تھوڑا سا آسمان — قسط نمبر ۱۵ (آخری قسط)

اس ڈائمنڈ رنگ پر وہ خون امبر ہی کا تھا۔ اس رات ہارون کمال اسی کو قتل کر کے آیا تھا۔ شائستہ نے ٹھیک اندازہ لگایا تھا مگر بہت دیر سے۔ امبر اپنا گھر چھوڑنے کے بعد سیدھا ہارون کے پاس آئی تھی۔ اور ہارون کے لئے یہ اس کی زندگی کا سب سے اچھادن تھا۔ امبر بے حد اپ سیٹ تھی ۔ وہ بار بار ہارون سے اپنے گھر والوں کے رویے کی شکایت کرتی رہی اور ہارون اس کے گھر والوں کو برا بھلا کہتا رہا۔
وہ سارا دن امبر کو اپنے ساتھ لیے گھومتا رہا۔ پھر شام کے وقت اس فلیٹ پر لے آیا’وہاں امبر تیار ہوئی تھی پھر وہ اسے ایک فائیو اسٹار ہوٹل میں لے گیا۔ اس وقت تک ہارون کمال امبر سے خفیہ شادی کا فیصلہ کر چکا تھا وہ اس سے پہلے امبر کو شادی کے نام پر صرف بہلاتا رہا تھا۔ ‘ مگر اب اسے یہ احساس ہونے لگا تھا کہ اس کے دل میں امبر کے لیے ضرورت سے زیادہ نرم گوشہ ہے۔ وہ اس کے بغیر نہیں رہ سکتا تھااور وہ یہ بھی جانتا تھا کہ شادی نہ کرنے کی صورت میں امبر اس کے پاس کبھی نہیں رہے گی۔ وہ تب تک منصور علی کی جائیداد پر بھی قبضہ کرنے کا منصوبہ بنا چکا تھا۔ اور وہ شادی کے بعد امبر کو اس کے اپنے گھر میں منتقل کرنے کا ارادہ رکھتا تھا۔
ڈنر سے واپسی پر وہ دونوں بے حد خوش تھے۔ ہارون اس کے ساتھ فلیٹ پر واپس آیا اور بہت دیر تک وہاں بیٹھا اس سے باتیں کرنے ہوئے ڈرنکنگ کرتا رہا اور پھر شراب کے نشے میں ہی اس نے امبر سے دست درازی کی کوشش کی’ امبر ناراضی کے عالم میں اٹھ کر بیڈ روم میں چلی گئی۔ ہارون اس کے پیچھے اندر آگیا ۔ دونوں کے درمیان کچھ تلخ کلامی ہوئی۔ ہارون نے رخشی اورمنصور کے تعلق کے حوالے سے کوئی سخت بات کہی جس پر امبر بری طرح مشتعل ہوگئی۔ اس کے اشتعال نے جلتی پر تیل کا کام کیا۔ ہارون کمال نے ایک بار پھر اس سے دست درازی کی کوشش کی ۔ امبر نے پھل کاٹنے والا چاقو مدافعت کے لیے استعمال کیا اور اس کو شش میں ہارون کی پیشانی پر ہلکا سا زخم بھی آیا ۔ امبر ‘ہارون کا خون دیکھ کر بد حواس ہو گئی اور ہارون سے معذرت کرنے لگی’ مگر تب تک پانی سر سے اونچا ہو چکا تھا۔ ہارون غصے سے پاگل ہورہا تھا۔ ان کے درمیان ایک بار پھر ہاتھا پائی شروع ہوگئی۔ امبر بھر پور مزاحمت کر رہی تھی اور اس کی مزاحمت نے ایک طرف ہارون کو حواس باختہ کر دیا تھا۔ غصے میں اس نے امبر کے سر کو پوری طاقت سے دیوار سے ٹکرایا اور اس نے یہ کام کتنی طاقت سے کیا تھا۔ اس کا اس وقت ہارون کو اندازہ نہیں ہوا ۔ وہ پہلی دفعہ ہی دیوار سے سر ٹکرانے کے بعد بے حس و حرکت ہوگئی تھی۔ چند بار اور سر ٹکرانے کے بعد ہارون نے اسے چھوڑ دیا۔ وہ فرش پر گر گئی۔
تب تک ہارون یہی سمجھا تھا کہ وہ بے ہوش ہوگئی ہے۔ وہ اپنے زخمی ماتھے کی بینڈیج کرنے کے لیے واش روم چلا گیا۔ دس پندرہ منٹ وہاں مصروف رہا۔ اس دوران اس کا اشتعال بھی کم ہو چکا تھا۔ وہ واپس کمرے میں آیا تو امبر اسی طرح پڑی تھی اور تب اسے پہلی بار تشویش ہوئی ‘ اس نے امبر کے پاس جا کر اسے ہوش میں لانے کی کوشش کی’ اور تب اس پر یہ ہولناک انکشاف ہوا تھا کہ وہ سانس نہیں لے رہی تھی۔




اس نے امبر کی لاش کو نہر میں پھینکنے کا فیصلہ کیا اور اسی لیے وہ اس اسٹور سے بڑے سائز کا ڈفل بیگ خریدنے گیا۔ اور اس کے بعد اس بیگ میں امبر کی لاش کو ٹھونسنے کے لیے وہ بڑی بے رحمی سے اس کے جسم کی ہڈیاں توڑتا رہا۔ پھر امبر کے کچھ کپڑے اس بیگ میں ٹھونسنے کے بعد اس بیگ کو سیڑھیوں سے گھیسٹتے ہوئے نیچے اپنی گاڑی تک لایا۔ اور شہر سے باہر لے جاکر اس نے اسے نہر میں پھینک دیا۔
وہ امبر کی لاش کو بیگ میں ٹھونسنے سے پہلے اس کے جسم سے وہ سارے زیورات اتار چکا تھا جس سے اس کی شناخت ممکن تھی اور ان میں ڈائمنڈ کی وہ رنگ بھی تھی جو اس نے بڑی جدوجہد سے امبر کی انگلی سے اتاری تھی۔ اور اس جدوجہد میں خون کے چند قطرے اس انگوٹھی پر لگ گئے تھے۔
وہ اگلے دن دوبئی جانے سے پہلے امبر کی جتنی چیزوں کو ضائع کر سکتا تھااس نے انہیں اپنے فلیٹ سے اکٹھا کر کے ضائع کر دیا اس کا خیال تھا کہ اب وہ محفوظ ہو چکا ہے اور منصور کے اس کے فلیٹ پر اچانک پہنچ جانے پر اگر چہ وہ وقتی طور پر حواس باختہ ہوگیا تھا۔ مگر وہ اس وقت مطمئن ہو گیا جب منصور کو اس فلیٹ پر کچھ بھی نہیں ملا۔
٭٭٭
وہ رات فاطمہ اور اس کے بچوں کی زندگی کی بھیانک ترین راتوں میں سے ایک تھی۔ ثمر نے سب کچھ سننے کے بعد کچھ کہے بغیر کورٹ میرج کے پیپرز کے ساتھ ایک کاغذ پر تحریری طور پر طلاق لکھ کے دی تھی۔ شہیر اسی خاموشی سے ان پیپر ز کو کورئیر سروس کے حوالے کر آیا تھا۔
اور وہ چاروں ساری رات اپنی اپنی جگہ جاگتے رہے۔ لیکن انہوں نے ایک دوسرے سے ایک لفظ بھی نہیں کہا وہ نہیں جانتے تھے کہ وہ بھنور میں پھنسے تھے ۔ یا نکلے تھے۔ ان میں سے کسی کے پاس دوسرے کو تسلی دینے کے لیے کچھ نہیں تھا ۔ شاید تسلی بعض حالات میں بہت بے معنی بن کر رہ جاتی ہے۔
٭٭٭
فاطمہ فجر کی نماز کے بعد صحن میں بچھے تخت پر بیٹھ گئی۔ کچھ لمحوں کے بعد شہیر باہر نکل آیا۔ دونوں کے درمیان نظروں کا تبادلہ ہوا پھر شہیر کچھ فاصلے پر اس کے پاس تخت پر بیٹھ گیا۔
”یہ سب کچھ میری غلطی کی وجہ سے ہوا۔ ”فاطمہ جیسے بڑ بڑانے لگی۔ ”میں ساری زندگی تم لوگو ں سے جھوٹ بولتی رہی۔ صرف تم لوگوں سے نہیں ‘ اپنے آپ سے بھی ۔ مجھے تم لوگوں کو یہ حقیقت بہت پہلے بتا دینا چاہیے تھی۔ مگر حقیقت بتانے کے لیے جتنی جرات چاہیے ہوتی ہے’وہ مجھ میں نہیں تھی۔ ”
شہیر نے اس کا چہرہ دیکھا ۔ اس کی آنکھیں مضطرب ‘لیکن خشک تھیں ۔
”آخر میں یہ کیسے کہہ دیتی کہ میں تم لوگوں کی ماں نہیں ہوں ۔ یا پھر شاید میں نے کبھی یہ سوچاہی نہیں کہ میں تمہاری ماں نہیں ہوں ۔ یہ میری غلطی تھی۔
بہت خوف تھے میرے دل میں یہ خوف کہ تم لوگ مجھ سے محبت کرنا چھوڑ دو گے ۔ یہ خوف کہ تم لوگ مجھ سے نفرت کرنے لگوا گے۔ یہ خوف کہ تم لوگ مجھے چھوڑ کر چلے جاؤ گے۔
زندگی نے کبھی مجھے کچھ نہیں دیا۔ محبت ‘دولت ‘خوبصورتی’عزت ہر چیز کے معاملے میں میرا دامن خالی رہا۔ پھر تم تینوں میری زندگی میں آگئے ۔ فاطمہ کے لیے سب کچھ بدل گیا۔ پہلی بار میں نے دوسروں کے لیے جینا سیکھا۔
میں نے ہمیشہ یہی سوچا کہ میرے علاوہ تم تینوں کا کوئی ہے ہی نہیں اور تم تینوں کے علاوہ میرا بھی کوئی نہیں تھا۔ جو چند رشتے تھے وہ میں بہت پیچھے چھوڑ آئی تھی۔ مگر میں نے کبھی یہ نہیں سوچا تھا۔ کہ ایک لمحہ ایسا آئے گا جب میں دوبارہ وہیں پہنچ جاؤں کی جہاں سے چلی تھی۔ میں تھوڑے سے آسمان کے لیے گھر سے نکلی تھی اور پروں کے بغیر اُڑنے کی کوشش کرتی رہی۔ تم لوگ آزاد ہو’ جہاں جانا چاہو جاسکتے ہو۔ زرقا ‘ ثمر اور ثانی کے ساتھ رابطہ رکھنا چاہتی ہے۔ تم پہلے ہی شائستہ کے پاس جاچکے ہو’یہ تم سب کے لیے ٹھیک ہے۔ تم لوگوں کو بھی تھوڑا سا آسمان چاہیے ہو گا۔ اور تم لوگوں کے پاس پر بھی ہیں ۔ تم لوگ جہاں بھی جاؤ گے میری دعائیں تمہارے سا تھ رہیں گی۔ ”وہ خاموش ہوگئی ۔ اس کی آواز میں گہرا دکھ نمایا ں تھا۔
”میں ثمر اور ثانی کے بارے میں نہیں جانتا۔ مگر میں واپس آچکا ہوں اور فی الحال مجھے کہیں نہیں جانا ۔ اور اگر کہیں گیا بھی تو آپ میرے ساتھ ہوں گی۔فی الحال مجھے جاب ڈھونڈنی ہے۔ اور یہ بھی دیکھنا ہے کہ کیا پرانی جاب پر مجھے میری کمپنی رکھ سکتی ہے۔” شہیر نے بالاآخر زبان کھولی۔
وہ بڑے عام سے لہجے میں بات کر رہاتھا۔
فاطمہ بے یقینی سے اس کا چہرہ دیکھنے لگی۔
”میری غلطی تھی کہ میں اس گھر سے یوں چلا گیا۔ لیکن آپ سے مجھے بہت شکایت ہے۔ آپ نے کتنی آسانی سے مجھے جانے دیا۔ مجھے روکاہی نہیں۔ ”
”میں نے روکا تھا۔ ”فاطمہ نے بے اختیار کہا۔
”اس طرح؟”
پھر کس طرح ؟”
”آپ میرے چہرے پر ایک زوردار تھپڑ مارتیں اورکہتیں ۔ خبردار یہاں سے باہر قدم نکالا تو۔ ”وہ سنجیدگی سے کہہ رہا تھا۔
”پھر کیا ہوتا؟” فاطمہ بے اختیار بولی۔
”میں کبھی نہ جاتا ۔ ”شہیر نے کہا۔
چند لمحے وہ اور فاطمہ دونوں ایک دوسرے کی آنکھوں میں ڈالے ایک دوسرے کو دیکھتے رہے پھر فاطمہ نے اچانک ایک زوردار تھپڑ شہیر کے گال پر مارا تھا۔ شہیر نے بے یقینی سے اپنے گال پر ہاتھ رکھ لیا تھپڑ واقعی بہت زور دار تھا۔
”خبر دار تم آئندہ کبھی یہاں سے گئے تو۔”فاطمہ بھیگی ہوئی آنکھوں کے ساتھ بولی۔
”اوکے. . ”شہیر بھرائی ہوئی آواز میں بولا ۔ پھروہ ننھے بچے کی طرح فاطمہ سے لپٹ گیا۔۔ وہ دونوں اب بے آواز رو رہے تھے۔
٭٭٭
”کیا ہوا دونوں کیسز کا؟”اے ایس پی تھوڑی دیر پہلے ہی ایس پی کے کمرے میں آیا تھا اور اس کے بیٹھتے ہی ایس پی نے اس سے پوچھا تھا۔
”سر!نہر میں چھلانگ لگانے والی لڑکی کا نام امبر تھاوہ تو اب ٹھیک ہے۔ میں نے اس کے ہوش میں آنے کے بعد اس سے اس کے گھر کا پتہ لیا اور اس کے ماں باپ سے رابطہ کیا۔ وہ لڑکی کہیں پسند کی شادی کرنا چاہتی تھی اور والدین کے نہ ماننے پر اس نے ناراضی میں گھر چھوڑ دیا اور خودکشی کی کوشش کی۔ میں نے اس کے والدین کو بھی سمجھایا ہے اور اسے بھی ۔ پھر میں نے اسے والدین کے ساتھ گھر بھیجوا دیا۔”
”گڈ. . .لیکن چند ماہ ان کے ساتھ رابطہ رکھنا۔ یہ نہ ہو کہ دوبارہ کوئی مسئلہ کھڑا ہو جائے۔”ایس پی نے ہدایت دی۔
”نہیں سر! رابطے میں رہوں گا۔ اس کے والدین کہہ رہے تھے کہ وہ اس کی پسند سے ہی اس کی شادی کردیں گے۔ ”
”ٹھیک ہے۔ اور وہ لاش. . .”ایس پی نے بات ادھوری چھوڑی ۔
”سر ! اس لڑکی کا نام بھی امبر تھا۔ مگر آپ کی دی ہوئی Tipsکے مطابق جب میں نے معاملے کی تحقیق کی تو بہت دھماکہ خیز صورت حال سامنے آئی ہے۔ اس لڑکی کا نام امبر منصور علی تھا اور وہ ایک کروڑپتی بزنس مین کی بیٹی تھی۔ ”
ایس پی اپنی کرسی پر سیدھا ہو گیا۔ اس کے چہرے پر ایک دم دلچسپی کے آثار ابھرے تھے۔
”اور جس ہارون کمال کے کریڈٹ کارڈ سے وہ بیگ خریدا گیا تھا وہ چیمبر آف کامرس کا صدر ہے۔وہ اس معاملے میں انوالو ہے۔ اس نے اور اس کے بیٹے نے اس لاش کو پہچان لیا ہے مگر وہ یہ کہہ رہا ہے۔کہ وہ اس لڑکی کے ساتھ دوسری شادی کرنا چاہتا تھا۔ اور یہ لڑکی اس کے لیے گھر چھوڑ آئی تھی۔ اس لیے اس کے باپ نے اسے قتل کردیا۔”
ایس پی بے حد سنجیدگی سے سن رہا تھا۔ وہ بہت اچھی طرح جانتا تھا کہ یہ کیس جلد ہی اخبارات کی ہیڈلائنز میں آنے والا ہے۔ اس کے کیریر کے لئے ایک بہترین موقع تھا۔ اب وقت تھاکہ وہ اس اے ایس پی سے سارے معاملات اپنے ہاتھ میں لے لیتا۔ کیونکہ اب پھل کھانے کا وقت آگیاتھا۔
”مجھے لگتاہے مجھے اب اس کیس کو خود دیکھنا چاہیے۔ کیونکہ معاملات بہت نازک ہیں اور جو دو بڑے خاندان اس میں انوالو ہیں. . ”ایس پی نے اپنے سامنے رکھی فائل پر نظر دوڑاتے ہوئے کہا۔
اے ایس پی یک دم بے حد مایوس نظر آیا ۔ اس کا خیال تھا اپنے کیریر کے آغاز میں ہی اتنا بڑا کیس مل جانا بڑی خوش قسمتی کی بات تھی اور اس کی اے سی آر بہت اچھی بن جاتی۔




Loading

Read Previous

تھوڑا سا آسمان — قسط نمبر ۱۴

Read Next

ٹی وی لاؤنج — ثاقب رحیم خان

Leave a Reply

آپ کا ای میل ایڈریس شائع نہیں کیا جائے گا۔ ضروری خانوں کو * سے نشان زد کیا گیا ہے

error: Content is protected !!