تھوڑا سا آسمان — قسط نمبر ۱۵ (آخری قسط)

”کیا ہوا ؟ آپ لوگ پریشان کیوں ہیں ؟یہ کون ہیں ؟”
ثمر نے ایک ہی سانس میں سارے سوال کر ڈالے ۔ وہ آگے بڑھ کر کمرے میں آ گیا تھا ۔ فاطمہ نے اس کے عقب میں کھڑے شہیر کو دیکھا۔ شہیر نے نظریں چرالیں۔
”یہ تمہاری ماں ہے۔” فاطمہ نے مدھم آواز میں کہا تھا۔ ثمر کے ماتھے پر پسینہ آگیا۔ اس کے حلق میں یک دم کوئی چیز پھنسنے لگی تھی۔ اس نے بے یقینی سے زرقا کو دیکھا پھر فاطمہ کو. . .
دونوں کی آنکھیں بھیگی ہوئی تھیں مگر ثمر ان دونوں میں سے صرف ایک عورت کو اچھی طرح جانتا تھا۔ دوسری اس کے لیے صرف ایک گلوکارہ تھی’ وہ بھی ایسی جسے سننے میں اسے کبھی کوئی دلچسپی نہیں رہی تھی۔
زرقا اپنی جگہ سے اٹھ کھڑی ہوئی ۔ ثمر کے عقب میں کھڑا شہیر بھی ساکت تھا۔ اس کی سمجھ میں نہیں آرہا کہ وہ کیا کرے ۔
”گھبراؤ مت ثمر ! میں تمہیں لینے نہیں آئی ہوں ‘ کوئی دعوا کرنے بھی نہیں آئی ۔ صرف ملنے آئی ہوں ‘ وہ بھی صرف اس لیے کہ کہیں تم کوئی غلطی نہ کر بیٹھو۔”
ثمر نے چبھتی ہوئی نظروں سے زرقا کو دیکھا۔ اسے اس عورت کی نصیحتوں میں کوئی دلچسپی نہیں تھی جو خود ”گناہ” کرنے کے بعد اسے ”غلطی” سے بچانے کے لیے آئی تھی۔ کوڑے کے ڈھیر پر ”پھینکے”جانے والے بچوں سے ”ملنے” آئی تھی۔
”آپ یہاں سے چلی جائیں ‘ میں آپ کے ساتھ بدتمیزی کرنا چاہتا ہوں ‘نہ مجھے آپ سے کوئی سوال کرنے کی ضرورت ہے۔ صرف آپ کو یہ بتانا چاہتا ہوں کہ میں یہاں اس گھر میں اپنی ماں اور بہن ‘بھائی کے ساتھ بہت خوش ہوں ۔
مجھے آپ کی ضرورت نہیں ہے۔ آپ میری زندگی سے باہر رہیں ۔ ”ثمر نے بے حد تلخ انداز میں کہا۔
زرقا نے نم آنکھوں کے ساتھ اسے دیکھا پھر نقاب سے اپنا چہرہ ڈھانپتے ہوئے کمرے سے باہر نکل گئی۔
ثمر ! تم نایاب کو ابھی اور اسی وقت طلاق دے دو۔”
فاطمہ نے زرقا کے کمرے سے نکلتے ہی ثمر سے کہا۔
ثمر نے بے حد ناراضی سے فاطمہ کی طرف دیکھا۔ ”کیوں ؟”
اسے اندازہ نہیں تھا کہ اس کیوں کا جواب اس کے سر پر آسمان گرادے گا۔
”کیونکہ وہ تمہاری بہن ہے۔ ”
٭٭٭




”بات سنو اسد ! تم کہاں جارہے ہو ؟”
شائستہ نے اسد کو پکارا ‘ جو چند لمحے پہلے ہی لاؤنج میں داخل ہوا تھا اور اب سیدھا سیڑھیاں چڑھتے ہوئے اوپر جا رہا تھا۔ اس کے چہرے کے تاثرات بے حد عجیب سے تھے۔
”میں آپ کا اور آپ کے شوہر کا گھر چھوڑ رہا ہوں ۔ اپنا سامان پیک کرنے جارہا ہوں ۔ ”
اسد نے سیڑھیوں پر رک کر بے حد ناراضی کے عالم میں شائستہ سے کہا ۔ شائستہ سمجھ نہیں سکی کہ اسد کو ثمر اور ثانی کے بارے میں کیسے پتہ چلا تھا۔ وہ یہی سمجھی تھی کہ اسد کو ثمر اور ثانی کے بارے میں پتہ چل گیا ہے اور وہ اسی کی وجہ سے ناراض ہو کر گھر چھوڑنے کا کہہ رہا ہے۔
”اسد !پلیز بات سنو۔ ابھی تمہارا یہاں سے جانا ٹھیک نہیں ہے۔ ”شائستہ نے منت بھرے انداز میں اسے مخاطب کیا ۔ اسد نے بے حد تنفر سے اس کی طرف دیکھا۔
”شاید تمہیں معلوم نہیں ہے کہ نایاب نے ثمر سے شادی کر لی ہے۔ ”
اسد یک دم چونکا۔ ”کس سے شادی کرلی ہے؟”
”ثمر سے۔ ”
”مائی فٹ . . . اچھا کیا اس نے شادی کر لی۔ میری طرح اس کو بھی اس گھر سے چلے جانا چاہیے۔ یہ گھر اس قابل نہیں ہے کہ یہاں رہا جا سکے۔”
شائستہ کو اچانک اندازہ ہوا کہ وہ ثمر اور ثانی کو نہیں جانتا۔
”تم ثمر اور ثانی کے بارے میں جانتے ہو ؟” اس نے اپنے اندازے کی تصدیق چاہی۔
”مجھے کسی میں بھی کوئی دلچسپی نہیں ہے۔ ”
”تمہیں دلچسپی لینا چاہیے ‘ اس وقت اس فیملی کو تمہاری ضرورت ہے۔ ” شائستہ نے نرمی سے کہا۔
”میں جانتا ہوں اس وقت اس فیملی کو میری ضرورت ہے۔ آپ کے شوہر نے اپنے آپ کوجس مصیبت میں پھنسا لیا ہے۔ اس سے انہیں کوئی نہیں نکال سکتا ۔ کم از کم میں تو نہیں۔ اور میں انہیں نکالنا چاہتا بھی نہیں ۔ میری خواہش ہے کہ وہ اپنی باقی کی ساری عمرجیل میں گزاریں ۔”
”تم کیا بات کر رہے ہو؟” شائستہ نے کچھ الجھ کر اسد سے کہا۔ ”یہاں جیل کا کیا ذکر ہے؟”
”اپنے شوہر سے پوچھیں کہ میں کیا بات کر رہا ہوں ۔ وہ آپ کو زیادہ اچھی طرح سمجھا سکیں گے۔ ”
”تم کہنا کیا چاہ رہے ہو۔ کھل کر کہو۔” شائستہ مزید الجھی ۔
”کیا بتاؤں آپ کوکھل کر ؟ یہ کہ میرے باپ نے اس لڑکی کا مرڈر کر دیا ہے ۔ جس سے میں محبت کر تا تھا۔ جس سے شادی کرنا چاہتا تھا۔ ”
شائستہ کا منہ کھلے کا کھلا رہ گیا۔
”یا پھر یہ بتاؤں کہ آپ کے شوہر کے امبر کے ساتھ تعلقات تھے اور وہ اس سے بہت جلد شادی کرنے والاتھا۔”
”تم کیا کہہ رہے ہو۔ میری کچھ سمجھ میں نہیں آرہا ۔ ”شائستہ کو دن میں دوسری بار ٹھنڈے پسینے آئے تھے۔
”تفصیلات اپنے شوہر سے پوچھیے گا۔ میں صرف آپ کو اتنا بتا سکتا ہوں کہ آپ کے شوہر نے امبر کو مار ڈالا ہے اور پولیس اب اس کیس کو Investigateکر رہی ہے۔ آپ کا شوہر اس قتل کا الزام منصور علی کے سر پر ڈالنے کی کوشش کر رہا ہے۔ مگر میرے لیے یہ بات اہمیت نہیں رکھتی۔ اسے منصور علی نے مارا یا ہارون کمال نے۔ مجھے صرف اس بات کا افسوس ہے کہ میرا باپ اس لڑکی تک کو نہیں چھوڑ سکا۔ جس سے اس کا بیٹا محبت کرتا تھا۔
شائستہ یک دم صوفے پر گر گئی۔
”آپ اور آپ کا شوہر دونوں جانور ہیں ‘ جن کی کوئی ویلیوز نہیں ہوتیں ۔ ورنہ انسان تو. . .”اس کے لہجے میں بے پناہ نفرت تھی۔
”مجھے تو آپ دونوں کے ساتھ کوئی رشتہ ظاہر کرتے ہوئے بھی شرم محسوس ہوتی ہے۔ یہ تھی امبر کو مسترد کرنے کی وجہ۔” وہ زہریلے انداز میں ہنسا۔ ”کیونکہ آپ اسے اپنے شوہر کا شکاربنانا چاہتی تھیں ۔ ہارون کمال کو وہ بہو کے طور پر ناپسند تھی۔ بیوی کے طور پر قبول تھی۔ بلکہ بیوی بھی نہیں کچھ اور کہنا چاہیے۔ ”
بات کرتے ہوئے یکدم اسد کی نظر دور کوریڈور میں کھڑے ہارون کمال پر پڑی ۔ جو کچھ دیر پہلے اپنے کمرے سے نکل کرآیا تھا۔ اور خاموشی سے کھڑا ساری باتیں سن رہا تھا۔اسد سے نظریں ملیں تو فوراً بول اٹھا۔
”میں نے اس کا مرڈر نہیں کیا ۔”وہ چند قدم آگے بڑھ آیا ۔
”تم یقین کروا سد !میں نے اس کا مرڈر نہیں کیا۔ ”
ہارون نے شاید زندگی میں پہلی بار گڑگڑا کر کہا تھا۔
”وہ تمہاری بیٹی کے بر ابر تھی۔ ”اسد دھاڑا ۔ اس کا چہرہ سرخ ہو گیاتھا۔
ہارون کمال اپنی جگہ سے ہل نہیں سکا۔ اس نے کہاں کبھی کسی کو خود پر چلاتے ہوئے سنا تھا۔ اسد نے باپ کو دیکھ کر نیچے لاؤنج میں تھوکا اور سیڑھیاں چڑھتے ہوئے اوپر چلا گیا۔
شائستہ پتھر کے بت کی طرح صوفے پر بیٹھی تھی۔ ہارون آگے بڑھ کر پنجوں کے بل اس کے بالمقابل فرش پر بیٹھ گیا۔
”میں قسم کھاتا ہوں شائستہ ! میں نے اسے قتل نہیں کیا۔ ”شائستہ پلکیں جھپکائے بغیر اسے دیکھتی رہی۔
”ہاں یہ ٹھیک ہے کہ میرے اس سے تعلقات تھے مگر امبر خود میرے پیچھے آئی تھی۔ اس نے مجھے ٹریپ کیا تھا۔
وہ میرے فلیٹ پر بھی ٹھہری ہوئی تھی۔ مگر میں نے اسے قتل نہیں کیا۔ یہ کام منصور علی نے کیا ہے۔ وہ وہاں آیاتھا۔ وہ وہاں ٹھہرا بھی تھا ۔میں تو سمجھ رہا تھا کہ وہ اپنے باپ کے ساتھ چلی گئی ہے۔ میں نے تو بہت دنوں سے اسے دیکھا تک نہیں تھا ۔ اور اب پولیس کو یک دم اس کی لاش نہر سے ملی ہے۔ ”
شائستہ اس کا چہرہ دیکھ رہی تھی۔ اسے ایک لمحہ کے لیے بھی شبہ نہیں ہوا تھا کہ وہ ایک جھوٹے کا چہرہ نہیں تھا۔
”مگر میں نے پولیس کو سب کچھ بتا دیا ہے ۔ پولیس کو منصور علی کے فنگر پرنٹس ملے ہیں ‘ میرے فلیٹ سے۔ ”
شائستہ کو یاد آیا بہت سال پہلے اس کے باپ نے ہارون کے بارے میں کہا تھا۔
”یہ حرام پر پلنے والا آدمی ہے’ تم زندگی میں کبھی اس سے حلال کی توقع مت رکھنا۔”
اس وقت اسے اپنا باپ بے و قوف لگا تھا۔ اس کی آنکھوں پر ہارون کمال کی محبت کی پٹی بندھی ہوئی تھی۔ وہ اس کی شکل و صورت ‘ اس کی شخصیت ‘اس کے لباس’ اس کے رکھ رکھاؤ ‘ اس کے کیریر کو دیکھ رہی تھی۔ وہ اس کی چرب زبانی سے متاثر ہوگئی تھی۔ وہ اس بری طرح اس کے عشق میں مبتلا ہوئی تھی کہ اس نے باقی ہر چیز کی طرف سے آنکھیں بند کر لی تھیں ۔ چوبیس سال بعد ہارون مٹی کے ڈھیر کی طرح اس کے قدموں میں پڑا پھر اس سے اپنا ساتھ دینے کی بھیک مانگ رہا تھا۔ اس بار بھی اس کی زبان پر جھوٹ تھے۔ اس بار بھی اس کے چہرے پرماسک تھا۔ اس بار بھی وہ اسے فریب ہی دے رہا تھا۔
زندگی میں پہلی بار اسے محسوس ہوا جیسے اسے اپنے ماں باپ کی بد دعا لگی تھی جو ہارون کمال جیسا آدمی اس کی زندگی میں آیا یا وہ اس کی زندگی میں آئی۔
”مجھے تمہاری مدد کی ضرورت ہے’ صرف تم ہو جو یہ بات جانتی ہو کہ میں بے گناہ ہوں ‘صرف تم ہو شائستہ جو زندگی کے اس مشکل مرحلے پہ میرا ساتھ دے سکتی ہو۔ میں تمہارے علاوہ کسی اور پر اعتبار نہیں کر سکتا’ اور تم جانتی ہو میں بے گناہ ہوں۔ تمہارا ہارون کمال قتل نہیں کر سکتا۔”
اچانک شائستہ نے پوری قوت سے اس کے چہرے پر تھپڑ مارا تھا۔ ہارون کو یقین نہیں آیا کہ وہ اس پر ہاتھ اٹھا سکتی ہے۔
”تو اس ڈائمنڈ رِنگ پر وہ خون امبر کا تھا’ اس رات تم اس کو قتل کر کے آئے تھے۔ ”
ہارون سانس روکے بے حس و حرکت اسے دیکھتا رہا۔
٭٭٭




Loading

Read Previous

تھوڑا سا آسمان — قسط نمبر ۱۴

Read Next

ٹی وی لاؤنج — ثاقب رحیم خان

Leave a Reply

آپ کا ای میل ایڈریس شائع نہیں کیا جائے گا۔ ضروری خانوں کو * سے نشان زد کیا گیا ہے

error: Content is protected !!