تھوڑا سا آسمان — قسط نمبر ۱۲

امبر نے گلی کا موڑ مڑتے ہی اپنے سامنے ٹی شرٹ اور جینز میں ملبوس ایک لڑکی کو دیکھا۔ وہ اپنے کھلے بالوں کو جھٹکتے ہوئے دائیں بائیں گلی کے دروازوں پر لگے نمبر دیکھنے میں مصروف تھی۔ یوں لگ رہا تھا جیسے اسے کسی گھر کی تلاش تھی۔
اس لڑکی نے بھی اچٹتی سی ایک نظر امبر پر ڈالی پھر کچھ چونکتے ہوئے امبر کو ایک بار پھر دیکھا۔ امبر نے بھی اس لڑکی کو دوبارہ دیکھا۔ اس کا چہرہ اسے جانا پہچانا لگ رہا تھا اور جس طرح وہ اسے دیکھ کر چونکی تھی یوں لگتا تھا جیسے وہ بھی امبر کو جانتی ہو۔ کوئی اور موقع اور دوسری جگہ ہوئی تو امبر ضرور رک کر اس لڑکی سے بات کرتی مگر اس وقت وہ جس ذہنی کیفیت کا شکار تھی اس میں اسے ہارون کے علاوہ اور کچھ نظر نہیں آ رہا تھا۔
وہ اس لڑکی کے پاس سے گزر گئی۔ مگر وہ دس بارہ قدم ہی آگے گئی ہوگی جب ایک جھماکے کے ساتھ اسے یاد آیا کہ وہ لڑکی کون تھی۔ اس نے بے اختیار پلٹ کر دیکھا۔ نایاب گلی کا موڑ مڑ کر اس کی گلی میں داخل ہو گئی تھی۔ امبر نے ہونٹ بھینچ لیے۔ اس نے نایاب کو بہت عرصہ پہلے ایک دو بار دیکھا تھا۔ ایک بار وہ ہارون کے ساتھ ان کے گھر آئی تھی اور دوسری بار اس نے اسے شائستہ کے ساتھ ایک مارکیٹ میں دیکھا تھا اور اب تیسری بار وہ اسے یہاں دیکھ رہی تھی۔ اور وہ وہاں کیا کر رہی تھی؟ کیا وہ اسی کا گھر ڈھونڈ رہی تھی؟ اور اگر ایسا تھا تو کس لیے؟ خوف کی ایک لہر سی اس کے اندر سے گزر گئی۔ کیا نایاب اس کے اور ہارون کے تعلق کے بارے میں جان چکی تھی اور کیا وہ اسی لیے اس سے ملنا چاہتی تھی۔ لیکن پھر وہ امبر کو پہچان کیوں نہیں سکی؟ کیا اس کی طرح وہ بھی بہت عرصہ کے بعد دیکھنے پر اسے پہچاننے میں ناکام رہی ہے؟
وہاں کھڑے سوالوں کے ایک ہجوم نے اسے گھیر لیا تھا۔ یک دم اس کا دل چاہا کہ وہ واپس گھر چلی جائے۔ ہو سکتا ہے اس وقت گھر میں اس کی ضرورت ہو۔ وہ نایاب کا سامنا کیسے کر رہے ہوں گے؟ مینزہ اور صبغہ؟ مگر وہ خود نایاب کا سامنا کیسے کرے گی؟ شرمندگی نے پہلی بار اسے اپنی گرفت میں لیا اور نایاب آخر اس کے گھر کس لیے گئی تھی؟
کیا وہ اس طرح ری ایکٹ کرنے والی تھی جس طرح منیزہ نے رخشی کے گھر جا کر کیا تھا؟ وہ مزید خوف زدہ ہوئی۔ رخشی تب باہر نہیں آئی تھی اور چوکیدار نے گیٹ ہی نہیں کھولا تھا۔ مگر نایاب کے سامنے تو اس طرح کی کوئی رکاوٹ نہیں تھی۔ وہ اگر ان کے دروازے پر کھڑے ہو کر کچھ کہتی تو چند منٹوں میں پورا محلہ وہاں اکٹھا ہو جاتا اور پھر کیا ہوتا۔ وہ وہاں لوگوں کا سامنا کیسے کرتی۔ یہ کوئی پوش علاقہ نہیں تھا جہاں لوگ ایک دوسرے کی زندگیوں سے لاتعلق رہتے ہیں اور حتی المقدور ایک دوسرے کے معاملات میں ٹانگ اڑانے سے گریز کرتے ہیں، یہاں نایاب کے منہ سے نکلنے والے چند لفظ اس کی اور اس کی فیملی کی زندگی تباہ کر سکتے تھے۔
”میرا واپس نہ جانا ہی بہتر ہے۔” اس نے وہاں کھڑے کھڑے یک دم فیصلہ کیا۔ ”ممی اس سے کہہ دیں گی کہ انھوں نے مجھے گھر سے نکال دیا ہے۔ کم از کم اس طرح ان پر تو کوئی آنچ نہیں آئے گی۔ مجھے واقعی اب اس گھر میں دوبارہ کبھی نہیں جانا چاہیے۔”
امبر نے پلک جھپکتے میں فیصلہ کیا تھا اور پھر تیز قدموں کے ساتھ وہ آگے بڑھ گئی۔
٭٭٭




نایاب نے بھی امبر کی طرح تاخیر سے سہی مگر اسے پہچان لیا تھا کیونکہ امبر پر ایک نظر ڈالتے ہی وہ بری طرح سے چونکی تھی۔ وہ چہرہ اس کے لیے بہت شناسا تھا اور اسے یقین تھا کہ اس نے اسے کہیں ضرور دیکھا ہے۔ ثمر کا گھر ڈھونڈتے ہوئے بھی وہ مسلسل اسی لڑکی کے بارے میں سوچ رہی تھی اور ثمر کا گھر ڈھونڈنے سے چند منٹ پہلے اسے یاد آ گیا تھا کہ وہ کون تھی اور اسے حیرانی ہو رہی تھی کہ امبر اس علاقے میں کیا کر رہی تھی۔ پاس سے گزرتے ہوئے اس نے اس کے کندھے پر موجود سفری بیگ بھی دیکھا تھا اور وہ اندازہ لگانے میں مصروف تھی کہ امبر کا اس علاقے سے کیا تعلق ہو سکتا تھا۔
وہ اسد کے حوالے سے امبر کے بارے میں گھر میں کچھ عرصہ پہلے ہونے والی بات چیت سے آگاہ تھی اور وہ یہ بھی جانتی تھی کہ امبر کی وجہ سے اسد اور اس کے والدین کے درمیان شدید اختلافات پیدا ہو گئے تھے۔ اور اب اسے یک دم وہاں پا کر وہ شدید حیرت کا شکار تھی۔ پھر اسے خیال آیا کہ وہ ثمر کے ساتھ یہ بات ڈسکس کر سکتی ہے۔ اگرچہ اسے یقین نہیں تھا کہ ثمر گلی سے گزرنے والی کسی لڑکی کے بارے میں زیادہ معلومات دے پائے گا۔
لیکن ہو سکتا ہے۔ امبر پہلے بھی یہاں آتی جاتی رہی ہو۔ اس صورت میں تو ثمر یقینا اس کے بارے میں کچھ نہ کچھ جانتا ہوگا۔” اس نے سوچا اور کچھ مطمئن ہوتے ہوئے ایک بار پھر دروازے پر لگے ہوئے نمبرز کو دیکھتے ہوئے آگے بڑھنے لگی۔ اس کو یہ سوچ کر گدگدی ہو رہی تھی کہ ثمر اسے اس وقت اپنے گھر پر دیکھ کر کس کیفیت کا شکار ہوگا۔ شاید اسے سکتہ ہی ہو جائے۔
اس نے آج کالج میں بڑی خوبصورتی کے ساتھ اپنے گھر انوائٹ کرنے کی بات کو ٹالا تھا۔ نایاب کے اصرار پر اس نے کہا تھا۔
”میرا گھر شہر کی ان بھول بھلیوں کے اندر ہے جہاں تک پہنچنے کے لیے بہت زیادہ ہائی آئی کیولیول کی ضرورت ہوتی ہے اور چونکہ تم لڑکی ہو اور لڑکیوں کا آئی کیولیول بہت کم ہوتا ہے، اس لیے تم صرف ڈیفنس میں پھرا کرو، میرے گھر پہنچنے کا خیال چھوڑ دو۔”
”ثمر کو اگر یہ پتا ہوتا کہ مذاق میں کہی ہوئی ایک بات کو نایاب چیلنج کے طور پر لے گی اور اسی شام اس کے گھر پہنچ جائے گی تو وہ ایسی بات زبان سے نکالتے ہوئے سو بار سوچتا۔ مگر اب تیر کمان سے نکل چکا تھا۔ نایاب اس کے گھر پہنچنے والی تھی۔
٭٭٭
شائستہ اس دن غصے میں آگ بگولہ اپنے گھر پہنچی تھی۔ اس کا دل چاہ رہا تھا وہ اپنے گھر جانے کے بجائے سیدھا فاطمہ کے گھر چلی جائے اور اسے بتائے کہ وہ اتنے سالوں سے اس کا بیٹا چھین کر وہاں بیٹھی ہے۔ اور یہ کہ وہ اس کے بارے میں سب کچھ جانتی ہے۔ اس کے ماضی کے بارے میں ہر بات کی خبر رکھتی ہے اور یہ بھی کہ وہ دنیا کی آنکھوں میں اب مزید دھول نہیں جھونک سکتی۔ اور اسے بتائے کہ شہیر اس کا بیٹا ہے۔ اس کا اپنا خون۔ یہ کیسے ممکن ہے کہ وہ اپنی اصل ماں سے دور ہو جائے۔ اسے شائستہ کے چہرے اور انداز میں ممتا محسوس ہی نہ ہوتی ہو۔
شائستہ کا دل چاہ رہا تھا کہ وہ گھر میں موجود ہر چیز کو توڑ ڈالے۔ اس کے کانوں میں شہیر کی کہی ہوئی باتیں بار بار گونج رہی تھیں اور ہر بار اس کی گونج اسے دیوانہ کر رہی تھی۔
ہارون سے بات کرنا اب بے حد ضروری ہو گیا تھا۔ اس نے ہارون کے موبائل پر کال کی۔
”مجھے تم سے بہت ضروری بات کرنا ہے تم فوراً گھر آ جاؤ۔”
ہارون کی آواز سنتے ہی اس نے کہا۔
”خیریت ہے؟” ہارون نے دوسری طرف سے پوچھا۔
”نہیں، خیریت نہیں ہے تم گھر آؤ۔”
”نایاب ٹھیک ہے؟” ہارون کو پہلا خیال نایاب کا آیا تھا۔
”تمھیں دنیا میں نایاب کے علاوہ بھی کچھ نظر آتا ہے؟” شائستہ اس کی بات پر بے اختیار جھنجلائی۔ ”ہاں وہ ٹھیک ہے۔ بس میں ٹھیک نہیں ہوں۔ تم گھر آؤ۔ مجھے تم سے بہت ضروری بات کرنا ہے۔”
”وہ ضروری بات رات کو بھی ہو سکتی ہے۔” ہارون کا لہجہ یک دم تبدیل ہو گیا۔ ”میں اس وقت بہت مصروف ہوں، تمھیں پھر ڈپریشن ہو رہا ہے، تم میڈیسن لو اور سو جاؤ رات کو میں گھر آؤں گا تو بات کریں گے۔”
اس سے پہلے کہ شائستہ کچھ اور کہتی دوسری طرف سے فون بند کر دیا تھا۔ شائستہ نے دوبارہ کال نہیں کی۔ اسے اندازہ تھا کہ ہارون اب اس کی کال ریسیو نہیں کرے گا۔ وہ اس سے اچھی طرح واقف تھا اور یہ پہلا موقع نہیں تھا کہ شائستہ اسے اس طرح اچانک فون کر کے گھر بلا رہی تھی۔
شائستہ کو شہیر کے ساتھ ساتھ ہارون پر بھی شدید غصہ آیا۔ مگر وہ اس وقت بے بس تھی وہ ہارون سے کچھ نہیں کہہ سکتی تھی۔
کچھ دیر وہ اپنے بیڈ روم میں ٹہلتے ہوئے ہارون کا انتظار کرتی رہی۔ پھر دوبارہ کال ملائی مگر اس کی کال ریسیو نہیں کی گئی اور پھر یک دم موبائل آف کر دیا گیا۔ شائستہ کی جھنجلاہٹ میں اضافہ ہو گیا مگر اس نے پھر بھی اسے کال کرنا جاری رکھا۔
شام گئے بھی جب اسے ہارون کا موبائل آف ملا تو اس نے باری باری اس کے مختلف آفسز میں کال کرنا شروع کر دیا۔ اس کا خیال تھا کہ وہ اگر مصروف تھا تو کسی نہ کسی آفس میں ہی ملے گا۔ مگر وہ کسی آفس میں نہیں ملا۔ ہر جگہ سے اسے ایک ہی جواب ملتا رہا۔
”ہارون صاحب تو آج آفس نہیں آئے۔”
صرف ایک آفس سے اسے یہ بتایا گیا کہ ہارون گیارہ بجے تقریباً دس پندرہ منٹ کے لیے آفس آئے تھے اور پھر چلے گئے۔
شائستہ نے ہارون کی سیکرٹری کو فون کیا۔ وہ اس وقت گھر پر تھی۔
”ہارون صاحب کی رات کو کچھ کمٹمنٹس تھیں مگر شام کو ان کا فون آ گیا اور انھوں نے اپنی اپائنٹمنٹس کینسل کر دیں۔”
اس نے شائستہ کے استفسار پر بتایا۔
”ایسا بھی کیا کام آن پڑا ہے کہ اسے باقی تمام کام چھوڑنے پڑے ہیں۔” شائستہ بڑبڑائی۔
”تمھیں یہ بتایا ہے اس نے کہ وہ اس وقت کہاں ہوگا؟” اگرچہ اسے یقین تھا کہ سیکرٹری کو اگر اس کے محل وقوع کا پتہ بھی ہوگا تب بھی وہ شائستہ کو اس کے بارے میں کبھی نہ بتائے گی۔ شائستہ، ہارون کی سیکرٹری کو بہت اچھی طرح جانتی تھی۔ وہ ہارون کے اشاروں پر آنکھیں بند کر کے چلتی تھی اور ہارون، شائستہ کو ہر بات کے بارے میں بے خبر رکھنا ضروری سمجھتا تھا۔
سیکرٹری نے اسے متوقع جواب دیا۔ ”سوری میڈم! میں نہیں جانتی وہ کہاں ہیں۔ انھوں نے مجھے اس بارے میں نہیں بتایا۔”
شائستہ نے فون پٹخ دیا۔ اسے اندازہ تھا کہ ہارون اب اپنی مرضی سے گھر آئے گا۔ ہارون کئی بار اسی طرح غائب ہو جاتا تھا اور وہ اندازہ کر سکتی تھی کہ اس کی اس اہم مصروفیت کا تعلق اس کے کسی نئے افیئر سے ہوگا۔ مگر کس افیئر سے؟ پچھلے کچھ ماہ میں وہ ہارون کے کسی نئے افیئر سے واقف نہیں تھی۔ یہ حیران کن تھا مگر اس نے پچھلے کچھ ماہ میں ہارون کے بارے میں کوئی نئی خبر نہیں سنی تھی۔
ہارون کے لیے اس کا یہ انتظار رات ایک بجے ختم ہوا تھا۔ تب تک شہیر کے لیے شائستہ کا غصہ ختم ہو چکا تھا۔ اب اسے ہارون پر غصہ آ رہا تھا اور ہارون کے سامنے آنے پر یہ غصہ کچھ اور بڑھ گیا تھا۔
”ہیلو…” ہارون نے بیڈروم میں آتے ہی شائستہ کو صوفے پر بیٹھے ہوئے دیکھ لیا تھا اور اس نے بڑے عام سے انداز میں اس طرح ظاہر کیا تھا جیسے وہ روزانہ اسی وقت گھر آیا کرتا ہو اور آج کوئی غیر معمولی بات نہیں تھی۔
”تمھیں اندازہ ہے کہ میں کس وقت سے تمہارے انتظار میں بیٹھی ہوں؟” شائستہ اسے دیکھتے ہی اس پر برس پڑی۔
”تم سے کس نے کہا تھا کہ تم میرا انتظار کرو۔ میں نے تمھیں بتا دیا تھا کہ میں رات کو آؤں گا۔” ہارون نے سرد مہری سے کہا۔




Loading

Read Previous

تھوڑا سا آسمان — قسط نمبر ۱۱

Read Next

تھوڑا سا آسمان — قسط نمبر ۱۳

Leave a Reply

آپ کا ای میل ایڈریس شائع نہیں کیا جائے گا۔ ضروری خانوں کو * سے نشان زد کیا گیا ہے

error: Content is protected !!