تھوڑا سا آسمان — قسط نمبر ۱۲

”احمقانہ باتیں مت کرو… مجھے یہ کہیں سے گری ہوئی ملی ہے۔”
ہارون کمال کو احساس تھا کہ اس کے منہ سے نکلنے والا یہ بہانا بذات خود بہت احمقانہ لگ رہا ہے مگر فوری طور پر اس کے ذہن میں اس کے علاوہ اور کوئی بات نہیں آئی تھی۔ اگر اسے یہ اندازہ ہوتا کہ وہ انگوٹھی شائستہ کے ہاتھ لگ جائے گی اور اس سلسلے میں اسے شائستہ کا سامنا کرنا پڑے گا تو وہ ذہنی طور پر اس صورت حال کے لیے تیار ہوتا اور یقینا کوئی نہ کوئی بہانا بھی تیار رکھتا مگر شائستہ کی ہتھیلی پر انگوٹھی دیکھ کر وہ یک دم اتنا نروس ہوا تھا کہ وہ اس بہانے سے زیادہ بہتر کوئی وجہ پیش نہیں کر سکا۔
”تم کس کو بے وقوف بنانے کی کوشش کر رہے ہو ہارون؟” شائستہ اس کی بات پر یک دم بھڑک اٹھی۔
”مجھے؟ تم میری نظروں میں دھول جھونکنے کی کوشش کر رہے ہو؟ مجھے یہ بتانے کی کوشش کر رہے ہو کہ ہارون کمال جیسا انڈسٹریلسٹ رستے میں گری ہوئی رِنگز اٹھاتا پھرتا ہے اور پھر گھر لا کر انھیں پاگلوں کی طرح ڈھونڈتا پھرتا ہے؟”
”یہ ایک اتفاق ہے شائستہ! اور زندگی میں اتفاقات اکثر ہوتے رہتے ہیں۔” ہارون نے اپنے جھوٹ پر جمے رہنے کا فیصلہ لمحے بھر میں کر لیا تھا۔
شائستہ نے تب ہی اس کے دائیں گال پر کان سے کچھ فاصلے پر لگی بینڈایڈ کو دیکھا۔ باتھ روم میں جانے سے پہلے اس کے چہرے پر کوئی بینڈایڈ نہیں تھی۔ اگر اسے وہاں کوئی چوٹ لگی ہوئی تھی تو اس کے باتھ روم میں جانے سے پہلے شائستہ نے اس پر غور نہیں کیا تھا مگر اب… ہارون نے اس کی نظروں کو اپنے چہرے پر محسوس کیا تھا۔ اس کے ماتھے پر بل تھے اور آنکھوں میں الجھن۔
”میرا ایک چھوٹا سا ایکسیڈنٹ ہو گیا تھا۔” ہارون نے گال پر لگی بینڈایڈ کو چھوتے ہوئے کہا۔
”کیا ایکسیڈنٹ؟” شائستہ کا لہجہ نرم نہیں ہوا تھا۔
”تم اس وقت میری جان چھوڑ دو۔ صبح مجھ سے یہ سارے سوال کر سکتی ہو۔”
ہارون بیزاری سے کہتے ہوئے بیڈروم کی طرف بڑھ گیا۔ اس نے یک دم انگوٹھی کا ذکر گول کر دیا۔
شائستہ اس کی پیروی کرتے ہوئے۔ اس کے پیچھے بیڈروم میں چلی آئی۔ انگوٹھی ابھی بھی اس کی مٹھی میں دبی ہوئی تھی۔
”یہ رنگ کہاں سے ملی ہے تمھیں؟”
”جہنم سے۔” ہارون نے بے ساختہ کہا۔ ”اور میں تو اب پچھتا رہا ہوں کہ میں نے اسے اٹھایا کیوں۔ وہیں پڑی رہنے دیتا، کم از کم اس وقت اس انگوٹھی کی وجہ سے تم میرا دماغ تو نہ کھا رہی ہوتیں۔”




وہ اب بھی جھنجلایا ہوا تھا۔ اسے چند لمحے لگے تھے خود پر قابو پانے میں مگر ان چند لمحوں میں وہ اس مشکل صورت حال سے باہر نکل آیا تھا، جس میں کچھ دیر پہلے وہ شائستہ کی وجہ سے پھنسا ہوا تھا۔ وہ جانتا تھا کہ شائستہ کے سامنے وہ جتنا دفاعی رویہ رکھے گا یہ اس کے لیے اتنا ہی نقصان دہ ہوگا۔
یہ یقین ہونے کے باوجود کہ وہ انگوٹھی ہارون کو رستے میں نہیں ملی تھی شائستہ پھر بھی کچھ متذبذب ہو گئی۔ ہارون اب اپنے بیڈ پر بیٹھا سگریٹ سلگانے میں مصروف تھا۔ شائستہ نے اپنے بیڈ سائڈ ٹیبل کی دراز کھولی اور وہ انگوٹھی تقریباً پھینکنے کے سے انداز میں اندر رکھی۔ وہ اس کے بارے میں پھر کبھی بات کر سکتی تھی۔ اس وقت ضروری تھا کہ وہ اس سے وہ بات کرتی جو وہ کرنا چاہتی تھی۔
”مجھے تم سے کچھ بات کرنی ہے۔” اس نے بیڈ کی طرف آتے ہوئے کہا۔
”اگر تمھیں…”
شائستہ نے ہارون کی بات کاٹ کر کہا۔ ”مجھے رِنگ اور تمہارے ایکسیڈنٹ کے بارے میں نہیں کسی اور ٹاپک پر بات کرنی ہے۔”
ہارون کے چہرے پر سگریٹ کا کش لیتے ہوئے بے اختیار اطمینان کا سایہ لہرایا۔ آخرکار وہ اس موضوع سے جان چھڑانے میں کامیاب ہو گیا تھا۔ شائستہ اس کے بیڈ کے سامنے صوفہ پر بیٹھ گئی۔
ہارون نے سگریٹ کا ایک اور کش لگایا۔ ”کرو۔”
”مجھے اپنا بیٹا مل گیا ہے۔” ہارون کے ہاتھ سے سگریٹ نیچے گر پڑا۔ آج کی رات اس کی زندگی کی واقعی سب سے خراب ترین رات تھی۔
٭٭٭
”رائی کا پہاڑ مت بناؤ منصور!” رخشی نے تیز آواز میں اس سے کہا۔
”آپ بوائے فرینڈ یوں کہہ رہے ہیں جیسے…” منصور نے اسے بات مکمل کرنے نہیں دی۔
”وہ تمہارا بوائے فرینڈ ہے۔” وہ جیسے غرایا۔
”آپ اصرار کر رہے ہیں تو یہی سمجھ لیں کہ وہ میرا بوائے فرینڈ ہے۔”
رخشی نے ترکی بہ ترکی کہا۔ منصور بے یقینی سے اس کا چہرہ دیکھتا رہا۔ وہ اس کی بیوی تھی ا ور اس کے نزدیک بوائے فرینڈ جیسے ایک بہت ہی بے ضرر شے تھی۔
”آپ اگر اسے کزن ماننے پر تیار نہیں ہو تو ٹھیک ہے پھر آپ اسے میرا بوائے فرینڈ کہہ لیں۔”
رخشی کا اطمینان قابل رشک تھا۔
”تم اپنے شوہر کو اپنے بوائے فرینڈ کے بارے میں بتا رہی ہو؟”
میں نے اپنے شوہر کو دعوت نہیں دی تھی کہ وہ مجھ سے میرے بوائے فرینڈ کے بارے میں پوچھے اور میں اسے بتاؤں۔” رخشی نے تیز ہو کر کہا۔
”شوہر کو اگر اچانک اتنے سوال کرنے کا شوق پیدا ہو گیا ہے تو پھر اسے بوائے فرینڈ کے بارے میں جان کر اتنا شاک کیوں لگا ہے؟”
”تم میری بیوی ہو۔”
”اور آپ سے شادی سے پہلے میں آپ کی گرل فرینڈ تھی اور آپ میرے بوائے فرینڈ۔ اس وقت آپ کو اس رشتے یا تعلق پر اتنا شاک کیوں نہیں لگا تھا؟ رخشی نے اس کی بات کاٹ کر کہا۔
منصور کچھ بول نہیں سکا رخشی پہلے بھی اس سے جھگڑا کیا کرتی تھی مگر جس طرح کی باتیں وہ آج کر رہی تھی وہ اس نے پہلے نہیں سنی تھیں۔
”مجھے یہ مت بتاؤ کہ شادی سے پہلے میرا اور تمہارا کیا تعلق تھا۔” منصور نے اپنے حواس پر جیسے قابو پاتے ہوئے کہا۔
”اب میں تمہارا شوہر ہوں اور میرے لیے صرف یہی بات اہمیت رکھتی ہے۔”
”آپ اگر میرے شوہر ہیں تو آپ کو مجھے بیوی والی عزت دینی چاہیے۔”
”بیوی والی عزت یا آزادی؟”
”ہاں آزادی بھی۔” رخشی نے اس کے طنز کا برا نہیں مانا۔ ”آپ میرے پر کاٹ کر مجھے کسی پنجرے میں قید نہیں کر سکتے۔”
”اگر پنجرے میں رکھنا تھا تو پھر منیزہ آپ کے لیے زیادہ مناسب بیوی تھی۔ وہ موٹی، بھدی اور زبان دراز بیوی جس پر کوئی دوسری نظر ڈالنا پسند نہیں کرتا تھا۔” رخشی کے انداز میں تضحیک تھی۔
”اور جس کے گلے میں پٹہ ڈال کر آپ اسے جہاں چاہے اسے باندھ دیتے۔”
”تم اپنے بارے میں کیا کہو گی جو بغیر پٹے کے جگہ جگہ منہ مارتی پھر رہی ہو۔”
”میں تمہارا انتخاب ہوں منصور!” رخشی کو اس کے جملے نے تپا دیا۔ ” وہ یک دم آپ سے تم پر اُتر آئی مجھے اپنی مرضی سے اپنی زندگی میں لے کر آئے تھے تم… تم نے کہا تھا کہ تمھیں مجھ سے محبت ہو گئی ہے۔ میں نے تمھیں دعوت نہیں دی تھی کہ تم اپنا پرپوزل لے کر میرے پاس آؤ۔” وہ احساس کا مذاق اڑا رہی تھی۔
”تم نے کہا تھا کہ تم میرے بغیر زندہ نہیں رہ سکتے۔ مر جاؤ گے۔ اپنی بیٹی کی عمر والی لڑکی نہ ملی تو مر جاؤ گے۔”
”اپنا منہ بند رکھو” منصور بے اختیار چلایا۔ ”کیوں بند کروں؟ اب کیوں بند کر لوں۔”
”بھونکنا بند کرو۔” منصور ایک بار پھر دھاڑا۔
”میں بھونکنا بند کر دوں تاکہ تم بھونکنا شروع کر سکو۔ ابھی تک شوق پورا نہیں ہوا تمہارا۔ میں تو سمجھ رہی تھی کہ کافی بھونک چکے ہو تم…”
”میں دیکھوں گا تم دوبارہ میرے گھر سے کس طرح قدم باہر نکالتی ہو… میں تمہاری ٹانگیں توڑ دوں گا اور اس کو تو میں دیکھ لوں گا۔”
منصور نے رخشی کے بوائے فرینڈ کو گالی دیتے ہوئے کہا۔ ادب و لحاظ اور پیار محبت کا وہ چولا جو وہ اتنے عرصے سے ایک دوسرے کے سامنے اوڑھے ہوئے تھے۔ وہ آج یک دم اتر گیا تھا۔ اب دونوں جیسے ایک دوسرے کے خون کے پیاسے ہو رہے تھے۔
”تمہارا گھر؟” رخشی نے مصنوعی حیرت سے کہا۔
”کون سا گھر…؟ جہاں تک میری یادداشت کام کرتی ہے۔ میں آج تک تمہارے گھر میں نہیں اپنے گھر میں رہ رہی ہوں۔”
”اس گھر کے کاغذات میرے پاس ہیں۔”
”اور ان کاغذات پر یہ گھر میرے نام ہے۔” رخشی نے جواباً کہا۔
”کاغذات پر نام جس کا بھی ہو گھر اس کا ہوتا ہے جس کے پاس کاغذات ہوتے ہیں اور میں اتنا بے وقوف نہیں ہوں کہ کاغذات تم کو تھما دیتا۔ تم جیسی عورتیں گھر بسانے والی نہیں ہوتیں صرف گھر اجاڑنے کے لیے آتی ہیں۔” منصور کو اس وقت رخشی کے وجود سے گھن آ رہی تھی۔
”میرے جیسی عورتیں آسمان سے تم جیسوں کے گھر نہیں ٹپکتیں۔ ہاتھ پکڑ کر دروازے کھڑکیاں کھول کر تم لوگ اندر لاتے ہو بلکہ سر پر بٹھا کر اندر لاتے ہو۔”
”میں نے تم پر احسان کیا تھا رخشی… تم سے شادی کر کے۔ ورنہ کتنے مرد نام دیتے ہیں…؟ شادی کرتے ہیں تم جیسی عورتوں سے؟” منصور اب اس پر اپنے احسان جتا رہا تھا۔
”تمہاری عمر کا ہر دوسرا مرد میری عمر کی لڑکیوں سے اسی طرح آنکھیں بند کر کے شادی کرنے پر تیار ہو جاتا ہے، تم نے احسان کیا تھا مجھ پر…؟ یا میں نے احسان کیا تھا تم پر… تم یاد کرو مجھ سے شادی کے لیے کس طرح منتیں کرتے پھرتے تھے تم میرے سامنے۔”
”وہ میری زندگی کی سب سے بڑی حماقت تھی۔” منصور نے بے اختیار کہا۔
”تمہارا اصل تو یہ ہے جو تم اب دکھا رہی ہو مجھے۔”
”اور تمہارا اصل میں بہت پہلے سے جانتی تھی۔ میرے گھر سے چلے جاؤ۔” وہ حلق کے بل چلائی۔ منصور نے بے اختیار اس کے چہرے پر تھپڑ دے مارا۔




Loading

Read Previous

تھوڑا سا آسمان — قسط نمبر ۱۱

Read Next

تھوڑا سا آسمان — قسط نمبر ۱۳

Leave a Reply

آپ کا ای میل ایڈریس شائع نہیں کیا جائے گا۔ ضروری خانوں کو * سے نشان زد کیا گیا ہے

error: Content is protected !!