باغی ۔۔۔۔۔ قسط نمبر ۶ ۔۔۔۔ شاذیہ خان

”جی میرے ساتھ جو کچھ ہوا میں چپ نہیں بیٹھوں گی ۔انہیں دکھا دوں گی کہ ان کا فیصلہ غلط تھا۔” کنول نے اعتماد سے جواب دیا۔
انٹرویو ختم ہو چکا تھا مگر چینل کے نمائندے واپس جانے کے بجائے وہیں صوفوں پر دراز ہوگئے۔ کنول نے اکتائی ہوئی نظروں سے گھڑی کی طرف دیکھا۔
”آپ اپنا انٹرویو مکمل کرچکے یا کوئی آخری سوال رہتا ہے؟ مجھے اور بھی کام ہیں۔”کنول نے کہا۔
”ارے مس آپ تو بہت جلد نظریں پھیر لینے والوں میں سے ہیں۔نہ چائے پانی نہ کوئی کھانا، سوکھا سوکھا انٹرویو کون دیتا ہے۔”پہلے رپورٹر نے طنز کیا۔
”میں دیتی ہوں،کیوں کہ میں ابھی بہت بزی ہوں آپ کو کسی قسم کا کھانا یا چائے آفر نہیں کرسکتی پھر سہی۔”کنول نے رکھائی سے جواب دیا۔
”مس آپ تو بہت بد لحاظ ہیں،لوگ تو ہمیں بہت عزت دیتے ہیں۔کئی کئی بار فون کرتے ہیں تب ہم جاتے ہیں۔”کیمرہ مین نے پہلی دفعہ منہ کھولا۔
”میں ایسی ہی ہوںجیسی نظر آتی ہوں،میں نے آپ کو نہیں بلایا آپ خود آئے ہیں۔”کنول کا روکھا پن ابھی بھی قائم تھا۔
”چلیں پھر ہم بھی ایسے ہی ہیں،ہم سے بنا کر رکھنے والے ہی فائدے میں رہتے ہیں۔” دوسرے رپورٹر نے صوفے سے اٹھتے ہوئے کہا۔
”کیا مطلب؟”کنول نے حیرانی سے پوچھا۔
”مطلب آپ کو بہت جلد پتا چل جائے گا۔”پہلار پورٹر بولا۔
”اوکے، دروازہ اس طرف ہے۔” کنول نے دروازے کی طرف اشارہ کرتے ہوئے کہا تو وہ تینوں اسے گھورتے ہوئے نکل گئے۔
٭…٭…٭
گاؤں میں چند لڑکے ایک موبائل پر کنول کی ویڈیو دیکھ رہے تھے کہ ادھر کنول کا بھائی منا آگیا۔ ایک لڑکے نے منے کو آواز دی۔
”او مُنے! تو نے یہ ویڈیو دیکھی؟”اس نے پوچھا۔
” کس کی ہے؟”منے نے پوچھا۔
”ہے کوئی فضول سی لڑکی۔” پہلے لڑکے نے جواب دیا۔”ویسے یار یہ لڑکی مُنے کی بہن فوزیہ سے کتنی ملتی ہے؟”دوسرا لڑکابولا تو پہلے نے کہا۔
”او نہیں یار یہ لڑکی تو انگریزی میں بات کررہی ہے اور…” اس کی بات مکمل ہونے سے پہلے ہی منے نے ایک زور دار گھونسا اس کے منہ پر مارا۔
”آئندہ میری باجی کو ایسی خراب عورتوں سے ملایا تو میں تیرا خون پی جاؤں گا۔”منے نے ہاتھ جھٹکتے ہوئے کہا۔
”او بس کردے تیری بہن بھی کون سی عزت والی تھی۔دو بار گھر سے بھاگی ہے اور تو بات کرتا ہے میری بہن،میری بہن… ” لڑکے نے خون صاف کرتے ہوئے کہا۔
”او تو چپ کر جا ورنہ میں تیرا خون پی جاؤں گا، میری باجی ایسی آوارہ نہیں ہے۔” منے نے اس کا گریبان پکڑ لیا۔وہ لڑکاگریبان چھڑوانے کی کوشش کرنے لگا۔
”ہاں ہاں جانتا ہوں تیری باجی کتنی آوارہ ہے۔”منے نے آؤ دیکھا نہ تاؤ اس کے منہ پر مکا مارا اور دونوں ایک دوسرے سے لپٹ گئے باقی دوست ان دونوں کو چھڑانے لگے۔
٭…٭…٭





مُنا گھر آیا تو اس کے کپڑے پھٹے ہوئے تھے اور منہ سے خون بہ رہا تھا۔ماں نے دیکھا تو دوڑی چلی آئی۔
”ارے منے کیا ہوا کہاں سے آرہا ہے تو؟یہ چوٹیں کیسے لگیں؟”
”کچھ نہیں ہوا اماں، بس یونہی۔”منے نے کپڑے جھاڑتے ہوئے جواب دیا۔
”بس یونہی تو نہیں،بول کس سے لڑ کر آیا ہے؟”ماں نے غصے سے پوچھا۔
”اماں وہ سب باجی کو بُرا بھلا کہہ رہے تھے،مجھ سے برداشت نہ ہوا میں نے پکڑ کر ایک ایک کو پیٹ ڈالا۔”منے نے جواب دیا۔
”او میرے اللہ تو نے لڑائی کی۔”ماں اس کی بات سن کر پریشان ہو گئی۔
”ہاں تو کوئی میری باجی کو برا کہے گا میں اس کی جان لے لوں گا۔”منے کے لہجے میں بڑی بہن کے لیے بہت پیار تھا۔
٭…٭…٭
چینل پر جب اس کے انٹرویو کی رپورٹ چلی تو وہ بہت تضحیک آمیز تھی۔بیک گراؤنڈ میں”بجلی بھری ہے میرے انگ انگ میں” گانا لگایا ہوا تھا۔کنول کا تعارف بھی بہت ہی بے ہودہ طریقے سے کروایا گیا تھا۔ کنول نے رپورٹ دیکھی اور اپنا سر پکڑ کر بیٹھ گئی۔’اف دنیا کتنی منافق ہے! کس کس سے لڑوں!’
٭…٭…٭
سلمان اپنے دفتر میں پروڈیوسر کے ساتھ بیٹھا کنول کی وہ ویڈیو دیکھ رہا تھا جس میں اس نے میوزک شو کے ججزکی کلاس لی تھی۔
”سلمان بھائی یہ وہی لڑکی نہیںجسے پروگرام سے نکالا تھا اورجس نے آپ کے خلاف ویڈیو شیئر کی تھی؟”پروڈیوسر نے پوچھا۔
”ہاں یہ وہی لڑکی ہے۔”سلمان نے سر پر ہاتھ پھیرتے ہوئے جواب دیا۔
”دیکھا آپ نے کیسی بے عزتی ہوئی ہے اس کی۔”پروڈیوسر نے طنزیہ انداز میں کہا۔
” نہیں یار اب مجھے اس سے ہمدردی ہورہی ہے،ہمیں اس کی مدد کرنا چاہیے۔”سلمان نے کہا۔
” کیسی مدد؟”پروڈیوسر نے حیرانی سے پوچھا۔
”میں اس وقت اس کا ساتھ دوں گا۔ایک ویڈیو بنانے لگا ہوں جس میں ججز کی کلاس لینی ہے۔واقعی زیادتی کی ہے اس کے ساتھ۔”سلمان نے کچھ سوچتے ہوئے کہا۔
” لیکن سلمان بھائی اس نے تو آپ کے ساتھ جھگڑا کیا تھا،آپ اتنی جلدی بھول گئے۔”پروڈیوسر اس کی کایا کلپ پہ حیران تھا۔
”یار وہ بات اور تھی اب اس کے ساتھ واقعی زیادتی ہوئی ہے،مجھے اس سے ہمدردی ہورہی ہے۔”سلمان نے ہمدردانہ انداز میں کہا۔
٭…٭…٭





کنول شہریار کے آفس گئی اور سیدھی چلتی ہوئی سیکرٹری کے پاس جا کھڑی ہوئی۔
”ایکس کیوزمی کیا شہریار صاحب بیٹھے ہیں آفس میں؟”کنول نے سیکرٹری سے پوچھا۔
”جی مگر آپ کون ہیں؟”سیکرٹری نے پوچھا۔
وہ کنول کہتے کہتے ایک دم رک گئی۔”جی میں کنو… فوزیہ عظیم… ”
سیکرٹری نے اُسے غور سے دیکھا اور پھر اپنا موبائل اٹھایا اورفیس بک پراس کی اپ لوڈ ویڈیو دیکھی اور پھر دوبارہ اسے دیکھا۔اُسے موبائل پر مصروف دیکھ کر کنول نے دوبارہ کہا۔
”جی میں کچھ پوچھ رہی ہوں؟”
”کیا آپ کا نام واقعی فوزیہ ہے؟”سیکرٹری کو کنول کے جھوٹ کا اندازہ ہو گیا تھا۔
”آپ کو کوئی اعتراض ہے؟”کنول نے غصے میں کہا۔
”نہیں نہیں مجھے کوئی اعتراض نہیں۔”سیکرٹری نے گھبرا کر جواب دیا پھر سامنے پڑے صوفے کی طرف اشارہ کرتے بولی۔” پلیز آپ سامنے صوفے پر بیٹھیں سر کو بتاتی ہوں۔”
سیکرٹری نے شہریار کو کال کی اور پھر کنول کو اندر جانے کا کہا۔وہ شہریار کے آفس پہنچی تو اس نے کھڑے ہوکر استقبال کیا۔
”آئیے مس فوزیہ کیسی ہیں آپ؟”
”میں ٹھیک ہوں،آپ کیسے ہیں؟”
”اللہ کا شکر ہے۔کیسے زحمت کی آپ نے؟” شہریار نے پوچھا۔
” آپ کا قرض تھا مجھ،وہی لوٹانے آئی ہوں۔”کنول نے اس کی طرف پیسے بڑھاتے ہوئے کہا۔
”لیکن میں نے وہ پیسے قرض کے طور پر نہیں دیے تھے۔”شہریار نے کچھ سوچتے ہوئے کہا۔
”لیکن میں نے وہ قرض کے طور پر لیے تھے۔”کنول نے قطعیت سے کہا۔
”آپ کافی ضدی ہیں۔”شہریار نے غور سے اس کی طرف دیکھتے ہوئے کہا۔
”یہی میری خصوصیت ہے۔”کنول نے بے پروائی سے کہا۔
”اچھی خصوصیت ہے۔خیر بتائیے کیا پئیں گی؟ چائے یا کافی؟”شہریار نے پوچھا۔
”نو تھینکس،فی الحال تو میں پیسے لوٹانے آئی تھی،پھر سہی۔”کنول نے اٹھتے ہوئے کہا تو شہریار نے دوبارہ بیٹھنے کا اشارہ کرتے ہوئے فون اٹھایا اور سیکرٹری کو ہدایات دینے لگا۔”علینہ دو کپ اچھی سی چائے بھجوائیں اور ساتھ میں کچھ اسنیکس بھی،جلدی۔”
”ہاں تو مس فوزیہ کیا ضرورت تھی اس کی؟”شہریار نے پیسوں کی طرف اشارہ کرتے ہوئے پوچھا۔
”مجھے واپس کرنے تھے اس لیے میں دینے آگئی،ہم کچھ اور بات کریں۔”کنول نے بات ختم کی ہی تھی کہ چائے آگئی اور وہ دونوں چائے پینے لگے۔جب وہ وہاں سے اُٹھنے لگی تو وہ دونوں کافی اچھے دوست بن چکے تھے۔
٭…٭…٭
سلمان کا خیال تھا کہ کنول کے ساتھ زیادتی ہوئی ہے اور اس مشکل وقت میں اس کا ساتھ دینا چاہیے۔اس نے سوشل میڈیا کا سہارا لینے کا سوچا اور ایک ویڈیو بنانا شروع کی۔
”میری کنول بلوچ سے جو بھی لڑائی رہی وہ الگ قصہ ہے،مگر میں اسے ہمیشہ پسند کرتا ہوں،کیوں کہ وہ ایک جی دار اور سچی لڑکی ہے،ڈٹ جانے والی۔میرے ساتھ بھی اس کی لڑائی ہوئی لیکن اس نے ڈٹ کر مقابلہ کیا۔ اسی لیے آج اس مشکل وقت میں میں اس کے ساتھ ہوں۔وہ نعتیں پڑھنا چاہتی تھی،میرے پروگرام میں وہ ٹاپ تھری میں تھی،چند حالات کی وجہ سے اسے وہاں سے نکلنا پڑا ۔اب وہ میوزک مقابلے میں آئی اور یہاںججزنے اس کے ساتھ جو بدتمیزی کی وہ قابل معافی نہیں۔ آپ لیجینڈہیں، آپ کے خیال میں محض آپ کی عزت ہے؟ کسی عام شخص کی کوئی عزت نہیں؟ آپ کسی کا مذاق اڑائیں ٹھیک ہے،کوئی آپ کا مذاق اڑائے آپ غصے میں آجاتے ہیں۔آپ کو کنول سے معافی مانگنی ہوگی۔یہ عوام کا فیصلہ ہے!”
ویڈیو بنانے کے بعد اس نے سوشل میڈیا پر اپ لوڈ کر دی۔
٭…٭…٭





کنول سوچوں میں گم تھی کہ ریحان اس کے پاس آیا اور اسے تذبذب میں دیکھ کر پوچھا۔
” کیا ہوا؟ کہیں ارادہ تو نہیں بدلا جانے کا؟”
”سوچ رہی ہوں لیکن سمجھ نہیں آرہا کچھ کہ کیا کروں۔”کنول نے سر جھکائے جواب دیا۔
”دیکھو اس میں بہت پیساہے۔”ریحان نے اسے سمجھایا۔
”لیکن عزت تو نہیں۔”کنول نے سر اُٹھا کر کہا۔
”پھر وہی چھوٹے لوگوں کی باتیں۔جیب میں پیسہ ہو تو عزت بھی ملے گی۔یہ ایک پرسنل مجرا پارٹی ہے،بہت پیسہ ہے اس میں۔”ریحان نے بے فکری سے کہا۔
”پیسا ہے لیکن بدنامی بھی تو بہت ہے۔”کنول نے پریشانی سے کہا۔
”بدنامی ہی تو شہرت دیتی ہے۔ گوہر کہہ رہا تھا کہ بڑا پیساملے گا۔سوچو!ہر سال ایسا ہی ایک چکر تمہیں کتنا کامیاب کرسکتا ہے؟”ریحان بہت پرجوش تھا۔
”پیکنگ تو میں کررہی ہوں لیکن ابھی تک سمجھ نہیں پارہی کہ جاؤں یا نہ جاؤں۔”کنول ابھی تک تذبذب کا شکار تھی۔
”نہ جانے میں نقصان ہے، خیر رات باقی ہے، اچھی طرح سوچ لو پھر فیصلہ کرنا۔”ریحان نے کہا اور کمرے سے نکل گیا۔
٭…٭…٭
کنول مخمصے کا شکار تھی کہ کیا فیصلہ کرے۔کبھی کبھی زندگی کتنی تکلیف وہ ہو جاتی ہے ہم اس کے ہاتھوں کٹھ پتلی بن جاتے ہیں۔آگے کنواں پیچھے کھائی والا معاملہ،وہ کام نہ کریں تو موت،کام کریں تو موت۔ اس وقت اس کے حالت بھی کچھ ایسی ہی تھی۔سمجھ میں کچھ نہیں آ رہا تھا کہ۔کوئی ایسا تھا بھی نہیں جو اسے مشورہ دیتا ۔ریحان کو جو سمجھانا تھا اس نے سمجھا لیا تھا۔اب وہ کچھ اور بات کرنے کے بالکل موڈ میں نہ تھا۔ اسی مخمصے میں وہ بے چین ہو کرباہر نکل آئی اورفٹ پاتھ پر چلنے لگی۔رات کے بارہ بج رہے تھے اور کنول سڑکوں پر ماری ماری پھر رہی تھی۔اس کے ہاتھ میں ایک چھوٹا سا پرس تھا۔ وہ سوچوں میں گم ایک ریسٹورنٹ کے سامنے جا کر رک گئی۔ریسٹورنٹ شاید اس وقت بھی کُھلا ہوا تھا لیکن کوئی نظر نہیں آ رہا تھا۔ وہ اندر داخل ہوکر جیسے ہی ایک میز کی طرف بڑھی اسے ایک کونے میں ایک اور میز پر شہریار بیٹھا نظر آیاجو کافی کا کپ ہاتھ میں لیے کھڑکی سے باہر دیکھ رہاتھااور کچھ سوچ رہا تھا۔اس نے آگے بڑھ کر اس کی آنکھوں کے سامنے چٹکی بجائی ۔
شہر یار نے ایک دم چونک کر کنول کی طرف دیکھا۔ اس کی آنکھیں بہت سرخ ہو رہی تھیں۔ کنول نے اس کے سامنے ہاتھ لہرا کر طنز کیا۔
” ہیلو! لگتا ہے بہت پیئے ہوئے ہیں۔”
” آپ کو کیسے پتا؟”شہریار نے الٹا سوال کیا۔
” جس طرح آپ بات کررہے ہیں گم سُم سے ہیں اور آنکھیں سُرخ ہیں۔”کنول نے کہا۔
” صرف پینے سے تو آنکھیں سرخ نہیں ہوتیں،کبھی کبھی رونے سے بھی ہوتی ہیں۔”شہریار نے غم زدہ ہو کر کہا۔
” مرد روتے بھی ہیں؟ لیکن میں نے کبھی کسی مرد کو روتے ہوئے نہیں دیکھا۔”کنول نے بہت اشتیاق سے کہا۔
”تم نے زندگی میں ابھی دیکھا ہی کیا ہے؟زندگی کے چند تجربات کو پوری زندگی نہیں سمجھا جاتا۔” شہریار نے اسے سمجھایا۔
”یہ توby the wayتجربات پر منحصر ہے کہ وہ تلخ ہیں یا شیریں۔”کنول نے کندھے اچکا کر جواب دیا۔
”اتنی سی عمر میں اتنی بڑی بڑی باتیں کہاں سے سیکھی ہیں تم نے؟”شہریار نے حیرانی سے پوچھا۔
”بڑی بڑی باتوں کے لیے عمر کی نہیں تجربے کی ضرورت ہوتی ہے اور تجربہ تو کسی عمر میں بھی ہوسکتا ہے۔”کنول نے اطمینان سے جواب دیا۔
” ویسے تم اتنی رات گئے یہاں کیا کررہی ہو؟”شہریار نے بات بدلی۔
”کیوں تم یہاں بیٹھ سکتے ہو رات گئے میں نہیں؟” کنول کو بلا وجہ ہی غصہ آگیا۔
”ہمارے معاشرے میں رات کے وقت ایک مرد تنہا کہیں بھی بیٹھ سکتا ہے،مگر ایک عورت نہیں۔” شہریار نے اس کی آنکھوں میں دیکھتے ہوئے کہا۔
”سوری!میں کسی ضابطے اورکسی معاشرے کونہیں مانتی۔میرے اپنے ضابطے ہیں جنہیں فالوکرتی ہوں۔”کنول نے بے پروائی سے کہا پھر بولی۔”اچھا ایک سوال کا جواب تو دو۔رات کے بارہ بجے تم اکیلے یہاں کیوں بیٹھے ہو اور تم روئے بھی ہو؟”
”لیکن پہلے تم بتاؤ تم اس وقت یہاں کیا کررہی ہو؟”شہریار نے الٹا اسی سے سوال کر دیا۔
”پتا نہیں،بس یونہی کسی سوال کے جواب میں گھر سے نکل آئی۔”کنول نے بے زاری سے کہا۔
”پھر جواب ملا؟”شہریار نے اس کے چہرے پر کچھ کھوجنے کی کوشش کی۔
”نہیں۔” کنول نے نفی میں سر ہلاتے ہوئے کہا۔
” ویسے پوچھ سکتا ہوں سوال کیا تھا؟”شہریار نے پوچھا۔
”سوال تھا عزت یا پیسہ؟ یا عزت والا پیسہ؟”کنول نے کہا۔
” عزت والا پیسہ اس معاشرے میں عورت کے لیے نہیں ہوتا۔ ویسے تم کیا کرنا چاہتی ہو؟” شہریار نے کہا۔
”میں کچھ پیسہ کماناچاہتی ہوں، ایک موقع مل رہا ہے۔” کنول نے ٹھہر ٹھہر کر گول مول جواب دیا۔ وہ شہریار پر اعتبار نہیں کر سکتی تھی۔
”ہاں تو پھر کیا مسئلہ ہے؟تم کرلو اپنے ضابطے کے مطابق۔”شہریار نے بڑے سیدھے اور سپاٹ انداز میں جواب دیا۔
”لیکن ہمت نہیں پیدا ہورہی۔”کنول نے زچ ہوتے ہوئے سر ہلایا۔
”اس کا مطلب ہے کوئی کام غلط ہے۔”شہریار نے کچھ سوچتے ہوئے پوچھا۔
”پتا نہیں صحیح اور غلط کام کیا ہوتا ہے۔”کنول نے کندھے اچکاتے ہوئے بے پروائی سے جواب دیا۔
”صحیح کام میں صرف جوتے پڑتے ہیں اور…” شہریار کی بات پوری نہیں ہوئی تھی کہ کنول نے ہنستے ہوئے اس کی بات اچک لی۔”اور غلط کام میں انسان جوتے کھاتا ہے لیکن بعض اوقات جوتے مار بھی دیتا ہے۔”
”بہت دل چسپ باتیں کرتی ہو۔”شہریار زور سے ہنسا۔
”ہاں مجھے ہمیشہ سے پتا ہے کہ میں دل چسپ باتیں کرتی ہوں۔”کنول نے مان سے کہا۔
” چلو اب تم مجھے بتاؤ کہ اتنی رات کو تم یہاں کیوں بیٹھے ہو۔”
”میں کچھ غم بھلا رہا ہوں۔”شہریار نے جواب دیا۔
”کیسے غم؟”کنول نے تجسس سے پوچھا۔
” آج کے دن میری بیوی اور بچے کی deathہوئی تھی۔”شہریار کے لہجے میں بہت دکھ تھا۔
بچے کا ذکر سن کر کنول یک د م بے چین ہو گئی اور اسے اپنا بچہ یاد آنے لگا۔بچے کی یاد اور اُسے اپنے پاس لانے کے فیصلے نے اُسے فیصلہ کرنے میں آسانی کر دی اور اتنی دیر سے دماغ میں ہوتی کش مکش کو بھی ختم کردیا۔اس نے فوراً شہریار کا شکریہ ادا کیا۔
”شکریہ شہریار۔”کنول نے کہا۔




Loading

Read Previous

باغی —– قسط نمبر ۵ —- شاذیہ خان

Read Next

جمی بیچارہ

Leave a Reply

آپ کا ای میل ایڈریس شائع نہیں کیا جائے گا۔ ضروری خانوں کو * سے نشان زد کیا گیا ہے

error: Content is protected !!