بت شکن ۔۔۔ ملک حفصہ

مولوی صاحب اور جماعت کے ساتھیوں کے درمیان بیٹھا وہ ہر طرح کی ذہنی فکر سے آزاد تھا۔ خیال بھی نیک اور اعمال بھی نیک ہوں، تو انسان ایسے ہی ہلکا ہوا میں پنچھی کی طرح اڑتا محسوس کرتا ہے۔
شان کو حیدر کی دوستی پر لمحے بھر کو فخر ہوا۔
آج جماعت کے ساتھیوں نے ان کے بارے میں ہلکا پھلکا پوچھا تھا اور مولوی صاحب کو اندازہ ہوگیا تھا کہ دونوں کو شوق ایک سے ہی ہیں پر حیدر چونکہ جماعت میں آتا رہتا ہے، تو اسے علم ہے کہ شوق کو کیسے پورا کرنا ہے اور چونکہ ابھی شان کو سمجھانے کا موقع ہے، تو مولوی صاحب نے بات کا رخ اس جانب کرتے ہوئے بیان شروع کیا۔
شان سمیت سب ساتھی خاموشی سے مولوی صاحب کو سننے لگے۔
’’ہم سب کو اللہ تعالیٰ نے ایک خاص قسم کی صلاحیت سے نوازا ہوتا ہے۔ کوئی اچھا بول سکتا ہے کوئی اچھا لکھ سکتا ہے، کوئی اچھا گا سکتا ہے، تو کوئی اچھی تصاویر یا مجسمے بنا سکتا ہے، لیکن فرق بس یہ ہوتا ہے کہ آپ اللہ کے اس تحفے کو کیسے استعمال کرتے ہیں۔ جیسے کسی کی آواز اچھی ہے، تو کیسے استعمال کرتا ہے گانا گا کر یا نعت پڑھ کر…
’’انسانی اشکال بنا کر یا پہاڑوں پھولوں کو خدا کی قدرت کے طور پر ظاہر کر کے۔‘‘
’’مجسمے یعنی بت۔‘‘ مولوی صاحب لمحے بھر کو رکے اور شان کو دیکھا۔
’’نہیں، بت تو الگ ہیں۔ یہ تو انسانی شکل ہے، ہے نا؟دماغ راضی ہوتا ہے اس بات سے؟‘‘ مولوی صاحب نے شان کے چہرے کو پڑھ کر بنا سوال کے جواب دیا۔ جس کا دماغ نے نفی میں جواب دیا۔
’’میں یہاں کچھ احادیث کا حوالہ دینا چاہتا ہوں۔‘‘
ابن عباس نبی صلی اللہ علیہ و سلم سے روایت کرتے ہیں
’’اور جس شخص نے تصویر بنائی اسے عذاب دیا جائے گا اور مجبور کیا جائے گا کہ وہ اس میں روح پھونکے اور وہ نہ پھونک سکے گا۔‘‘ (بخاری۔ کتاب التعبیر۔ ترمذی، نسائی۔ مسند احمد)
مولوی صاحب کو سب خاموشی سے سن رہے تھے۔ انہوں نے بیان جاری رکھتے ہوئے کہا کہ :
’’ایک اور حدیث بیان کرتا چلوں۔‘‘

(adsbygoogle = window.adsbygoogle || []).push({});

(adsbygoogle = window.adsbygoogle || []).push({});

سعید بن ابی الحسن کہتے ہیں کہ میں ابن عباسؓ کے پاس بیٹھا تھا۔ اتنے میں ایک شخص آیا اور اس نے کہا کہ اے ابن عباس میں ایک ایسا شخص ہوں جو اپنے ہاتھ سے روزی کماتا ہے اور میرا روزگار تصویریں بنانا ہے۔ ابن عباس نے جواب دیا کہ میں تم سے وہی بات کہوں گاجو میں نے رسول اللہ صلی اللہ علیہ و سلم کو فرماتے سنی ہے کہ جو شخص تصویر بنائے گا اللہ اسے عذاب دے گا اور اسے نہ چھوڑے گا جب تک وہ اس میں روح نہ پھونکے اور وہ کبھی روح نہ پھونک سکے گا۔ یہ بات سن کر وہ شخص سخت پریشان ہوا اور اس کے چہرے کا رنگ زرد پڑ گیا۔ اس پر ابن عباس نے کہا بندہ خدا، اگر تجھے تصویر بنانی ہے تو اس درخت کی بنا یا کسی ایسی چیز کی بنا جس میں روح نہ ہو۔ (بخاری، کتاب البیوع۔ مسلم، کتاب اللباس۔ نسائی، کتاب الزینہ۔ مسند احمد)۔
عبداللہ بن عمرؓ نے بیان کیا کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ و سلم نے فرمایا جو لوگ یہ تصویریں بناتے ہیں ان کو قیامت کے روز عذاب دیا جائے گا کہ جو کچھ تم نے بنایا ہے اسے زندہ کرو۔
(بخاری، کتاب اللباس۔ مسلم، کتاب اللباس۔ نسائی، کتاب الزینہ۔ مسند احمد)
شان کا چہرہ سفید اور لب سوکھ گئے تھے، وہ سوچوں کے سمندر میں ڈوب رہا تھا۔
٭…٭…٭
دو دن بعد آکر بس باریکیوں کو ایک فائنل ٹچ دینا ہے اور بس میرا شاہکار تیار ہے۔
پھر ایگزیبیشن میں ٹرافی کہیں نہیں گئی بیٹا۔
کمرے کی بتی بند کرتے وہ مسکرا رہا تھا۔
٭…٭…٭
’’حیدر! یار ایک بات پوچھوں۔‘‘ شان رات بھر الجھن کا شکار رہا۔
’’بول نا اجازت کیوں لے رہا؟‘‘ کپڑوں کو لپیٹتے حیدر نے بے دھیانی سے کہا۔
’’یار تجھے بھی تو آرٹ کا شوق ہے نا، تو بھی تو تصاویر بناتا ہے نا۔‘‘
حیدر کے ہاتھ رکے اور مسکراتا ہوا گھوما۔۔
’’وہ… وہ کل مولوی صاحب کہہ رہے تھے نا… یار میں پریشان ہوگیا ہوں۔‘‘ شان نے اُداسی سے کہا۔
’’میرے دوست میں تصاویر بناتا ہوں پر پھولوں کی جھیلوں کی پہاڑوں کی اور گلاب کی خاص کر۔ ‘‘حیدر نے نرمی سے کہا۔
’’مجھے معلوم ہے چھوڑنا آسان نہیں ہے جہاں تم ہو دو سال پہلے میں بھی یہیں تھا، کوشش کرو کیونکہ تم کرسکتے ہو۔‘‘
حیدر نے اُس کے کندھے پر ہاتھ رکھ کر تسلی دی۔
’’توبہ کرو دوبارہ نہ کرنے کی توبہ! دل کو مضبوط کر کے فیصلہ کرو اور اللہ سے مانگو، دیکھنا آسانی ہوگی۔‘‘ شان بس سن رہا تھا۔۔
آج ان کی واپسی تھی۔
٭…٭…٭
کمرے کی بتی بند تھی۔ شاہکار پر کپڑا ڈلا ہوا تھا۔
وہ آکر کرسی پر بیٹھ گیا۔۔
خاموشی کا راج تھا۔۔
باہر بھی اندر بھی۔۔
٭…٭…٭
زندگی میں پہلی بار دو دن کا سکون ایسا پایا تھا کہ پوری زندگی کے سکون کے برابر تھا۔وہ حیدر سے ہر بار ساتھ جانے کا کہہ چکا تھا اور جب اللہ چاہ پیدا کرے، تو وسیلے خود ہی بن جاتے ہیں۔
گھر آیا تو چپ چپ تھا۔ رضیہ بیگم نے بھی تھکاوٹ سمجھ کر نظر انداز کیا پر ڈر کر جو اٹھا تو سو نہیں سکا۔۔
٭…٭…٭
رات کے ڈھائی بجے تھے۔
سیکنڈ کی سوئی کی آواز دل کی دھڑکن سے مل رہی تھی۔
جو بس چل رہی تھی بغیر سوچے بغیر سمجھے جیسے اس کی ان دو دن سے پہلے کی زندگی، جیسے اُس کا دماغ جیسے اُس کے یہ ہاتھ، جیسے اس کا شوق۔
شان نے مجسمے پر سے کپڑا ہٹایا۔
کیا کمال کا مجسمہ بنا تھا، کمال کا۔
پوروں سے آنکھوں کو چھوا، ہاتھ مجسمے پر پھیرتے وہ اُس کے انگ انگ کو دھیان سے دیکھ رہا تھا۔
’’جان ڈالو، اٹھو، اٹھو جان ڈالو مجھ میں۔‘‘
خواب والی آواز واضح ہونے لگی۔
’’میں، جھپکنا چاہتا ہوں ان آنکھوں کواٹھو۔‘‘
آنکھوں کو چھوتی پوروں میں لرزش ہوئی۔
شان کے کمر میں تیزی سے کچھ دوڑا۔ ہتھیلی سے اس پتلے کو دھکا دیا اور وہ شاہکار زمین بوس ہوگیا۔
ٹکڑے زمین پر اِدھر اُدھر بکھر گئے آواز آنا بند ہوگئی۔
سب ایک منٹ میں ختم ہوگیا۔ آوازیں، وہ خوف، وہ مجسمہ اور جنون۔
’’اے اللہ مجھے معاف کرنا۔‘‘ سانس کھینچ کر لیتا وہ مسکرایا۔
شان نے بتی بند کی اور وضو کے لیے بیت الخلا کا رخ کیا۔ کچھ تھا جو اندر اتر آیا تھا، شاید وہی سکون تھا اور اسی کی تلاش تھی۔ شکرانا تو بنتا تھا پھر حیدر کو تھینک یو کا میسج بھی تو کرنا تھا۔
٭…٭…٭

(adsbygoogle = window.adsbygoogle || []).push({});

(adsbygoogle = window.adsbygoogle || []).push({});

Loading

Read Previous

ہم زاد — سحرش رانی

Read Next

جو ملے تھے راستے میں — سما چوہدری

Leave a Reply

آپ کا ای میل ایڈریس شائع نہیں کیا جائے گا۔ ضروری خانوں کو * سے نشان زد کیا گیا ہے

error: Content is protected !!