تھوڑا سا آسمان — قسط نمبر ۱۲

نایاب نے اس طرح پوچھا جیسے کینٹین جانے کے بارے میں پوچھ رہی ہو۔
”ہر بات مذاق کے لیے نہیں ہوتی ۔”ثمر نے نایاب کے جملے سے پہنچنے والے ابتدائی شاک سے سنبھلتے ہوئے کہا’ ایک لمحہ کو اسے یہی لگا تھا کہ ہمیشہ کی طرح نایاب اس وقت بھی نان سیریس تھی۔
”میں جانتی ہوں مگر شادی کی بات مذاق میں کون کرتا ہے۔”نایاب اس وقت بالکل سنجیدہ نظر آرہی تھی اور کم از کم میں ‘ میں تو مذاق میں ایسی بات کبھی نہیں کروں گی۔ کیا پہلے کبھی میں نے تم سے ایسا مذاق کیا؟”وہ اب برہ راست ثمر کی طرف دیکھتے ہوئے پوچھ رہی تھی۔
”نایاب !اپنی گاڑی میں بیٹھو۔ لوگ ہمیں گھور رہے ہیں ۔”ثمر نے بات کا موضوع یک دم بدلتے ہوئے کہا۔
”تمہیں یہاں کوئی نہیں پہچانتا مگر میرے تو گھر تک سے واقف ہیں لوگ۔ تم گاڑی کا دروازہ کھولو ۔ ”ثمر نے نایاب سے کہا ۔”میں یہاں سے چلی جاؤں گی مگر اس سے پہلے تم اس سوال کا جواب دو جو میں تم سے پوچھ رہی ہوں۔”
نایاب اس کی بات کو نظر انداز کرتے ہوئے بولی۔ وہ دونوں اس وقت گاڑی کی ڈرائیونگ سیٹ کے دروازے کے پاس کھڑے تھے۔
”پہلے مجھے شک تھا کہ تمہار دماغ خراب ہے مگر آج یہاں آنے اور اس طرح کے سوال کے بعد تو مجھے مکمل یقین ہو گیا ہے کہ تم واقعی پاگل ہو۔” ثمر نے بے اختیار دانت پیس کر کہا ۔ سڑک سے گزرنے والے لوگ اب باقاعدہ گردن موڑ موڑ کر انہیں دیکھ رہے تھے اور کچھ شنا سا لوگ تو ٹھٹھگ بھی رہے تھے۔
”اچھا ؟نایاب دھیرے سے مسکرائی ”حالانکہ مجھے پتا ہے کہ تمہیں کبھی میرے بارے میں کوئی شک نہیں رہا تمہیں ہمیشہ ہی یہ یقین رہا ہے کہ میں پاگل ہوں اور ایسا ہی یقین میں تمہارے بارے میں رکھتی ہوں اسی لیے تو پر پوز کیا ہے میں نے تمہیں۔ وہ کیا کہتے ہیں خوب گزرے گی جو مل بیٹھیں گے دیوانے دو۔ ”نایاب یہ شعر سنا کر جیسے خود ہی محفوظ ہوئی ۔
”میں ایسی فضول باتوں پر کوئی تبصرہ کرنا پسند نہیں کرتا۔ ”ثمر نے اکھڑے ہوئے انداز میں کہا۔”تم صبح کالج آنا ‘وہاں میں تمہیں تمہارے اس پر پوزل کا جواب دوں گا۔”
”اچھا… تمہیں یقین ہے’ تم واقعی کل صبح کالج آنے کے قابل ہو گے۔” نایاب نے جیسے اس کا مذاق اڑایا ”مجھے تو لگ رہا ہے۔ آج رات ہی تمہیں ہارٹ اٹیک ہو جائے گا مجھ سے ہونے والی گفتگو کے بارے میں سوچ سوچ کر۔”
”تم کیا واقعی گھر سے یہ طے کر کے آئی ہو کہ مجھے اپنے محلے میں منہ دکھانے کے قابل نہیں چھوڑں گی؟۔” ثمر نے ایک بار پھر ناراضی سے دانت کچکچائے ۔”امی نے نہ کہا ہوتا تو میں کبھی تمہیں گاڑی تک چھوڑنے نہ آتا اور تم مجھے اسی ایک بات پر بلیک میل کر رہی ہو۔” ثمر اس بار واقعی ناراض ہو گیا تھا۔ ”تمہیں نظر نہیں آرہا ہے کہ آس پاس سے گزرنے والے لوگ تمہیں کس طرح دیکھ رہے ہیں۔”




نایاب اس کی بات پر بے اختیار مسکرائی آ …ہم ”اس کا مطلب ہے کہ تم واقعی میری پروا کرتے ہو اور ان لوگوں کی نظروں سے جیلس ہو رہے ہو ۔اچھا لگا یہ’ چلو پھر چلتی ہوں۔”
نایاب نے گاڑی کا دروازہ کھولتے ہوئے کہا۔
”ورنہ میں نے سوچا تھاکہ آج تم سے جواب لے کر ہی جاؤں گی۔ مگر اب ترس آرہا ہے مجھے تم پر ‘ چلو ٹھیک ہے پھر صبح کالج میں ملنا مجھے…میں تمہارا انتظار کروں گی۔ ”وہ اب گاڑی میں بیٹھ کر گاڑی کا دروازہ بند کر رہی تھی ثمر ہکا بکا اس کا چہرہ دیکھ رہا تھا۔ اسے گاڑی اسٹارٹ کرتے اورپھر وہاں سے نکال لے جانے میں صرف چند منٹ لگے تھے مگر ثمر اگلے کئی منٹ وہیں کھڑا سڑک پر دور جاتی اس کی گاڑی کی ٹیل لائٹس کو دیکھتا رہا۔
”تم مجھ سے شادی کرو گے؟”اس کے کانوں میں نایاب کی آواز گونج رہی تھی۔
٭٭٭
اپنے گھر سے صاعقہ کے گھر تک پہنچنے میں منصور کو عام طور پر آدھا گھنٹہ لگتا تھا مگر اس دن وہ پندرہ منٹ میں تقریبا اڑتا ہوا وہاں پہنچا تھا۔ فوری طور پر اس کے ذہن میں یہی آیا تھا کہ وہ صاعقہ سے اس سلسلے میں بات کرے۔
صاعقہ ‘رخشی کے منصور کے گھر میں منتقل ہو جانے کے بعد اس گھر میں مقیم تھی جہاں رخشی ‘منصور سے شادی ہو جانے کے بعد رہتی تھی۔ منصور اپنے گھر کے ساتھ ساتھ صاعقہ کے گھر کے تمام اخراجات بھی اٹھا رہا تھا۔ اگر چہ اس کے لیے یہ کوئی پسندیدہ کام نہیں تھا مگر رخشی سے شادی کی قیمت کے طور پر اسے یہ بھی کرنا پڑ رہا تھا اور رخشی جیسی بیوی پا کر اسے کبھی یہ بوجھ نہیں لگا تھا۔ رخشی کے اس طرح کے رد عمل کے بعد فوری طور پر اس کے ذہن میں صاعقہ کا خیا ل آیا تھا اور اسے یقین تھا کہ صاعقہ اس مشکل میں اس کی مدد کرے گی اور رخشی کو سمجھائے گی۔ یقینا وہ کبھی بھی ان تمام سہولیات سے محروم ہونا نہیں چاہیے گی جو منصور اسے فراہم کر رہا تھا۔ اسے یہ سوچ کر کچھ اطمینان ہوا تھامگر صاعقہ کے گھر کے گیٹ پر ہی اس کا یہ اطمینان رخصت ہو گیا تھا۔ چوکیدار نے اسے گیٹ پر ہی بتا دیا کہ صاعقہ صبح سے رخشی کے گھر پر ہے۔
”وہ کب واپس آئیں گی؟”منصور کے ہاتھوں کے طوطے ایک بار پھر اڑ گئے۔
”پتا نہیں …انہوں نے بتایا نہیں۔”
چوکیدار نے کھردرے لہجے میں کہا۔ اس کا انداز بھی آج پہلی بار بدلا ہوا تھا۔ پہلے جیسی گرم جوشی اور تابعداری یک دم کہیں غائب ہو گئی تھی۔
”وہ اپنا سامان ساتھ لے کر گئی ہیں ۔ کہہ کر گئی تھیں کہ اب وہ کچھ دن رخشی بی بی کے گھر پر ہی رہیں گی۔”
چوکیدار نے مزید بتایا۔
”میں اندر آنا چاہتا ہوں گیٹ کھول دو۔”منصور نے چوکیدار سے کہا ۔ اس ساری صورت حال میں اس نے فوری طور پر یہی بہتر سمجھا تھا کہ وہ وہیں قیام کرے مگر اس کی بات پر چوکیدار یک دم جیسے ہتھّے سے اکھڑ گیا تھا۔
”اندر کس لیے آنا چاہتے ہیں آپ؟اس نے بالکل بدلے ہوئے انداز میں کہا۔ منصور نے حیرانی سے اسے دیکھا ۔ یہ اس کا رکھا ہوا چوکیدار تھا جو اب اسی سے سوال وجواب کر رہا تھا۔
”یہ میرا گھر ہے۔ اس لیے اندر آنا چاہتا ہوں اب کیا تم یہ پوچھا کرو گے مجھ سے؟”منصور نے کچھ بگڑ کر چوکیدار سے کہا۔
”یہ آپ کا نہیں رخشی اور صاعقہ بی بی کا گھر ہے۔”چوکیدار نے اس بارپہلے سے بھی بلند آواز میں کہا۔
”اور انہوں نے مجھ سے کہا ہے کہ میں آپ کو اندر گھسنے نہ دوں۔ آپ پھر بھی میرا احسان مانیں کہ میں نے آپ سے اتنی لمبی بات کی ورنہ صاعقہ بی بی تو کہہ کر گئی تھیں کہ میں آپ کے یہاں آنے پر گیٹ کھولوں’ نہ ہی آپ سے کسی قسم کی کوئی بات کروں۔”
چوکیدار اب واپس پلٹ گیا تھا۔ منصور ساکت وہیں کھڑا رہا ۔ وہ ٹھیک کہہ رہا تھا۔ اس نے یہ گھر شادی کی خوشی میںرخشی کوتحفے کے طور پر دیا تھا۔ اس کے پیپرز وہ رخشی کے حوالے کر چکا تھا اور وہ یہ جانتا تھا کہ رخشی وہ پیپرز صاعقہ کو دے چکی ہے مگر اسے کبھی اس پر بھی اعتراض نہیں ہوا تھا۔ وہ جانتا تھا کہ صاعقہ اس گھر میں رہائش اختیار کرنے کے علاوہ اور کچھ نہیں کرے گی۔ مگر اسے کبھی یہ خیال نہیں آیا تھا کہ ایک دن خود اسے اس گھر کے گیٹ پر یہ بتایا جائے گا کہ یہ اس کا گھر نہیں ہے اور وہ اس گھر پر کوئی حق نہیں رکھتا۔
چوکیدار گیٹ بند کر کے اب گیٹ کے دوسری طرف کھڑا تھا اور وہ منصور علی کو کڑی نظروںسے گھورہا تھا جو اپنی گاڑی کے پاس گم صم کھڑا تھا۔ اس کا ذہن اب بالکل ماؤف ہو رہا تھا۔ جو کچھ اس کے ساتھ ہوا تھا وہ پہلے سے طے شدہ منصوبہ بندی کے تحت ہوا تھا یا پھر یہ صرف رات والے واقعات کا نتیجہ تھا۔ وہ طے نہیں کر پا رہا تھا۔ مگر اب پہلی بار اس کا دل ڈوبنے لگا تھا ۔ وہ بری طرح پھنس چکا تھا۔
گاڑی کو دوبارہ سڑک پر لاتے ہوئے وہ سمجھ نہیں پارہا تھا کہ اسے کیا کرنا چاہیے۔ اسے رخشی اور صاعقہ کے رویے پر بے حد غصہ آرہا تھا مگر اس سے زیادہ طیش اسے خود پر آرہا تھا۔ آخر کیا ضرورت تھی اسے رات کو رخشی کے ساتھ اس طرح پیش آنے کی ۔ وہ اس کے بوائے فرینڈ کا مسئلہ اتنا شوروغل کیے بغیر بھی حل کر سکتا تھا۔ یا رخشی کو ڈھنگ کے طریقے سے بھی سمجھا سکتا تھا ۔ وہ گاڑی ڈرائیو کرتے ہوئے خود کو کوسنے میں مصروف تھا۔ گاڑی ڈرائیو کرنے کے دوران اس نے وقتافوقتا کئی بار رخشی کو اس کے موبائل اور گھر کے فون پر کال کرنے کی کوشش کی اس بار موبائل آف نہیں ملا مگر اس کی کال ریسیو نہیں کی گئی۔
وہ رخشی کے غصے سے اچھی طرح واقف تھا۔ وہ جب ناراض ہوتی تھی تو پھر یہ ناراضی آسانی سے ختم نہیں ہوتی تھی مگر یہ اس حد تک پہنچ جائے گی اسے اندازہ نہیں تھا۔ وہ اب یہ سوچنے میں مصروف تھا کہ وہ اس قت کس سے رابطہ کرے جو اسے اس مشکل صورت حال نکال سکے ۔رخشی اور اس کے بیچ مصالحت کا کام کون کر سکتا تھا۔
سڑکوں پر آوارہ گردی کرتے ہوئے اس کے ذہن میں یک دم ہارون کمال کا نام آیا اور اس نے بے اختیار کارکوبریک لگائی۔ واقعی صرف ہارون کمال ہی اس وقت اس کے کام آسکتا تھا۔ اس نے قدرے مسرور ہو کر سوچا۔ صرف وہی تھا جو رخشی پر اپنا اثر رکھتا تھا کہ نہ صرف اسے سمجھا تا بلکہ منصور علی کو اس مشکل صورت حال سے بھی نکال لیتا۔
اگلے کئی منٹ وہ گاڑی سڑک کے کنارے پارک کیے ہارون کمال کے موبائل پر کال کرتا رہا ۔ موبائل آف تھا۔ اور موبائل اسے اگلے تین گھنٹے آف ملا تھا اور اس تین گھنٹے میں منصور علی نے پورے شہر کی سڑکیں چھان ماری تھیں۔ وہ سڑکوں کے علاوہ یہ رات کہیں نہیں گزار سکتا تھا۔ وہ کسی رشتہ دار یا دوست کے گھر جا کر رخشی کے اس سلوک کے بارے میں نہیں بتا سکتاتھا۔ وہ کسی ہوٹل میں جا کر سکون سے رات کے باقی ماندہ گھنٹے بھی نہیں گزار سکتا تھا۔ یہ تصور کہ رخشی کا وہ بوائے فرینڈ اس وقت اس کے گھر پر موجود تھا اور خود رخشی کا شوہر اس وقت سڑکوں پر خوار ہوتاپھر رہا تھا’ اس کے لیے سوہان روح تھا ۔
اسے اب ہارون کمال پر بھی غصہ آرہا تھا۔ آخر وہ اس وقت موبال آف کیے کیوں بیٹھا تھا جب اسے اس کی ضرورت تھی۔ ایک لمحہ کے لیے اس کے دل میں خیال آیا کہ وہ ہارون کمال کے گھر چلا جائے مگر اگلے ہی لمحے اس نے اس خیال کو اپنے دل سے چھٹک دیا۔ وہ شائستہ کا سامنا نہیں کرنا چاہتا تھا۔
اور تب ہی اسے ہارون کمال کے اس اپارٹمنٹ کا خیال آیا جہاں ہارون اکثر مختلف لڑکیوں کے ساتھ وقت گزارا کرتاتھا۔ وہ اپنا موبائل دیر تک تب ہی بند رکھتاتھا جب وہ اس طرح کسی لڑکی کے ساتھ ہوتا۔ منصور نے گاڑی اس کے اپارٹمنٹ کی طرف موڑ لی۔ اگرچہ رات کے اس وقت اس طرح اس اپارٹمنٹ پر جانا مناسب نہیں تھا مگر منصور اس وقت اپنے ہوش و حواس میں نہیں تھا۔
وہ ہارون کے ساتھ چند ایک بار اس اپارٹمنٹ پر آچکا تھا۔ جب ہارون نے اپنے کچھ خاص دوستوں کے لیے وہاں مجرے کا بندوست کیا تھا۔ منصور بھی ان خاص دوستوں میں شامل ہو گیا تھا۔ رخشی کے ساتھ اس کی ابتدائی ملاقاتیں بھی اسی اپارٹمنٹ میں ہوا کرتی تھیں ۔ ہارون کمال نے بے تکلفی کا مظاہرہ کرتے ہوئے اسے خود اس اپارٹمنٹ کو استعمال کرنے کی آفر کی تھی۔ اور منصور علی نے ابتدا میں کچھ جھجکتے ہوئے مگر بعد میں خاصے دھڑلے سے اس اپارٹمنٹ کو استعمال کرنا شروع کر دیا تھا۔
رخشی سے شادی کے بعد بھی ہارون جب کبھی اس اپارٹمنٹ پر کسی طرح کی تفریح کا انتظام کرتا تو منصور اس میں شرکت کرتا تھا۔ اس لیے اپارٹمنٹ پر موجود ہارون کا خاص الخاص ملازم منصور سے اچھی طرح واقف تھا۔




Loading

Read Previous

تھوڑا سا آسمان — قسط نمبر ۱۱

Read Next

تھوڑا سا آسمان — قسط نمبر ۱۳

Leave a Reply

آپ کا ای میل ایڈریس شائع نہیں کیا جائے گا۔ ضروری خانوں کو * سے نشان زد کیا گیا ہے

error: Content is protected !!