تھوڑا سا آسمان — قسط نمبر ۱۲

”شہیر بھائی!اگر ایسا کوئی معاملہ ہے بھی ‘تو اس سے نایاب کا کیا تعلق ہے۔اپنے ماں باپ کا اچھا یا برا کردار اس کی ذمہ داری تو نہیں ہے۔”
شہیر ایک لمحے کے لیے کچھ نہیں بول سکا ۔ وہ ا ب بھی یہ یقین نہیں کر پا رہا تھا کہ ثمر ایسی بات سننے کے بعد بھی نایاب کی حمایت کرے گا۔
”ٹھیک ہے۔ تم اس معاملے کو رہنے دو۔”شہیر نے یک دم بات بدل دی۔ ”صرف اپنی اور نایاب کی کلاس دیکھو ہم لوگ اس طرح کی دوستیاں افورڈ نہیں کر سکتے ۔ میں اسی لیے تمہیں ماڈلنگ سے منع کر رہا تھا۔ مجھے اندازہ تھا کہ ایک بار شوبز میں آنے کے بعد ہمیںتمہاری وجہ سے اسی طرح کے مسائل کا سامنا کرنا پڑے گا۔ ”اس سے پہلے کہ شہیر کچھ اور کہتا ثمر ایک جھٹکے سے اٹھ کو کمرے سے باہر نکل گیا۔
وہ تینوں ہکا بکا ہو کر ایک دوسرے کا چہرہ دیکھنے لگے ۔ ثمر کا رویہ بے حد عجیب تھا۔ وہ صرف کمرے سے نہیںبلکہ گھرسے بھی نکل گیا تھا۔ اس نے گھر سے جاتے ہوئے دروازہ بڑے زور سے بند کیا تھا۔
”یہ ثمر کو کیا ہو ا؟کمرے میں موجود خاموشی کو سب سے پہلے فاطمہ نے توڑا تھا۔ اس کی آواز میںتشویش تھی۔
”پہلے تو کبھی اس نے اس طرح نہیں کیا۔ میں دیکھتا ہوں اسے ”شہیر نے اٹھ کر اس کے پیچھے جاتے ہوئے کہا۔
اس کے کمرے سے نکلتے ہی ثانی نے فاطمہ سے کہا۔
”امی !آپ کو نایاب کے بارے میں اس سے اس طرح نہیں کہنا چاہیے تھا۔ نہ اس کے بارے میںنہ اس کے والدین کے بارے میں ”فاطمہ نے حیرانی سے ثانی کا چہرہ دیکھا ۔
”میں نے کیا کہا؟سب کچھ تو شہیر نے کہا۔”
”شہیر بھائی کو بھی نہیں کہنا چاہیے تھا۔ ”
”کیوں ؟اس کا فرض ہے کہ وہ اگر کوئی غلط بات دیکھتا ہے تو ثمر کو اس سے روکے ۔”
”ہاں ‘وہ تو ٹھیک ہے مگر ۔”ثانی کچھ کہتے کہتے جھجکی۔
”مگر کیا”فاطمہ نے کچھ الجھتے ہوئے کہا۔
”مجھے یقین تو نہیں ہے مگر ثانی نے دوبارہ بات شروع کی۔ میرا خیال ہے کہ ثمر نایاب کو پسند کرتا ہے۔”فاطمہ اپنی جگہ پر ساکت ہوگئی۔
”پسند کرتا ہے؟اس نے بے اختیار کہا۔
ثانی نے اثبات میںسر ہلادیا ۔ فاطمہ کو یقین نہیں آیا’ کیا اس کے بچے اتنے بڑے ہوگئے تھے کہ زندگی کے ان نئے رشتوں سے آشنا ہونا شروع ہوگئے تھے۔”نہیں ابھی کہاں ؟…ابھی تو وہ بچے ہیں۔”فاطمہ نے بے اختیار سوچا ۔ ہر ماں کی طرح اس نے بھی اس حقیت سے نظر چرانے کی کوشش کی تھی۔مگر حقیقت سامنے کھڑی اس کا منہ چڑا رہی تھی۔ اس نے دیوار پر لگی ثمر کی تصویر کو دیکھا۔ ہاں واقعی اس کا بیٹا اب بڑا ہوچکا تھا۔ اس نے اعتراف کیا۔




”مگر اتنا بڑا کہ کسی لڑکی کو پسند کرنے لگے۔ ناممکن ۔”اس کے دل نے پھر انکار کیا اور پھر اس کی نظر دیوار پر ہی لگی شہیر کی تصویر پر گئی۔”ارے ہاں شہیر بھی تو بڑا ہو چکا ہے۔ ”اسے ایک اور جھٹکا لگا”اور یہ سب کس وقت کس دن ہوا؟اس نے سوچا”کیا واقعی اتنا وقت لگ گیا۔ ”اسے یقین نہیں آیا۔ ابھی کل ہی کی تو بات تھی کہ میںنے ان تینوں کو ”وہ سوچتے سوچتے ٹھٹکی اورسامنے بیٹھی ثانی کو دیکھنے لگی۔
”میرے خدا…یہ ثانی بھی تو بڑی ہو گئی ہے اور مجھے …مجھے پتہ ہی نہیں چلا تو کیا میں بوڑھی ہوگئی ہوں؟اور اب ان بچوں کی اگلی نسل دیکھنے والی ہوں۔ ایک اور نیا رشتہ ‘ نیا تعلق ۔”اسے خوشی کا ایک عجیب سا احساس ہوا۔تو سارا مشکل وقت بالآخر گزر گیا۔ میرے بچے جوان ہو چکے ہیں۔اس قابل کہ وہ اپنے پیروں پر کھڑے ہو سکیں’ نئے رشتے بنا سکیں ۔’فاطمہ کا ذہن ثمر سے ہٹ گیا تھا۔
ثانی نے فاطمہ کے چہرے پر نمودار ہونے والی مسکراہٹ کو حیرانی سے دیکھا۔ اسے توقع نہیں تھی کہ اس انکشاف پر فاطمہ اس طرح مسکرائے گی۔”یعنی ثمر اس دفعہ بھی بچ جائے گا۔ ”اس نے کچھ مایوس ہوتے ہوئے فاطمہ کو ایک بار پھر دیکھا ۔ فاطمہ اب بھی اسی طرح مسکرا رہی تھی۔
ثانی اٹھ کر اپناسامان پیک کرنے لگی۔ اسے اگلی شام کو کراچی جانا تھا۔ فاطمہ اپنی جگہ بیٹھے شاید اتنے سالوں میں پہلی بار ثانی کے خدوخال اور اس کے دراز قد کو دیکھ رہی تھی۔ ان تینوں میں سے کسی کو بھی تو اب اس کی انگلی کی ضرورت نہیں رہی تھی۔ فاطمہ نے اعتراف کیا۔ وہ تینوں اپنی ابتدائی پرواز کا آغاز کر چکے تھے۔
٭٭٭
شائستہ اگلے دن ساڑھے بارہ بجے کے قریب جب اٹھی تو ہارون گھر پر نہیں تھا۔ وہ ناشتہ کرنے کے لیے ٹیبل پر آئی تو ملازم نے اسے ناشتہ سرو کرتے ہوئے بتایا۔
”صاحب دو ہفتے کے لیے دوبئی گئے ہیں۔کہہ رہے تھے کہ آپ کو بتا دوں ۔”شائستہ ملازم کی اطلاع پر چونک گئی۔ہارون کبھی اس طرح اچانک بیرون ملک نہیں جایا کرتا تھا اور پھر اسے بتائے بغیر ۔
”کب گئے؟۔”شائستہ نے پوچھا۔
”نو بجے۔”ملازم نے جواب دیا۔
”میرا موبائل لاؤ۔”اس نے کچھ الجھے ہوئے انداز میں جوس کا گلاس پیتے ہوئے کہا
”جی اچھا!”ملازم کہتے ہوئے اندر چلا گیا۔ شائستہ کو یوں محسوس ہو رہا تھا جیسے وہ بچے کے موضوع سے بچنے کے لیے وہاں سے غائب ہو گیا تھا۔
”اس کا کیا خیال ہے کہ پندرہ دن گھر سے غائب رہنے کے بعد میں اس ایشو کو بھول جاؤ ں گی۔ ”شائستہ نے ناراضی سے سوچا ۔”کبھی نہیں ۔”
ملازم نے جیسے ہی اسے موبائل لا کر دیا۔ شائستہ نے فوراً ہارون کا نمبر ڈائل کیا ۔ اسے ڈر تھا کہ موبائل آف ہو گا۔ مگر موبائل آف نہیں تھا۔ تھوڑی دیر بعد ہارون نے فون ریسیو کر لیا تھا۔
”تم مجھے بتائے بغیر دوبئی کیسے چلے گئے؟”شائستہ نے اس کی آواز سنتے ہی کسی سلام دعا کے بغیر پوچھا۔
”تم سو رہی تھیں ۔ میں نے تمہیں جگانا مناسب نہیں سمجھا۔ ”ہارون رات کے برعکس اب پر سکون تھا۔
”تم رات کو مجھے بتا سکتے تھے۔ ”
”میں بتانا چاہتا تھا مگر تم نے مجھے اس کا موقع ہی نہیں دیا۔ ”
”کل تک تو تمہارا دوبئی جانے کا کوئی پروگرام نہیں تھا؟۔”
”پروگرام تھا۔ صرف تمہیں نہیں بتایا تھا۔ دو چار دن سے تمہاری اور میری ملاقات بھی تو بڑی مختصر ہو رہی تھی۔ ”ہارون بڑے اطمینان سے وضاحت کر رہا تھا۔
”کام کیا ہے وہاں تمہیں؟”شائستہ اس کے اطمینان سے کچھ الجھ کر بولی۔
”کوئی ایک کام نہیں ہے…دوتین کام ہیں۔”ہارون کہہ رہا تھا۔
”مثلاًکون سے؟”
”ایک کلائنٹ سے ملاقات کرنا ہےinvestment opportunitiesکو دیکھنا ہے۔”
”پندرہ دن بہت زیادہ نہیں ہیں ان دو کاموں کے لیے؟”شائستہ نے چھبتے ہوئے لہجے میں کہا۔
”میں کچھ تھک بھی گیا ہوں’چند دنوں کا بریک چاہتا تھا۔ ”اس بار ہارون کا لہجہ مدافعانہ تھا۔
”اور بریک چاہنے کے لیے تم اکیلے دوبئی میں بیٹھے ہو۔”شائستہ نے طنز کیا۔ ”تمہیں اپنی فیملی کی ضرورت ہی نہیں ہے۔”
”میں تمہیں ساتھ لے جانا چاہتا تھا مگر تمہارا موڈ رات کو بہت خراب تھا۔ اسی لیے میں اس بارے میں بات نہیں کر سکا۔”ہارون نے کہا۔
”رات کو میرا موڈ خراب تھا یا تمہارا؟”شائستہ نے ترکی بہ ترکی کہا۔
”میں اس پر اب دوبارہ تم سے بحث نہیں کر سکتا۔”
”میں بھی تم سے بحث نہیں کرنا چاہتی لیکن تم ایک بات یاد رکھو۔”شائستہ نے یک دم اپنا لہجہ تبدیل کرتے ہوئے کہا۔”مجھے شہیر کے بارے میں تم سے آج بھی بات کرنا ہے۔کل بھی’پرسوں بھی ۔ اگر تم اس موضوع سے بھاگ کر دوبئی گئے ہو تو بے کار ہے۔ تمہیں اس کے بارے میں کوئی فیصلہ کرنا پڑے گا۔ ”
”میں تم سے یا اس سے خوفزدہ نہیں ہوںکہ صرف اس ایشو پربات کرنے سے بچنے کے لیے پاکستان سے بھاگ آؤں گا۔ تم اپنی یہ غلط فہمی دور کر لو۔”ہارون خشک لہجے میں کہا۔
”جہاں تک شہیر کے بارے میں بات کرنے کا تعلق ہے’تم جتنی لمبی چاہو بات کر سکتی ہو اور جتنی بار چاہو کرو ‘مگر میں تمہاری خواہش پر یہ پھندا اپنے گلے میں نہیں ڈال سکتا۔ ”
اس سے پہلے کہ شائستہ کچھ اور کہتی’دوسری طرف سے ہارون نے فون بند کر دیا۔ شائستہ نے جھنجھلا کر اپنا موبائل ٹیبل پر رکھا ۔ اسے ہارون پر ایک بار پھر غصہ آنے لگا تھا۔ اس سے پہلے کہ وہ ناشتہ دوبارہ شروع کرے اس کے موبائل پر کال آنے لگی تھی۔شائستہ نے موبائل اٹھا کر حیرانی سے اس پر آنے والے نمبر کو دیکھا۔ وہ منصور کا نمبر تھا۔ اس کے اور منصور کے درمیان شاذونادرہی کبھی فون پر بات ہوئی تھی اور اب اچانک اس کی کال ریسیو کرتے ہوئے وہ حیران ہو رہی تھی۔
رسمی سلام دعا کے فوراً بعد منصور نے کہا تھا۔
”بھابھی میں کل رات سے ہارون سے رابطہ کرنے کی کوشش کر رہا ہوں مگر کل ساری رات اس کا موبائل آف رہا اور آج صبح سے اس کا موبائل تو آف نہیں ہے مگر وہ میری کال ریسیو نہیں کر رہا۔ ”
”ہارون اصل میں اس وقت دوبئی میں ہے۔”
”دوبئی میں؟”منصور کو جیسے شاک لگا ۔”کل تک تو وہ یہاں تھا۔ ”
”ہاں’کل وہ یہیں تھا مگر آج اچانک اسے دوبئی جانا پڑا ہے۔”
”وہ وہاں سے کب آئے گا؟”منصور نے پوچھا ۔
”دو ہفتے تک ۔”
”دو ہفتے تک ۔”
”دو ہفتے ؟۔”منصور بے اختیار کہا۔”مجھے اس سے بہت ضروری کام تھا۔ میں دو ہفتے تک اس کا انتظار کیسے کر سکتا ہوں۔”
”آپ مجھ سے کہیں’ہو سکتا ہے میں آپ کی مدد کر سکوں؟۔” شائستہ نے کہا۔
”نہیں شکریہ بھابھی !مگر مجھے ہارون سے ہی بات کرنا تھی۔ ”
”اگر آپ کچھ دیر پہلے فون کر لیتے تو میں ہارون کو آپ کے بارے میں بتا دیتی ۔وہ کچھ دیر پہلے مجھ سے فون پر بات کر رہا تھا۔ ”
”بھابھی !آپ اسے فون کر کے بتائیں کہ وہ فوری طور پر مجھ سے رابطہ کرے ۔مجھے اس سے بہت ضروری بات کرنا مجھے حیرت ہے کہ وہ میرا فون کیوں ریسیو نہیں کر رہا۔”منصور نے مضطرب انداز میں کہا۔
”ٹھیک ہے۔میں اس سے فون پر کہہ دیتی ہوں’آپ اپنا موبائل آن رکھیں۔وہ آپ سے خود رابطہ کر لے گا۔ ”
شائستہ کال ختم کرتے ہی ہارون کو کال کرنے لگی مگر کال نہیں ملی۔ ہارون کا موبائل اس بار آف تھا۔ اس نے یقینا شائستہ سے بات کرنے کے بعد دوبارہ کال کے ڈر سے موبائل آف کر دیا تھا۔ شائستہ نے بے اختیار گہرا سانس لیا۔ وہ سمجھ نہیں پائی تھی کہ ہارون’منصور سے کیوں بچ رہا تھا۔
٭٭٭




Loading

Read Previous

تھوڑا سا آسمان — قسط نمبر ۱۱

Read Next

تھوڑا سا آسمان — قسط نمبر ۱۳

Leave a Reply

آپ کا ای میل ایڈریس شائع نہیں کیا جائے گا۔ ضروری خانوں کو * سے نشان زد کیا گیا ہے

error: Content is protected !!