ایمان، امید اور محبت — قسط نمبر ۲ (آخری قسط)

”میرے پاس یہ ثابت کرنے کے لیے کوئی ثبوت نہیں ہے۔” اس نے بے چارگی سے کہا۔
کمرے میں ایک طویل خاموشی چھائی رہی۔
”آپ میرے بارے میں کچھ بھی نہیں جانتے۔”
”آپ بتا دیں۔”
وہ اس کا چہرہ دیکھتی رہی ”بہت کم عمری میں میری منگنی ہو گئی تھی’ مجھے اپنے منگیتر سے بہت محبت تھی۔ ہماری منگنی نو سال رہی پھر … پھرمیرے منگیتر نے مجھ سے شادی سے انکار کر دیا۔” اس کے گلے میں کوئی چیز پھنس گئی تھی۔ ایمان نے بہت غور سے اس کاچہرہ دیکھا۔
”کیوں؟”…
”کیونکہ میں …” وہ کچھ کہتے کہتے رک گئی ”یہ بتاناضروری نہیں’ آپ کچھ بھی سمجھ لیں … کچھ بھی سوچ لیں مگر بہرحال اس نے مجھ سے شادی نہیں کی۔”
”ٹھیک ہے’ میں یہ سمجھ لیتا ہوں کہ آپ کی شادی مجھ سے ہونی تھی۔ اس لیے آپ کے منگیتر سے نہیں ہو سکی۔”
اس نے امید کے چہرے پر جھنجھلاہٹ دیکھی تھی۔ کمرے میں ایک بار پھر طویل خاموشی چھا گئی تھی اور اس خاموشی کو اس بارڈاکٹر خورشید نے توڑا تھا۔ وہ کمرے میں آگئے تھے۔
”تو پھر کیا طے کیا تم لوگوں نے ؟” انہوں نے بہت نارمل انداز میں اس طرح کہا جیسے وہ دونوں اسی مقصد کے لیے یہاں اکھٹے کیے گئے ہوں۔ امید نے کچھ نہیں کہا تھا۔ ایمان بھی خاموش رہا۔
”امید! آپ نے ایمان علی سے بات کر لی ؟” انہوں نے نرم آواز میں اس سے پوچھا۔
”ہاں … میری کچھ شرائط ہیں۔” ایمان نے سر اٹھا کر اسے دیکھا وہ بے حد الجھی ہوئی نظر آ رہی تھی۔
”کیا ایمان علی کو شرائط قبول ہیں؟” اس بار ڈاکٹر خورشید نے ایمان کودیکھا تھا۔
”میں نے ابھی انہیں اپنی شرائط سے آگاہ نہیں کیا۔”
”مگر میں بغیر جانے ہی ان کی ساری شرائط ماننے پر تیار ہوں۔” ایمان نے کہا تھا۔
”آپ پہلے شرائط سن لیں’ اس کے بعد کوئی فیصلہ کریں۔” امید کالہجہ ترش تھا۔
”یہ اسلام قبول کرچکے ہیں تو ایک سال تک یہ اسلام کے بارے میں سب کچھ جانیں اور اسلامی تعلیمات پر عمل کریں۔ ایک سال تک اگر یہ مسلمان رہے اور ایک اچھے مسلمان کی طرح سارے فرائض پورے کرتے رہے توپھر مجھے شادی پرکوئی اعتراض نہیں ہو گا۔ دوسری شرط یہ ہے کہ ایک سال کے دوران یہ مجھ سے کوئی رابطہ نہ رکھیں۔” وہ سر اٹھا کر ایمان کو دیکھ رہی تھی۔
”تو ایمان! آپ ان شرائط کے بارے میں کیا کہتے ہیں؟” ڈاکٹر خورشید نے اس سے پوچھا۔ ”میں پہلے ہی کہہ چکا ہوں مجھے کوئی اعتراض نہیں ہے ساری شرائط قبول ہیں۔”وہ بے حد پر سکون نظر آرہا تھا۔
”مگر کیا میں یہ سمجھ لوں کہ ان شرائط کو پورا کرنے کے بعد آپ مجھ سے شادی کر لیں گی؟” اس بار اس نے امید سے پوچھا۔
”ہاں۔”وہ اس کی طرف دیکھے بغیر اٹھ کرکھڑی ہو گئی۔
ڈاکٹر خورشید اسے باہر تک چھوڑنے گئے۔ ایمان کو یقین نہیں آیا تھاکہ وہی اس کے پاس آئی تھی۔ اسے اندازہ نہیں ہو سکا کہ وہ کس حد تک خوش تھا مگر وہ یہ ضرور جانتا تھا کہ اس کاملال اور افسردگی ختم ہو چکی تھی۔
”یہ تو صرف ایک سال کی بات ہے’ میں تمہارے لیے ساری زندگی انتظار کر سکتا ہوں۔”
اس کے جانے کے بعد اس نے مسکراتے ہوئے زیر لب کہا تھا۔
ڈاکٹر خورشید واپس کمرے میں آگئے’ ان کے چہرے پر بہت ہی معنی خیز مسکراہٹ تھی۔
”تو ایمان علی! کیا ایک سال انتظار کر پائیں گے۔؟”
”ہاں کر لوں گا۔” اس کی آواز بے حد مستحکم تھی۔
”وہ چاہتی ہے کہ آپ میں دین کے لیے استقامت اور ثابت قدمی پیدا ہو جائے۔”
انہوں نے بیٹھتے ہوئے جیسے وضاحت کی۔
”نہیں … ” ایمان نے مسکراتے ہوئے کہا۔ ”وہ چاہتی ہے ‘ میں اسے بھول جاؤں۔ اس کا خیال ہے ایک سال میں اس سے رابطہ رکھوں گا’ نہ اسے دیکھوں گا تو پھر اس کے بارے میں سوچنا بھی ختم کردوں گا مگر اسے میری محبت کا اندازہ نہیں ہے۔”
وہ کہتے ہوئے اٹھ کر کھڑا ہوگیا۔ ڈاکٹر خورشید اسے گہری نظروں سے دیکھتے رہے۔
*…*…*





ایک سال کیسے گزرا تھا’ اسے اندازہ نہیں ہوا مگر ایک سال کے دوران اس نے ڈاکٹر خورشید کی بتائی ہوئی ہر بات پر عمل کیا’ کبھی کبھار پارٹیز میں پینے والی شراب اس نے چھوڑ دی’ اپنی سیکرٹیری کے ساتھ میل جول ختم کر دیا۔ وہ ہر رات ڈاکٹر خورشید کے پاس آتا اور انہیں اپنے پورے دن کی روداد سناتا’ زندگی میں چھوٹے موٹے مسائل کو وہ کبھی خاطر میں نہیں لایا تھا مگر اب ان ہی مسائل کو وہ نئے سرے سے دیکھنے لگا تھا۔ اسکے اندر پہلے سے زیادہ برداشت آگئی تھی۔ اس کی اخلاقی اقدار میں بہت سی تبدیلیاں آ گئی تھیں۔ اسے آہستہ آہستہ احساس ہونے لگا تھا کہ وہ نادانستہ طور پردنیا کی سب سے بڑی نعمت کو پا بیٹھا تھا۔ مسلمان ہونا اور ایمان حاصل کرنا ہرانسان کے مقدر میں نہیں ہوتا اسے اس عورت پر اور پیار آتا جس کے حصول کی خواہش نے اسے مسلمان ہونے پر مجبور کیا تھا اور مسلمان بننے کے بعد وہ جیسے مقام پر پہنچ گیا تھا۔
اپنے والدین کو اس نے مذہب کی تبدیلی کے بارے میں نہیں بتایا تھا۔ مگر انہیں اس نے یہ ضرور بتا دیا تھا کہ وہ کچھ عرصے کے بعد پاکستان میں ہی ایک مسلمان لڑکی سے شادی کرنے والا ہے۔
”مسلمان لڑکی سے شادی ؟ کیا تم مسلمان ہو جاؤ گے؟” اس کے باپ کو جیسے یک دم ایک خوف نے ستایا تھا۔
”نہیں’ میں ایسے ہی رہوں گا جیسے اب ہوں اوروہ اپنے مذہب پرقائم رہے گی۔ اس معاملے میں ہم نے سمجھوتا کرلیا ہے۔”
اس نے ماں باپ کومطمئن کرنے کے لیے جھوٹ بول دیا۔ ان دونوں کے ذہن میں اس لڑکی کے حوالے سے کچھ خدشات ابھرے’ مگر ایمان نے انہیں اس بارے میں بھی تسلیاں اور دلاسے دے کرمطمئن کر دیا۔
جس شام وہ ڈاکٹر خورشید کے گھر اس سے ملنے آئی تھی’ اس تاریخ سے پورے ایک سال بعد اس نے ایک کارڈ راولپنڈی امید کے گھر بھجوا دیا تھا۔ اسی شام ڈاکٹر خورشید نے امید کے بھائی سے بات کی تھی۔
دو دن کے بعد وہ لاہور آئی تھی’ ایک بار پھر ڈاکٹر خورشید کے گھر دونوں کی ملاقات ہوئی تھی۔ پورے ایک سال کے بعد بھی اسے دیکھنے کے بعد اسے یوں لگا تھا جیسے ایمان نے اسے کل ہی دیکھا ہو’ وہ اس کے ذہن’ اس کے تصور سے کبھی بھی نہیں ہٹی تھی۔
”ایک سال گزر گیا۔ میں اب بھی مسلمان ہوں۔ ثابت ہوا کہ میرا ایمان کوئی فریب نہیں اور میری نیت میں کوئی کھوٹ نہیں۔ ایک سال کے دوران میں نے وہ سب کچھ کیا ہے جو ایک مسلمان کرتا ہے’ نماز بھی پڑھی ہے’ روزے بھی رکھے ہیں’ کوئی حرام چیز نہیں کھائی’ شراب بھی نہیں پی’ اپنی گرل فرینڈ کو بھی چھوڑ چکا ہوں’ قرآن پاک بھی پڑھ چکا ہوں دین کے بارے میں آپ مجھے کسی بات سے بے خبر نہیں پائیں گی۔ میں نے اپنا وعدہ پورا کیا اب آپ اپنا وعدہ پورا کریں۔” اس نے امید سے کہا۔
تین دن کے بعد راولپنڈی میں ایک سادہ سی تقریب میں ان کا نکاح ہو گیا تھا۔ ایمان علی کی طرف سے شادی میں صرف سعودارتضیٰ اور ڈاکٹر خورشید نے گواہوں کی حیثیت سے شرکت کی تھی۔ امید کی طرف سے بھی شادی میں صرف اس کے اپنے گھر کے لوگ تھے۔
وہ آج بھی اندازہ نہیں لگا سکتا تھا کہ اس دن وہ کتنا خوش تھا’ شادی کی رات اس نے امید کو بتایاتھا کہ کہ کس طرح پہلی بار اسے دیکھ کراس کی محبت میں گرفتار ہو گیا تھا’ کس طرح وہ اس کے لیے کئی ماہ تک وہاں جاتارہا تھا۔ اس نے اسے وہ سارے اسیکچیز بھی دکھائے جو وہ اس پورے عرصہ میں بناتا رہا تھا۔ وہ جواباً کچھ کہے بغیر خاموشی سے اس کے چہرے کو دیکھتی رہی تھی اور پھر ایمان نے اس کی آنکھوں میں آنسو ابھرتے دیکھے پھر اس نے نظریں جھکالی تھیں۔ اس کے بار بار پوچھنے کے باوجود اس نے آنسوؤں کی وجہ نہیں بتائی تھی’ وہ دلبرداشتہ ہو گیا تھا۔
”کیا تم مجھ سے شادی کرکے بہت ناخوش ہو؟”
”مجھے نہیں پتا… بس مجھے تمہاری باتوں پر یقین نہیں آتا … مجھے سارے لفظ جھوٹ لگتے ہیں۔” ا س نے سر اٹھا کر بہتے آنسوؤں کے ساتھ کہا تھا اور وہ بہت دیر کچھ بولنے کے قابل نہیں رہا۔
*…*…*
ایک ہفتہ کے بعد وہ اسے اپنے والدین سے ملوانے جرمنی لے گیا تھا۔ جانے سے ایک دن پہلے اس نے امید کو بتایا تھا۔
”میرے والدین ابھی یہ نہیں جانتے کہ میں اسلام قبول کر چکا ہوں، میں انھیں کچھ عرصہ کے بعد بتا دوں گا مگر ابھی تم بھی ان پر یہ ظاہر مت کرنا۔”
اسے حیرت ہوئی تھی جب امید نے خلافِ توقع کسی ردعمل کا اظہار کیے بغیر سر ہلا دیا تھا۔ وہ پرُسکون ہو گیا۔ شادی کے اس پہلے ہفتے میں امید کا رویہ اتنا برا نہیں تھا جتنا وہ سوچ رہا تھا، وہ اس کا خیال رکھتی تھی اس کے ساتھ باتیں بھی کرتی تھی۔ اس کی باتوں پر ہنستی بھی تھی۔ مگر بعض دفعہ بات کرتے کرتے یک دم وہ جیسے کسی ٹرانس میں چلی جاتی تھی اور ایک بار اس کیفیت میں آنے کے بعد وہ بہت دیر خاموش رہتی تھی اس وقت کوئی چیز اس کی خاموشی توڑ نہیں پاتی تھی۔ مگر ایمان زیادہ فکرمند نہیں تھا۔
”وقت گزرنے کے ساتھ سب کچھ ٹھیک ہو جائے گا، وہ میری باتوں پر اعتماد بھی کرے گی اور مجھ سے محبت بھی۔” وہ ہمیشہ ایسے موقعوں پر سوچتا تھا۔
اور جرمنی آ کر اس کا یہ خیال پہلے سے بھی زیادہ پختہ ہو گیا تھا، وہاں دو ہفتوں کے قیام کے دوران وہ نہ صرف سبل اور پیٹرک کو مطمئن و مسرور کرنے میں کامیاب رہی تھی بلکہ ان دونوں کے درمیان بے تکلفی میں کچھ اور اضافہ بھی ہو گیا تھا۔ ایمان نے ان دو ہفتوں کے دوران اسے اپنی ساری زندگی کی داستان سنا دی تھی۔ ایمان کے والدین نے شادی کی ایک دعوت کا اہتمام کیا تھا جس میں ایمان نے اسے اپنے تمام فیملی ممبرز سے ملوایا تھا۔
واپس آنے سے صرف دو دن پہلے ایک چھوٹا سا واقعہ ہوا تھا اور وہ ایک بار پھر اپنے اسی خول میں بند ہو گئی، ایمان اسے اپنے ساتھ کچھ شاپنگ کروانے کے لیے مارکیٹ لے کر گیا۔ ایک شاپنگ مال کے اندر ایک شاپ میں وہ کچھ سوئیٹر دیکھنے میں مصروف تھی جبکہ وہ اپنے لیے کچھ سوئیٹرز خریدنے کے بعد کاؤنٹر پر کریڈٹ کارڈ کے ذریعے ادائیگی کر رہا تھا جب اس کی نظر دکان کے باہر سے گزرتے اپنے ایک کزن پر پڑی تھی، وہ بے اختیار دوکان سے باہر نکل گیا۔ اس کا کزن کافی آگے جا چکا تھا۔ بھیڑ میں اس تک پہنچنے میں اسے کچھ دیر لگی۔
چند منٹ وہ اس کے ساتھ باتوں میں مصروف رہا پھر اسے اپنی پاکستان واپسی کے بارے میں بتا کر وہ واپس اسی شاپ میں آ گیا تھا سامنے نظر دوڑانے پر اسے امید کہیں نظر نہیں آئی، وہ کاؤنٹر کی طرف آ گیا سوئیٹرز کے پیکٹ کاؤنٹر پر رکھتے ہوئے سیلز گرل نے اسے بتایا کہ امید اس کی تلاش میں چند منٹ پہلے وہاں سے چلی گئی تھی وہ یک دم پریشان ہو گیا، شاپ سے باہر آنے پر وہ اسے کہیں بھی نظر نہیں آئی تھی وہ چند منٹ وہیں کھڑا پریشان ہوتا رہا وہ واپس نہیں آئی تھی اور اس کی سمجھ میں نہیں آ رہا تھا کہ وہ وہیں کھڑا رہے یا اسے ڈھونڈنے کے لیے کہیں چلا جائے۔ پھر وہ پلٹ کر واپس اندر سیلز گرل کے پاس گیا اور اسے یہ ہدایت کر کے کہ اگر وہ واپس آئے تو اسے وہیں بٹھا لیا جائے وہ خود مال میں اسے ڈھونڈنے لگا تھا۔
وقت جتنی تیزی سے گزر رہا تھا اس کے اضطراب میں اتنا ہی اضافہ ہو رہا تھا، اب اسے پچھتاوا ہو رہا تھا کہ وہ اسے وہاں چھوڑ کر گیا ہی کیوں، اسے جرمن زبان آتی تھی نہ ہی وہ راستوں سے اچھی طرح واقف تھی کہ ٹیکسی لے کر واپس جا سکتی اور پتا نہیں اسے گھر کا ایڈریس بھی پتا ہوگا یا نہیں وہ کچھ اور پریشان ہوا…
تب ہی مال کے پبلک ایڈریس سسٹم پر ایک اعلان ہونے لگا تھا اور وہ تقریباً بھاگتا ہوا انتظامیہ کے آفس کی طرف گیا تھا۔ وہ وہاں پہنچ چکی تھی اور اب پبلک ایڈریس سسٹم پر اس کا نام پکارا جا رہا تھا۔ آفس میں داخل ہوتے ہی اس نے ایک کرسی پر بیٹھی ہوئی امید کو دیکھ لیا تھا اور اس کا ردِعمل اس کے لیے شاکنگ تھا وہ جتنی بے اختیاری سے اس کی طرف گیا تھا اس نے تقریباً اتنے ہی زور سے اسے دھکیل دیا تھا۔
”تم میرے پاس مت آؤ، میں تمہاری شکل بھی دیکھنا نہیں چاہتی۔ اس لیے یہاں لے کر آئے تھے تاکہ، تاکہ مجھے اس طرح چھوڑ کر بھاگ جاؤ۔” وہ یکدم چلانے لگی تھی۔ وہ اس کی باتوں پر ہکا بکا رہ گیا تھا۔
”میں جانتی تھی، تم مجھے اسی طرح چھوڑو گے۔ تم میرے لیے کبھی بھی مخلص نہیں ہو گے، تم مجھے دھوکا دو گے… میں نے تم سے شادی کر کے بہت بڑی غلطی کی۔” وہ بات کرتے کرتے پھوٹ پھوٹ کر رونے لگی۔ وہ ہونٹ کاٹتے ہوئے بے بسی سے اسے دیکھتا رہا۔ کمرے میں موجود انتظامیہ کے تینوں لوگ ان کے درمیان اردو زبان میں ہونے والی اس گفتگو کو سمجھنے کی کوشش کر رہے تھے۔ وہ ان کی نظروں میں تماشا نہیں بنناچاہتا تھا۔
”امید! آؤ باہر چل کر بات کرتے ہیں۔”
اس کے قریب جا کر اس نے مدھم آواز میں اسے بازو سے پکڑ کر کہا مگر اس نے ایک جھٹکے سے اپنا بازو چھڑایا اور اس پر غرانے لگی۔
”مجھے تمہارے ساتھ نہیں جانا۔ اب میں پاکستان جانا چاہتی ہوں۔” وہ ایک بار پھر کرسی پر بیٹھی رو رہی تھی۔
دو گھنٹے تک وہ وہاں اس کے پاس بیٹھا معذرتیں کرتا رہا تھا اور جب اس کی برداشت کی حد ختم ہو گئی تو وہ چلا اٹھا تھا۔
”میں تمہارا منگیتر نہیں ہوں کہ تمہیں چھوڑ جاؤں گا، میں تمہارا شوہر ہوں۔”
امید نے سر اٹھا کر اسے دیکھا اور پھر وہ کچھ کہے بغیر خاموشی سے اٹھ کھڑی ہوئی، شاپنگ مال سے باہر آتے ہوئے وہ تقریباً روہانسا ہو گیا تھا اس کے ساتھ چلتے ہوئے اس نے شاپ سے باہر جانے کی وجہ اسے بتائی مگر وہ کچھ نہیں بولی تھی۔
اور جرمنی میں ان کے آخری دو دن اسی طرح گزرے تھے۔ گھر آنے کے بعد بھی اس کی معذرتوں کے جواب میں وہ بالکل خاموش ہی رہی تھی اور ایمان علی کا پچھتاوا اور ندامت اور بڑھتی گئی۔
پاکستان آنے کے بعد وہ ایک ہفتہ کے لیے سیدھی راولپنڈی چلی گئی تھی جبکہ وہ لاہور آ گیا تھا اور لاہور آتے ہی وہ سیدھا ڈاکٹر خورشید کے پاس گیا۔
”بعض دفعہ ایسا ہو جاتا ہے، تم محبت اور مہربانی سے پیش آتے رہو گے تو وہ ٹھیک ہو جائے گی۔ مسلمان پر ویسے بھی فرض ہے کہ وہ بیوی سے نرمی سے پیش آئے۔” اس کی پریشانی جان کر انھوں نے اسے نصیحت کی۔
”تمہاری ہی خواہش تھی، تمہیں وہ عورت مل جائے جس سے تم محبت کرتے ہو، اب وہ عورت تمہارے پاس ہے تو تم اس کے ذرا سے غصے سے پریشان ہو رہے ہو۔”
وہ ان کی بات پر مسکرانے لگا۔




Loading

Read Previous

ایمان، امید اور محبت — قسط نمبر ۱

Read Next

حسنہ اور حسن آرا — عمیرہ احمد

Leave a Reply

آپ کا ای میل ایڈریس شائع نہیں کیا جائے گا۔ ضروری خانوں کو * سے نشان زد کیا گیا ہے

error: Content is protected !!