تھوڑا سا آسمان — قسط نمبر ۱۲

”تمہارا گھر…؟ یہ میرا گھر ہے۔ تم جاؤ یہاں سے۔ ابھی اور اسی وقت اپنے بچے کو لے کر یہاں سے چلی جاؤ۔” رخشی ہاتھ گال پر رکھے سرخ آنکھوں کے ساتھ اسے دیکھتی رہی، پھر کچھ کہے بغیر کمرے سے نکل گئی۔ منصور زخمی شیر کی طرح بیڈ روم میں یہاں سے وہاں پھرتا رہا۔
اس کے غصے کو اترنے میں چند گھنٹے لگے تھے اور غصہ اترتے ہی رخشی کی نفرت بھی غائب ہو گئی تھی۔ وہ ایک بار پھر اسی طرح اس کی محبت میں گرفتار تھا مگر رخشی سے کچھ شکوے اور شکایتوں کے ساتھ۔ اسے اندازہ تھا کہ رخشی اس کے بیٹے کو لے کر وہاں سے نہیں گئی۔ وہ یقینا اپنے بیٹے کے ساتھ دوسرے کمرے میں ہی سو گئی تھی۔
منصور بالآخر کمرے میں چلتے چلتے تھک گیا۔ وہ صوفے پر بیٹھ گیا۔ رخشی کی طرف سے اسے کوئی فکر اور پریشانی نہیں تھی اسے یقین تھا۔ وہ اسے منا لے گا۔ وہ پہلے بھی اسے منانے میں ہمیشہ پہل کرتا رہا تھا مگر یہ اس کا بوائے فرینڈ تھا جس کا خیال آنے پر اس کا خون ایک بار پھر کھولنے لگتا ۔ اسے رخشی کی ڈھٹائی پر بھی حیرانی ہو رہی تھی کہ اس نے اس دیدہ دلیری کے ساتھ اس کے سامنے نہ صرف اسے اپنا بوائے فرینڈ تسلیم کیا تھا بلکہ اس کی خاطر اس سے جھگڑا بھی مول لیا تھا۔ مگر اس کے باوجود اسے یقین تھا کہ ایک بار ناراضی دور ہونے کے بعد وہ رخشی کو سمجھا دے گا کہ وہ دوبارہ اس لڑکے سے کبھی نہ ملے۔ اسے یہ بھی یقین تھا کہ رخشی خود ہی اپنی غلطی کو تسلیم کرے گی اور اس لڑکے کے ساتھ قطع تعلق کر لے گی اور ایسی صورت میں وہ اس کی اس غلطی کو معاف کر دے گا۔
منصور علی یہ فیصلہ کر کے خود کو بہت ہلکا پھلکا محسوس کر رہا تھا۔ بلکہ اسے اپنی ”اعلا ظرفی” پر رشک بھی آ رہا تھا۔ آخر دنیا میں ایسے کتنے مرد ہوتے ہوں گے جو اس جیسا ظرف رکھتے ہوں گے۔ آٹے میں نمک کے برابر۔ وہ یقینا ایک مثالی انسان اور شوہر تھا۔ اس نے تصور ہی تصور میں جیسے اپنے کندھے کو خود ہی تھپکا۔
بیڈ پر سونے کے لیے لیٹتے ہوئے اس نے اس تحفے کا انتخاب کیا جسے کل اسے صلح کی خوشی میں رخشی کو خرید کر دینا تھا۔ وہ جانتا تھا۔ تحفے کی قیمت اتنی ہی زیادہ ہونا چاہیے، جتنا بڑا جھگڑا ہوا ہے۔ رخشی کو جیولری پسند تھی اور پہلے ہونے والے تمام جھگڑوں کی تلافی میں بھی وہ اسے جیولری ہی پیش کرتا رہا تھا۔ آنکھیں بند کرنے سے پہلے اس نے اندازہ لگانے کی کوشش کی کہ اس بار اسے رخشی کا موڈ ٹھیک کرنے کے لیے کتنی مالیت کا زیور خریدنا پڑے گا۔ وہ ناکام رہا اور اسے اس ناکامی سے دلی مسرت ہوئی۔ اپنی پسند کی عورت پر اس کی پسند اور مرضی کے مطابق روپیہ لٹانے میں کیا حرج تھا۔ بیڈ سائڈ ٹیبل لیمپ آف کرتے ہوئے منصور بہت مطمئن اور مسرور تھا۔ وہ صرف یہ نہیں جانتا تھا کہ یہ اس کے گھر میں اس کی آخری رات ہے۔
٭٭٭




”آپ نے اسے اس طرح گھر سے نکال کر اچھا نہیں کیا۔” صبغہ دروازہ بند کرنے کے بعد بے قراری کے عالم میں اندر کمرے میں منیزہ کے پاس آئی تھی۔
”وہ اس وقت کہاں جائے گی؟” صبغہ اپنی انگلیاں چٹخانے لگی۔ ”کچھ تو سوچا ہوتا آپ نے اسے گھر سے نکالتے ہوئے۔” وہ منیزہ سے کہہ رہی تھی جو امبر کے جانے کے باوجود ابھی تک اشتعال میں تھیں۔
”وہ جہنم میں جائے۔ مجھے پروا نہیں ہے۔” منیزہ نے تڑخ کر کہا۔ ”اس جیسی نافرمان اولاد کو وہیں جانا چاہیے۔ وہ میرے نکالنے پر نہ جاتی تو ایک دن خود ہی چلی جاتی۔ اسے ہمارے ساتھ نہیں رہنا تھا۔”
”ہم اسے سمجھا سکتے تھے۔”
”بھینس کے آگے کتنی دیر بین بجائی جا سکتی ہے۔ اسے سمجھاناممکن ہوتا تو وہ اب تک سمجھ چکی ہوتی۔” منیزہ کو اسے گھر سے نکالنے پر کوئی شرمندگی نہیں تھی۔
صبغہ سر پکڑ کر کمرے میں پڑے اکلوتے صوفے پر بیٹھ گئی۔
”تمھیں اس کے بارے میں اتنا پریشان ہونے کی ضرورت نہیں ہے۔” منیزہ نے اس کو سر پکڑتے دیکھ کر کہا۔ ”وہ سڑکوں پر ماری ماری نہیں پھرے گی، وہ سیدھا ہارون کمال کے پاس جائے گی۔”
”اور آپ نے یہ جانتے ہوئے بھی اسے یہاں سے نکال دیا۔” صبغہ بری طرح بگڑی۔
”ہاں میں نے اسے نکال دیا۔ جو کام اسے کل کرنا ہے وہ آج کر لے، جو کالک اسے کل ہمارے چہرے پر ملنی ہے وہ آج ہی مل دے۔”
صبغہ نے حیرت سے ماں کو دیکھا۔ ”آپ کو اگر اسے اس طرح ہارون کمال سے شادی کی اجازت دینا تھی تو پھر خود اس کی شادی اس سے کر دیتیں کم از کم وہ باعزت طریقے سے اس گھر سے تو جاتی۔”
”میں اپنے ہاتھ سے اس کی شادی ہارون کمال سے کرنے کے بجائے اسے مار دینا زیادہ بہتر سمجھتی۔” منیزہ نے تیز آواز میں کہا۔ ”وہ مجھ پر تنقید کر رہی تھی۔ آج اتنے عرصے کے بعد اسے یاد آ گیا کہ اس کا باپ بڑا معصوم تھا۔ صرف میں تھی جو خطاوار تھی، جو اس قابل نہیں تھی کہ اس کے باپ کے ساتھ رہ پاتی۔ اس لیے اگر اس کے باپ نے مجھے طلاق دی تو ٹھیک کیا، میں اسی قابل تھی کہ اس گھر سے نکالی جاتی۔ میرے گھر کو تباہ کر کے وہ مجھے عقل سکھانے چلی تھی۔”
صبغہ یک دم اٹھ کر کمرے سے باہر نکل آئی۔ اس کا سر درد سے پھٹ رہا تھا۔ وہ دوسرے کمرے میں بیٹھی زارا اور رابعہ کی حالت کا اندازہ لگا سکتی تھی۔ منیزہ کو سمجھانا بے کار تھا، بالکل اسی طرح جس طرح امبر کو سمجھانا بے کار تھا۔
صحن میں پڑی کرسی پر بیٹھ کر اس نے سر کو دونوں ہاتھوں سے تھام لیا۔ زندگی کی کتاب کا ہر باب پہلے سے زیادہ بھیانک ہوتا جا رہا تھا اور صفحات تھے کہ ختم ہونے پر ہی نہیں آ رہے تھے۔ ہر نیا صفحہ… نیا ورق… نئے لفظ… نئے حرف… تکلیف… اذیت… درد… رسوائی…
اسے کوئی شبہ نہیں تھا کہ امبر وہاں سے نکل کر سیدھا ہارون کمال کے پاس ہی گئی ہوگی۔ اور اسے یہ خیال ہی تکلیف میں مبتلا کر رہا تھا۔ وہ اتنے عرصے سے اسے ہارون کمال سے بچانے کے لیے تگ و دو کر رہی تھی اور یک دم ہی وہ اس جدوجہد میں ناکام ہو گئی تھی۔
چند لمحوں کے لیے اس کے اندر شدید خواہش جاگی کہ وہ کسی سے وہ سب کچھ کہہ پاتی جو وہ محسوس کر رہی تھی۔ اس نے صحن کی دیوار کو دیکھا۔ اس کا دل چاہا وہ بھاگ کر شہیر کے پاس چلی جائے۔ اسے اپنے آپ سے خوف آیا۔ کیا وہ بھی امبر کی طرح بے یقینی کی کیفیت کا شکار ہو رہی تھی؟ کیا امبر بھی اسی لیے ہارون کمال کے پاس بھاگ کر جا رہی تھی۔ کیا وہ بھی اس گھر میں اسی گھٹن کا شکار ہو رہی تھی۔ کیوں؟ اس گھر میں کونسا آسیب تھا جو ان سب کو اس بری طرح مضمحل کر رہا تھا؟ کیا یہ صرف حالات تھے؟ برے حالات؟ یا پھر امبر نے ٹھیک کہا تھا۔ منیزہ واقعی ایک ”بری ماں” تھی؟
صبغہ کی کنپٹیوں میں جیسے دھماکے ہونے لگے تھے۔ اس کے دل کو کوئی مٹھی میں لے کر بری طرح مسل رہا تھا۔ اسے ایک بار پھر امبر کا خیال آ رہا تھا۔ امبر کو نہیں جانا چاہیے تھا۔ اسے اس گھر سے نہیں جانا چاہیے تھا۔ اس نے سر اٹھا کر آسمان پر پھیلی ہوئی تاریکی کو دیکھا۔ آسمان پر کہیں کوئی ستارہ نظر نہیں آ رہا تھا۔ آج بلا کی تاریکی تھی۔
٭٭٭
نایاب، ثمر کے گھر تقریباً دو گھنٹے رہی تھی۔ دو گھنٹے کے بعد بالآخر اس نے واپسی کا ارادہ ظاہر کیا۔ فاطمہ کے کہنے پر ثمر اسے اس کی گاڑی تک چھوڑنے آیا تھا۔
تنگ گلیوں کے اندر سے گزرتے ہوئے نایاب نے ثمر سے کہا۔
”تمہارا موڈ اب تو ٹھیک ہو گیا ہو گا مجھے واپس جاتا دیکھ کر۔” اس کا انداز تیکھا تھا۔
”ہاں بہت خوش ہوں میں… میرا دل باغ باغ ہو رہا ہے۔” ثمر نے قدرے جھنجلائے ہوئے انداز میں کہا۔
”آخر میری زندگی کی یہی تو سب سے بڑی خواہش تھی کہ تمھیں اپنے گھر آتا اور پھر واپس جاتا دیکھوں۔ ویسے تمھیں میرا ایڈریس کس نے دیا تھا؟” ثمر کو اچانک خیال آیا۔
”یہ سوال غیر ضروری ہے۔ خاص طور پر اب جب میں تمہارے گھر پہنچ چکی ہوں۔” نایاب نے اطمینان سے کہا۔ ثمر نے چبھتی ہوئی نظروں سے اسے دیکھا۔
”مجھے تم سے کم از کم اس حماقت کی توقع نہیں تھی۔”
”تمہارے گھر آنا حماقت ہے؟”
”ہاں۔”
”تم میرے لباس کی وجہ سے کہہ رہے ہو؟”
”میں تمہاری جنس کی وجہ سے کہہ رہا ہوں۔”
”تمہارے گھر والے اتنے کنزرویٹو ہیں کہ تمہاری گرل فرینڈ کا آنا انھیں برا لگے گا؟”
”اوّل تو تم میری گرل فرینڈ نہیں ہو اور…” نایاب نے اس کی بات کی۔
”فرینڈ تو ہوں؟”
”نہیں، فرینڈ بھی نہیں ہو۔” ثمر نے کہا۔
نایاب چلتے چلتے اچانک رک گئی۔ ثمر کی چھٹی حس نے بے اختیار اسے خطرے کا احساس دلایا۔ وہ غلط جگہ پر غلط بات کہہ بیٹھا تھا۔
”فرینڈ نہیں ہوں تمہاری؟” نایاب نے کمر پر دونوں ہاتھ رکھتے ہوئے پوچھا۔
”میں…” ثمر نے کچھ کہنا چاہا مگر نایاب نے اس کی بات کاٹ دی۔
”تم صحیح کہہ رہے ہو میں فرینڈ نہیں ہوں تمہاری اور میں تمہاری فرینڈ بننا بھی نہیں چاہوں گی۔”
وہ اطمینان سے کہہ رہی تھی۔ ثمر کی جان میں جان آئی۔ اسکے اطمینان کا مطلب تھا کہ اسے غصہ نہیں آیا۔
”چلیں؟” ثمر نے اسے یاددلایا۔
”ہاں چلو۔” نایاب نے کچھ سوچتے ہوئے کہا۔
”میری شکل و صورت اچھی ہے ثمر؟” ثمر ٹھوکر کھاتے کھاتے بچا۔
”اس سوال کی یہاں کیا تک بنتی ہے؟” وہ جز بز ہوتے ہوئے بولا۔
”جو بھی تک بنتی ہو تم یہ بتاؤ کہ میری شکل و صورت اچھی ہے؟”
”میں نے تمھیں کبھی اتنے غور سے نہیں دیکھا۔” ثمر نے بات گول کرتے ہوئے کہا۔
”تو پھر اب دیکھو۔” نایاب اس کا رستہ روک کر کھڑی ہو گئی۔ ثمر نے بے اختیار گلی میں دائیں بائیں دیکھا۔ آج وہ واقعی برا پھنسا تھا۔
”ہاں اچھی ہے۔ چلو اور ایسی حرکتیں مت کرو کہ لوگ تمہارے ساتھ ساتھ مجھے بھی پتھر مارنے لگیں۔”
نایاب پھر اس کے ساتھ اطمینان سے چلنے لگی۔
”ہاں مجھے بھی یقین تھا کہ کم از کم میری شکل و صورت کے بارے میں تم کوئی فضول بات نہیں کر سکو گے۔ فیملی بھی اچھی ہے ہماری۔” وہ اطمینان سے کہنے لگی۔ ”تم تو مل ہی چکے ہو میرے پیرنٹس سے۔ بھائی سے میں تمھیں آئندہ ملوا دوں گی جب وہ باہر سے آئے گا۔”
ثمر اس کی باتوں کا سر پیر سمجھنے کی کوشش کر رہا تھا اور یہ سر پیر اسے تب سمجھ میں آیا جب وہ مین روڈ پر کھڑی اس کی گاڑی کے قریب پہنچے اور جب ثمر کو اس کی باتوں کا سر پیر سمجھ میں آیا تب اس کے پیروں کے نیچے سے زمین نکل گئی۔ نایاب واقعی نایاب تھی۔ ثمر کو اس کی بات سن کر لگا تھا جیسے آسمان اس کے سر پر گر پڑا ہو۔
٭٭٭




Loading

Read Previous

تھوڑا سا آسمان — قسط نمبر ۱۱

Read Next

تھوڑا سا آسمان — قسط نمبر ۱۳

Leave a Reply

آپ کا ای میل ایڈریس شائع نہیں کیا جائے گا۔ ضروری خانوں کو * سے نشان زد کیا گیا ہے

error: Content is protected !!