تھوڑا سا آسمان — قسط نمبر ۱۵ (آخری قسط)

”شٹ اپ۔”ہارون نے اس سے کہا۔ ”تم اپنے کمرے میں جاؤ اور جب تک میں نہ کہوں وہیں رہنا وہاں سے باہر مت آنا ۔”ہارون نے نایاب کو دھکیلا ۔
”میں آپ کے گھر میں رہنا نہیں چاہتی ۔ میں ثمر کے ساتھ جانا چاہتی ہوں۔”نایاب نے بلند آواز میں ہارون سے کہا۔
”ثمر !تم نایاب کو تحریری طور پر طلاق دے دو۔”شہیر نے تحکمانہ انداز میں ثمر سے کہا۔
”میں ایسا نہیں کر سکتا I love her(مجھے اس سے محبت ہے)ثمر نے دو ٹوک انداز میں شہیر سے کہا۔
”آپ کون ہوتے ہیں ثمر سے یہ کہنے والے کہ وہ مجھے چھوڑدے۔”نایاب اس بار شہیرسے الجھی۔
”ہم دونوں نے اپنی مرضی سے شادی کی ہے بالکل اسی طرح جس طرح آپ اپنی مرضی سے اپنا گھر چھوڑکر ہمارے گھر رہنے کے لیے آگئے ہیں ۔”شہیر کا چہرہ یک دم سرخ ہو گیا۔
”تم اپنا منہ بند کرو۔”شائستہ نے تیزی سے کہا۔
”اگر آپ کے لیے کورٹ میرج ٹھیک تھی تو میرے لیے کیوں نہیں ۔؟”وہ اب شائستہ سے مخاطب تھی۔
”تمہاری اس بات کا جواب میں بعد میں دوں گا، فی الحال تم فوری طور پر نایاب کو طلاق دو۔”
ہارون ایک بار پھر ثمر کی طرف بڑھا۔ شہیر نے اس کا راستہ روک لیا۔
”آپ اس پر ہاتھ نہیں اٹھا سکتے۔”
”تم اور تمہارا بھائی دونوں ابھی اور اسی وقت یہاں سے نکل جاؤ۔میں اچھی طرح سمجھ چکا ہوں کہ تم لوگ کس طرح کا گیم کھیل رہے ہو۔ تم نے میرا بیٹا ہونے کا ڈھو نگ رچایا اور اس گھر میں آگئے اور یہ تمہارا بھائی، یہ میرا داماد بن کر میرے ٹکروںپر پلنے کے خواب دیکھ ریا ہے۔ باقی رہ گئی تمہاری بہن وہ کل کو میرے بیٹے کو پھانسنے کی کوشش کرے گی پھر رہ جائے گی تمہاری ماں اسے تم میری بیوی بنانے کی کوشش کرنا۔ ”
ہارون کمال نے آخری دو جملے بول کر اپنے پاؤں پر کلہاڑی ماری تھی۔ سارا لحاظ منٹوں میں ختم ہوگیا۔ ثمر بجلی کی رفتار سے شہیر کے پیچھے سے نکلا اور اس نے پوری قوت سے ہارون کے پیٹ میں ٹانگ ماری تھی۔ شہیر نے اسے روکا نہیں ۔ وہ خود ہارون کا گر یبان پکڑے اس کے منہ پر گھونسے مار رہا تھا۔ نایاب اور شائستہ یک دم ساکت ہو کر ہارون کو ان دونوں کے ہاتھوں پٹتے ہوئے دیکھ رہی تھیں اور دونوں میں کسی کو بھی ایک لخطہ کے لیے ہارون سے ہمدردی محسوس نہیں ہو رہی تھی ہارون بری طرح گالیاں بک رہا تھا اور وہ اس وقت صرف یہی کر پا رہا تھا۔
پندرہ منٹ میں اسے ادھ موا اورلہولہان کر کے شہیر برق رفتاری سے اوپر اپنے کمرے میں گیا۔ اس نے چند منٹوں میں اپنا مختصر سامان سمیٹا اور وہ اسی تیز رفتاری سے نیچے آ گیا۔




”آپ دوبارہ ہمارے گھر آنے کی زحمت نہ کریں ۔ میں آپ کا بیٹا نہیں ہوں اگر ہوں بھی تو بھی میں آپ کے گھر آپ کے ساتھ رہنا نہیں چاہتا۔ میں چڑیا گھر میں نہیں رہ سکتا۔”
شہیر کہتے ہوئے ثمر کا بازوپکڑ کر وہا ں سے جانے لگا۔
نایاب لپکتے ہوئے ان کے پیچھے گئی۔ اس بار ثمر نے پلٹ کر نایاب سے کہا۔
”تم ابھی یہی رہو نایاب ! لیکن یہ یقین رکھو کہ میں تمہیں نہیں چھوڑوں گا۔ میں تمہیں کبھی طلاق نہیں دوں گا کم از کم کسی کے کہنے پر نہیں ۔”
نایاب یک دم رک گئی تھی۔ شہیر نے تیز نظروں سے اسے دیکھا مگر کچھ کہا نہیں ۔وہ دونوں لاؤنج کے دروازے سے باہر نکل گئے تھے۔
شائستہ وہیں کھڑی فرش پر ادھ موئے پڑے ہارون کو دیکھتی رہی۔ وہ اسے اسی طرح ہی پیٹنا چاہتی تھی۔ وہ آدمی فرش پر پڑا اس وقت اسے کینچوا لگ رہا تھا۔ وہ اب فرش سے اٹھنے کی کوشش کرتے ہوئے اپنے موبائل سے ایک نمبر ڈائل کرنے کی کوشش کر رہا تھا۔
”میں ان باسٹرڈز کو بتا دوں گا میں نے ساری عمر انہیں جیل میں بند نہ رکھا تو۔”شائستہ نے آگے بڑھ کر اس کے ہاتھ سے موبائل چھین لیا۔ نایاب وہاں سے چلی گئی تھی۔
”کسں کو جیل میں بند رکھو گے اپنے بیٹوں کو…”
”وہ میرا بیٹا نہیں ہے.. ” ہارون اس کی بات کاٹ کر چلایا ۔
”شہیرنہ سہی ثمر تو ہے۔” شائستہ نے زہریلے لہجے میں کہا۔ ہارون نے چونک کر اسے دیکھا۔
”کیا مطلب؟”
”تمہاری بیٹی نے تمہارے اپنے بیٹے کے ساتھ کورٹ میرج کر لی ہے۔ ثمر اور ثانی تمہاری ناجائز اولاد ہیں۔”
شائستہ نے جملے کا اختتام اس گالی سے کیا جو ہارون دیا کرتا تھا ہارون اس کا چہرہ دیکھتا رہ گیا۔
٭٭٭
”یہ سب تمہارا قصور ہے۔ تمہیں کس نے کہا تھا نایاب کے ساتھ کورٹ میرج کرنے کو؟”شہیر ہارون کے گھر سے باہر نکلتے ہی ثمر پر بری طرح برس پڑا۔
”یہ سب آپ کا قصور ہے۔ آپ سے کس نے کہا تھا کہ آپ گھر چھوڑ کر ان کے پاس آجائیں ۔” ثمر نے سڑک پر چلتے ہوئے ترکی بہ ترکی جواب دیا۔
”میں اپنے والدین کے پاس آیا تھا۔” شہیر نے جتانے والے انداز میں کہا۔
”اب تو آپ نے اپنے والدین کو دیکھ لیا نا؟” ثمر نے بھی اسی انداز میں کہا۔
”مگر اس سے یہ حقیقت تو نہیں بدلتی کہ میرے والدین بہر حال وہی ہیں۔”
”ہو سکتاہے’ یہی حقیقت ہو مگر میں اس بات پر یقین کرنے کو تیار نہیں کہ آپ…”
شہیر نے اس کی بات کاٹ دی۔
”اب اس بحث کی گنجائش نہیں کہ وہ میرے والدین ہیں یا نہیں۔ میں ان کا گھر چھوڑ آیا ہوں ۔”
”آپ کو ان کے گھر جانا ہی نہیں چاہیے تھا۔”
”تو پھر وہاں رہتا جہاں مجھے اغوا کر کے رکھا گیا تھا۔” شہیر نے طنزیہ لہجے میں کہا۔
”آپ کو غلط فہمی ہوئی ہے شہیر بھائی! نایاب کی ممی نے آپ سے جھوٹ بولا ہے۔ امی نے آپ کو اغوا نہیں کیا تھا ۔ انہوں نے آپ کو ایک یتیم خانے سے ایڈاپٹ کیا تھا۔”
”میں خود اس یتیم خانے سے ہو کر آیا ہوں’ وہاں میرا کوئی ریکارڈ نہیں ہے۔” شہیر نے بے حد برہمی سے کہا۔
”مگر میں نے امی کے پاس وہ تمام پیپر ز دیکھے ہیں جس میں ان کی ایک دوست نے آپ کو ایڈاپٹ کیا ہے اور مجھے نایاب نے خود بتایا ہے کہ آپ کو اغوا نہیں کیا گیا تھا۔ کچھ وجوہات کی وجہ سے اس کے والدین کو آپ کو اس یتیم خانے میں داخل کروانا پڑا ۔ اس نے مجھے وجوہات نہیں بتائیں ۔ میںنے جاننے پر زیادہ اصرار بھی نہیں کیا لیکن بہر حال سچ یہی ہے کہ. ..”
شہیر نے اس کی بات کاٹ دی۔” نایاب جھوٹ بھی بول سکتی ہے۔”
”یہ بات آپ نایاب سے پوچھ لیجئے گا۔میں نایاب سے آپ کی بات کروادوں گا۔” ثمر نے کہا۔
شہیر کے چہرے کا رنگ بدل گیا ۔ ” نایاب اور اسد مجھے پسند نہیں کرتے ‘ وہ کبھی بھی …”
اس بار ثمر نے شہیر کی بات کاٹ دی۔ ”بات پسند نا پسند کی نہیں ہے۔ مجھے اسد کا پتا نہیں مگر نایاب کو میں بہت اچھی طرح جانتا ہوں ‘ وہ آپ کو ناپسند نہیں کرتی۔ اسے آپ سے اور ہماری فیملی سے ہمدردی ہے کیونکہ اس کا خیال ہے کہ اس کی ممی نے ہمارا گھر توڑ دیا ہے۔ جہاں تک اس یتیم خانے میں آپ کا ریکارڈنہ ہونے کا تعلق ہے تو ریکارڈغائب بھی تو کیا جاسکتا ہے۔”
شہیر نے اس بار کچھ نہ بولا۔ وہ خاموشی سے اس کے ساتھ چلتا رہا پھر اس نے قدرے مدھم آواز میں کہا۔
”مگر امی نے ایک بار بھی مجھے روکنے کی کوشش نہیں کی۔ انہوں نے مجھے جانے دیا۔ ” اس کی آواز میں خفگی کے ساتھ شکوہ بھی تھا۔
”یہ آپ امی سے جاکر پوچھیں۔” ثمر نے کہا۔
”اور تم … تم کو نایاب سے کورٹ میرج کی کیا سوجھی ؟” شہیر کو ایک بار پھر جیسے یاد آیا۔
” بنیادی وجہ تو شاید یہ تھی کہ میں کسی نہ کسی طرح آپ سے رابطہ رکھنا چاہتا تھا مگرمیں نایاب کو بہت پسند کرتا ہوں .. آپ کہہ لیں کہ میں اس سے محبت کرتا ہوں۔”
”تمہارا دماغ خراب ہے۔” شہیر نے اسے بری طرح جھڑکا۔ ”میںنے تمہیں پہلے ہی اس سے میل جول سے روکا تھا۔ مجھے اسی بات کا اندیشہ تھا۔ ہماری اور ان کی کلاس میں بہت فرق ہے ثمر! میںکبھی نہیں چاہوں کا کہ ہارون کمال تمہیں کوئی نقصان پہنچائے۔”
”مگر میں اب نایاب کو نہیں چھوڑ سکتا۔ ” ثمر نے دو ٹوک انداز میں کہا ۔”خاص طور پر اب اس طرح پٹنے کے بعد تو بالکل بھی نہیں۔”
”اور تم وہ سب کچھ سننا پسند کر لوگے جو اس نے آج امی اور ثانی کے بارے میں کہا؟۔”
”میں دوبارہ اس آدمی کی شکل بھی نہیں دیکھوںگا۔ ”ثمر نے اس بار کچھ غراتے ہوئے کہا۔ ”یہ میری حماقت تھی کہ میں نایاب کے ساتھ اس کے گھر چلا گیا۔”
”امی کو تمہاری شادی کا پتہ ہے؟۔” شہیر نے اچانک پوچھا۔
”ہاں۔” ثمر نے کندھے اچکا کر کہا۔
”اور انہوں نے تم سے کچھ نہیں کہا؟” شہیر بے یقینی سے بولا۔
”نہیں ۔” ثمر نے جھوٹ بولا۔ ”اب آپ کوئی اور بات کریں۔”
اس نے شہیر کے مزید کچھ کہنے سے پہلے ہی موضوع بدل دیا۔
شہیر کچھ دیر اسے ناراضی سے دیکھتا رہا مگر پھر کچھ نہ بولا ۔ ان تمام حالات کے باوجود پچھلے تمام دنوں میں پہلی بار ثمر کے ساتھ سڑک پر چلتے ہوئے وہ سکون محسوس کررہا تھا۔ یوںجیسے وہ اپنی بنیاد کی طرف جارہا تھا۔
٭٭٭




Loading

Read Previous

تھوڑا سا آسمان — قسط نمبر ۱۴

Read Next

ٹی وی لاؤنج — ثاقب رحیم خان

Leave a Reply

آپ کا ای میل ایڈریس شائع نہیں کیا جائے گا۔ ضروری خانوں کو * سے نشان زد کیا گیا ہے

error: Content is protected !!