تھوڑا سا آسمان — قسط نمبر ۱۲

”تم کس بیٹے کی بات کر رہی ہو؟” ہارون نے برہمی سے پوچھا۔
”تم جانتے ہو کہ میں کس بیٹے کی بات کر رہی ہوں۔” شائستہ نے پرُسکون انداز میں کہا۔
”اسد کبھی گم نہیں ہوا۔” ہارون نے اپنے ایک ایک لفظ پر زور دیتے ہوئے کہا۔
”میں اسد کی بات نہیں کر رہی ہوں۔”
”اسد کے علاوہ ہمارا اور کوئی بیٹا نہیں ہے۔”
”تمہاری یادداشت خراب ہو گئی ہوگی۔ میری نہیں ہوئی۔”
”میری یادداشت خراب ہوئی ہے اور تمہارا دماغ خراب ہو گیا ہے۔” ہارون نے تلملا کر کہا۔
”ہو سکتا ہے ایسا ہی ہو۔” شائستہ کے انداز میں ابھی بھی وہی بے نیازی تھی۔ ”مگر میں پھر بھی تمھیں یہ بتانا چاہتی ہوں کہ مجھے میرا بیٹا مل گیا ہے۔”
”شائستہ! گڑے مردے اکھاڑنے کی کوشش مت کرو۔”
”میں گڑے مردے نہیں اکھاڑ رہی ہوں۔ میں صرف اس ایک غلطی کی تلافی کرنا چاہتی ہوں جو ہم دونوں سے ہوئی تھی۔”
”غلطی تم سے ہوئی ہوگی، مجھ سے نہیں ہوئی۔ اس لیے یہ مت کہو کہ ”ہماری غلطی” صرف ”میری غلطی” کہو۔” ہارون بگڑا۔
”ٹھیک ہے تم یہی کہہ لو لیکن میں اپنی غلطی کی تلافی کرنا چاہتی ہوں۔”
”اور اس غلطی کی تلافی تم اس طرح کرو گی کہ اپنے ساتھ ساتھ مجھے بھی اپنی اولاد کی نظر اور دنیا کی نظروں میں تماشہ بنا دو گی۔” ہارون کمال بلند آواز میں بولا۔
”مجھے پروا نہیں ہے ہارون! کہ دنیا کیا کہتی ہے۔” شائستہ نے کہا۔
”میں نے زندگی میں کبھی دنیا کی پروا نہیں کی۔ دنیا کی پروا کی ہوتی تو میں آج تمہاری بیوی نہیں ہوتی۔ دنیا کی پروا ہوتی تو تمہاری انگلیوں کے اشارے پر ناچتے میں نے اپنی زندگی برباد نہ کی ہوتی۔” شائستہ بہت تلخ ہو رہی تھی۔
”صرف ایک بار دنیا کی پروا کی تھی میں نے، جب تمہارے کہنے پر میں نے اپنی اولاد کو چھوڑ دیا۔ اور اس پچھتاوے سے میں آج تک باہر نہیں آئی اور آج جب وہ اولاد میرے سامنے آ گئی ہے تو میں آج کسی دنیا کی خاطر اسے چھوڑ نہیں سکتی۔”
”تم جذبات میں اندھی ہو رہی ہو۔ کسی کو اتنے سالوں کے بعد اپنی اولاد بنا لینا۔ کیا پتا وہ بچہ زندہ ہی نہ بچا ہو۔ زندہ ہو بھی تو پتا نہیں کہاں ہے کہاں نہیں اور تم مجھے ایک فلمی کہانی سنا رہی ہو کہ تمھیں تمہارا بیٹا مل گیا ہے۔” ہارون نے یک دم اپنے لہجے کو تبدیل کیا شائستہ کا لب و لہجہ بتا رہا تھا کہ وہ اسے جھڑک کر اپنی بات نہیں منوا سکتا۔ کم از کم آج اس وقت نہیں۔
”میں بے وقوف نہیں ہوں ہارون! کہ کسی کو بھی اپنی اولاد مان لوں۔ میں نے پوری تحقیق کروائی ہے۔ وہ میرا ہی بیٹا ہے، اسے اسی یتیم خانے سے لیا گیا تھا۔ یہ وہی بچہ ہے۔”
”کون ہے یہ؟”




”تم جانتے ہو اسے۔” شائستہ نے کہا۔ ”بلکہ مل چکے ہو اس سے۔ نایاب کے دوست ثمر کا بڑا بھائی ہے وہ۔ شہیر نام ہے اس کا۔”
ہارون پلکیں جھپکائے بغیر شائستہ کا چہرہ دیکھتا رہا۔ اس کی آنکھوں کے سامنے امبر کے گھر کے ساتھ والے گھر کے دروازے پر کھڑے شہیر کا چہرہ نمودار ہوا تھا۔ اور وہ بے اختیار حواس باختہ ہو گیا۔
”تمہارا دماغ ٹھیک ہے۔ وہ تین بہن بھائی ہیں۔ تم…”
شائستہ نے اس کی بات کاٹ دی۔ ”تین بہن بھائی… اس عورت نے ان تینوں کو پالا ہے۔ باقی دونوں بچوں کو کوڑے کے ڈھیر سے اٹھایا تھا اس نے۔ اس عورت کی کبھی شادی نہیں ہوئی۔ اس نے جھوٹ اور فریب کا ایک پردہ ڈالا ہوا ہے دنیا کے سامنے۔”
شائستہ کے انداز میں تضحیک تھی۔
”میں نے پہلی بار شہیر کو پی سی میں دیکھا تھا اور اس کے چہرے پر پہلی نظر ڈالتے ہی میرے دل نے کہا تھا کہ وہ میرا بیٹا ہے۔ تمھیں اس کے چہرے میں اپنا چہرہ نظر نہیں آتا۔ نایاب تک مجھ سے کہہ چکی ہے کہ ثمر کا بھائی بالکل پاپا کی طرح لگتا ہے پھر…”
ہارون نے ناراضی کے عالم میں اس کی بات کاٹی۔ ”تم کسی کے چہرے پر میرا چہرہ Paste کرنے کی کوشش نہ کرو۔ میں دن میں درجنوں لوگوں سے ملتا ہوں۔ ان میں سے کئی لوگوں کے چہرے مجھ سے ملتے ہیں تو میں کیا انھیں اپنا بیٹا سمجھنے لگوں؟ آج اس کی شکل دیکھ کر تمھیں یہ اپنا بیٹا لگ رہا ہے کل کسی اور کا چہرہ دیکھ کر تمھیں یہی غلط فہمی ہوگی۔”
”مجھے کوئی غلط فہمی نہیں ہو رہی ہے۔ میں نے اس کا بیک گراؤنڈ پتہ کیا ہے۔ وہ وہی بچہ ہے جسے تم نے وہاں چھوڑا تھا۔”
شائستہ اپنی بات پر جمی ہوئی تھی۔
”اگر ایسا ہے بھی تو تم اس کا ذکر چھوڑ دو۔ تمہاری تسلی کے لیے کیا یہ کافی نہیں ہے کہ وہ زندہ ہے اور بڑی اچھی حالت میں ہے پھر کیا ضروری ہے کہ تم اس کے گلے میں اپنی اولاد کا لیبل لٹکاؤ۔”
”وہ اچھی حالت میں ہے؟ اچھی زندگی گزار رہا ہے؟ تم نے وہ علاقہ نہیں دیکھا جہاں وہ رہ رہا ہے۔ وہ گھر نہیں دیکھا جہاں وہ زندگی گزار رہا ہے۔ تعلیم حاصل کرنے کے لیے اسے جاب کرنا پڑ رہی ہے اور تم کہہ رہے ہو وہ اچھی حالت میں ہے؟”
”فار گاڈسیک شائستہ!” پھر تم کیا چاہتی ہو کہ تم اسے اس گھر میں لے آؤ۔ ڈنر ٹیبل پر نایاب اور اسد سے ملواؤ۔ ان سے کہو کہ اپنے بڑے بھائی سے ملو جسے ہم نے اب دریافت کیا ہے۔ اور پھر انھیں اس کی ہسٹری بتانا۔”
”میں انھیں بتا دوں گی، مجھے کچھ بھی کہنے میں کوئی عار نہیں۔”
شائستہ نے دوٹوک انداز میں کہا۔ ”اور لوگوں کے سامنے کمال فیملی کی اس خفیہ اولاد کا تعارف تم کیسے کرواؤ گی؟”
”لوگوں کے سامنے کچھ بھی کہنے کی ضرورت نہیں ہے، کوئی سوال نہیں کرے گا۔”
”لوگ خاموش تب رہیں گے اگر وہ اندھے ہو جائیں یا ہم بہرے ہو جائیں۔”
”ٹھیک ہے، میں لوگوں سے بھی کہہ دوں گی۔ مجھے کسی کا ڈر نہیں ہے۔”
ہارون چند لمحے کچھ نہیں بول سکا۔ ”اور وہ لڑکا… وہ یہ سب کچھ قبول کر لے گا۔ وہ ہماری غلطی کے لیے ہمیں معاف کر دے گا؟ وہ اپنی فیملی کو چھوڑ کر ہمارے ساتھ رہنے پر تیار ہو جائے گا؟”
”میں سارا انتظام کر چکی ہوں۔ تم اگر میرا ساتھ دو تو ہم اپنے بیٹے کو واپس اپنے پاس لا سکتے ہیں۔ اگر تم میری مدد کرو تو ہم چند اور جھوٹ بول کر دنیا کے سامنے بھی اپنی عزت رکھ سکتے ہیں۔”
شائستہ کی آواز میں اب لجاجت تھی۔
”میں اپنی اولاد کے بغیر نہیں رہ سکتی ہارون! میں اب یہ برداشت نہیں کر سکتی کہ میرا بیٹا میرے بجائے کسی دوسری عورت کو اپنی ماں سمجھے، وہ مجھ سے نفرت کرے۔”
”تم احمقوں کی جنت میں رہتی ہو شائستہ! جو کچھ تم کرنا چاہتی ہو، وہ ناممکن ہے اور اگر ممکن بھی ہو تو تم یہ توقع مت کرنا کہ ہارون کمال اس کام میں تمہارا ساتھ دے گا۔”
ہارون کمال تیز آواز میں کہتے ہوئے سگریٹ ایش ٹرے میں پھینک کر کمرے سے باہر نکل گیا۔
٭٭٭
منصور علی صبح جس وقت بیدار ہوا، رخشی اس وقت بھی کمرے میں نہیں تھی۔ وہ آفس جانے کے لیے تیار ہو کر ناشتے کی ٹیبل پر آیا تو ملازم نے اس کا استقبال کیا۔ پہلی بار منصور کو ایک خدشے نے ستایا۔ کہیں وہ واقعی چلی تو نہیں گئی تھی۔ ناشتے کی ٹیبل پر بیٹھتے ہوئے اس نے ملازم سے پوچھا۔
”بیگم صاحبہ کہاں ہیں؟”
”وہ سو رہی ہیں۔ میں نے انھیں ناشتے کے بارے میں بتایا تھا مگر انھوں نے کہا کہ میں انھیں ڈسٹرب نہ کروں۔”
ملازم نے بتایا تو منصور کو بے اختیار اطمینان ہوا۔ کم از کم وہ موجودہ تھی۔ اس کے لیے اتنا ہی کافی تھا۔
ناشتہ کرنے کے بعد وہ اطمینان سے آفس چلا گیا اور وہاں معمول کے کاموں میں مصروف رہا۔ رخشی اس کے آفس میں اسے ایک دو بار کال کیا کرتی تھی مگر آج اس نے کال نہیں کی تھی۔ منصور نے اس کے موبائل پر خود چند بار کال کی۔ اس کی کال بھی ریسیو نہیں کی گئی۔ مگر یہ اتنا غیر متوقع نہیں تھا۔ ظاہر ہے رخشی ناراض تھی اور وہ ہر بار ناراض ہونے پر یہی کیا کرتی تھی۔
منصور اس دن معمول کے مطابق آفس کے کام نپٹاتا رہا مگر اس کا ذہن رخشی میں ہی اٹکا ہوا تھا۔ وہ مسلسل سوچ رہا تھا کہ اسے اس کو منانے کے لیے کیا کہنا پڑے گا۔ اس نے پہلی بار اس پر ہاتھ اٹھایا تھا اور وہ یہ سوچ رہا تھا کہ وہ رخشی سے یہ وعدہ کرے گا کہ وہ دوبارہ اس پر کبھی ہاتھ نہیں اٹھائے گا۔
آفس سے وہ کچھ جلدی اٹھ گیا تھا۔ رخشی کے لیے کچھ پھول خریدنے کے بعد وہ اپنے گھر روانہ ہوا۔ پھر گیٹ کے باہر گاڑی روک کر ہارن دیا۔ مگر دروازہ نہیں کھلا۔ معمول کی طرح پہلے ہارن پر چوکیدار گیٹ پر نمودار نہیں ہوا تھا۔ منصور نے وقفے وقفے سے کئی ہارن دیے مگر گیٹ بند ہی رہا۔ اس نے کچھ جھنجلا کر ہارن پر ہاتھ رکھا اور بہت دیر تک ہاتھ نہیں ہٹایا۔ اس بار گیٹ کے دوسری طرف کچھ ہلچل پیدا ہوئی اور پھر بالآخر ایک لحیم شحیم کلاشنکوف بردار آدمی گیٹ کھول کر منصور کی طرف آیا۔ منصور اسے دیکھ کر چونک گیا وہ اس آدمی سے واقف نہیں تھا۔
”کیا تکلیف ہے تمھیں؟” اس آدمی نے تقریباً دھاڑتے ہوئے کھڑکی کے قریب آ کر کہا۔
”تم کون ہو؟ چوکیدار کہاں ہے؟” منصور نے برہمی سے کہا۔
”میں جو بھی ہوں تمھیں اس سے کوئی سروکار نہیں ہونا چاہیے۔” اس آدمی نے درشت ہو کر کہا۔
”اگر ایک بار ہارن دینے پر دروازہ نہیں کھلا تو اس کا صاف مطلب یہی ہے کہ اب یہ دروازہ تمہارے لیے نہیں کھلے گا۔ تم یہاں زحمت مت کرو۔” منصور کا دماغ جیسے چکرا گیا۔
”تمہارا دماغ ٹھیک ہے؟” اس نے کہا۔ ”یہ میرا گھر ہے۔ اندر میری بیوی ہے اور تم میرے گھر کے دروازے پر کھڑے ہو کر مجھے ہی اندر آنے سے روک رہے ہو۔ آخر تم ہو کون؟”
منصور اس بار بات کرتے کرتے برہمی کے عالم میں گاڑی کا دروازہ کھول کر باہر آ گیا۔
”ہم کون ہیں۔ یہ تم اپنی بیوی سے پوچھو جس کے کہنے پر ہم یہاں آ کر کھڑے ہوئے ہیں۔ اور اس بار تم نے ہارن دیا یا گیٹ پر آ کر بیل بجانے کی زحمت کی تو نتائج کے ذمہ دار تم خود ہو گے۔”
وہ آدمی جتنی تیزی سے باہر آیا تھا اتنی ہی تیزی سے واپس اندر چلا گیا۔ منصور کا دماغ گھوم رہا تھا۔ اسے رخشی سے اس حرکت کی توقع نہیں تھی۔ اپنا موبائل نکال کر اس نے رخشی کے موبائل پر کال کی۔ اس بار اس کی کال ریسیو کر لی گئی۔
”یہ کیا حرکت ہے رخشی؟” منصور نے رخشی کی آواز سنتے ہی کہا۔ ”کون لوگ ہیں جنھیں اندر بلایا ہوا ہے تم نے؟” اس نے غصے سے کہا۔ ”مجھے میرے ہی گھر میں آنے سے روک رہی ہو تم۔”
”اس لیے کیونکہ میں تمہاری شکل بھی دیکھنا نہیں چاہتی۔” رخشی نے اس کی بات کاٹ کر کہا۔ ”یہ گھر میرا ہے میں نے تمھیں رات کو بتا دیا تھا اور میں یہ حق رکھتی ہوں کہ اپنے گھر میں اس آدمی کو آنے سے روک دوں جسے میں ناپسند کرتی ہوں۔” رخشی کے انداز میں بلا کی بے خوفی تھی۔ منصور بے یقینی سے اس کی بات سن رہا تھا۔
”میرا وکیل چند دن تک تمہارے پاس خلع کے کاغذات لائے گا۔ میں اب زندگی میں دوبارہ تمہاری شکل تک نہیں دیکھنا چاہتی۔”
”دیکھو رخشی! غصے میں…”
منصور نے کچھ کہنے کی کوشش کی مگر… دوسری طرف سے فون بند ہو چکا تھا۔ منصور نے دوبارہ کال کرنے کی کوشش کی۔ مگر اس بار موبائل بند کر دیا گیا تھا۔ اس نے گھر کے نمبر پر کال کیا۔ فون انگیج تھا۔ زندگی میں پہلی بار منصور کے ہاتھوں کے طوطے اڑے تھے۔ اس کا ذہن یہ سمجھنے سے قاصر تھا کہ یہ سب کچھ اس کے ساتھ ہو رہا تھا۔
چوبیس گھنٹوں میں منصور علی کی حکومت پر شب خون مارا گیا تھا۔ اس کا تختہ الٹ دیا گیا تھا اور اب وہ ایک معزول حکمران کی طرح اپنے اسی گھر کے باہر کھڑا حیران سا یہ سمجھنے کی کوشش کر رہا تھا کہ اس سے غلطی کہاں ہوئی تھی۔ کیا کوئی غلطی ہوئی بھی تھی یا یہ سب کچھ غلط فہمی کا نتیجہ تھا۔
”رخشی یقینا اس تھپڑ کی وجہ سے یہ سب کچھ کر رہی ہے۔” اس کے ذہن نے توجیہات پیش کرنا شروع کی تھیں۔ ”میں اس سے معذرت کر لوں گا، اس کا غصہ ختم ہو جائے گا تو سب کچھ پھر پہلے کی طرح ہو جائے گا۔ آخر رخشی مجھے کیسے چھوڑ سکتی ہے۔ میرے جیسا شوہر اسے کہاں مل سکتا ہے۔ مجھ سے بہتر شخص وہ کہاں ڈھونڈ سکتی ہے۔ اس نے خود بار بار مجھ سے یہ سب کچھ کہا ہے۔” گاڑی کے اسٹیئرنگ پر ہاتھ رکھے منصور علی خود کو طفل تسلیاں دینے میں مصروف تھا۔ مگر اس کا پورا وجود کسی زلزلے کی زد میں آیا ہوا تھا۔ گاڑی کو ریورس کرتے ہوئے اس نے اس گیٹ کے باہر منیزہ کو دیکھا۔ پھر امبر کو دیکھا۔ وہ گیٹ کو دونوں ہاتھوں سے پیٹ رہی تھیں۔
منصور علی نے ان دونوں کو اپنے ذہن سے جھٹکا۔ وہ ان کے برابر نہیں آ سکتا تھا۔ اس کا اور رخشی کا رشتہ ابھی ٹوٹا نہیں تھا۔ اس کا اور رخشی کا رشتہ کبھی نہیں ٹوٹ سکتا۔ میاں بیوی میں اختلافات ہوتے رہے ہیں ا ور وہ جھگڑا بھی ایسے ہی اختلافات کا ایک حصہ تھا۔ وہ بہت جلد دوبارہ اسی گھر میں داخل ہوگا۔ اسے یقین تھا کہ رخشی نے جو کچھ کہا تھا غصے میں کہا تھا۔ عارضی طور پر کیا تھا۔ مگر وہ منیزہ اور امبر کے برابر آ کر کھڑا نہیں ہو سکتا تھا۔ ان دونوں نے تو گناہ کیا تھا۔ حماقتیں اور بے وقوفیاں کی تھیں۔ زبان درازی اور گستاخی کی تھی۔ وہ اس سلوک کی مستحق تھیں مگر اس کے ساتھ… یہ سب کچھ صرف ایک غلط فہمی کا نتیجہ ہے ”اور جب یہ غلط فہمی دور ہوگی تو رخشی خود مجھ سے معذرت کرے گی۔”
منصور علی گاڑی سڑک پر لاتے ہوئے خود کو مسلسل فریب دینے میں مصروف تھا۔ گیٹ کے سامنے گیٹ کو بجانے والے وہ ”دونوں سائے” ابھی بھی وہیں تھے۔ اس نے بے اختیار ان سے نظریں چرائیں۔ اسے نظر چرانے میں کمال حاصل تھا۔
٭٭٭




Loading

Read Previous

تھوڑا سا آسمان — قسط نمبر ۱۱

Read Next

تھوڑا سا آسمان — قسط نمبر ۱۳

Leave a Reply

آپ کا ای میل ایڈریس شائع نہیں کیا جائے گا۔ ضروری خانوں کو * سے نشان زد کیا گیا ہے

error: Content is protected !!