تھوڑا سا آسمان — قسط نمبر ۱۲

”رات…؟” شائستہ نے کمرے میں لگے وال کلاک کی طرف اشارہ کیا۔ ”یہ رات ہے؟ اگلا دن آچکا ہے۔”
”گھر آ چکا ہوں یہ کافی نہیں ہے تمہارے لیے؟” ہارون جھنجلاتا ہوا ڈریسنگ روم کی طرف بڑھ گیا۔
”نہیں، یہ کافی نہیں ہے میرے لیے۔” شائستہ اس کے پیچھے آئی۔ ”تم نے مجھ سے جان چھڑانے کے لیے فون بند کر دیا۔ تمہارے ہاتھ کو کیا ہوا؟”
وہ غصے میں بات کرتے کرتے یک دم چونکی۔ ہارون کا دایاں ہاتھ پٹی میں لپٹا ہوا تھا۔
”کچھ نہیں ہوا۔”ہارون نے بیزاری کے ساتھ ٹائی اتارتے ہوئے کہا۔ ”معمولی چوٹ لگی ہے۔”
”کیسے؟” شائستہ نے پوچھا۔
”اب تمھیں چوٹ کی تفصیلات بھی بتاؤں؟” وہ پلٹ کر اس پر برس پڑا۔ شائستہ نے اس کے چہرے کو غور سے دیکھا۔ وہ بہت پریشان نظر آ رہا تھا۔ ہارون کے ساتھ اتنے سال رہنے کے بعد وہ اس کے چہرے کو آرام سے پڑھ سکتی تھی۔
”تم پریشان ہو؟” شائستہ آہستگی سے بولی۔
”اگر میں ہوں بھی تو اس سے تمہارا کوئی تعلق نہیں۔ تم صرف ایک زحمت کرو اور وہ یہ کہ اس وقت اپنا منہ بند کر لو اور مجھے اکیلا چھوڑ دو۔” ہارون تیزی سے کہتے ہوئے باتھ روم میں گھس گیا۔
شائستہ اب قدرے حیرانی سے باتھ روم کے بند دروازے کو دیکھ رہی تھی۔ ہارون کا رویہ بے حد عجیب تھا۔ اس نے پلٹ کر ڈریسنگ روم میں پڑے اسٹول پر رکھے ہارون کے کوٹ کو اٹھایا اور کوٹ کو اٹھاتے ہوئے اس کی جیب سے کوئی چیز زمین پر گری تھی۔ شائستہ نے فرش کو دیکھا پھر جھک کر وہ چیز اٹھا لی۔ وہ ایک ڈائمنڈ رِنگ تھی۔ شائستہ کے ماتھے پر بل آئے۔ اس نے رِنگ کو ہتھیلی پر رکھ کر ایک بار پھر دیکھا۔ اس کا ہیرا خون آلود تھا۔
٭٭٭
”آپ کو پتا ہے میری تنخواہ میں اضافہ اور مجھے پروموشن کیوں دیا گیا؟”
اس دوپہر کھانا کھاتے ہوئے اچانک شہیر نے فاطمہ سے پوچھا۔
”انھوں نے تمھیں وجہ بتائی ہے؟” فاطمہ نے چاولوں کا ایک چمچہ منہ ڈالتے ہوئے کہا۔
”انھوں نے وجہ نہیں بتائی کسی اور نے بتائی ہے۔” شہیر نے کہا۔ ثمر اور ثانی نے بھی کھانا کھاتے ہوئے رک کر شہیر کو دیکھا۔
”کس نے؟” فاطمہ نے دلچسپی لی، شہیر ایک نظر ثمر کو دیکھتے ہوئے بولا۔
”میری ملاقات مسز ہارون کمال سے ہوئی تھی۔” ثمر اور ثانی بری طرح چونکے۔
”نایاب کی ممی سے؟” ثمر نے بے اختیار کہا۔
”ہاں۔” شہیر نے ناگواری سے سر ہلایا۔
”اور یہ مصیبت تمہاری لائی ہوئی ہے۔ نہ تمہاری نایاب سے دوستی ہوتی نہ تم مجھے ان سے متعارف کرواتے اور نہ وہ عورت میرے پیچھے پڑتی۔”
”کیا مطلب؟” ثمر چونکا، فاطمہ نے بھی الجھے ہوئے انداز میں اسے دیکھا۔




”اس عورت نے چند بار مجھے لفٹ دی تھی۔ ہر بار اس کا رویہ بے حد عجیب تھا۔” شہیر نے سنجیدگی سے کہا تھا، ”وہ مجھ سے کرید کرید کر میری فیملی کے بارے میں پوچھتی رہی۔”
فاطمہ کھانا کھاتے ٹھٹک گئی۔ ثمر نے سر جھٹکا۔
”یہ سب نایاب کی وجہ سے ہوگا۔ نایاب نے گھر جا کر ہمارے بارے میں کچھ کہا ہوگا اپنی ممی سے اور اس کی ممی نے آپ سے بات کرنا مناسب سمجھا ہوگا۔” ثمر نے بڑے اطمینان سے کہا۔ ”نایاب نے مجھے ایک بار بتایا تھا کہ اس کی ممی اس کے فرینڈز کے بارے میں بڑی چھان پھٹک کرتی ہیں۔”
شہیر نے الجھی ہوئی نظروں سے ثمر کو دیکھا۔ ”وہ بات نہیں ہے جو تم سمجھ رہے ہو۔ انھوں نے مجھے بڑی عجیب سی کہانی سنائی ہے۔”
”کیسی کہانی؟” ثمر حیران ہوا۔ فاطمہ چپ چاپ شہیر کو دیکھ رہی تھی۔ اس کی چھٹی حس اسے بار بار کسی خطرے سے آگاہ کر رہی تھی۔
”انھوں نے مجھے بتایا کہ بچپن میں ان کا کوئی بیٹا گم ہو گیا تھا۔”
فاطمہ کے سر پر کسی نے ہتھوڑا دے مارا۔ بلی یک دم تھیلے سے باہر آ گئی تھی۔ شہیر کہہ رہا تھا۔
”جس ہاسپٹل میں وہ پیدا ہوا تھا وہاں پیدائش کے فوراً بعد کسی عورت نے ان کے بچے کو اغوا کر لیا تھا۔” ثمر اور ثانی بڑی دلچسپی سے شہیر کی بات سن رہے تھے۔
”انھوں نے اور ان کے شوہر نے اس بچے کو تلاش کرنے کی بہت کوشش کی مگر وہ کامیاب نہیں ہوئے۔ وہ مجھے بتا رہی تھیں کہ مجھے ہر بار دیکھتے ہی انھیں اپنے اس بیٹے کا خیال آتا ہے۔”
فاطمہ پتھر کے بت کی طرح بیٹھی تھی۔ اس نے شہیر کو کسی ہاسپٹل سے اغوا نہیں کیا تھا۔ اس نے اسے باقاعدہ طور پر ایک یتیم خانہ سے اپنی دوست اور اس کے شوہر کے ذریعہ ایڈاپٹ کیا تھا۔ اس کے باوجود وہ شہیر کے منہ سے نکلنے والے الفاظ سن کر بے جان ہو گئی تھی۔ جلد یا بدیر کوئی نہ کوئی اسی طرح کی کہانی لے کر ان کے گھر آنے والا تھا اور اس کے بعد کیا ہوتا یہ اندازہ لگانے کے لیے فاطمہ کو کسی نجومی کی ضرورت نہیں تھی۔
”میرے باس، مسز ہارون کمال کے بہت اچھے دوست ہیں۔ انھوں نے ان سے کہہ کر مجھے پروموشن دلوائی ہے، اور میں تو آج ان پر بہت بگڑا، میں نے انھیں خاصی کھری کھری سنائیں کہ ان کی وجہ سے میرے CEO پر کیا امپریشن پڑا ہوگا۔ وہ کیا سمجھتے ہوں گے کہ مسز ہارون کمال میری سفارش کیوں کر رہی ہیں۔ میرا ان کے ساتھ کیا تعلق ہے۔”
ثمر نے ایک گہرا سانس لیا۔ ”یہ بھی خاصی فلمی کہانی ہے۔ آج فلمی کہانیوں کا دن ہے۔ کھویا ہوا بیٹا۔ ویسے شہیر بھائی! اگر میں آپ کی جگہ ہوتا تو میں تو آج مسز ہارون کمال کو یہ یقین دلا دیتا کہ ہاں میں ہی ان کا وہ کھویا ہوا بیٹا ہوں۔”
وہ اب اس پوری کہانی سے محظوظ ہو رہا تھا۔ فاطمہ نے ثمر کو دیکھا۔ اس نے عجیب سی چبھن محسوس کی۔ اس نے ساری عمر اسے پالا تھا۔ اور وہ کہہ رہا تھا کہ… فاطمہ نے ہونٹ بھینچ لیے۔
”سوچیں ذرا چند منٹوں میں قسمت ہی بدل جاتی۔ جھونپڑی سے محل تک کا سفر۔ نہیں نہیں بلکہ کہنا چاہیے کہ اندرونِ شہر سے ڈیفنس تک کا سفر۔” ثمر جیسے چٹخارے لیتے ہوئے کہہ رہا تھا۔
”کروڑوں کی جائیداد، گاڑیاں، بینک بیلنس۔” وہ مصنوعی طور پر کہیں کھویا ہوا نظر آ رہا تھا۔
”اس سارے معاملے میں صرف ایک قیامت ہوتی۔” ثانی نے ثمر کے کان میں سرگوشی کی۔
”پھر تم اور نایاب بہن بھائی ہوتے۔”
ثمر نے تیز نظروں سے اسے دیکھا۔ ثانی اپنی مسکراہٹ دبا رہی تھی۔
”بہت انٹرسٹنگ سچویشن ہے۔” ثمر نے یک دم بات بدلی۔
”تو آپ نے انھیں یہ کہہ دیا کہ آپ ان کے بیٹے نہیں ہو سکتے؟” ثمر نے مصنوعی مایوسی سے کہا۔
”ہاں، کیونکہ میرا دماغ تمہاری طرح خراب نہیں ہے اور میں خیالی پلاؤ نہیں پکاتا۔” شہیر نے گھرکنے والے انداز میں کہا۔
”ویسے نایاب نے کبھی اپنے کسی گمشدہ بھائی کا ذکر نہیں کیا؟” ثانی نے ثمر سے پوچھا۔
”نہیں، اس طرح کی بات تو اس نے کبھی نہیں کی۔ ویسے بھی اتنی پرانی بات کا وہ مجھ سے کیا ذکر کرتی۔ پوچھوں گا اس سے۔” ثمر نے کہا۔
وہ ایک بار پھر کھانا کھانے میں مصروف ہو گیا۔ مگر اس بار وہ بے حد محظوظ نظر آ رہا تھا۔
”امی! آپ نے کھانا کیوں چھوڑ دیا؟” ثانی اچانک فاطمہ کی طرف متوجہ ہوئی۔ جو اپنی پلیٹ ٹیبل پر رکھ رہی تھی۔
”مجھے بھوک نہیں ہے۔” فاطمہ نے بے دلی سے کہا۔
”کیوں، آپ کی بھوک کو کیا ہوا؟ ابھی تو کھانا کھا رہی تھیں۔” شہیر نے کہا۔
”بس ایسے ہی۔”
”کھانا تو کھائیں امی! دیکھیں شہیر بھائی آپ کے لیے کروڑوں کی جائیداد چھوڑ آئے ہیں اور آپ ان کی خاطر کھانا تک نہیں کھا سکتیں۔”
ثمر نے ایک بار پھر مذاق کیا۔ اس بار اسے اپنا منہ کھولنا بہت مہنگا پڑا۔ فاطمہ جیسے پھٹ پڑی۔
”تم اپنا منہ بند نہیں کر سکتے؟”
”کھانا کھاتے ہوئے تینوں کے ہاتھ رک گئے۔ ثمر کے چہرے سے مسکراہٹ غائب ہو گئی۔ فاطمہ یک دم اٹھ کر کمرے سے باہر نکل گئی۔ کچھ دیر تک تینوں بے حس و حرکت بیٹھے ایک دوسرے کو دیکھتے رہے پھر شہیر نے اس خاموشی کو توڑا۔
”تم واقعی اپنا منہ بند رکھنا سیکھو۔ ہر بات مذاق کے لیے نہیں ہوتی اور بات کرتے ہوئے یہ دیکھ لیا کرو کہ تم کس سے مخاطب ہو۔” وہ اپنی پلیٹ چھوڑ کر کمرے سے باہر نکل گیا۔
ثمر اور ثانی نے ایک دوسرے کی طرف دیکھا۔ اس سے پہلے کہ ان میں سے کوئی کچھ کہتا۔ بیرونی دروازے پر دستک ہونے لگی۔
دروازہ شہیر نے کھولا تھا۔ دوسری طرف نایاب تھی، شہیر نے اسے فوری طور پر پہچان لیا۔ مگر اس وقت اس کی وہاں موجودگی اس کے لیے حیران کن تھی۔
”میں نایاب کمال ہوں ثمر کی فرینڈ… ایک بار آپ سے بھی ملاقات ہوئی تھی پی سی میں۔”
نایاب نے مسکراتے ہوئے اپناتعارف کروایا۔ شہیر نے مسکرانے کی کوشش کرتے ہوئے نایاب کو اندر آنے کے لیے راستہ دیا۔ مگر وہ دل ہی دل میں پیچ وتاب کھا رہا تھا۔ ثمر اس کے ساتھ کمرشلز میں کام کر رہا تھا اور آج وہ ان کے گھر میں کھڑی تھی۔ وہ ہارون کمال کی بیٹی نہ بھی ہوتی تب بھی شہیر کے لیے اس کی آمد قابل اعتراض ہوتی مگر ہارون اور شائستہ کی بیٹی ہونے کی حیثیت نے نایاب کو شہیر کے لیے کچھ اور متنازعہ بنادیا تھا۔
”میں ثمر سے ملنا چاہتی ہوں۔” نایاب نے اندر آتے ہوئے کہا۔
”وہ گھر پر ہی ہے؟” شہیر نے دروازہ بند کرتے ہوئے کہا۔
فاطمہ نے کچن سے باہر نکلتے ہوئے گھر کے اندر داخل ہونے والی جینز اور ایک سلیولیس شرٹ میں ملبوس لڑکی کو حیرانی سے دیکھا۔




Loading

Read Previous

تھوڑا سا آسمان — قسط نمبر ۱۱

Read Next

تھوڑا سا آسمان — قسط نمبر ۱۳

Leave a Reply

آپ کا ای میل ایڈریس شائع نہیں کیا جائے گا۔ ضروری خانوں کو * سے نشان زد کیا گیا ہے

error: Content is protected !!