تھوڑا سا آسمان — قسط نمبر ۱۲

”تمہیں آخر ضرورت کیا تھی اس طرح ہمارے گھر آنے کی؟”ثمر اگلے دن کالج میں نایاب کو دیکھتے ہی اس پر برس پڑا تھا۔
”میں تمہیں بتا چکا تھا کہ ہمارے گھروں میں لڑکیاں دوست نہیں بنائی جاتیں اور نہ ہی انہیں گھر پر بلایا جاتا ہے۔”وہ رات کو اگرچہ فاطمہ کے سامنے نایاب کی حمایت کرتا رہا تھا مگر اس وقت وہ نایاب پر برس رہا تھا۔ ”اور اوپر سے تم اس بے ہودہ حلیے میں میرے محلے میں آئیں ۔”ثمر نے انگلی سے اس کے لباس کی طرف اشارہ کیا ۔وہ ابھی بھی ایک جینز اور سلیولیس شرٹ میں ملبو س تھی۔
”تمہیں یہ خیال تک نہیں آیا کہ تمہارے وہاں آنے سے لوگوں کو میرے اور میری فیملی کے بارے میں بات کرنے کا موقع ملے گا۔”
نایاب خلاف تو قع خاموشی سے اس کی باتیں سن رہی تھی۔ اس نے ہمیشہ کے طرح ثمر کی بات کاٹنے کی کوشش کی نہ ہی بات کو مذاق اڑانے کی۔ اس کی خاموشی ثمر کو کھٹکی تھی مگر اس وقت وہ قطعاً اس موڈ میں نہیں تھا کہ اس سے اس کی اس غیر متوقع خاموشی کے بارے میںپوچھتا۔
”میں اگر اب تک تمہیں اپنے گھر نہیں لے گیا تھا تو اس کی کوئی نہ کوئی وجہ ہی تھی۔ اور تم’ تم کو لمبس کی طرح میرا گھر دریافت کرنے نکل پڑیں۔”وہ مسلسل بول رہا تھا اور نایاب ہاتھ پر ہاتھ رکھے خاموشی سے اس کا چہر دیکھتے ہوئے اس کی باتیں سن رہی تھی۔
”اور پھر تم جاتے جاتے سڑک پر کھڑے ہو کر مجھ سے بے ہو دہ مذاق کرنے لگیں۔”
”وہ بے ھودہ مذاق نہیں تھا۔” نایاب کی خاموشی یک دم ٹوٹ گئی تھی۔ ”میں نے تمہیں پرپوز کیا تھا اور مجھے کم از کم اس حوالے سے کوئی شرمندگی نہیں ہے۔”
ثمر کو اس کی بات پر اور غصہ آیا۔
”پرپوز ؟ہمارے درمیان اس حوالے سے آج تک کبھی بات نہیں ہوئی اور تم…”
نایاب نے اس کی بات کاٹ دی۔”ہاں کل تک بات نہیں ہوئی تھی مگر آج ہو رہی ہے اور کبھی نہ کبھی ہونی ہی تھی۔ ہر تعلق کا حتمی نتیجہ یہی ہوتا ہے۔ ”ثمر نے حیرانی سے اسے دیکھا ۔ وہ یہ بات کہتے ہوئے بے حد سنجیدہ تھی۔
”تمہیں احساس ہے کہ تم کس طرح کی باتیں کر رہی ہو؟”
”تمہیں کیوں لگ رہا ہے کہ میں سوچے سمجھے بغیر یہ سب کچھ کہہ رہی ہوں؟” نایاب نے جواباً سوال کیا۔
”نایاب! مجھے اگلے دس سال شادی نہیں کرنا۔”




”تو یوں کہو نا کہ میں انتطار کروں۔” نایاب نے یک دم جیسے ہلکے پھلکے انداز میں کہا۔
”فار گاڈ سیک، کون کہہ رہا ہے کہ تم انتظار کرو۔ میں تم سے صرف یہ کہہ رہا ہوں کہ مجھے ابھی کئی سال شادی نہیں کرنی اور بالفرض کرنا بھی پڑی تو وہ تم سے نہیں کروں گا۔”
”کیوں؟” نایاب کے چہرے سے مسکراہٹ دوبارہ غائب ہو گئی۔
”نایاب! دوستی کی بات اور ہے مگر میری اور تمہاری کلاس کے درمیان رشتہ داری نہیں ہو سکتی۔” ثمر نے بے حد سنجیدگی سے کہا۔
”میں اگر سو سال بھی دن رات پیسہ کماتا رہوں، تب بھی تمہاری فیملی کے برابر نہیں آسکتا۔”
”میں شادی کی بات کر رہی ہوں، تم پیسے کی بات کہاں سے لے آئے ہو؟”
”شادی میں پیسہ آہی جاتا ہے۔”
”اگر انسان کی ذہنیت سطحی ہو… میری ذہنیت ایسی نہیں ہے اور مجھے یقین ہے کہ تمہاری ذہنیت بھی ایسی نہیں ہے۔” نایاب نے کہا۔
”یہ کتابی جملہ ہے او رکتابی جملے کتابوں میں ہی اچھے لگتے ہیں۔ اصلی زندگی میں حقیقتوں سے نظر چُرانے والا بے وقوف ہوتا ہے، اور میں کم از کم بے وقوف نہیں ہوں۔” وہ کہہ رہا تھا۔
”ماڈلنگ، نایاب کمال کا شوق ہے مگر میرے لیے یہ آمدنی کا ذریعہ ہے۔ ایسی آمدنی جو مجھے زندگی کی آسائشیں فراہم نہیں کرتی صرف زندگی کی بنیادی ضروریات کو پورا کرتی ہے۔” نایاب نے اس کو کبھی اس طرح کی باتیں کرتے نہیں سنا تھا۔
”تمہارے گھر والوں کو تمہارے اس پرپوزل کا پتہ چلا تو وہ تم سے تو بعد میں بات کریں گے، میرا جینا پہلے حرام کر دیں گے اور میں یہ کبھی نہیں چاہوں گا۔ بہتر ہے اپنے اس تعلق کو ہم دوستی تک ہی رکھیں اور وہ بھی ایسی دوستی جو کالج کی حدود تک ہی محدود ہے۔”
”کچھ اور کہنا ہے تمہیں؟” نایاب نے اس کے خاموش ہونے پر کہا۔
”بہت کچھ کہنا ہے… مگر صرف آج ہی نہیں وقتاً فوقتاً کہتا رہوں گا تم سے۔”
”اس کا مطلب ہے اب کچھ کہنے کی باری میری ہے۔” نایاب نے کہا۔
”میری ممی کو جس سے پہلی نظر میں محبت ہوئی تھی، انہو ںنے اسی سے شادی کر لی تھی۔” وہ عجیب سے انداز میںکہہ رہی تھی۔ ”میں پاپا کی بات کر رہی ہوں اور پاپا نے بھی یہی کیا تھا۔ میں بھی یہی کروں گی۔ میں جانتی ہوں، تم میرا مذاق اڑاؤ گے مگر مجھے پہلی نظر میں تم سے محبت ہو گئی تھی۔ میں نے سوچ لیا تھا کہ اسی لڑکے کو میرا شوہر ہونا چاہیے۔”
”تم یا تو ناول زیادہ پڑھتی ہو یا پھر فلمیں زیادہ دیکھتی ہو۔” ثمر نے کچھ سلگتے ہوئے اس کی بات کاٹی۔”
”مان لو، میں دونوں ہی کام کرتی ہوں پھر اس کا کیا یہ مطلب ہو گا کہ میں محبت کرنے کے قابل نہیں رہی؟” نایاب نے چیلنج کرنے والے انداز میں کہا۔
”میری سمجھ میں نہیں آرہا کہ تمہیں بیٹھے بٹھائے ہو کیا گیا ہے نایاب!” ثمر نے جھنجھلاتے ہوئے کہا۔ ”تم نے پہلے تو کبھی اس طرح کی باتیں نہیں کیں۔”
”میں آئندہ بھی اس طرح کی باتیں نہیں کروں گی، صرف ایک بار میں تمہیں یہ بتا دینا چاہتی تھی کہ تم مجھ میں اور یہاں پڑھنے والی دوسری لڑکیوں میں کچھ فرق رکھو۔” نایاب مستحکم آواز میں بولی۔
”مجھے وہ لڑکیاں کبھی اچھی نہیں لگتیں جو اپنی زندگی سے متعلقہ اتنے بڑے فیصلے اپنے ماں باپ کو بتائے بغیر خود کر لیتی ہیں۔” ثمر اسے شرمندہ کرنا چاہتا تھا مگر اسے اندازہ نہیں تھا کہ اس نے نایاب سے یہ کہہ کر ایک پینڈورا باکس کھول لیا تھا۔ نایاب اس کی بات پر مسکرائی پھر اس نے کہا۔
”تم نے اچھا کیا مجھے یہ یاد دلا دیا کہ مجھے اس سلسلے میں اپنے ماں باپ سے بات کرنی ہے، اور یقین رکھو، میں تمہارے ساتھ کبھی بھی بھاگ کر شادی نہیں کروں گی۔ تم سے میری شادی میرے والدین کی مرضی سے ہی ہو گی تم بارات لے کر انہیں کے گھر آؤ گے۔”
”وہ اس صورت میں ہو گی اگر اس سے پہلے میرا جنازہ نہ اٹھ گیا۔”
”اتنا ڈرتے کیوں ہو تم؟… پاپا بہت اچھے آدمی ہیں۔ تمہیں کچھ نہیں کہیں گے۔ وقتی طور پر ناراض ہو سکتے ہیں مگر تمہیں نقصان پہنچائیں یہ کبھی نہیں ہو سکتا۔ کم از کم میری زندگی میں تو کبھی نہیں۔” نایاب نے اس کا کندھا تھپکتے ہوئے کہا۔
”چلو اب کینٹین چلتے ہیں۔ خاصی سنجیدہ گفتگو ہو چکی ہے اب کچھ کھایا پیا جائے۔”
ثمر کی سمجھ میں نہیں آیا کہ وہ اس سے مزید کیا کہے۔ بلاشبہ وہ نایاب کو پسند کرتا تھا۔ بلاشبہ وہ اپنے دل میں اس کے لیے نرم گوشہ رکھتا تھا مگر اس نے کبھی اس سے شادی کے بارے میں خواب میں بھی نہیں سوچا تھا۔ وہ اپنی اور نایاب کی سماجی حیثیت سے بہت اچھی طرح واقف تھا او راس سے بھی بڑھ کو وہ یہ جانتا تھا کہ نایاب جن آسائشوں کی عادی ہے وہ اگلے دس سال میں بھی وہ اسے فراہم نہیں کر سکتا اور اس پر اب نایاب کی یہ اچانک سامنے آنے والی ضد… اسے یہ اندازہ تھا کہ وہ اسے بہت پسند کرتی ہے۔ ایک دوست کی حیثیت سے، مگر اس کے وہم و گمان میں بھی نہیں تھا کہ وہ اس سے محبت کا دعویٰ کرے گی۔ ایک دن میں ان کے تعلقات کی نوعیت اس طرح بدل جائے گی۔
”چلو بھئی۔ اب اور کیا سوچ رہے ہو؟” نایاب نے اس سے کہا۔ ”مزید کوئی تقریر کرنا چاہتے ہو تو بھی یہاں کھڑے ہونے کا کوئی فائدہ نہیں، کینٹین چل کر بات کرتے ہیں۔”
ثمر نے ایک گہرا سانس بھرتے ہوئے اپنا بیگ اٹھایا۔ اسے نایاب سے ابھی مزید بات کرنا تھی مگر آج نہیں۔
”ارے ہاں، میں تم سے ایک بات پوچھنا چاہتی ہوں۔” اس کے ساتھ کالج کے برآمدے میں چلتے ہوئے نایاب نے یک دم کہا۔
ثمر اتنے برے موڈ میں تھا کہ اس نے کوئی جواب نہ دیا۔ ”کل جب میں تمہارا گھر ڈھونڈ رہی تھی تو میں نے تمہاری گلی میں ایک لڑکی دیکھی۔” نایاب بتا رہی تھی۔ ”اس کے فادر، پاپا کے بزنس پارٹنر ہیں۔ انہو ںنے دوسری شادی کرکے اپنی پہلی بیوی اور بچوں کو گھر سے نکال دیا۔ میں اسے تم لوگوں کے محلے میں دیکھ کر حیران ہوئی… مجھے نہیں پتہ وہ یہاں رہ رہی ہے یا پھر یہاں کسی سے میری طرح ملنے آئی تھی۔ مگر میرا خیال ہے کہ وہ یہاں رہ ہی رہی ہو گی کیونکہ اس کے ہاتھ میں ایک بیگ تھا۔ امبر نام ہے اس کا، تم جانتے ہو ایسی کسی فیملی کو جو ابھی کچھ عرصہ پہلے ہی تمہارے محلے…”
ثمر نے اس کی بات کاٹ دی۔ ”ہمارے ساتھ والے گھرمیں رہتے ہیں یہ لوگ۔”
”اوہ، مجھے بڑا افسوس ہو رہا ہے یہ جان کر… ان کے فادر کروڑ پتی ہیں اور ان کی دوسری شادی کی وجہ سے ان کے بچے اب دھکے کھاتے پھر رہے ہیں۔” نایاب کو واقعی افسوس ہوا۔
”اور اس پر زیادتی یہ کہ انہو ںے اپنا بیٹا بھی اپنے پاس رکھ لیا، صرف بیوی اور بیٹیوں کو گھر سے نکالا۔”
ثمر کو شہیر کی باتیں یک دم یاد آئیں۔ وہ نایاب سے امبر اور ہارون کے تعلقات کاذکر کرنا چاہتا تھا مگر اس وقت اسے نایاب سے یہ بات کہنا مناسب نہیں لگا البتہ اسے شائستہ کے گمشدہ بیٹے کا خیال آگیا تھا۔
”نایاب! تم لوگ کتنے بہن بھائی ہو؟” نایاب اس کی بات پر ہنس دی۔
”تمہیں یہ سوال کیوں کرنا پڑا۔ تمہیں تو پہلے ہی بتا چکی ہوں میں کہ میرا صرف ایک بھائی ہے اور وہ امریکہ میں پڑھ رہا ہے۔”
”کوئی اور بھائی نہیں؟” ثمر نے پوچھا۔
نایاب ایک بار پھر ہنسی ”نہیں بھئی، کوئی اور بھائی نہیں ہے۔”
”کوئی ایسا بھائی جو گم ہو گیا ہو، میرا مطلب ہے بچپن میں؟” اس بار نایاب اسے گھورنے لگی۔
”یہ کیسا مذاق ہے، تم کیا کہنا چاہتے ہو؟”
”نہیں، تم پہلے میرے سوال کا جواب دو۔”
”احمقانہ باتیں مت کرو۔ میرا کوئی بھائی گم نہیں ہوا، نہ اب نہ بچپن میں، کافی ہے؟”
ثمر الجھے ہوئے انداز میں اسے دیکھنے لگا۔ کیا شائستہ نے اسے بے خبر رکھا تھا یا وہ ثمر سے جھوٹ بول رہی تھی یا پھر، یا پھر شہیر کی بات صحیح تھی کہ شائستہ اس سارے معاملے میں جھوٹ بول رہی تھی۔
ثمر نے ایک لمحے میں فیصلہ کر لیا تھا کہ وہ شائستہ اور شہیر کے درمیان ہونے والی گفتگو سے نایاب کو آگاہ کر دے گا۔ سچ جاننے کے لیے یہ ضروری تھا۔
”نایاب! تمہاری ممی کے مطابق تمہارے سب سے بڑے بھائی کو پیدائش کے فوراً بعد ہاسپٹل سے اغوا کر لیا گیا تھا۔” ثمر نے انکشاف کیا۔
”بکواس مت کرو۔” نایاب نے مذاق سمجھتے ہوئے اسے گھورا۔
”میں مذاق نہیں کر رہا۔ انہو ںنے شہیر بھائی سے خود یہ سب کہا ہے۔” اس بار نایاب ٹھٹک گئی۔
٭٭٭
منصور ساری رات سو نہیں سکا تھا۔ وہ سگریٹ اور شراب پیتا رہا اور اگلے دن صبح سویرے اپنے آفس پہنچ گیا۔ اسے کل یہ خوف محسوس ہوتا رہا تھا کہ کہیں اسے فیکٹری سے بھی بے دخل نہ کر دیا جائے کیونکہ وہ اپنی پہلی فیکٹری رخشی کے بیٹے کے نام کر چکا تھا۔ مگر یہ دیکھ کر اسے اطمینان ہواکہ فیکٹری میں سب کچھ معمول کے مطابق ہو رہا تھا۔ کسی نے کم از کم وہاں اسے اندر داخل ہونے سے نہیں روکا۔
وہ فیکٹری میں آتے ہی ایک بار پھر فون پر جُت گیا تھا۔ ہارون کا موبائل اب آف نہیں تھا مگر وہ فون ریسیو نہیں کر رہا تھا۔ رخشی کا موبائل آف تھا اور اس کے گھر کی لائنز کل کی طرح آج بھی انگیج مل رہی تھیں۔ وہ اندازہ لگا سکتا تھا کہ اس نے فون کے ریسیو اٹھا کر رکھ دیے ہوں گے۔
دس بجے کے قریب اس نے اپنے وکیل کو بلوا کر فیکٹری کے کاغذات میں تبدیلی کی ہدایات جاری کیں۔ وہ رخشی کے نام کئے جانے والے دونوں گھر اپنے نام نہیں کروا سکتا تھا مگر کم از کم وہ فیکٹری کے حوالے سے کچھ کر سکتا تھا۔ ان معاملات سے فارغ ہونے کے بعد اس نے یک بار پھر پہلے کی طرح فون کرنے کی کوشش کی مگر وہ کسی سے بھی رابطہ کرنے میں ناکام رہا۔ پھر یک دم اسے شائستہ کا خیال آیا تھا مگر شائستہ سے یہ سننے کے بعد کہ ہارون دو ہفتے کے لیے دوبئی گیا ہے وہ بے حد پریشان ہو ا تھا۔ اگلے دو گھنٹے وہ اپنے آفس میں بیٹھا ہارون کے فون کا انتظار کرتا رہا مگر فون نہیں آیا۔ اس نے ایک بار پھر اس کے موبائل پر فون کیا۔ اس بار موبائل آف ملا تو منصور نے پھر شائستہ کو فون کیا۔
”سوری منصور! میری اس بات نہیں ہو سکی، اس کا موبائل تب سے آف ہے۔”
منصور کا دل چاہا وہ اپنا سر کسی دیوار کے ساتھ دے مارے۔ شام چار بجے کے قریب وہ ایک بار پھر ہارون کے اپارٹمنٹ کی طرف گیا مگر اس بار اسے گارڈ نے نیچے ہی روک لیا۔ منصور حیرت زدہ رہ گیا تھا۔ وہ ابھی کل رات وہاں آیا تھا اور صبح وہاں سے گیا تھا مگر اس گارڈ نے اس طرح کی حرکت نہیں کی تھی پھر اب کیا ہوا تھا؟
”ہارون صاحب صبح یہاں آئے تھے اور وہ سختی سے کہہ کر گئے ہیں کہ میں آپ کو ان کے اپارٹمنٹ میں نہ جانے دوں۔” منصور ہکا بکا رہ گیا۔
”کس وقت آیا تھا وہ یہاں؟”
”دس بجے کے قریب۔” منصور ساڑھے آٹھ بجے ہی فیکٹری جاچکا تھا۔
”اور اس نے میرا نام لے کر کہا کہ مجھے اس کے اپارٹمنٹ میں جانے نہ دیا جائے؟”
منصور کو جیسے یقین نہیں آرہا تھا۔
”ہاں، انہو ںنے کہا تھا کہ منصور علی جو صبح یہاں سے گیا ہے اسے دوبارہ میرے اپارٹمنٹ میں نہ جانے دیا جائے۔”
منصور بے یقینی سے اس کا چہرہ دیکھتا رہا۔ تو کل سے ہارون کمال اسے جان بوجھ کر اگنور کر رہا تھا۔ کس لیے؟ کیا وہ پہلے ہی یہ سب کچھ جان چکا تھا اور رخشی کی حمایت میں یہ سب کچھ کر رہا تھا یا پھر یہ سب کچھ وہ اور رخشی دونوں مل کر کر ہے تھے؟ منصور کو لگا اسے ہارٹ اٹیک ہونے والا ہے۔ آخر اس کے ساتھ کیا ہو رہا تھا؟ کیوں ہو رہا تھا؟ اس نے ایسی کیا غلطی کی تھی؟
منصور کو اپنی کوئی ”غلطی” یاد نہیں آئی۔
٭٭٭
آئی بی اے میں اس کی کلاسز کا آغاز ہو چکا تھا۔ اسے کراچی میں آئے چار دن ہو رہے تھے۔ ثمر اور شہیر سے دن میں ایک بار اس کی بات ہو جاتی تھی۔ وہ زندگی میں پہلی بار فاطمہ، شہیر اور ثمر کے بغیر کہیں رہ رہی تھی اور اسے یہ بے حد مشکل لگ رہا تھا۔ خاص طور پر وہ ثمر کی کمی بہت محسوس کر رہی تھی۔
ثمر نے کراچی روانگی سے پہلے اسے ایک موبائل فون کا تحفہ دیا تھا۔ ثانی کو بے حد خوشی ہوئی تھی اور ان چار دنوں میں وہ اس موبائل کے ذریعے ثمر کو تقریباً دو سو SMS کر چکی تھی اور ان دو سو میں سے ڈیڑھ سو کے قریب وہ SMS تھے جن میں وہ ایک دوسرے سے لڑتے رہے تھے۔ ثمر کو شکایت تھی کہ اس نے نایاب کے گھر آنے پر شہیر اور فاطمہ کی طرح ناپسندیدگی کا اظہار کیوں کیا تھا اور ثانی کو شکایت تھی کہ اس نے نایاب کی وجہ سے اس کے ساتھ جھگڑا کیا اور آخر میں یہ کہا کہ وہ شکر ادا کرے گا کہ اب کراچی جانے کی وجہ سے اس کی جان ثانی سے چھوٹ گئی ہے۔ اب وہ آزادی سے گھر رہے گا۔ وہ ہر روز اسے یہی SMS کرتا اور پھر ہر روز بات ہونے پر اس سے پوچھتا کہ وہ کس ویک اینڈ پر گھر واپس آئے گی۔ یہ بھول کر کہ ابھی اسے وہاں گئے چار دن ہی ہوئے تھے۔
اپنی پہلی ہی کلاس میں ثانی کی ملاقات لاہور سے اس کے علاوہ بی بی اے میں ایڈمیشن پانے والے دوسرے امیدوار سے ہو گئی تھی۔ وہ اس کے بائیں جانب والی نشست پر بیٹھا ہوا تھا۔ ثانی کو وہ بے حد عجیب لگا تھا اور اسے یقین تھا کہ وہ اسے عجیب لگا نہیں، وہ دراصل عجیب تھا۔ اس نے اس پوری کلاس میں کسی کو اتنا کم گو، اتنا سنجیدہ اور اتنا ٹھنڈا نہیں پایا تھا۔
اس کے داہنی جانب جنید تھا جو کراچی سے ہی تھا اور وہ دونوں مسلسل ایک دوسرے سے اپنا تعارف کروانے کے بعد باتیں کر رہے تھے اور یہ جنید ہی تھا جس سے نے ثانی سے باتیں کرتے کرتے یک دم اس کے بائیں جانب بیٹھے ہوئے اس لڑک کو مخاطب کیا جو چپ چاپ اپنی کرسی پر بیٹھے اسے مسلسل ہلانے میں مصروف تھا۔
”میرا نام روشان منصور علی ہے۔”
اس نے ثانی اور جنید کو وہ بتایا جو وہ پہلے ہی جانتے تھے پھر گردن موڑ کر بے نیازی سے دوسری جانب دیکھنے لگا۔ جنید اور ثانی نے اس کی اس حرکت پر ایک دوسرے کو دیکھا اور بے اختیار مسکرا دیے۔
٭٭٭




Loading

Read Previous

تھوڑا سا آسمان — قسط نمبر ۱۱

Read Next

تھوڑا سا آسمان — قسط نمبر ۱۳

Leave a Reply

آپ کا ای میل ایڈریس شائع نہیں کیا جائے گا۔ ضروری خانوں کو * سے نشان زد کیا گیا ہے

error: Content is protected !!