ نہیں کہا۔ اس نے آگے بڑھ کر وہ لفافہ فاطمہ کے ہاتھ میں تھما دیا۔ اور پھر تیز رفتاری سے صحن کا بیرونی دروازہ پار کر گئی۔
فاطمہ وہیں کھڑی اسے دیکھتی رہی۔
٭٭٭
اس نے حیران ہو کر اپنے برابر کے فلیٹ سے نکلنے والی لڑکی کو دیکھا اور چند لمحوں کے لیے جامد ہوگیا۔ یہی حال اس لڑکی کا ہوا تھا مگر یہ سکتہ صرف چند لمحے ہی رہا تھا، وہ مسکرا دی۔
”آپ …یہاں کیسے؟”
”ہم لوگ یہاں کل شفٹ ہوئے ہیں ۔ اور آپ …”اس جملہ ادھورا چھوڑ دیا۔
”ہم ایک ہفتہ پہلے، یہ فلیٹ ہمیںمسز ہارون کمال نے دیا ہے اپنے شوہر کی جائیداد میں سے۔”
صبغہ کے ہونٹوں سے ایک لحظہ کے لیے مسکراہٹ غائب ہوئی تھی۔ وہ ان لوگوں کے ہارون کمال سے رشتہ کے بارے میں جان چکی تھی۔
یہ سب اسے فاطمہ نے بتادیا تھا۔ روشان انہیں لاہور آنے والے دن ہی اس گھر سے کسی دوست کے گھر لے گیا تھا۔ امبر کی آخری رسومات وہیں ادا ہوئی تھیں ۔ اگلے کئی دن اس مقدمہ کے بارے میں سب کچھ اخبارات میں آتا رہا۔ فاطمہ اور شہیر کو امبر کے ساتھ ہونے والے حادثے کے بارے میں اخبارات سے پتا چلا تھا۔
صبغہ کئی دنوں بعد ایک دن فاطمہ کا شکریہ ادا کرنے اس کے پاس گئی تھی اور تب فاطمہ نے اسے سب کچھ بتا دیا تھا۔ وہ خاموشی سے وہاں سے آگئی ۔ اس کا خیال تھا کہ دوبارہ کبھی ان لوگوں کا آمنا سامنا نہیں ہوگا۔
مگر ایک بار پھر وہ لوگ ہمسایوں کے طور پر سامنے آگئے تھے۔
”آپ کیا کر رہی ہیں آج کل ؟” شہیر نے ساتھ چلتے ہوئے صبغہ سے پوچھا ۔
”میں نے پڑھائی دوبارہ شروع کر دی ہے ۔ اب پہلے کی طرح کوئی فناشل کرائس نہیں ہے۔ پایا کے کچھ بینک اکاؤنٹس استعمال کررہے ہیں ۔ رخشی اب آؤٹ آف کورٹ سیٹلمنٹ کی کوشش کررہی ہے۔ چند ماہ تک پراپرٹی کا کیس بھی اسی طرح حل کر لیں گے۔ روشان چاہ رہا تھا کہ میں دوبارہ اپنی اسٹڈیز شروع کر لوں ۔”وہ بتا رہی تھی۔
”آپ کہا ں جارہے ہیں ؟”وہ دونوں اب سیڑھیاں اتر رہے تھے۔
”آفس … آپ کے پاپا اب کیسے ہیں ؟” شہیر نے ساتھ چلتے ہوئے پوچھا۔
”ڈاکٹر علاج کررہے ہیں ۔ کلینک میں ایڈمٹ ہیں۔ ڈاکٹرز کہہ رہے ہیں انہیں ٹھیک ہونے میں بہت وقت لگے گا۔”شہیر نے اس کی آواز میں ہلکی سی افسردگی کی جھلک دیکھی۔
”ثمر اب کیسا ہے؟” صبغہ کو چلتے چلتے یاد آیا۔
”وہ ٹھیک ہے جلد ہی کالج جانے لگے گا۔ اب بھی بعض دفعہ اپ سیٹ ہوجاتا ہے۔ مگر نروس بریک ڈاؤن کے بعد تھوڑا بہت عرصہ تو اس طرح ہونا ہے۔ ایک دفعہ کالج جانے لگے گا تو ٹھیک ہو جائے گا، وہ بہت بہادر ہے۔”
وہ نیچے پارکنگ لاٹ میں آچکے تھے۔
”میں آپ کو ڈراپ کر دیتی ہوں۔”صبغہ نے آفر کی۔
”میں آپ کو زحمت دینا نہیں چاہتا۔ ”صبغہ نے کچھ حیرانی سے اس کے چہرے کو دیکھا۔ ایک لمحہ کے لیے اسے ایک بار پھر ہارون کمال کی یاد آئی تھی۔ ایک لمحہ کے لیے زخم پھر سے ہرے ہوئے تھے۔ پھر اس نے ذہن کو جھٹکا ۔
”نہیں ، مجھے کوئی زحمت نہیں ہوگی۔ مجھے اچھا لگے گا۔ ”
اس نے دوٹوک انداز میں کہا۔ شہیر نے ایک لمحہ کے لیے اسے دیکھا پھر مسکرا دیا۔
”ثانیہ بتا رہی تھی کہ روشان ابھی واپس آئی بی اے نہیں گیا۔ ”ساتھ چلتے ہوئے شہیر کو خیال آیا ۔
”وہ چند دنوں تک چلا جائے گا۔ یہاں بہت سارے معاملات سمیٹنے تھے۔ اسی لیے رکا ہوا تھا۔ میں نے اس سے کہا ہے وہ چلا جائے ۔ یہ سب کچھ تو ہوتا رہے گا۔ ”
شہیر نے ساتھ چلتے ہوئے ایک بار پھر صبغہ کو دیکھا۔ ”آپ کو اگر کسی معاملے میں میری مدد کی ضرورت پڑے تو پلیز تامل مت کریں ۔”
”آپ کو یہ آفر دینے کی ضرورت نہیں ہے۔ پہلے مدد کے لیے کہاں جاتی رہی ہوں؟”
صبغہ نے بے اختیار کہا، دونوں بے اختیار ہنس پڑے ۔
پارکنگ لاٹ دھوپ میں نہا یا ہوا تھا۔
آس پاس لگے درخت اور پودے نئے پتے اور پھول نکال رہے تھے۔ بہار کی ٹھنڈی ہوا کو محسوس کیا جاسکتا تھا۔
زندگی ایک بار ختم ہونے کے بعد ایک بار پھر نئے سرے سے پھوٹ رہی تھی۔
سفر ختم ہوگیا تھا، سفر جاری تھا۔
٭٭٭




Loading

Read Previous

تھوڑا سا آسمان — قسط نمبر ۱۴

Read Next

ٹی وی لاؤنج — ثاقب رحیم خان

Leave a Reply

آپ کا ای میل ایڈریس شائع نہیں کیا جائے گا۔ ضروری خانوں کو * سے نشان زد کیا گیا ہے

error: Content is protected !!