ایمان، امید اور محبت — قسط نمبر ۲ (آخری قسط)

اگلے دن دوپہر کو و ہ ایک بار پھر وہیں تھا۔ اس نے دانستہ کوشش کی تھی کہ کل پہلی بار نظر آنے والی لڑکی کو ہی اپنا آرڈر نوٹ کروائے۔ اسے حیرانی ہوئی تھی اس لڑکی کی آنکھیں آج بھی اسی طرح بھیگی ہوئی تھیں مگر وہ آج بھی مسکرا رہی تھی۔ ڈینیل نے اپنا لنچ لے کر کل والی ٹیبل پر بیٹھنے کے بعد جیب سے کاغذ اور پنسل نکال کر اس کی آنکھوں کی اسکیچنگ شروع کر دی تھی۔ وہ تقریباً پندرہ منٹ تک اس سرگرمی میں مصروف رہا اور پھر کچھ مطمئن ہو کر اس نے ہاتھ روک دیا۔ ایک بار پھراس لڑکی پر نظریں جمائے ہوئے اس نے اپنا لنچ کیا تھا اور پھر اٹھ کر چلا گیا۔
پھر جیسے یہ ایک روٹین بن گئی تھی۔ وہ روز دوپہر کو وہاں آتا۔ لنچ کرتا اور لنچ کے دوران مختلف انداز میں اس کی آنکھوں کی اسکیچنگ کرتا رہتا۔ اسے اس لڑکی سے ایک عجیب سا انس ہو گیا تھا۔ پھر اسے اچانک ایک ہفتے کے لیے کراچی جانا پڑ گیا اور یہ سات دن اس کی زندگی کے سب سے مشکل اور تکلیف دہ دن تھے۔ اسے اب احساس ہوا کہ وہ اس روٹین کا کتنا عادی ہو چکا تھا۔ وہ رات کو وہ سارے چھوٹے بڑے اسکیچز نکال کر بیٹھ جاتا جو اس نے مختلف اوقات میں بنائے تھے اور پھر جیسے اس کی بے تابی اور بے چینی میں اور اضافہ ہو جاتا۔
سات دن کے بعد لاہور ایرپورٹ پر اترتے ہی وہ آفس یا گھر جانے کے بجائے سیدھا اسی فاسٹ فوڈ چین پر گیا تھا اور وہاں جا کر اسے جیسے مایوسی ہوئی تھی۔ وہ اسے کاؤنٹر کے پیچھے نظر نہیں آئی۔ وہ مایوس ہو کر وہاں سے پلٹ آیا تھا۔
اگلے دن دوپہر کو وہ بڑی بے تابی کے عالم میںوہاں گیا تھا اور دروازے سے داخل ہوتے ہی اس نے گہرا سانس لیا تھا۔ وہ وہیں موجود تھی۔ خوشی کی ایک عجیب سی لہر اس کے پورے سراپے میں دوڑ گئی تھی۔ اس دن کاؤنٹر پر اسے اپنا آرڈر نوٹ کرواتے کرواتے اس نے کہا۔ ”کیا میں آپ کا نام پوچھ سکتا ہوں؟” اس لڑکی کے ہونٹوں سے مسکراہٹ غائب ہو گئی تھی۔سراٹھاتے وہ کچھ نہ سمجھنے والے انداز میں اسے دیکھ رہی تھی۔
”میں دراصل یہاں روز آتا ہوں۔ آپ ہی مجھے اٹینڈ کرتی ہیں’ اس لیے میں نے سوچا کہ نام معلوم ہونا چاہیے۔ میرا نام ڈینیل ایڈگر ہے۔”
اس نے شائستہ لہجے میں وضاحت کی۔ ڈینیل کو اس کی آنکھوں میں عجیب سی الجھن نظر آئی۔
”روز یہاں آتے ہیں؟” سوالیہ لہجے میں کہاگیا یہ جملہ ڈینیل کو حیران کر گیا تھا۔ وہ اس فاسٹ فوڈ چین میں تو بہت عرصے سے آرہا تھا مگر جب سے یہ لڑکی وہاں آئی تھی وہ باقاعدگی سے وہاں ایک ماہ سے جارہا تھا اور وہ لڑکی اس سے کہہ رہی تھی۔





”روز یہاں آتے ہیں؟” ا س کا خیال تھا وہ بھی اب تک اس کے چہرے سے شناسا ہو گئی ہو گی۔
”ہاں میں روز یہاں آتا ہوں آپ ہی روز اٹینڈ کرتی ہیں مجھے ۔۔ اسی وقت۔۔ کیا آپ کو یاد نہیں ہے؟”
”نہیں مجھے یاد نہیں ہے۔”وہ بے حس و حرکت ہو گیا۔لڑکی کاؤنٹر کے پیچھے موجود دروازے سے غائب ہو چکی تھی۔ اسے کبھی اتنی خفت کاسامنا نہیں کرنا پڑا تھا۔
”میں اتنا برا تو نہیں کہ میرا چہرہ یاد نہ رہ سکے۔ کیا یہ لڑکی جان بوجھ کرجھوٹ بول رہی ہے یا واقعی وہ میرے چہرے سے شناسا نہیں ہے۔ ” وہ خود بھی الجھ گیا۔
وہ دس منٹ کے بعد دوبارہ نمودار ہوئی اور ٹرے لے کر اس کی طرف آئی۔ ڈینیل نے پوچھا۔
”میں نے آپ کا نام پوچھا تھا؟” وہ کچھ دیر بے تاثر آنکھوں سے اس کا چہرہ دیکھتی رہی اور پھر اپنا نام بتا کر واپس مڑ گئی۔
”امید!” ڈینیل نے اس کانام زیر لب دہرایا۔ پاکستان میں رہتے ہوئے وہ اردو پر اتنا عبور تو حاصل کرچکا تھاکہ اس نام کامطلب جان لیتا۔
اگلے دن وہ ایک بار پھر وہیں تھا اور اس بار کاؤنٹر پر جاتے ہی اس نے اس لڑکی کو یاد دہانی کروائی۔
”میں وہی ہوں جس نے کل آپ کا نام پوچھا تھا۔” اس بار پہلی دفعہ اس نے لڑکی کی آنکھوں میں شناسائی دیکھی تھی اورپھر وہ کچھ کہے بغیر خاموشی سے واپس چلی گئی تھی۔
اگلے چند ہفتے بھی اس طرح گزر ے تھے۔ ہر بار جب بھی وہ اس سے بات کرنے کی کوشش کرتا’ وہ خاموشی سے اپنے کام میں مصروف ہو جاتی اور ڈینیل کو مایوسی سے واپس آنا پڑتا تھا۔ پھر اس کی شفٹ بدل گئی تھی۔ وہ سہ پہر سے رات گئے تک وہاں ہوتی اور ڈینیل کے لیے یہ ایک سنہری موقع تھا۔ اب وہ آفس سے فارغ ہوکر وہاں آ جاتا اور اس وقت تک وہیں موجود رہتا جب تک وہ نظر آتی رہتی۔ جب وہ کاؤنٹر کے پیچھے غائب ہوتی تو وہ بھی اٹھ جاتا۔ وہ لڑکی جیسے اس کی زندگی کا ایک حصہ بن گئی تھی۔ جس کے لیے وہاں آنا اور بیٹھے رہنا اسے برا نہیں لگتا تھا۔
تین ماہ تک اس کی یہ روٹین جاری رہی پھر ایک دن ہمیشہ کی طرح کاؤنٹر کے پیچھے مقررہ وقت پر اس کے غائب ہونے پر وہاں سے چلے آنے کے بجائے وہ باہر آ کر اپنی گاڑی میں بیٹھ گیا۔ اس وقت اس ریسٹورنٹ کی گاڑی میں وہاں کام کرنے والے سوار ہو رہے تھے۔ پندرہ بیس منٹ کے بعد ا س نے اندر سے اسی لڑکی کو برآمد ہوتے دیکھا تھا وہ اب شلوار قمیض میں ملبوس تھی۔ ڈینیل کے چہرے پر ایک طمانیت بھری مسکراہٹ نمودار ہوئی۔
اس رات پہلی بار ا س نے اس لڑکی کا تعاقب کیا تھا۔ وہ ورکنگ ویمن کے ایک ہاسٹل کے سامنے اتری اور اندر چلی گئی اور ڈینیل وہاں سے واپس آگیا۔ پھر ڈینیل کی روٹین میں جیسے یہ چیز بھی شامل ہو گئی تھی۔ وہ روز اسی طرح ہاسٹل تک اس کا تعاقب کرتا اور پھر اسے اندر داخل ہوتا دیکھ کرواپس آ جاتا۔ ایک دو بار ایسا بھی ہوا کہ وہ لڑکی مقررہ وقت سے چند گھنٹے پہلے ہی باہر نکل جاتی۔ اسٹاپ سے وین پر بیٹھتی پھر ہاسٹل سے کچھ فاصلے پر اسٹاپ پر اتر جاتی اور وہاں سے ہاسٹل تک کا فاصلہ پیدل خاموشی اور اپنے گردوپیش سے بے نیاز ہو کرطے کرتی۔ شاید وہ اپنے گردوپیش سے بے نیاز نہ ہوتی تو سیاہ رنگ کی وہ گاڑی بہت جلد ا س کی نظروں میں آجاتی جو اس وقت بھی اس سے کچھ پیچھے بہت دھیمی رفتار سے چل رہی تھی۔ وہ ہاسٹل میں داخل ہوتی۔ ڈینیل چند لمحے وہاں کھڑا ہو کر ہاسٹل کے بند گیٹ کو دیکھتا ر ہتا اور پھرواپس آ جاتا۔
وہ نہیں جانتا تھا کہ وہ ایسا کیوں کررہا ہے۔ وہ کس لیے وہاں جاتا ہے۔ کس وجہ سے وہاں بیٹھا رہتاتھا اور پھر کیوں اس کا ہاسٹل تک تعاقب کرتا تھا۔ وہ سب کچھ کرتے ہوئے بے اختیار ہوتا تھا۔ یوں جیسے کوئی دوسری چیز اس وقت اس پر حاوی ہو جاتی تھی۔ ہررات واپس گھر آ کر وہ بڑی بے چارگی اور بے بسی کے عالم میں بیٹھا رہتا تھا۔
شاید یہ سب کچھ بہت عرصے تک اسی طرح چلتا رہتا اگر ایک دن وہ لڑکی وہاں سے غائب نہ ہو جاتی اور پھر مسلسل ایک ہفتہ غائب نہ رہتی۔ پہلے دن اس کی عدم موجودگی پر وہ بے چین رہا تھا مگر دوسرے دن بھی اسے وہاں نہ دیکھ کراس کا دل ڈوب گیا تھا۔ کاؤنٹر پر موجود ایک دوسری لڑکی سے اس نے اس کے بارے میں پوچھا۔
”امید۔۔ہاں وہ دو دن کی چھٹی پر ہے۔”
اسے تھوڑا سا سکون محسوس ہوا تھا’ ا س کا مطلب تھا کہ اگلے دن وہ ایک بار پھر وہیں موجود ہوگی۔ مگر ایسا نہیں ہوا تھا۔ اگلے دن وہ پھر وہاں نہیں تھی۔
”پتا نہیں وہ آج کیوں نہیں آئی۔اس کی چھٹی تو صرف دو دن کی تھی۔” اسی لڑکی نے کندھے اچکاتے ہوئے اس کے استفسار پر جواب دیا۔ وہ اس کا چہرہ دیکھتا رہا پھر بے جان قدموں سے باہر آگیا۔ اس رات بارہ بجے تک بغیر کسی مقصد کے سڑکوں پر گاڑی دوڑاتا رہا۔
اگلے دن وہ ایک بار پھر وہاں گیا تھا اور وہ پھر وہاں نہیں تھی۔
”کیا آپ کو ا س سے کوئی کام ہے؟” کاؤنٹر پر موجود اس لڑکی نے بڑے غور سے ڈینیل کو دیکھا۔
وہ گڑبڑا گیا۔”نہیں’ کام نہیں ہے۔” وہ رکا نہیں’ باہر گاڑی میں بیٹھ کر اس نے اپنا سر پکڑ لیا تھا۔
”آخر یہ لڑکی کہاں غائب ہو گئی ہے۔ کیوں واپس نہیں آرہی ؟” وہ بے اختیار بڑبڑا رہا تھا پھر جیسے ایک خیال آنے پروہ سیدھا ہوگیا اور گاڑی لے کر اس کے ہاسٹل چلا گیا’ جہاں وہ رہتی تھی۔ گیٹ پر اتر کر اس نے چوکیدار سے اردو میں گفتگو کا آغاز کیا تھا۔ چوکیدار ایک غیرملکی کی زبان سے اتنی روانی سے نکلنے والی اُردو سن کر حیران تھا اور حیرانی کے ساتھ مرعوبیت بھی اس کے ہرانداز سے جھلک رہی تھی۔
”کون امید ! آپ پورا نام بتائیں۔ یہاں تو بہت سی لڑکیاں رہتی ہیں؟” چوکیدار نے اس کے سوال پر جواب دیا۔
”پورا نام تو میں نہیں جانتا۔” اس نے کچھ بے چارگی سے کہا۔
”اچھا میں اندر سے پوچھ آتا ہوں۔”
چوکیدار نے کمال فیاضی کا ثبوت دیتے ہوئے کہا۔ وہ اندر جاتے ہوئے چوکیدار کو دیکھنے لگا جو چند قدم اٹھانے کے بعد یک دم واپس اس کی طرف آیا۔
”آپ ان کے کیا لگتے ہیں؟” ڈینیل کی سمجھ میں نہیں آیا کہ وہ کیا جواب دے۔
”میں… میں ان کے ریسٹورنٹ کی طرف سے آیا ہوں۔ وہ دو دن کی چھٹی پر گئی تھیں اور ابھی تک نہیں آئیں۔ میں اسی لیے آیا ہوں۔”
اس کے ذہن میں جو پہلا بہانا آیا اس نے وہی چوکیدار کے سامنے پیش کر دیا۔ چوکیدار کی آنکھوں میں یکدم ایک چمک ابھری۔
”آپ امید عالم باجی کا تو نہیں پوچھ رہے جو ہوٹل میں کام کرتی ہیں۔”
ڈینیل نے کچھ نروس انداز میں سر ہلایا۔
”وہ اپنے شہر گئی ہوئی ہیں۔”
”کہاں؟”
”راولپنڈی۔”
”واپس کب آئیںگی؟”
”یہ تو نہیں پتا۔”
”کیا اندر سے پتا چل سکتا ہے؟”
”میں کوشش کرتا ہوں۔” چوکیدار برق رفتاری سے اندر چلا گیا۔
وہ وہیں باہر ٹہلتا رہا، چند منٹوں کے بعد اس کی واپسی ہوئی۔
”وہ دو دن کے لیے گئی تھی مگر ابھی تک نہیں آئیں۔” اس نے آتے ہی اطلاع دی۔ وہ چند لمحے کچھ بول نہیں سکا۔
”ان کا کوئی کانٹیکٹ نمبر نہیں مل سکتا؟”
”اس طرح تو ہم کسی کو بھی کسی لڑکی کا نمبر یا پتا نہیں دیتے جب تک کہ وہ لڑکی خود اجازت نہ دے۔” وہ کچھ کہے بغیر پلٹ آیا۔
اس رات وہ کوشش کے باوجود سو نہیں سکا۔ سب کچھ اسے یک دم بے کار لگنے لگا تھا۔ اگر وہ لڑکی نہ آئی تو؟ اگر میں دوبارہ کبھی اس سے مل نہ سکا تو؟ یہ سوال اس کے ذہن میں آتے اور وہ بیڈ پر لیٹے لیٹے بے اختیار بے چین ہو کر اٹھ جاتا۔ کمرے میں بلا مقصد چکر لگاتے لگاتے اس کی ٹانگیں تھک جاتیں اور وہ پھر سر پکڑ کر بیٹھ جاتا۔
اگلے دن پہلی بار آفس میں وہ کوئی کام بھی صحیح طریقے سے نہیں کر سکا۔ ڈکٹیشن دیتے ہوئے وہ بار بار بھول جاتا کہ اسے آگے کیا کہنا تھا اور وہ کس چیز کے بارے میں ڈکٹیشن دے رہا تھا۔ اس کی سیکریٹری حیرانی سے اسے دیکھتی رہتی۔ تین بار اس نے چپراسی سے غلط فائل منگوائی۔ تینوں بار اس نے فائل واپس بھی غلط جگہ بھجوائی۔ اپنی ڈاک میں آئے ہوئے فیکس پڑھتے ہوئے وہ کسی کے بھی مفہوم کو نہیں سمجھ پا رہا تھا۔ تنگ آ کر اس نے ڈاک چھوڑ دی تھی۔ کمپنی کے آڈیٹرز کے ساتھ ہونے والی میٹنگ میں وہ ایک معمولی سی بات پر بھڑک اٹھا تھا، کسی نے اس سے پہلے ڈینیل ایڈگر کو غصے میں دیکھا تھا نہ اس طرح بلند آواز میں بولتے دیکھا تھا۔ اس سے بھی زیادہ ہکا بکا وہ تب ہوئے تھے جب بلند آواز سے بولتے ہوئے وہ میٹنگ سے واک آؤٹ کر گیا تھا۔ بہت دیر تک میٹنگ روم میں خاموشی چھائی رہی۔
میٹنگ ختم ہونے کے بعد سعود ارتضیٰ اس کے آفس میں آیا تھا۔ وہ ڈینیل کا کولیگ تھا مگر کو لیگ ہونے کے ساتھ ساتھ دونوں میں بہت اچھی دوستی بھی تھی۔
”تم کچھ پریشان ہو؟” اس نے آتے ہی ڈینیل سے پوچھا تھا۔ وہ چاہتے ہوئے بھی انکار نہیں کر سکا۔ صرف سر جھکائے بیٹھا رہا۔
”چیف نے کہا ہے کہ میں تم سے پوچھوں، تمہیں کیا پرابلم ہے۔ انہوں نے تمہیں تین دن کی چھٹی بھی دی ہے تا کہ تم پر سکون ہو سکو۔ ”
وہ بات کرتے کرتے اس کی ٹیبل کے سامنے موجود کرسی کھینچ کر بیٹھ گیا۔
”کیا پریشانی ہے ڈینیل؟” اس نے بڑے نرم لہجے میں ڈینیل سے پوچھا۔ اس نے جواباً ریوالونگ چیئر کی پشت سے ٹیک لگا کر آنکھیں بند کر لیں۔ وہ سمجھ نہیں پا رہا تھا کہ اسے سعود سے اپنے مسئلے کو ڈسکس کرنا چاہیے یا نہیں اور اگر اس نے سعود سے اپنے مسئلے کو ڈسکس کیا تو اس کا ردِ عمل کیا ہو گا ۔ وہ اس لڑکی کے لیے اس کے جذبات کو کس طرح لے گا۔
چند گہرے سانس لینے کے بعد اس نے بالآخر آنکھیں کھولیں اور آہستہ آواز میں اس نے سعود کو اس لڑکی کے بارے میں سب کچھ بتا دیا تھا۔ سعود خاموشی اور سنجیدگی سے اس کی ساری باتیں سنتا رہا۔
”آج میں نے تین بار اپنے آفس میں اسے دیکھا ہے۔” وہ بے چارگی سے اسے بتا رہا تھا۔ ”میں واش بیسن میں ہاتھ دھو رہا تھا اور ہاتھ دھونے کے بعد میں نے سر اٹھا کر سامنے لگے ہوئے آئینے میں دیکھا تو مجھے اپنے بجائے وہاں بھی اسی کا چہرہ نظر آیا تھا۔ صبح آفس آتے ہوئے ایک کراسنگ پر گاڑی روکتے ہوئے بھی مجھے یونہی لگا جیسے وہ کراسنگ سے گزر رہی ہے۔ مجھے اپنی ذہنی کیفیت سے خوف آنے لگا ہے۔”
سعود کچھ بے یقینی سے اسے دیکھتا رہا تھا۔ وہ اب خاموش ہو چکا تھا۔ کمرے میں چند منٹ خاموشی رہی تھی۔ پھر ایک گہری سانس لے کر سعود ہی نے اس خاموشی کو توڑا۔
”تو تمہیں اس لڑکی سے محبت ہو گئی ہے۔” ڈینیل نے چونک کر اسے دیکھا۔
”محبت؟ مگر مجھے کبھی کسی سے محبت نہیں ہوئی اور نہ ہی میں نے کبھی اس کی ضرورت محسوس کی ہے۔”
”مگر اس بار تمہیں محبت ہی ہوئی ہے اور تم اب اس کی ضرورت اور اہمیت بھی محسوس کر رہے ہو۔ پہلے کبھی محبت نہ ہونے کا مطلب یہ تو نہیں ہے کہ آئندہ بھی کبھی نہیں ہو گی۔”
ڈینیل کچھ حیرانی سے اس کے لفظوں پر غور کرتا رہا۔ ” کیا واقعی مجھے اس لڑکی سے محبت ہو گئی ہے؟” اس نے سوچا۔ ” اور اگر ایسا ہو گیا ہے تو یہ کتنی حیرانی کی بات ہے۔ کیا مجھے کبھی کسی سے محبت ہو سکتی ہے اور وہ بھی کسی لڑکی سے اس طرح اچانک… کچھ بھی جانے بغیر؟” اسے ایک خوشگوار احساس ہوا تھا۔
”اب وہ لڑکی غائب ہو گئی ہے اور تم پریشان ہو۔ اسے ڈھونڈ رہے ہو اور وہ مل نہیں رہی مگر سوال یہ پیدا ہوتا ہے کہ اگر وہ لڑکی مل بھی گئی تو تم کیا کرو گے۔ کیا صرف تم اس لیے اسے ڈھونڈنا چاہتے ہو تا کہ ایک بار پھر اس کے ہاتھ سے بر گر کھا سکو۔ ”
ڈینیل نے کچھ چونک کر سعود کو دیکھا جو بات کرتے ہوئے مسکرا رہا تھا۔
”یا تم اس سے محبت کا اظہار کرنا چاہتے ہو اور شادی کی خواہش کا اظہار کرو گے؟”
”ہاں’ میں اس سے شادی کرنا چاہتا ہوں۔” اس نے بے اختیار کہا تھا۔
سعود ایک بار پھر سنجیدہ ہو گیا۔ ”میں نہیں جانتا کہ اس لڑکی کا مذہب کیا ہے لیکن اگر وہ مسلمان ہے تو مسلمان عورت کسی غیر مسلم مرد سے شادی نہیں کر سکتی ۔ اس سے شادی کرنے کے لیے تمہیں مسلمان ہونا پڑے گا۔ اب تم سوچو، کیا تم یہ کر سکتے ہو اور اگر تم اسلام قبول کر بھی لو تب بھی یہ یقینی نہیں ہے کہ اس سے تمہاری شادی ضرور ہو جائے گی۔ ہو سکتا ہے، اس کی شادی ہو چکی ہو یا ہونے والی ہو یا منگنی ہو چکی ہو۔ اگر ایسا نہ بھی ہوا تو بھی وہ تمہیں نا پسند کر سکتی ہے یا اس کی فیملی تمہیں ناپسند کر سکتی ہے۔ ہمارے یہاں خاندان برادریوں کا سسٹم بہت مضبوط ہے۔ ہمارے یہاں تو بعض دفعہ خاندان سے باہر شادی نہیں کرتے۔ کہاں یہ کہ ایک غیر ملکی سے شادی کر دی جائے اور غیر ملکی بھی وہ جو نو مسلم ہو۔ اب ایسی صورتِ حال میں تمہاری اس محبت کا کیا حشر ہو سکتا ہے یہ تم اچھی طرح جانتے ہو۔ ہم لوگ آزاد خیال ہونے کی کوشش کر رہے ہیں مگر بعض معاملات میں ہم ہمیشہ قدامت پرست ہی رہتے ہیں خاص طور پر تب جب کسی معاملے میں مذہب بھی انوالو ہو جائے اور یہ بھی ایسا ہی ایک معاملہ ہے۔ اب تم ان سب باتوں پر آج رات اچھی طرح سوچو اور دیکھو کہ کیا تم اتنی پریشانیاں بر داشت کر سکتے ہو۔ اس معاملے میں تمہارا ہر قدم ایک جوا ہو گا اور جوا بہر حال جوا ہوتا ہے اس میں ہار نے اور جیتنے کے امکانات برابر ہوتے ہیں۔ ہار کی صورت میں تم خود پر کس طرح قابو پاؤ گے تمہیں اس بارے میں بھی سوچنا ہے۔ یہ ساری باتیں سوچنے کے بعد یہ طے کر لینا کہ اس محبت کو قائم رکھنا چاہتے ہو یا پھر سارا معاملہ ختم کر دینا چاہتے ہو۔ اگر سب کچھ سوچنے کے بعد بھی تم اسی لڑکی سے شادی کے خواہشمند ہوئے تو ٹھیک ہے پھر میں تمہارے ساتھ ہوں۔ اس لڑکی کو تلاش کردوں گا کیونکہ یہ ایسی بھی ناممکن بات نہیں ہے۔”
سعود اپنی بات ختم کر کے وہاں سے اٹھ گیا تھا مگر ڈینیل کے ذہن میں ابھی بھی اس کی باتیں گونج رہی تھیں۔
اس شام وہ ایک بار پھر کسی موہوم آس کے تحت وہاں گیا تھا۔ وہ وہاں نہیں تھی۔ اسے اپنے اندر آنسوؤں کا ایک غبار سا اٹھتا محسوس ہوا تھا۔
اس رات اپنے کمرے میں بیٹھ کر وہ سعود کی باتوں کے بارے میں سوچتا رہا۔ کوئی مسلم عورت کسی غیر مسلم مرد سے شادی نہیں کر سکتی’ تمہیں ایسا کرنے کے لیے سب سے پہلے اسلام قبول کرنا پڑے گا۔ مذہب کا سوال ایک بار پھر اس کے سامنے سر اٹھا کر کھڑا ہو گیا مگر اس بار یہودی یا عیسائی نہیں بلکہ ایک تیسرے مذہب کا پیرو کار ہونے کے بارے میں اسے سوچنا پڑ رہا تھا اور اس بار وہ اس معاملے کو ہمیشہ کی طرح اپنے سر سے جھٹک بھی نہیں سکتا تھا کیونکہ اس کی زندگی کا ایک اہم معاملہ اس سے منسلک ہو گیا تھا۔
”کیا میں اسلام قبول کر سکتا ہوں؟” اس نے اپنے آپ سے پوچھا اور اس سوال نے اس کے ذہن میں بہت سی پرانی یادیں تازہ کر دی تھیں۔
*…*…*




Loading

Read Previous

ایمان، امید اور محبت — قسط نمبر ۱

Read Next

حسنہ اور حسن آرا — عمیرہ احمد

Leave a Reply

آپ کا ای میل ایڈریس شائع نہیں کیا جائے گا۔ ضروری خانوں کو * سے نشان زد کیا گیا ہے

error: Content is protected !!