ایمان، امید اور محبت — قسط نمبر ۲ (آخری قسط)

”کیسی لڑکی ہے؟”
”بہت اچھی ہے۔” وہ جھینپتے ہوئے بولا۔
”اس کی فیملی کیسی ہے؟”
”اس کے فادر وکیل ہیں۔ ماں سوشل ورکر ہیں۔ ایک چھوٹا بھائی ہے، وہ بھی ہمارے ہی اسکول میں ہے۔” ڈینیل نے ماں کو تفصیلات بتائیں۔
”تمہاری دوستی کیسے ہوئی؟” سبل نے سرسری انداز میں پوچھا۔
ڈینیل نے ماں کو ساری تفصیلات بتا دیں۔ وہ خاموشی سے کچھ سوچتی رہی۔
”مجھ سے ملواؤ اسے۔ میں دیکھنا چاہتی ہوں۔” اسے اسکول کے گیٹ پر ڈراپ کرتے ہوئے سبل نے کہا۔
”کیا میں اسے گھر آنے کی دعوت دوں؟”
”ہاں، یہ ٹھیک ہے۔ تم اسے چائے کی دعوت دو۔”
اس دن ڈینیل نے کیرولین کو اپنے گھر آنے کی دعوت دی۔ اس نے بغیر کسی اعتراض کے اس کی دعوت قبول کر لی۔
وہ اگلی شام کو ڈینیل کے گھر آئی اور دروازہ کھولتے ہی ڈینیل کا چہرہ سرخ ہو گیا تھا۔ وہ ایک ٹاپ لیس ڈریس پہنے ہوئے تھی۔ ڈینیل کی سمجھ میں نہیں آیا کہ وہ اس سے کس طرح پیش آئے۔ کیرولین نے ہیلو کہتے ہی بڑی بے تکلفی کے ساتھ اس سے گلے ملتے ہوئے اس کے ایک گال کو چوم لیا۔ ڈینیل کچھ اور بوکھلا گیا تھا۔ اسے اندر لے جاتے ہوئے وہ اسے گھر آنے کی دعوت دینے پر پچھتا رہا تھا۔ سبل نے پہلی ہی نظر میں اس لڑکی کو ناپسند کیا تھا مگر اس نے اپنے چہرے سے یہ ناپسندیدگی ظاہر نہیں کی۔ اسے حیرانی ہوئی تھی کہ ڈینیل کو اس میں کیا بات اچھی لگی جو وہ اس کی طرف متوجہ ہو گیا۔
کیرولین کو چائے سرو کرتے ہوئے سبل اس سے کرید کرید کر سوال پوچھتی رہی جبکہ ڈینیل بالکل بجھا ہوا تھا۔ چائے پینے کے بعد کچھ دیر بیٹھ کر کیرولین واپس چلی گئی۔ ڈینیل دروازہ بند کر کے اندر آیا تو وہ بہت شرمندہ نظر آ رہا تھا۔ سبل خاموشی سے برتن سمیٹ رہی تھی۔ وہ ٹی وی آن کر کے بیٹھ گیا۔ کچھ دیر کے بعد سبل بھی اس کے پاس آ کر بیٹھ گئی۔
”تمہیں اس میں کیا چیز اچھی لگی ڈینیل؟” اس نے گفتگو کا آغاز کیا۔
”وہ فرینڈلی تھی مگر میں نہیں جانتا تھا، وہ اتنی بولڈ ہے۔” سبل کچھ دیر خاموشی سے اسے دیکھتی رہی پھر وہاں سے اٹھ گئی۔
اگلے دن ڈینیل اسکول میں پہلے کی طرح ریزرو تھا۔ کیرولین اس کے اس رویے پر حیران تھی اور وہ بار بار اس سے اس کی وجہ پوچھتی رہی مگر وہ خاموشی سے اس کے سوالوں کو نظر انداز کرتا رہا۔ اگلے چند دن اس کی ناراضی برقرار رہی تھی۔ مگر پھر آہستہ آہستہ کیرولین کے ساتھ اس کے تعلقات بحال ہو گئے تھے۔ دونوں میں ایک بار پھر پہلے جیسی بے تکلفی ہو گئی۔
*…*…*





ان ہی دنوں ایک شام کیرولین نے اسے نائٹ کلب میں آنے کی دعوت دی۔ اس نے کچھ تامل کیا مگر کیرولین کی ضد پر وہ رضا مند ہو گیا۔
”مجھے اپنی مدرسے اجازت لینا ہو گی۔” اس نے کیرولین سے کہا۔
”ٹھیک ہے تم اپنی مدر کو بتا دو، میں شام کو تمہارا انتظارکروں گی۔” کیرولین نے سر ہلاتے ہوئے کہا۔
اس دن اسکول سے واپس آتے ہوئے ڈینیل نے سبل کو کیرولین کی دعوت کے بارے میں بتایا۔ وہ کچھ کہے بغیر خاموشی سے اس کا چہرہ دیکھتی رہی۔
”تم ڈیٹ پرجانا چاہتے ہو؟” اس نے چند لمحوں کے توقف کے بعد کہا۔ وہ کچھ جھینپ گیا۔
سبل گاڑی ڈرائیو کرتے ہوئے گھر کی طرف جانے کے بجائے ایک قریبی پارک میں آ گئی۔ ڈینیل حیران ہوا تھا۔
”ہمیں آج کچھ باتوں کا فیصلہ کرنا ہے ڈینیل… گھر کے بجائے یہاں ہم یہ کام بہتر طریقے سے کر سکیں گے۔” وہ اسے لے کر پارک کے قریب موجود ایک فاسٹ فوڈoutlet پر آ گئی۔ بر گر کھاتے ہوئے اس نے ڈینیل سے بات شروع کی۔
”میں جانتی ہوں’ اب تم بڑے ہو رہے ہو۔ شاید لڑکیوں سے دوستی بھی کرنا چاہتے ہو’ ان کے ساتھ ڈیٹ پر جانا چاہتے ہو۔ یہ بڑی فطری سی بات ہے مگر ڈینی! کیا تم نہیں سمجھتے کہ ڈیٹس پر جانے کے لیے ابھی تم بہت چھوٹے ہو۔ ابھی تم سولہ سال کے نہیں ہوئے۔ اتنی جلدی کسی لڑکی کے ساتھ ذہنی یا جسمانی طورپر انوالو ہونا تمہارے لیے ٹھیک نہیں ہے۔ تم سمجھ رہے ہو نا میں کیا کہہ رہی ہوں؟”
وہ سبل کا چہرہ دیکھتا رہا۔
”آج کیرولین تمہیں نائٹ کلب میں انوائٹ کر رہی ہے کل کہیں اور کسی کام کے لیے انوائٹ کرے گی۔ تم انکار کیسے کرو گے؟” وہ اب کافی کے سپ لے رہی تھی۔
”ابھی تم نے زندگی کا سفر شروع نہیں کیا۔ ابھی تو صرف پہلا قدم اٹھانے کی کوشش کر رہے ہو۔ پہلا قدم ہموار زمین پر رکھنا چاہیے پتھریلی یا غیر ہموار زمین پر نہیں۔ میں یہ نہیں کہتی کہ تم لڑکیوں سے دوستی مت کرو۔ تم لڑکیوں سے دوستی کرو مگر اپنے لیے کچھ حدود کا تعین کر لو کہ عمر کے کس حصے تک تمہیں کس لڑکی سے کیسے تعلقات رکھنے ہیں اور جب تم بڑے ہو جاؤ اپنا کیریئر اسٹیبلش کر لو تو ٹھیک ہے پھر تم اس معاملے میں بھی اپنے لیے فیصلہ کر سکتے ہو۔ مگر ابھی نہیں۔”
وہ بے حد سنجیدگی سے ماں کی بات سن رہا تھا۔
”کیرولین جیسی بہت سی لڑکیاں تمہاری طرف بڑھیں گی۔ کیا تم ہر ایک کے ساتھ اسی طرح ڈیٹ پر جایا کرو گے۔ تمہیں یاد ہے نا۔ یہاں آ کر تم نے اسی چیز کے بارے میں سب سے پہلے شکایت کی تھی۔” سبل نے اسے کچھ یاد دلاتے ہوئے کہا۔ ”تمہاری انفرادیت یہ ہے ڈینیل کہ تم ان سر گرمیوں میں انوالو نہیں ہوئے’ اسی لیے تم سب کو مختلف اور منفرد لگتے ہو۔ لڑکیوں کو بھی اسی وجہ سے تم میں کشش محسوس ہوتی ہے اور جب تم بھی ان ہی سر گرمیوں کو اپنا لو گے تو تمہاری کشش ختم ہو جائے گی پھر تم بھی ہجوم کا حصہ بن جاؤ گے۔ تمہارے اسکول میں بہت سے ڈینیل ہوں گے تم بھی انہی میں سے ایک بن جاؤ گے۔ مجھے تمہیں بس اتنا ہی سمجھانا تھا۔ اگر پھر بھی تم کیرولین کے ساتھ ڈیٹ پر جانا چاہتے ہو تو ٹھیک ہے مجھے کوئی اعتراض نہیں۔” سبل نے بات ختم کر دی تھی۔
”آپ کو میرا اس طرح جانا پسند نہیں ہے؟” ڈینیل نے ساری بات سن کر بڑے پر سکون انداز میں سر اٹھا کر پوچھا۔
”نہیں’ مجھے اس عمر میں تمہارا اس طرح لڑکیوں کے ساتھ جانا پسند نہیں ہے۔” سبل نے صاف گوئی سے کہا۔
”تو ٹھیک ہے میں نہیں جاؤں گا اور یہ میں اس لیے نہیں کروں گا کہ میری انفرادیت یا کشش ختم ہو جائے گی یہ میں صرف اس لیے کروں گا کیونکہ آپ اس بات کو پسند نہیں کرتیں اور میں آپ کی خواہشات کا احترام کرنا چاہتا ہوں۔ بالکل ویسے ہی جیسے ہمیشہ سے کرتا آ رہا ہوں۔” اس نے سنجیدگی سے جیسے بات ختم کر دی۔
سبل کی آنکھوں میں ایک چمک نمو دار ہوئی تھی۔ اسے بے اختیار ڈینیل پر فخر ہوا۔
اس شام اس نے کیرو لین کو فون پر انکار کرتے ہوئے بتا دیا تھا کہ وہ آئندہ بھی اس کے ساتھ کہیں نہیں جا سکتا۔ وہ بگڑ گئی تھی اور اس نے فون پٹخ دیا۔
اگلے دن اسکول میں بھی کیرولین کا موڈ بے حد خراب تھا۔ ڈینیل نے اس سے معذرت کی مگر وہ بے حد غصے میں تھی۔
”میں تمہارے ساتھ یہاں مل سکتا ہوں مگر باہر کہیں نہیں جا سکتا نہ نائٹ کلب نہ سنیما نہ ہی کہیں اور ۔” اس نے صاف صاف کہا تھا۔
”مگر کیوں؟”
”مجھے یہ پسند نہیں ہے۔”
وہ شعلہ بار نظروں سے اسے دیکھتی رہی اور پھر پاؤں پٹختی ہوئی وہاں سے چلی گئی۔
دوسرے دن ڈینیل نے اسے اپنے ایک دوسرے کلاس فیلو کے ساتھ پھرتے دیکھا تھا۔ اسے شاک لگا تھا۔ اس نے اتنی جلدی اور اتنی آسانی سے اس کا متبادل تلاش کر لیا تھا۔ اس کا ڈپریشن چند دنوں کے بعد اس وقت کچھ اور بڑھ گیا تھا جب اسکول کے گراؤنڈ میں اس نے ان دونوں کو ایک دوسرے کے ساتھ ضرورت سے زیادہ بے تکلفی کا مظاہرہ کرتے ہوئے دیکھا۔ اس کے لیے یہ سین نئے نہیں تھے۔ وہ اسکول میں ایسے سین دیکھنے کا عادی تھا مگر اس بار اس کے لیے تکلیف دہ بات یہ تھی کہ جس لڑکی کے لیے اس کے دل میں کچھ پسندیدگی کے جذبات پیدا ہو گئے تھے وہ بھی اسی سین کے ایک کر دار کے روپ میں تھی۔ اس ہلکی سی ٹھوکر نے اسے کچھ اور محتاط کر دیا تھا۔
اگلے کچھ سالوں میں اس کی کچھ لڑکیوں سے دوستی ہوئی مگر یہ دوستی بھی اسی طرح ختم ہوئی اس کے ذہن پر ماں کے خیالات و نظریات کی چھاپ بہت گہری ہوتی گئی۔
*…*…*
جس سال اس نے ہارورڈ میں ایڈمیشن لیا تھا اس سال اس کے مذہب کا معاملہ ایک بار پھر ڈسکس کیا گیا۔
”اب تم اتنے بڑے ہو چکے ہو ڈینیل کہ اپنے لیے ایک با قاعدہ مذہب کا انتخاب کر سکو۔ تمہیں اب کسی ایک مذہب کے بارے میں فیصلہ کر لینا چاہیے۔”
اس شام سبل نے پیٹرک کے سامنے اس سے کہا تھا۔
”ہاں میں جانتا ہوں ممی! لیکن میرے لیے ابھی بھی کچھ طے کرنا مشکل ہے۔ میں اسٹڈیز میں اتنا مصروف ہو چکا ہوں کہ اب تو بہت عرصے سے عبادت کے لیے آپ میں سے کسی کے ساتھ بھی نہیں جا سکا۔ ابھی مجھے کچھ وقت دیں تا کہ میں غور کر سکوں کہ مجھے اپنے لیے کس مذہب کا انتخاب کرنا ہے۔” ڈینیل نے کافی پیتے ہوئے کہا۔
”تم اب اس قابل ہو چکے ہو کہ اس بارے میں کوئی فیصلہ کر سکو۔ آخر اور وقت کیوں چاہتے ہو؟” سبل نے اعتراض کیا۔
”میں ابھی بھی کنفیوژن کا شکار ہوں اور کوئی فیصلہ بھی کنفیوژن کی حالت میں نہیں کرنا چاہتا۔” اس نے وضاحت کرتے ہوئے کہا۔
”میں چاہتا ہوں میں تعلیم مکمل کر لوں اگر تعلیم مکمل کرنے کے دوران میں اپنے معاملے میں کسی فیصلے پر پہنچ گیا تو میں آپ کو بتا دوں گا ورنہ تعلیم مکمل کرنے کے بعد یقینا اس بارے میں کچھ نہ کچھ ضرور طے کر لوں گا۔” اس نے سبل اور پیٹرک کو یقین دلایا تھا۔ یہ معاملہ ایک بار پھر ملتوی ہو گیا۔
*…*…*
ہارورڈ میں ایم بی اے کرنے کے دوران اس کے ساتھ کچھ ایشیائی لڑکیاں بھی زیرِ تعلیم تھیں جن میں کچھ مسلمان بھی تھیں۔ لا شعوری طور پر اسے ان لڑکیوں میں بہت کشش محسوس ہوتی تھی۔ شاید اس کی وجہ یہ تھی کہ جس ماحول میں اس نے اپنا سارا بچپن گزارا تھا اس ماحول کے اپنی شخصیت پر اثرات ہونے کی وجہ سے وہ ذہنی طور پر خود کو ان لڑکیوں سے زیادہ قریب محسوس کرتا تھا۔
ہارورڈ میں ہی پہلی بار اس نے باقاعدہ طور پر اپنے لیے ایک پارٹنر کی تلاش شروع کی تھی۔ یہی تلاش اسے کیتھی کے پاس لے گئی تھی۔ دونوں کے درمیان بہت جلد اچھی دوستی ہو گئی پھر یہ دوستی آہستہ آہستہ رومانس میں تبدیل ہونے لگی تھی جب ایک چھوٹے سے واقعے نے اس کی زندگی میں ہلچل مچا دی تھی۔
وہ ایک رات کیتھی کے ساتھ فلم دیکھنے گیا تھا۔ وہ ٹکٹ ونڈو سے اپنے اور کیتھی کے لیے ٹکٹ لے رہا تھا۔ کیتھی پیچھے ہی کھڑی رہی تھی۔ اسے ٹکٹ لینے میں چند منٹ لگے۔ جب ٹکٹ لینے کے بعد وہ پیچھے مڑا تو اسے کیتھی نظر نہیں آئی۔ وہ متلاشی نظروں سے اسے دیکھنے لگا۔ ٹکٹ لینے کے لیے وہاں موجود قطار سے کچھ فاصلے پر کیتھی ایک شخص کے گلے میں بانہیں ڈالے بڑی بے تکلفی سے مصروف گفتگو تھی۔ وہ شخص بھی اس کی کمر کے گرد بازو پھیلائے ہوئے تھے۔ ڈینیل کچھ لمحے اپنی جگہ سے ہل نہیں سکا۔ کیتھی کچھ منٹ اس شخص کے ساتھ مصروفِ گفتگو رہی پھر ان دونوں نے بڑی بے تکلفی سے ایک دوسرے کو چوما اور کیتھی واپس اس کی طرف آ گئی۔ ڈینیل کو دیکھ کر اس کے ہونٹوں پر ایک مسکراہٹ نمو دار ہوئی مگر ڈینیل سرد نظروں سے اسے دیکھتا رہا۔ وہ اس کے پاس آ گئی۔
”یہ شخص کون تھا؟” اس نے چھوٹتے ہی اس سے پوچھا۔
”اوہ رچرڈ ! یہ میرا بوائے فرینڈ تھا۔”
ڈینیل کو اپنا خون گرم ہوتا ہوا محسوس ہوا۔”تم نے مجھے کبھی یہ نہیں بتایا کہ تمہارا کوئی بوائے فرینڈ تھا۔”
”تم نے کبھی پوچھا ہی نہیں۔” کیتھی نے بڑے اطمینان سے جواب دیا۔ ”آؤ اندر چلیں۔” اس نے قدم بڑھایا۔
ڈینیل وہیں کھڑا رہا۔ ”نہیں ہم فلم دیکھنے نہیں جائیں گے۔ ہم باہر چل کر کچھ باتیں کریں گے۔” سرد آواز میں کہتے ہوئے اس نے باہر کی طرف قدم بڑھا دیے۔
”تمہیں یکدم کیا ہو گیا ڈینیل؟” وہ کچھ حیران ہوتی ہوئی اس کے پیچھے آئی۔
”تم نے مجھے اس شخص کے بارے میں کیوں نہیں بتایا؟” اس نے باہر آتے ہی تیز آواز میں اس سے کہا۔
”میں نے ضرورت محسو س نہیں کی اور پھر اس سے کیا فرق پڑتا ہے۔ ویسے بھی اب وہ میرا بوائے فرینڈ نہیں ہے۔”
”مگر وہ تمہارا بوائے فرینڈ تھا۔” وہ چلایا۔
”چلانے کی ضرورت نہیں ہے۔”کیتھی کالہجہ یکدم سرد ہو گیا۔ ”کون میرا بوائے فرینڈ تھا اور کون نہیں اس سے تمہیں کوئی دلچسپی نہیں ہونی چاہیے۔ بالکل اسی طرح جس طرح مجھے تمہاری سابقہ گرل فرینڈز سے کوئی دلچسپی نہیں رہی۔”
”میری کبھی کوئی گرل فرینڈ نہیں رہی۔”
کیتھی نے اس کی بات پر ایک طنزیہ قہقہہ لگایا۔ ”واقعی!… گو تم بدھ رہے ہو تم؟” وہ خون کے گھونٹ پی کر رہ گیا۔
”میں تمہارے بارے میں بات کر رہا ہوں۔”
”میرے بہت سے بوائے فرینڈز رہے ہیں۔ میں تمہیں کس کس کا بتاؤں اور کیوں بتاؤں؟ یہ میرا ذاتی معاملہ ہے۔ تم اپنے کام سے کام رکھو۔”
وہ اسے کچھ لمحے دیکھتا رہا پھر اس نے ہاتھ میں پکڑے ہوئے دونوں ٹکٹ اس کے منہ پر مارے۔ ”پھر میرے ساتھ فلم دیکھنے کے بجائے اسی شخص کو ساتھ لے جاؤ۔”
وہ مڑنے لگا تو کیتھی نے ایک جھٹکے سے اس کا بازو اپنی طرف کھینچا۔ ”تم ایک چھوٹے ذہن کے گھٹیا آدمی ہو۔”
”اپنا منہ بند رکھو۔” وہ غرایا۔
”میں اپنا منہ بند نہیں رکھوں گی۔ تمہیں ہر بات پر اعتراض ہے۔ میرے کپڑوں پر’ میری باتوں پر’ میرے بوائے فرینڈز پر۔”
”میں ایسی کسی لڑکی سے شادی نہیں کر سکتا جس کے بوائے فرینڈز ہوں۔”
”تو پھر تم یہاں کیوں کھڑے ہو۔ جاؤ میرے بجائے کسی جاہل پردے میں چھپی ہوئی کسی مسلم عورت سے شادی کرو جو ساری عمر تمہاری انگلی پکڑ کر چلے اور تمہارے علاوہ کسی دوسرے مرد کا منہ دیکھنے کی جرأت نہ کرے۔”
اس کا لہجہ بے حد زہریلا تھا۔ ڈینیل کو خود پر قابو پانا مشکل ہو رہا تھا۔ وہ ایسا بندہ نہیں تھا جو چھوٹی چھوٹی باتوں پر بھڑک اٹھے مگر اس وقت وہ خود بھی اپنے جذبات کو نہیں سمجھ پا رہا تھا۔ اس نے کیتھی سے کچھ کہنے کے بجائے ایک جھٹکے سے اپنا بازو چھڑایا اور تیزی کے ساتھ پارکنگ کی طرف بڑھ گیا۔ اپنے پیچھے اس نے کیتھی کو چلاتے ہوئے کچھ گالیاں بکتے سنا تھا۔ وہ اس پر توجہ دینے کے بجائے کھولتا ہوا اپنی گاڑی کی طرف بڑھ گیا۔
اگلے کئی ہفتے کیتھی کے جملے اس کے ذہن میں گونجتے رہے تھے۔ ایک بار پھر وہ وہیں پہنچ گیا تھا جہاں سے چلا تھا۔ دوبارہ اس نے کسی مغربی لڑکی سے تعلقات بڑھانے کی کوشش نہیں کی۔ ایم بی اے کے آخری سال میں وہ دانستہ طور پر ایک انڈین لڑکی کی طرف متوجہ ہو گیا تھا۔
*…*…*




Loading

Read Previous

ایمان، امید اور محبت — قسط نمبر ۱

Read Next

حسنہ اور حسن آرا — عمیرہ احمد

Leave a Reply

آپ کا ای میل ایڈریس شائع نہیں کیا جائے گا۔ ضروری خانوں کو * سے نشان زد کیا گیا ہے

error: Content is protected !!