بلڈنگ کی پارکنگ میں ہی گارڈ نے اسے بتا دیا تھا۔
”ہارون صاحب تو ابھی آدھا گھنٹہ ہوا ‘ یہاں سے گئے ہیں۔”
”کہاں گئے ہیں ؟وہ کچھ مایوس ہوا۔
”پتا نہیں صاحب !”گارڈ نے لاعلمی کا اظہار کیا۔ منصور قدرے مایوس ہوا دوبارہ گاڑی کی طرف جاتے جاتے رک گیا۔ ہارون اسے وہاں نہیں ملا تھا۔ مگر کم از کم وہ رات وہاں آرام سے کسی قسم کے سوال جواب کا سامنا کیے بغیر گزار سکتا تھا۔ نہ صرف یہ بلکہ وہ ہارون کے اپارٹمنٹ پر اپنی مرضی کی شراب سے بھی استفادہ کر سکتا تھا۔ اگرچہ منصور کوئی عادی شراب نوش نہیں تھا مگر ہارون اور رخشی کی کمپنی میں اس نے وقتاً فوقتاً الکحل کا استعمال شروع کر دیا تھا اور اس پریشانی میں بھی اسے اس وقت جس چیز کی شدت سے طلب ہو رہی تھی وہ شراب ہی تھی۔ہارون کے ملازم نے اپارٹمنٹ کا دروازہ کھولتے ہی سلام کر کے اسے اندر آنے کا راستہ دیا مگر اس کی آنکھوں میں منصور کو وہاں اکیلا آتے دیکھ کر کچھ حیرت ضرور جھلکی تھی۔
”ہارون کے دوبارہ یہاں آنے کا کچھ پتا ہے؟”منصور نے لاؤنج کے صوفے پربیٹھتے ہوتے ہوئے کہا۔
”نہیں صاحب آج رات تو دوبارہ نہیں آئیں گے ”ملازم نے بتایا۔
”کسی لڑکی کیساتھ آیا تھا؟منصور نے اسے بیئر لانے کا کہتے ہوئے پتا نہیں کس خیال کے تحت پوچھا۔
”جی…لڑکی کے ساتھ آئے تھے مگر وہ لڑکی کچھ دیر کے بعد چلی گئی…صاحب یہاں سے اپنا بیگ پیک کر کے لے گئے ہیں۔ ”ملازم نے فریج سے اسے بئیر لا کر دیتے ہوئے کہا۔
”بیگ؟…کس لیے؟”منصور بے اختیار چونکا ۔”کس لڑکی کے ساتھ آیا تھاا پنی سیکرٹری کے ساتھ ؟”منصور کو یک دم خدشہ ہوا کہ کہیں ہارون کمال اپنی سیکرٹری کے ساتھ کہیں چلا نہ گیا ہو۔
”نہیں ‘ ان کی سیکرٹری نہیں تھی۔ ”ملازم نے کہا۔”میں نے اس لڑکی کو پہلی بار دیکھا تھا۔ ”
”کہیں فلائٹ تو نہیں تھی اس کی ؟منصور نے بیئر کا سپ لیتے ہوئے پوچھا ۔ بیگ کے ذکر نے اسے یک دم پریشان کر دیا تھا۔ اس فلیٹ میں بیگ کا کیا کام تھا۔
پتہ نہیں ۔صاحب نے بتایا تو نہیں…رات بھر کے لیے کسی دوسرے شہر جارہے ہوں تو مجھے پتہ نہیں ۔”ملازم نے کچھ سوچتے ہوئے کہا۔
”مگر کہہ رہے تھے کہ کل دوبارہ فلیٹ پر آئیں گے۔ مجھ سے تو یہ بھی کہا تھا انہوں نے کہ میں ان کی عدم موجودگی میں کسی کو اس فلیٹ پر نہ آنے دوں ۔”ملازم نے منصور کو بتایا ۔ اس کا لہجہ اس بار دھیما تھا۔
”مگر میں آپ کو روک نہیں سکا ۔ کیونکہ صاحب نے آپ کا نام نہیں لیا تھا۔ شکیل اور فاروق صاحب کے بارے میں تاکید کر رہے تھے۔”
منصور بیئر کے گھونٹ لیتے ہوئے کسی دلچسپی کے بغیر ملازم کی باتیں سن رہا تھا۔ اس کا ذہن اس وقت کہیں اور الجھا ہوا تھا۔ ”آپ کا نام نہیں لیا انہوں نے اس لیے میں نے آپ کو آنے دیا۔ اپنا بیڈ روم بھی لاک کر کے گئے ہیں۔”صاحب !آپ رات ٹھہریں گے یہاں ؟”ملازم نے بات کرتے کرتے یک دم منصور کی عدم دلچسپی محسوس کرتے ہوئے پوچھا۔
”ہاں’دوسرا بیڈ روم میرے لیے کھول دو۔ میں تو پہلے بھی ہارون کا بیڈروم استعمال نہیں کرتا تھا۔ ”منصور نے کہتے ہوئے اور ایک بار پھر ہارون کے موبائل پر کال کرنے لگا۔ مگر اب اسے یہ اطمینان تھا کہ ہارون کہیں نہیں جا رہا تھا۔ وہ آج رات اس سے نہ بھی مل پاتا تو اگلی صبح تو اس سے ملاقات یقینی تھی۔
موبائل اس بار بھی آف تھا۔ وہ بے اختیار جھنجھلا یا آخر وہ موبائل کو اس طرح آف کیوں رکھے ہوئے تھا۔ بیئر کاکین وہ چند گھونٹوں میں خالی کر چکا تھا۔ ملازم اب اس کے لیے کمرہ تیار کر رہا تھا۔ منصور فریج سے بیئر کا ایک اور کین نکال کر دوسرے بیڈ روم میںچلا آیا۔
”آپ کو صبح کتنے بجے جگاؤں ؟”ملازم نے کمرے سے باہر نکلتے ہوئے منصور سے پوچھا۔
”اس کی ضرورت نہیں۔میں خود جاگ جاؤں گا۔ ”منصور نے کہا۔ ملازم دروازہ بند کر کے باہر نکل گیا۔
یک دم منصور کے دل میں نہانے کی خواہش پیدا ہوئی تھی۔ ڈریسنگ روم میں وارڈ روب میں لٹکے چند شلوار قمیض میں سے ایک نکال کر وہ باتھ روم میں چلا آیا۔ باتھ روم کی لائٹ آن کرتے ہی وہ چونکا تھا۔ اس اپارٹمنٹ کا یہ باتھ روم مشترکہ تھا اور اس وقت اس باتھ روم میں نیلے رنگ کا ایک خوب صورت زنانہ کرتہ اور ٹراؤزر لٹکا ہوا تھا۔ باتھ روم میں کوئی بہت ہی مانوس زنانہ پرفیوم کی مہک محسوس کی جا سکتی تھی ۔ یقینا پرفیوم کی مہک کی وہ لپٹیں اسی لباس سے اُٹھ رہی تھیں ۔ منصور نے جگہ نہ پا کر اپنا شلوار قمیض ٹاول اسٹینڈ پر لٹکا دیا تھا۔
اس نے ایک گہرا سانس لے کر اس پرفیوم کو شناخت کرنے کی کوشش کی مگر وہ ناکام رہا ۔ وہ ذہنی طور اس وقت رخشی اور اس کے بوائے فرینڈ میں اتنا الجھا ہوا تھا کہ اس پرفیوم کو بھی شناخت نہیں کر سکا جو امبردن رات استعمال کیا کرتی تھی اور جسے وہ خود بیرون ملک سے بار ہالا کر امبر کو دیتا رہا تھا۔
اس نے سر سے اس پرفیوم کو جھٹکا اور واش بیسن کی طرف بڑھ آیا ۔وہ ایک بار پھر چونکا تھا ۔ واش بیسن کے قریب سلیب پر کاسمیٹکس کی چند چیزیں بکھری ہوئی تھیں۔ اس کی نظریں لپ اسٹک پر ٹک گئیں ۔ اسے استعمال کرنے والی نے استعمال کرنے کے بعد اس کا ڈھکن لگا نا تو دور کی بات اسے بند کرنا بھی ضروری نہیں سمجھا تھا۔ وہ یک ٹک اس لپ اسٹک کو دیکھتا رہا اس بار ایک دھما کے کے ساتھ اسے امبر یاد آئی تھی۔ اس نے لپ اسٹک ہاتھ میں اٹھا لی۔ یہ امبر کی خاص عادت تھی۔ منصور کئی بار اپنی گاڑی اور اس کے بیڈروم میں اسے لپ اسٹک کو اس طرح استعمال کے بعد چھوڑ جانے پر ٹوک چکا تھا۔ مگر امبر نے کبھی اپنی عادت نہیں چھوڑی ۔
منصور نے لپ اسٹک اٹھا کر بند کرنا سیکھ لیا تھا۔ اس وقت بھی اس نے لاشعوری طور پر یہی کیا تھا۔ وہ اسے بہت غلط وقت پر اور غلط جگہ پر یاد آئی تھی اس نے کسی خلش کے تحت بے اختیارہوتے ہوئے لپ اسٹک کو دوبارہ دوسرے کاسمیٹکس کے پاس رکھ دیا ۔ وہ اب واش بیسن کانل کھولتے ہوئے اپنے منہ پر پانی کے چھینٹے مار رہا تھا۔
امبر اسے واقعی بہت غلط جگہ پر اور غلط وقت پر یاد آئی تھی۔
٭٭٭
”آپ کے سامنے اس نے کہا تھا کہ وہ مجھے تنگ کرنے کے لیے یہاں آئی ہے۔ نہ تو میں نے اسے ایڈریس دیا تھا اور نہ ہی اسے یہاں آنے کی دعوت دی تھی۔ ”
ثمر گھر آنے کے بعد اب فاطمہ اور شہیر کو صفائیاں دینے میں مصروف تھا۔
”اور امی !آپ کو اس کے آنے پر اعتراض تھا تو آپ اس کے سامنے کہہ دیتیں ۔”ثمر نے فاطمہ سے گلہ کیا۔
”اس کے سامنے تو آپ کہہ رہی تھیں کہ آپ کو اس کے یہاں آنے پر کوئی اعتراض نہیں ہے۔ بلکہ آپ خوش ہوئی ہیں۔ ”وہ جیسے اسے یاد دلا رہا تھا۔
”تو میں کیا کہتی اس سے کہ ہمیں اس کا آنا بہت برا لگا ہے اور اسے یہاں آنا ہی نہیں چاہیے تھا۔ فاطمہ ناراضی سے بولی۔”
”ہاں’کہہ دیتیں اس سے کم از کم میں تو اس بے عزتی سے بچ جاتا ۔ ”ثمر جھنجھلا کر بولا ۔
”میرے بجائے اس کی بے عزتی کرتیں تو وہ دوبارہ کبھی یہاں نہ آتی اوراسے بھی پتا چلتا کہ ہم کس طرح کے لوگ ہیں۔”
”کس طرح کے لوگ ہیں ہم؟”فاطمہ اس کی بات پر بگڑی ۔ تم کیا بتانا چاہ رہے ہو مجھے؟”
”میں کچھ بتانانہیں چاہ رہا ۔ میں نے اسے منع کر دیا ہے ۔آئندہ وہ یہاں نہیں آئے گی۔”ثمر نے جیسے بات ختم کرتے ہوئے کہا ۔ مگر اس وقت وہ ان دونوں کی تفتیش پر واقعی چڑ رہا تھا۔
”خیر اس کے رویے سے مجھے قطعاً ایسا نہیں لگا کہ وہ دوبارہ یہاں نہیں آئے گی۔ ”شہیر کے ماتھے کے بل اب بھی کم نہ ہوئے تھے۔
بلکہ وہ تو جتنی خوشی کے ساتھ یہاں آئی تھی’ اس سے زیادہ خوشی کے ساتھ یہاں سے رخصت ہوئی ہے۔ اور دوبارہ جلد آنے کا وعدہ بھی کر گئی ہے اور تم کہہ رہے ہو کہ وہ دوبارہ یہاں نہیں آئے گی۔ ”
”میں کہتی ہوں ‘آخر اس سے اتنی بے تکلفی پیدا کرنے کی ضرورت کیا تھی کہ وہ اس طرح اس حلیے میں یہاں چلی آئی۔’فاطمہ نے کہا۔
”امی!وہ خاص طور پر یہ حلیہ بنا کر یہاں نہیں آئی۔ وہ اسی طرح کے کپڑے پہنتی ہے۔ ”ثمر نے اس کی صفائی دی۔
”پہنتی ہے تو پہنے مگر کسی کے گھرجاتے ہوئے تو ڈھنگ کے کپڑے پہن لے۔”
”آپ کا مطلب ہے کہ وہ شلوار قمیض میں یہاں آتی تو آپ دروازے پر ہار پھول لے کر اس کا استقبال کرتیں اور اس کی رخصتی کے بعد میری اس طرح کی عزت افزائی نہ ہوتی؟۔”ثمر نے جیسے چیلنج کرنے والے انداز میں کہا۔
فاطمہ فوری طورپر ثمر کی بات کا جواب نہیں دے سکی۔ اس وقت ثانی نے پہلی بار گفتگو میںحصہ لیا۔
”امی صحیح کہہ رہی ہیں ۔ کم از کم اسے اس علاقے میں آتے ہوئے اپنے لباس کا خیال رکھنا چاہیے تھا۔ ”ثمر نے کاٹ کھانے والی نظروں سے ثانی کو دیکھا ۔ کم از کم وہ اس سے اس وقت اس طرح کی بات کی توقع نہیں کر رہا تھا۔
”اچھا تو پھر تم کوئی برقع یا چادر نکال کر اسے زبردستی پہنا دیتیں۔”
”میںکیوں پہناتی میری کیا لگتی ہے وہ ؟”ثانی نے کچھ چھبتی ہوئی نظروں سے ثمر کو دیکھتے ہوئے کہا ۔
”سوال اس کے لباس کا نہیں ہے۔سوال اس کی اور تمہاری کلاس کا ہے۔شہیر نے کہا تو ثمر نے شہیر کو دیکھا جو بہت زیادہ سنجیدہ تھا۔
”بہت سی باتیں ہیں جنہیں تم مکمل طور پر نظر انداز کیے بیٹھے ہو۔”
”مثلا ً؟”
”مثلاً یہ کہ وہ شائستہ اور ہارون کمال کی بیٹی ہے اور میں ان دونوں کو میاں بیوی کو اچھا نہیں سمجھتا ۔”شہیر نے کہا۔
شائستہ کے بارے میں ‘میں خود تمہیں سب کچھ بتا چکا ہوں۔اب ضروری نہیں ہے کہ ہر بات تمہیں بتاؤں۔ تمہارے لیے اتنا کافی ہے کہ اس آدمی کی ریپوٹیشن اچھی نہیں ہے’ نہ اس کی نہ اس کی بیوی کی۔”
”شہیر بھائی!آپ اس طرح گھر بیٹھے یوں لوگوں پر الزام تراشی نہیں کر سکتے ۔ ”ثمر اس کی بات پر معترض ہوا ۔
”نایاب کی ممی نے آپ سے جو بات کی تھی۔ ہو سکتا ہے وہ واقعی سچ ہو۔ واقعی آپ کو اپنا بیٹا سمجھتے ہوئے آپ کوفیور دے رہی ہوں۔ اس بات پر آپ اس طرح ان پر تہمت نہیں لگا سکتے۔” شہیر کو حیرت کا جھٹکا لگا ۔ وہ زندگی میں پہلی بار اس سے اختلاف کر رہا تھا۔
”اورجہاں تک نایاب کے فادر کا تعلق ہے تو میں نے ان کے بارے میں کوئی بات نہیں سنی۔آپ نے ان کے بارے میں کس سے سناہے؟۔”وہ پوچھ رہا تھا۔ شہیر سمیت فاطمہ اور ثانی دونوں نے نو ٹ کیا کہ وہ شائستہ اور ہارون کمال کا نام لینے کے بجائے انہیں نایاب کے حوالے سے مخاطب کر رہا تھا۔
”تم ساتھ والے گھر میں رہنے والی فیملی سے ان کے بارے میں پوچھو۔یہ لوگ ہارون کمال کے فیملی فرینڈز میں سے ہیں اور یہ لوگ ہارون کمال کو اچھا آدمی نہیں سمجھتے۔”شہیر نے اس بار بھی صبغہ کا نام نہیں لیا مگر اس نے منیزہ کی فیملی کا حوالہ دینا ضروری سمجھا تھا۔ ثمر نے اس بات پر کچھ نہیں کہا۔ وہ الجھی ہوئی نظروں سے شہیر کو دیکھتا رہا۔
”ہارون کی وجہ سے ان کے گھر میں بہت سے مسائل پیدا ہو رہے ہیں۔”شہیر نے کچھ دیر خاموش رہ کر سوچنے کے بعد جیسے کچھ طے کرتے ہوئے ثمر کو مزید تفصیلات بتانے کا فیصلہ کیا۔
”ہارون ان کی بڑی بیٹی امبر کے ساتھ انوالو ہے۔میں نے خود اسے یہاں ان کے گھر آتے دیکھا ہے۔”ثمر نے اس بار شہیر کی بات کاٹ دی۔