تھوڑا سا آسمان — قسط نمبر ۱۲

منصور علی کو اپنی آنکھوں پر یقین نہیں آیا۔ وہ بلاشبہ رخشی تھی۔ چوبیس پچیس سال کے اس لمبے تڑنگے نوجوان کے ساتھ بلاشبہ وہ وہی تھی۔ وہ دونوں پی سی کی لابی میں کھلنڈرے اور بے فکرے انداز میں ادھر ادھر دیکھتے ہوئے باتیں کرتے اور قہقہے لگاتے ہوئے ونڈو شاپنگ کر رہے تھے۔ منصور کو اپنا خون کھولتا ہوا محسوس ہوا۔ اس نے رخشی کو اس سے پہلے کبھی کسی مرد کے ساتھ اتنی بے تکلفی کا مظاہرہ کرتے ہوئے نہیں دیکھا تھا۔
وہ اس وقت عام طور پر اپنے آفس میں ہوتا تھا۔ یہ صرف ایک اتفاق تھا کہ آج وہ اپنے کسی کلائنٹ سے ملنے پی سی آیا تھا اور ملاقات کے بعد لابی سے گزرتے ہوئے رخشی اس کی نظروں میں آ گئی۔ کچھ دیر کے لیے تو وہ یہ یقین ہی نہیں کر پایا کہ وہ واقعی رخشی کو ہی وہاں دیکھ رہا ہے۔ اسے اس وقت گھر پر اس کے بیٹے کے ساتھ ہونا چاہیے تھا۔ وہ اکیلی ہوتی تو وہ اس کے پاس چلا جاتا مگر سارا مسئلہ اس کے ساتھ وہاں موجود دوسرے لڑکے کا تھا۔ ایک لمحے کے لیے اس کا دل چاہا کہ وہ ہر لحاظ بالائے طاق رکھتے ہوئے سیدھا رخشی کے پاس جائے اور اس کا بازو پکڑ کر کھینچتے ہوئے اسے وہاں سے لے جائے۔ مگر پھر اس نے خود پر قابو پاتے ہوئے اپنی جیب سے موبائل نکالا اور رخشی کو کال کرنے لگا۔ موبائل کی بیل بہت دیر تک بجتی رہی۔ رخشی اسی طرح اپنے ساتھی لڑکے کے ساتھ گپیں لگاتی رہی۔ پھر شاید اس کے ساتھی لڑکے نے ہی اس کے پرس میں بجتے فون کی طرف اس کی توجہ مبذول کروائی تھی۔
منصور نے رخشی کو چونکتے اور اپنے پرس سے موبائل نکال کر اس پر موجود نمبر دیکھتے اور پھر موبائل کو آف ہوتے سنا۔ اس نے بے اختیار دانت کچکچائے۔ رخشی نے موبائل کو مسکراتے ہوئے دوبارہ پرس میں ڈالا اور ساتھی لڑکے سے کچھ کہتے ہوئے اگلے شو کیس کی طرف بڑھ گئی۔
منصور نے موبائل اپنی جیب میں رکھ لیا۔ اس کی سمجھ میں نہیں آ رہا تھا کہ وہ اس وقت کیا کرے۔ اپنا سر پھوڑے یا رخشی کا۔
رخشی اب اس کی نظروں سے اوجھل ہو چکی تھی۔ اس کا دل چاہ رہا تھا کہ وہ اس کا تعاقب کرے مگر وہ جانتا تھا کہ ایسی صورت میں جلد یا بدیر وہ خود پر کنٹرول کھو دے گا۔
خود پر جبر کرتے ہوئے وہ بالآخر وہاں سے چلا آیا۔ اس نے بہتر یہی سمجھا تھا کہ وہ رخشی کے گھر آنے پر ہی اس سے بات کرے۔
اس دوپہر منصور علی نے بے شمار سگریٹ پھونک ڈالے تھے۔ وہ رخشی کے انتظار میں بیڈروم سے لاؤنج اور لاؤنج سے پورچ تک کے چکر کاٹتا رہا۔ سگریٹ کے ہرکش کے ساتھ وہ رخشی کے ساتھ گزارے ہوئے تمام لمحات یاد کرتا رہا۔ ماضی فلم کی طرح اس کے سامنے بار بار آتا اور جاتا رہا۔ اپنی آنکھوں سے رخشی کو ایک اور مرد کے ساتھ دیکھنے کے باوجود اسے یقین نہیں آ رہا تھا کہ رخشی اس کے ساتھ بے وفائی کر سکتی ہے۔ اسے دھوکا دے سکتی ہے۔ ان کی شادی کو دس بیس سال تو نہیں ہوئے تھے کہ رخشی اتنی جلدی اس سے اکتا جاتی اور پھر اس نے رخشی کے لیے بہت سی قربانیاں دی تھیں اپنی بیوی بچوں کو چھوڑ دیا تھا۔ کیا رخشی کو یہ یاد نہیں رہا تھا؟ وہ بار بار چکر لگاتا خود سے پوچھتا رہا۔




”مگر یہ بھی تو ہو سکتا ہے کہ مجھے کوئی غلط فہمی ہوئی ہو، رخشی کا اس لڑکے کے ساتھ ایسا کوئی تعلق نہ ہو۔” منصور کبھی ایک انتہا پر پہنچا کبھی دوسری پر۔ کبھی اسے رخشی ہر طرح سے مجرم نظر آتی اور کبھی وہ اس پر شک کرنے پر خود کو ملامت کرنے لگتا۔
رخشی تقریباً روز ہی شاپنگ کے لیے باہر جایا کرتی تھی اور کئی بار باہر ہوتے ہوئے وہ منصور کا فون اٹینڈ نہیں کرتی تھی۔ منصور کو کبھی اس پر شک نہیں ہوا تھا۔ شک کی کوئی وجہ ہی نہیں تھی۔ چھوٹے موٹے اختلافات اور جھگڑوں کے باوجود وہ ابھی بھی اس کی چہیتی بیوی تھی اور اس کے خیال میں وہ اس کی وفادار بھی تھی۔ اور اب ایک دم اسے تصویر کا دوسرا رخ نظر آنے لگا تھا اور زندگی میں پہلی بار ہی اس نے تصویر کا دوسرا رخ دیکھنے کی زحمت کی تھی۔
رخشی اس کے گھر پہنچنے کے تقریباً تین گھنٹے کے بعد آئی تھی اور منصور کو پہلے سے گھر پر پا کر وہ ذرا نہیں چونکی۔
”آپ آج اس وقت گھر پر کیسے؟” اس نے منصور کو باہر پورچ میں گاڑی سے اترتے ہی دیکھ لیا تھا جو اس کی گاڑی کی آواز سن کر باہر آیا تھا۔
منصور نے جواب دینے کے بجائے اس کا بازو پکڑا اور اسے تقریباً کھینچتے ہوئے اندر لے گیا۔ رخشی کے اوسان خطا ہو گئے۔
”کیا ہوا ہے آپ کو؟ کیا کر رہے ہیں؟” اس نے خود کو چھڑانے کے لیے مزاحمت کی تھی مگر وہ کامیاب نہیں ہوئی۔ منصور کچھ کہے بغیر اسے کھینچتا ہوا بیڈ روم میں لے گیا۔ بیڈروم کا دروازہ بند ہوتے ہی رخشی نے ایک جھٹکے سے اپنا بازو منصور کی گرفت سے چھڑوایا۔
”کیا بدتمیزی ہے یہ؟” اس نے جھنجلاتے ہوئے کہا۔ ”گھر کے نوکر…”
منصور نے اسے بات مکمل نہیں کرنے دی۔ ”کہاں سے آ رہی ہو تم؟”
رخشی کو اس کا سوال سمجھنے میں صرف ایک لمحہ لگا تھا۔ وہ جان گئی کہ منصور نے اسے باہر کسی کے ساتھ دیکھ لیا تھا اور پھر اسے خود پر قابو پانے میں چند سیکنڈ ہی لگے تھے۔
”شاپنگ کے لیے گئی تھی۔”
”کہاں؟”
”پی سی۔”
”کس کے ساتھ؟”
”اپنے کزن کے ساتھ۔” رخشی نے اطمینان سے کہا۔ منصور بے اختیار سٹپٹایا۔
”کزن…؟” کون سا کزن؟ میں تمہارے کسی کزن سے واقف نہیں۔”
”آپ میری فیملی کے کتنے لوگوں سے ملے ہیں کہ میرے ہر کزن سے واقف ہوتے؟”
رخشی نے دھڑلے سے جھوٹ بولتے ہوئے کہا۔
”کزن کے ساتھ اتنی بے تکلفی؟”
”آپ کے خاندان میں نہیں ہوتی ہوگی، میرے خاندان میں ہوتی ہے۔”
منصور چند لمحہ پرُسوچ انداز میں اس کا چہرہ دیکھتا رہا۔
”آپ نے مجھے پی سی میں دیکھ لیا تھا تو اسی وقت میرے پاس آتے، میں آپ کو بھی اس سے ملواتی۔ اس طرح گھر میں آ کر تماشا کرنے کی کیا ضرورت تھی۔”
منصور کی خاموشی سے اسے یک دم شہہ ملی تھی۔ منصور اب بھی چپ چاپ اسے دیکھ رہا تھا۔
”میں نے اگر آپ سے اپنی مرضی سے شادی کی ہے تو اس کا یہ مطلب نہیں کہ آپ مجھ پر شک کریں۔” میں کہیں بھی، کسی بھی وقت، کسی سے بھی مل سکتی ہوں کیا اس کا یہ مطلب ہوگا کہ آپ…”
منصور نے یک دم اس کی بات کاٹی۔
”کیا نام ہے تمہارے اس کزن کا؟” رخشی کے ذہن میں فوری طور پرکچھ نہیں آیا۔ ایک لحظہ کی خاموشی کے بعد وہ بولی۔
”آپ کیوں پوچھ رہے ہیں؟”
”وجہ بتا دوں گا پہلے تم نام بتاؤ۔”
”خرم!”
”تم نے کہا کزن ہے۔ کس رشتے سے، چچا کا بیٹا ہے یا ماموں کا؟” منصور سرد مہری سے پوچھنے لگا۔
”وہ…” رخشی جواب دیتے ہوئے لڑکھڑائی۔ ”سیکنڈ کزن ہے۔”
”کیا کرتا ہے؟”
”بزنس۔” رخشی جھوٹ پر جھوٹ بول رہی تھی۔
”کس چیز کا بزنس؟”
”یہ تو میں نے اس سے نہیں پوچھا۔”
”کہاں رہتا ہے؟”
”آپ اتنی لمبی تفتیش کیوں کر رہے ہیں؟” اس بار وہ بے اختیار جھنجلائی۔ ”کیا آپ کو مجھ پر اعتبار نہیں ہے؟”
”میں تم سے پوچھ رہا ہوں کہ وہ کہاں رہتا ہے؟” منصور کا لہجہ اس بار پہلے سے زیادہ سخت تھا۔
رخشی نے ایک علاقے کا نام بتا دیا۔ منصور نے مزید کوئی سوال کرنے کے بجائے اپنا موبائل نکالا اور اس پر ایک نمبر ڈائل کرنے لگا۔ رخشی قدرے بے چینی سے اسے دیکھ رہی تھی۔
منصور رسمی سلام دعا کے بعد پوچھ رہا تھا۔
”رخشی کا کوئی کزن ہے خرم؟” رخشی ایک لمحے میں جان گئی کہ منصور کس سے بات کر رہا تھا۔ دوسری طرف صاعقہ تھی پہلی بار صحیح معنوں میں اسے پیروں کے نیچے سے زمین نکلتی ہوئی محسوس ہوئی۔ اس کے وہم و گمان میں بھی نہیں تھا کہ اس کی باتوں کی تصدیق کے لیے وہ صاعقہ کو فون کر دے گا۔
”ہاں خیریت ہے۔ بس آپ یہ بتائیں کہ اس کا کوئی کزن خرم ہے۔ اور اگر ہے تو وہ کہاں رہتا ہے؟”
منصور کی نظریں فون پر بات کرتے ہوئے رخشی کے چہرے پر تھیں اور اس نے رخشی کا رنگ اڑتے ہوئے دیکھ لیا تھا۔ دوسری طرف سے صاعقہ کچھ کہہ رہی تھی۔ منصور نے اس کی بات سنی رخشی نے اس کی آنکھوں میں دیکھ لیا تھا کہ اسے دوسری طرف سے کیا جواب ملا ہوگا۔ صاعقہ کی بات سنتے سنتے اس نے اچانک فون بند کر دیا۔
”تمہاری ماں بہت چالاک ہے۔ تمہاری طرح اسے یہ تو یاد آ گیا ہے کہ تمہارا خرم نامی کوئی کزن ہے مگر یہ یاد نہیں آیا کہ وہ کہاں رہتا ہے؟” وہ آگ بگولہ ہوتے ہوئے بولا۔ ”اور اگر میں اس سے یہ پوچھ لیتا کہ وہ کس رشتے سے تمہارا کزن ہے تو مجھے یقین ہے۔ اس کا جواب تمہارے جواب سے مختلف ہوتا اور اگر میں اسے اس کا حلیہ بتانے کا کہتا تو پھر تو شاید وہ بول ہی نہ پاتی۔”
اس نے ایک لمحہ کے لیے توقف کیا۔ ”اب تم اس کا صحیح تعارف مجھ سے کرواؤ گی یا پھر…”
اس بار اس نے دانستہ طور پر اپنا جملہ چھوڑ دیا۔
”آپ کیا سمجھ رہے ہیں اس کا مجھ سے کیا رشتہ ہے؟” رخشی نے منصور کو دیکھا۔
”یہاں بات میری سمجھ کی نہیں ہو رہی تمہارے رشتے کی ہو رہی ہے۔” منصور حلق کے بل چلایا۔ ”کون ہے وہ تمہارا؟”
”دوست…” رخشی نے بے اختیار کہا۔ منصور کو یقین نہیں آیا۔
”بوائے فرینڈ؟” رخشی خاموشی سے منصور علی کو دیکھتی رہی۔ جو اسی انداز میں اسے دیکھ رہا تھا۔
”بوائے فرینڈ ہے وہ تمہارا؟” منصورعلی دھیرے سے بڑبڑایا۔
٭٭٭




Loading

Read Previous

تھوڑا سا آسمان — قسط نمبر ۱۱

Read Next

تھوڑا سا آسمان — قسط نمبر ۱۳

Leave a Reply

آپ کا ای میل ایڈریس شائع نہیں کیا جائے گا۔ ضروری خانوں کو * سے نشان زد کیا گیا ہے

error: Content is protected !!