تھوڑا سا آسمان — قسط نمبر ۱۲

فاطمہ پر نظر پڑتے ہی یہی حیرانی نایاب کے چہرے پر بھی نظر آئی مگر اس نے فوری طور پر خود پر قابو پایا تھا۔ وہ حیرت کے اس ابتدائی جھٹکے سے سنبھل گئی تھی۔
”السلام علیکم آنٹی…! میں نایاب ہوں، ثمر کی دوست اور کلاس فیلو…” اس نے فاطمہ کی طرف بڑھتے ہوئے کہا۔
اندرونی کمرے میں موجود ثمر اور ثانی دونوں نے نایاب کی آواز سنی تھی۔ ثمر بے اختیار دونوں ہاتھ سر پر رکھ کر پنجوں کے بل زمین پر بیٹھ گیا۔
”میرے خدا، یہ کہاں سے آ گئی۔” ثانی کو اس کی حالت دیکھ کر بے اختیار ہنسی آئی۔
”جاؤ… اب جا کر زبان چلاؤ۔ کرواپنی سہیلی کا استقبال… کچھ دیر پہلے تک تو امی کے ساتھ بڑی زبان چلا رہے تھے۔ میں نایاب ہوں۔ ثمر کی دوست اور کلاس فیلو۔”
ثانی نے دبی آواز میں آخری جملے میں نایاب کی نقل اتاری اور کمرے کے دروازے سے باہر نکل گئی۔
ثمر کا جی چاہ رہا تھا… اس وقت واقعی اپنا سر پیٹ لے۔ وہ یہاں تک کیسے پہنچی تھی وہ یہ سمجھنے سے قاصر تھا مگر بہرحال وہ وہاں آن پہنچی تھی۔
فاطمہ نے آگے بڑھ کر نایاب کو گلے لگاتے ہوئے اس کا ماتھا چوما۔
”ہاں میں جانتی ہوں، ثمر اکثر تمہارا ذکر کرتا ہے۔” فاطمہ نے شہیر کو نظر انداز کرتے ہوئے کہا۔ وہ صحن کے وسط میں سینے پر بازو لپیٹے چبھتی ہوئی نظروں سے نایاب اور فاطمہ کے درمیان ہونے والی گفتگو سن رہا تھا۔
”آؤ اندر آؤ… ثمر اندر ہی ہے۔” فاطمہ نے اس کے بازو پر ہاتھ رکھتے ہوئے اندرونی کمرے کی طرف اس کی رہنمائی کی۔ اس سے پہلے کہ وہ آگے بڑھتی ثانی باہر نکل آئی۔ نایاب اسے دیکھ کر مسکرائی۔ وہ بھی جواباً خیر مقدمی انداز میں مسکرائی۔
”یہ میری بیٹی ثانیہ ہے۔” فاطمہ نے تعارف کروایا۔
”میں جانتی ہوں۔ ان سے مل چکی ہوں۔” نایاب نے کہا اور ثانی سے گلے ملی۔
”میں ثمر سے اکثر تمہارے بارے میں پوچھتی رہتی تھی۔” اس نے ثانی سے کہا۔
”ہاں مجھے بتاتا تھا وہ۔ آپ اندر آئیں۔” ثانی نے اپنی ہنسی پر قابو پاتے ہوئے اس سے کہا۔ اسے اندر کھڑے ثمر کی حالت کا تصور کر کے ہنسی آ رہی تھی۔ وہ واقعی بری طرح پھنسا تھا۔ اس گھر میں آج تک اس کا کوئی دوست لڑکا تک نہیں آیا تھا اور کہاں یہ کہ ایک لڑکی اور وہ بھی وہ جس کے ساتھ وہ ماڈلنگ کرتا رہا تھا۔
نایاب جس وقت فاطمہ کے ساتھ کمرے میں داخل ہوئی۔ ثمر کمرے کے وسط میں کھڑا تھا۔ چہرے پر مسکراہٹ ہونے کے باوجود اسے دیکھ کر یہ اندازہ لگانا مشکل نہیں تھا کہ وہ بے حد نروس اور پریشان ہے۔




”ارے تم تو سامنے کھڑے مل گئے مجھے تو لگ رہا تھا تم میری آواز سن کر بیڈ کے نیچے جا چھپے ہو گے۔” نایاب نے ثمر کو دیکھتے ہی کمال بے تکلفی سے کہا۔
”آنٹی! یہ مجھ سے کہہ رہا تھا کہ میں اس کے گھر نہیں پہنچ سکتی کیونکہ میں لڑکی ہوں اور لڑکیوں کا آئی کیو کم ہوتا ہے۔ اب دیکھیں میں اس کے بتائے بغیر یہاں پہنچ گئی ہوں۔ اس کو تو مجھے دیکھ کر پسینے آ رہے ہوں گے۔”
فاطمہ نے باری باری ثمر اور نایاب دونوں کو دیکھا پھر نایاب کی بات پر کوئی تبصرہ کیے بغیر کرسی کی طرف اشارہ کرتے ہوئے بیٹھنے کے لیے کہا۔
”بیٹھو بیٹا! میں تمہارے لیے چائے لے کر آتی ہوں۔”
”چائے؟” نایاب نے کندھے اُچکاتے ہوئے کہا۔ اس کی نظریں اس تپائی پر تھیں جہاں کھانے کے برتن تھے۔
”آپ لوگ تو کھانا کھا رہے ہیں۔ میں کھانے کو چائے پر ترجیح دوں گی۔” وہ اس تپائی کی طرف بڑھ گئی۔
”ہاں کیوں نہیں۔ ضرور…” فاطمہ کچھ ہڑبڑا کر دروازے کی طرف بڑھی۔ ”میں تمہارے لیے پلیٹ لاتی ہوں۔”
نایاب تب تک ایک کرسی کھینچ کر اس تپائی کے پاس بیٹھ کر وہاں پڑی چیزوں پر ایک نظر ڈالتے ہوئے بولی۔
”بیٹھو کھڑے کیوں ہو؟ کھانا کھاؤ… کھانا کھا رہے تھے نا؟” فاطمہ کے باہر نکلتے ہی نایاب نے ثمر سے کہا وہ ابھی بھی کمرے کے وسط میں کھڑا اسے دیکھ رہا تھا۔
”تمھیں اگر یہاں آنا ہی تھا تو کم از کم کپڑے تو ڈھنگ کے پہن کر آتیں۔” ثمر نے اس کی بات کے جواب میں تقریباً دانت پیستے ہوئے کہا۔
”کیوں، ان کپڑوں کو کیا ہوا ہے؟” نایاب نے کھیرے کا ایک ٹکڑا اٹھا کر منہ میں رکھتے ہوئے اطمینان سے اپنے سراپے پر ایک نظر ڈالی۔
”تمھیں اچھی طرح پتا ہے ان کپڑوں کو کیا ہوا ہے۔ میں اسی وجہ سے تمھیں یہاں نہیں لا رہا تھا۔” ثمر دوسری کرسی پر بیٹھ گیا۔
”چلو اگلی بار تمہاری مرضی کے کپڑے پہن کر آؤں گی۔” نایاب نے آرام سے کھیرے کا ایک اور ٹکڑا اٹھا کر اپنے منہ میں رکھا۔
ثمر نے بے اختیار اس کے سامنے دونوں ہاتھ جوڑے۔
”خدا کا کچھ خوف کرو نایاب! اب دوبارہ اس گھر میں آ کر کیا کرنا ہے۔ ایک بار آ کر تسلی نہیں ہوئی تمہاری؟”
”نہیں۔” نایاب نے بے ساختہ کہا۔ اس سے پہلے کہ ثمر کچھ اور کہتا فاطمہ پلیٹیں اور چمچ لے کر اندر داخل ہوئی۔
”ثمر نے اگر مجھے تمہاری آمد کے بارے میں بتایا ہوتا تو میں تمہارے لیے کوئی خاص ڈش بنا لیتی۔” فاطمہ نے برتن رکھتے ہوئے معذرت خواہانہ انداز میں کہا۔
”نہیں آنٹی! یہ ٹھیک ہے۔ مجھے چاول پسند ہیں۔” نایاب نے اطمینان سے پلیٹ پکڑی۔
فاطمہ نے ایک نظر ثمر کو دیکھا اور خود بھی وہاں بیٹھ گئی۔
”ثانی اور شہیر بھائی نہیں آئیں گے؟ آپ لوگ میرے آنے سے پہلے کھانا کھا رہے تھے۔” نایاب نے اپنی پلیٹ میں چاول ڈالتے ہوئے کہا اس کی نظر ٹیبل پر پڑی پلیٹوں پر تھی جنھیں دیکھ کر کسی کے لیے بھی یہ اندازہ لگانا مشکل نہ تھا کہ انھیں استعمال کرنے والے کھانا کھاتے ہوئے اٹھ کر گئے ہیں۔
”شہیر کسی کام سے باہر گیا ہے۔ ثانی ابھی آتی ہے۔”
فاطمہ نے گلاس میں پانی ڈال کر اس کے آگے رکھتے ہوئے کہا۔ وہ اب اطمینان سے چاول کھانے میں مصروف تھی۔ ثمر نے فاطمہ کی پلیٹ اٹھا کر اس کی طرف بڑھائی۔ فاطمہ نے قدرے خفگی سے اسے دیکھتے ہوئے پلیٹ پکڑ لی۔
”ثمر اکثر آپ کا ذکر کرتا رہتا ہے۔” نایاب نے کھانا کھاتے ہوئے کہا۔ ”مجھے بہت خواہش تھی آپ سے ملنے کی۔ میں نے کئی بار ثمر سے کہا کہ وہ مجھے اپنے گھر لے جائے مگر یہ اسی طرح ٹال مٹول کرتا رہا۔”
”مگر اس ٹال مٹول کا کیا فائدہ ہوا تم پھر بھی میرے گھر آن دھمکی ہو۔” ثمر اپنی پلیٹ پر چہرہ جھکائے بڑبڑایا۔ نایاب نے اس کی بڑبڑاہٹ کو بڑی سہولت سے سن لیا تھا مگر اس نے جان بوجھ کر اسے نظر انداز کیا۔
”آپ کو تو میرا اس طرح آنا برا نہیں لگانا؟” نایاب! فاطمہ سے مخاطب ہوئی۔
”ارے نہیں… مجھے کیوں برا لگے گا۔” فاطمہ اس کی بات پر بے اختیار شرمندہ ہوئی۔ ثمر نے اپنی بے ساختہ مسکراہٹ چھپائی۔ نایاب اس وقت واقعی حد کر رہی تھی۔ وہ اور فاطمہ دونوں اچھی طرح جانتے تھے کہ نایاب کی آمد نہ صرف ان سب کے لیے حیران کن تھی، بلکہ زیادہ پسندیدہ بھی نہیں تھی۔ مگر غیر متوقع بات نایاب کا اپنا رد عمل تھا۔ جواب وہاں اپنی اچانک آمد سے پہنچنے والے شاک کے اثرات کو زائل کرنے کی کوشش کر رہی تھی۔
فاطمہ اور ثمر کھانا کھاتے ہوئے وقفے وقفے سے ایک دوسرے کو دیکھ رہے تھے جبکہ نایاب بڑے اطمینان اور سنجیدگی کے ساتھ پلیٹ میں ڈالے ہوئے چاول سلاد کے ساتھ یوں کھانے میں مصروف تھی جیسے وہ اسی کام کے لیے وہاں آئی ہو۔
دوسرے کمرے میں موجود ثانی اور شہیر مدھم آواز میں اپنے گھر آنے والی اس کی اچانک آمد کو ڈسکس کرنے میں مصروف تھے۔
٭٭٭
شائستہ نے ہتھیلی پر رکھی اس ڈائمنڈ کی انگوٹھی کو دوسرے ہاتھ کی انگلیوں میں پکڑ لیا۔ اس کے ماتھے پر کچھ بل نمودار ہوئے تھے۔ وہ اب اس کو بغور دیکھنے میں مصروف تھی۔ ہارون کے کوٹ کی جیب سے نکلنے والی ڈائمنڈ کی انگوٹھی اسے صرف الجھا نہیں رہی تھی، بہت سے شبہات میں بھی مبتلا کر رہی تھی۔
ہارون جن عورتوں کے ساتھ افئیرز چلایا کرتا تھا انھیں تحائف بھی دیا کرتا تھا۔ شائستہ اس بات سے بخوبی واقف تھی مگر ہارون کسی عورت کو اس قدر مہنگے تحائف نہیں دیتا تھا اور پھر ایک ہیرے کی انگوٹھی دینے کا کیا مطلب تھا۔ یہ صرف وہی نہیں ہارون بھی اچھی طرح سمجھتا تھا۔ وہ کسی لڑکی کے ساتھ کیا وعدہ کر رہا تھا؟
شائستہ نے ہونٹ بھینچتے ہوئے اس انگوٹھی کو دیکھا۔ اسے اس پر لگے خون سے دلچسپی نہیں تھی۔ اسے اس ہاتھ میں دلچسپی تھی جسے وہ پہنائی گئی تھی۔
اس نے انگوٹھی کو مٹھی میں دباتے ہوئے باتھ روم کے بند دروازے کو دیکھا پھر پلٹ کر بیڈ سائیڈ ٹیبل پر پڑے فون کے پاس گئی۔ ڈائری میں سے اپنے جیولر کے گھر کا نمبر ڈائل کر کے وہ ہارون کمال کے باتھ روم سے نکلنے سے پہلے یہ جان چکی تھی کہ وہ انگوٹھی اس کی شاپ سے نہیں خریدی گئی تھی۔ ہارون سے اسے ایسی حماقت کی توقع تھی بھی نہیں، مگر اس کے باوجود ایک موہوم سی امید پر اس نے جیولر سے رابطہ کیا تھا۔
اس نے جس وقت فون کا ریسیور رکھا۔ اسی وقت ہارون باتھ روم سے باہر نکلا۔ وہ سیدھا اسی کوٹ کی طرف گیا اور اس کی جیبوں کو ٹٹولنے لگا۔ شائستہ خاموشی سے اس کی حرکات دیکھتی رہی۔ وہ یک دم کچھ پریشان نظر آنے لگا تھا۔ ایک بار تمام جیبوں کو ٹٹول لینے کے بعد وہ ایک بار پھر اپنی جیبوں میں باری باری ہاتھ ڈال رہا تھا۔ شائستہ نے اب مداخلت ضروری سمجھی۔
کیا ڈھونڈ رہے ہو تم؟
وہ کہتے ہوئے اس کے پاس چلی آئی۔ اس کے سوال نے ہارون کو گڑبڑا دیا تھا۔ اس نے اپنا ہاتھ کوٹ کی جیب سے باہر نکال لیا اور بڑے معمول کے انداز میں کوٹ کو ہینگر پر لٹکا کر وارڈ روب کے اندر رکھ دیا۔ پلٹنے پر وہ ساکت رہ گیا۔ شائستہ اس کے بالمقابل وہ انگوٹھی اپنی ہتھیلی پر رکھے ہاتھ پھیلائے کھڑی تھی۔
”میرا خیال ہے تمھیں اس کی تلاش ہے۔”
شائستہ کا لہجہ خلاف توقع پرُسکون تھا۔ مگر ہارون اس سکون کے بارے میں کسی غلط فہمی کا شکار نہیں ہو سکتا تھا۔ وہ شائستہ کی پارہ صفت طبیعت سے اچھی طرح واقف تھا۔
”ہاں… تمھیں یہ کہاں سے ملی؟” ہارون نے اپنے اعصاب پر قابو پاتے ہوئے شائستہ کی ہتھیلی سے وہ انگوٹھی اٹھانا چاہی شائستہ نے مٹھی ایک بار پھر بند کر لی۔
”یقینا یہ انگوٹھی تم میرے لیے تو خرید کر نہیں لائے تو پھر وہ کون خوش قسمت ہے جس کے لیے یہ خریدی گئی ہے، یا جس نے شاید تمہارے منہ پر دے ماری ہے۔” شائستہ سے تقریباً دانت پیستے ہوئے کہا۔




Loading

Read Previous

تھوڑا سا آسمان — قسط نمبر ۱۱

Read Next

تھوڑا سا آسمان — قسط نمبر ۱۳

Leave a Reply

آپ کا ای میل ایڈریس شائع نہیں کیا جائے گا۔ ضروری خانوں کو * سے نشان زد کیا گیا ہے

error: Content is protected !!