ایمان، امید اور محبت — قسط نمبر ۲ (آخری قسط)

”لیکن ممی! مجھے یہ سب پسند نہیں ہے۔”
”مجھے بھی نہیں ہے، مگر بہرحال ہمیں یہیں رہنا ہے۔” سبل نے کہا۔
”آپ مجھے انڈیا بھیج دیں۔ میں اپنا اے لیولز وہاں سے کر لوں گا۔ اس کے بعد پھر کسی بھی یونیورسٹی میں یہاں آ جاؤں گا۔”
”وہاں تعلیم کا معیار اچھا نہیں ہے بلکہ کسی بھی ایشیائی ملک میں ایسا نہیں ہے۔ تمہیں یہاں رہ کر اپنا ہائی سکول مکمل کرنا ہوگا، اس کے بعد تم اپنی مرضی کی یونیورسٹی میں چلے جانا۔ ان دو چار سالوں میں تم یہاں ایڈجسٹ ہو جاؤ گے پھر یونیورسٹی میں تعلیم کے دوران تمہیں ایڈجسٹمنٹ کی کوئی پرابلم نہیں ہوگی۔” سبل نے اسے سمجھاتے ہوئے کہا۔ ”ویسے بھی تمہیں جاب کرنی ہوگی اور اچھی جاب تمہیں کسی ایشیائی ملک میں نہیں مل سکتی۔ جہاں تک کلاس فیلوز کی حرکتوں یا عادتوں کا تعلق ہے، تمہیں ان سے اتنا میل جول بڑھانے کی ضرورت نہیں ہے، وہ اگر تمہارا مذاق اڑاتے ہیں تو اڑانے دو۔ جن لوگوں میں اخلاقیات کی کمی ہوتی ہے وہ اپنے رویے اور طور طریقے سے یہ بتاتے رہتے ہیں کہ وہ کتنی خامیوں کا مجموعہ ہیں۔ اب انھیں کاؤنٹر کرنے کے لیے ضروری نہیں ہوتا کہ دوسرا بھی اپنی ویلیوز کو چھوڑ دے۔ انھیں ان کے راستے پر چلنے دو اور تم اپنے راستے پر چلتے رہو۔” سبل نے اسے سمجھایا۔
اس دن ماں کی باتیں اس نے بہت غور سے سنیں اور ہمیشہ کی طرح ذہن میں بٹھا لیں۔ پھر آہستہ آہستہ وہ خود کو اس نئے ماحول میں ایڈجسٹ کرنے لگا تھا۔ اسٹڈیز میں وہ بچپن سے ہی بہت اچھا تھا اور چند ماہ کے اندر وہ اپنی کلاس میں بھی یہ ظاہر کرنے میں کامیاب ہو گیا تھا۔ اس کے امریکن اسٹائل سے مختلف اطوار نے جہاں پہلے اسے مذاق کا نشانہ بنوایا تھا وقت گزرنے کے ساتھ ساتھ وہی اطوار اس کی ایک امتیازی خوبی بن گئے تھے۔ اس نے بچپن سے برٹش اوور سیز اسکولز میں تعلیم پائی تھی اور امریکیوں کے برعکس وہ نک سک سے درست انگلش زبان کا استعمال کرتا تھا۔ انگلش کے ساتھ ساتھ وہ جرمن زبان بھی لکھ اور پڑھ لیتا تھا جبکہ عربی اور کسی حد تک اردو زبان بھی وہ بول لیتا تھا اگرچہ وہ ان زبانوں میں لکھ یا پڑھ نہیں سکتا تھا۔
اس کی اس خصوصیت کے انکشاف نے یکدم ہی اسے اپنی کلاس اور کسی حد تک اسکول میں پاپولر کر دیا تھا۔ لینگویج کی کلاس میں ایک دن اتفاقاً اس کے ٹیچر کو اس بات کا پتا چلا تھا کہ وہ جرمن زبان پر بھی دسترس رکھتا ہے۔
”توڈینیل تم دو زبانوں کو استعمال کر سکتے ہو؟” ٹیچر نے اسے سراہتے ہوئے کہا۔
”دو نہیں چار… عربی اور اردو بھی۔ اگرچہ میں انھیں لکھ پڑھ نہیں سکتا مگر اس میں گفتگو کر سکتا ہوں۔” مدہم آواز میں کہے گئے جملے نے یک دم ہی پوری کلاس کو سر موڑ کر اس کی طرف متوجہ ہونے پر مجبور کر دیا۔ ان کی آنکھوں میں حیرت کے ساتھ ساتھ ستائش بھی تھی۔
”چار زبانیں… زبردست۔ مگر چار زبانیں کیسے؟ میرا مطلب ہے عربی اور اُردو؟”
”میرے ڈیڈی بہت عرصے سے مڈل ایسٹ اور ایشیا کے ممالک میں کام کرتے رہے ہیں، میری پیدائش بھی مراکش میں ہوئی اس لیے عربی بولنا آ گئی اور پچھلے دو سال سے ہم لوگ انڈیا میں تھے۔ وہاں لوگوں سے بات چیت انگلش یا اردو میں ہی ہوتی تھی، اس لیے اس کو بھی استعمال کرنا آ گیا۔”
”اردو یا ہندی۔” ٹیچر نے وضاحت چاہی۔
”جو بھی سمجھ لیں۔” ڈینیل نے کندھے اچکاتے ہوئے کہا۔
”تمہارا ذہن بہت زرخیز ہے ڈینیل۔” انھوں نے بے اختیار اس کی تعریف کرتے ہوئے کہا۔ وہ اپنی تعریف پر مسکرا کر جھینپ گیا۔ اس دن اسکول کے کیفے ٹیریا میں ہر ایک اسی کے بارے میں بات کر رہا تھا۔ لڑکیوں کی اس میں دلچسپی یک دم بہت بڑھ گئی تھی۔ اس کے خدوخال ویسے بھی صنف نازک کے لیے خاصی کشش کا باعث تھے۔ ٹرکش ماں اور جرمن باپ کی ساری اچھی خصوصیات اس میں آئی تھیں۔ گرم ممالک میں رہنے کی وجہ سے اس کی رنگت بھی بالکل سفید ہونے کے بجائے ہلکی گندمی ہو گئی تھی۔ ڈارک براؤن آنکھوں اور جیٹ بلیک بالوں کے ساتھ اس رنگت نے اس کو اس پورے ہجوم سے مختلف کر دیا تھا۔ اسکول کے شروع دنوں میں اس کے جس شرمیلے پن، کم گوئی اور ریزرو ہونے کی خصوصیات نے اسے کلاس فیلوز کے مذاق کا نشانہ بنایا تھا اب وہ ہی اس کا چارم بن گئے تھے۔ لڑکیوں کو اس میں مشرق کی پرُاسراریت نظر آنے لگی تھی اور اس بات نے جہاں لڑکیوں میں اس کی مقبولیت میں اضافہ کیا وہاں لڑکوں میں اس کے لیے رقابت بھی بڑھا دی۔





اس کے بارے میں اسکول میں کیا باتیں ہوتی تھیں۔ کیا رائے رکھی جاتی تھیں۔ اسے اس کی پروا نہیں تھی۔ اس نے واقعی اپنی ماں کی بات کو اپنے ذہن میں بٹھا لیا تھا۔ وہ اسکول آتا۔ کلاس فیلوز سے ہیلو ہائے کرتا۔ بریک کے دوران کہیں اکیلے بیٹھ کر لنچ کرتا۔ گیمز کے پیریڈ کے دوران انسٹرکٹر کے ساتھ چیس کھیلنے کی پریکٹس کرتا یا سوئمنگ کرتا اور اسکول میں ہونے والی پارٹیز سے غائب رہتا، لڑکیوں کی طرف سے ہونے والی پیش قدمیوں کو وہ بڑے اطمینان کے ساتھ رد کر دیتا۔ اس کا یہ انکار اس کی کشش اور مقبولیت میں کچھ اور اضافہ کرتا۔
پھر ان ہی دنوں اسے اسکول بینڈ میں گانے کا موقع ملا اور اسی دوران جب ایک گفتگو کے دوران اس سے اس کے ٹیچر نے مذہب کے بارے میں دریافت کیا تو اس نے کہا۔
”میرا کوئی مذہب نہیں ہے۔” سادگی سے کہے گئے اس کے اس جملے پر ٹیچر کے ساتھ سارا گروپ ہنسنے لگا۔ انھوں نے اس کی اس بات کو مذاق سمجھا تھا۔
”تمہارے فادر کس مذہب سے تعلق رکھتے ہیں؟” ٹیچر نے دلچسپی سے پوچھا۔
”وہ یہودی ہیں۔”
”اس کا مطلب ہے، تم یہودی ہو۔”
”نہیں۔ میں یہودی نہیں ہوں کیونکہ میری مدر کیتھولک ہیں۔”
”تو کیا تم ان کے مذہب کو اپنائے ہوئے ہو؟”
”نہیں، میں دونوں میں سے کسی بھی مذہب کو اختیار نہیں کیے ہوئے ہوں۔ میں بڑا ہو کر یہ فیصلہ کروں گا کہ مجھے کس مذہب کو اختیار کرنا ہے۔” اس نے اسی طرح سنجیدگی سے کہا۔
اس کے بارے میں اس انکشاف نے اسکول میں ایک نئے قسم کا تجسس پیدا کر دیا تھا۔
”وہ یہودی نہیں ہے، وہ عیسائی بھی نہیں ہے مگر وہ دونوں مذاہب پر یقین کرتا ہے اور دونوں جگہ عبادت کے لیے جاتا ہے اور وہ بڑا ہو کر یہ فیصلہ کرے گا کہ اسے کون سا مذہب اختیار کرنا ہے۔ کتنی عجیب بات ہے۔” اس کے بارے میں ہونے والی چہ میگوئیوں کا لب لباب یہی ہوتا تھا۔
*…*…*
”اس کی کوئی گرل فرینڈ نہیں ہے۔ وہ ڈرنک نہیں کرتا۔ وہ اسموکنگ بھی نہیں کرتا۔ وہ کلاسز بنک نہیں کرتا۔ وہ فلمیں نہیں دیکھتا۔ وہ کسی کے ساتھ لڑائی نہیں کرتا۔ وہ پیسے لانے کے بجائے گھر سے لنچ لے کر آتا ہے۔ وہ صبح اپنی ماں کے ساتھ گاڑی میں اسکول آتا ہے اور پھر مقررہ وقت پر ادھر ادھر وقت ضائع کرنے کے بجائے گیٹ پر اپنی ماں کے آنے کا انتظار کرتا ہے تاکہ واپس گھر جا سکے۔ وہ چار زبانیں بول سکتا ہے۔ وہ سترہ ممالک میں رہ چکا ہے۔”
اس کے بارے میں ہر بات کیرولین کی فنگر ٹپس پر تھی۔ وہ ڈینیل کی کلاس فیلو تھی اور ان لڑکیوں میں شامل تھی جو ڈینیل میں ضرورت سے زیادہ دلچسپی لیتی تھیں۔ ڈینیل اتنا ریزرو رہتا تھا کہ کیرولین کو خود اس کی طرف بڑھنا بہت مشکل لگ رہا تھا۔ وہ ہمیشہ سے اس کوشش میں تھی کہ کوئی ایسا موقع اس کے ہاتھ آئے جس سے وہ ڈینیل کو اپنی طرف متوجہ کرے اور ایک دن یہ موقع اس کے ہاتھ آ ہی گیا۔
کلاس اسٹڈی ٹور پر جا رہی تھی اور اسکول بس میں جب سب بچے سوار ہو رہے تھے تو اتفاقاً کیرولین دیر سے اسکول پہنچی اور وہ بھی اس وقت جب اس کی ساری فرینڈز اپنی اپنی سیٹوں پر بیٹھ چکی تھیں۔ ایک آخری سیٹ جو بچی تھی وہ ڈینیل کے ساتھ تھی اور وہ بھی اس کی طرح کچھ دیر سے پہنچا تھا۔ کیرولین کا دل بے اختیار دھڑکا۔
ڈینیل نے اسے اپنی طرف آتے دیکھا اور ساتھ والی سیٹ سے اپنا بیگ اٹھا لیا۔ وہ اس کے ساتھ بیٹھ گئی۔ کوسٹر چل پڑی تھی۔ ڈینیل بڑی بے نیازی سے کھڑکی سے باہر دیکھنے میں مصروف تھا جبکہ کیرولین سوچ میں پڑی ہوئی تھی کہ اس سے کیسے بات کا آغاز کرے۔ کوسٹر میں گانے گائے جا رہے تھے۔ قہقہے گونج رہے تھے۔ تالیاں بج رہی تھیں۔ ڈینیل باہر دیکھتے دیکھتے ہلکی سی مسکراہٹ کے ساتھ وقتاً فوقتاً اندر دیکھتا اور پھر باہر متوجہ ہو جاتا۔ کیرولین مکمل طور پر اس کی طرف متوجہ تھی۔ اسے اچانک ایک خیال آیا اور اس نے اپنے بیگ سے ایک چاکلیٹ نکالا، ریپر کھول کر اس نے خود کھانے کے بجائے ڈینیل کی طرف چاکلیٹ بڑھاتے ہوئے اسے مخاطب کیا۔
”تم کھاؤ گے؟”
ڈینیل نے چونک کر اس کی طرف دیکھا۔ ”نہیں شکریہ۔”
”کیوں نہیں؟ کیا تم چاکلیٹ پسند نہیں کرتے؟” کیرولین نے اصرار کیا۔
”بہت زیادہ نہیں۔”
”مجھے بہت پسند ہے۔” کیرولین نے بات کا سلسلہ جاری رکھا۔ ڈینیل مسکرا کر ایک بار پھر باہر دیکھنے لگا۔
”تم زیادہ باتیں نہیں کرتے۔ کیا تمہیں باتیں کرنا اچھا نہیں لگتا؟” کیرولین نے چاکلیٹ کھاتے ہوئے ایک بار پھر اسے مخاطب کیا۔
”نہیں۔ ایسا نہیں ہے۔” ڈینیل نے مختصر وضاحت کی۔
”مگر تمہارے بہت زیادہ دوست نہیں ہیں؟”
”ہاں بس ویسے ہی۔”
”اور کوئی گرل فرینڈ بھی نہیں ہے؟”
اس بار ڈینیل صرف مسکرایا۔
”کیا تمہیں لڑکیاں اچھی نہیں لگتیں؟”
ڈینیل کچھ جھینپ کر مسکرایا۔ کیرولین کے لیے اس کے چہرے کی سرخی بڑی انوکھی چیز تھی۔ اس نے بڑی دلچسپی سے اسے دیکھتے ہوئے پوچھا۔
”کیا تم مجھ سے دوستی کرو گے؟”
اس بار ڈینیل نے کچھ حیرانی سے اسے دیکھا۔
”میں بہت اچھی دوست ثابت ہو سکتی ہوں۔” کیرولین نے اسے یقین دلایا۔
ڈینیل کچھ الجھن میں گرفتار ہو گیا اس کی سمجھ میں نہیں آیا کہ وہ کس ردِعمل کا اظہار کرے۔ وہ پہلی لڑکی تھی جس نے اس طرح پاس آتے ہی اسے سیدھی دوستی کی آفر کی تھی۔
”کیا دوستی ہو سکتی ہے؟” وہ ایک بار پھر پوچھ رہی تھی۔
”ہاں… ٹھیک ہے۔” اس نے کچھ ہچکچاتے ہوئے کہا۔ کیرولین کی آنکھوں میں چمک لہرائی۔ اس نے اپنا دایاں ہاتھ اس کی طرف بڑھا دیا۔ ڈینیل نے کچھ جھجکتے ہوئے اس سے ہاتھ ملایا۔
دونوں کے درمیان گفتگو باقاعدہ طور پر شروع ہو گئی تھی۔ زیادہ تر کیرولین ہی بات کرتی رہی اور اس نے ڈینیل سے بہت ساری باتیں پوچھی تھیں۔ اس کی پسند ناپسند کے بارے میں، اس کی فیملی کے بارے میں۔ اس کے متوقع کیریر کے بارے میں، ڈینیل اس کی باتوں کا جواب دیتا رہا۔ کیرولین نے اسے اپنے بارے میں بھی سب کچھ بتا دیا تھا۔ اس نے ڈینیل کے بارے میں لڑکیوں کے درمیان ہونے والی گفتگو سے بھی اسے آگاہ کیا تھا۔ وہ مسکراتے ہوئے اس کی باتیں سنتا رہا۔ ہائی اسکول میں کسی لڑکی کے ساتھ ہونے والا یہ اس کا پہلا تفصیلی رابطہ تھا۔
کیرولین بہت دلچسپ لڑکی تھی۔ اس نے سفر کے دوران ڈینیل کو بہت سے دلچسپ قصے بھی سنائے۔ ڈینیل کے لیے ماں کے علاوہ کسی دوسری لڑکی سے ملنے کا اور اس طرح گفتگو کرنے کا یہ پہلا موقع تھا اور یہ تبدیلی اسے بہت نئی اور اچھی لگ رہی تھی۔ اسٹڈی ٹور کے دوران ہی ان دونوں کے درمیان اس حد تک دوستی ہو چکی تھی کہ وہ دونوں اپنے فون نمبر اور ایڈریس ایک دوسرے کو دے چکے تھے اور ان کی دوستی صرف ان ہی تک محدود نہیں رہی تھی بلکہ اسٹڈی ٹور کے دوران ہی سب کی نظروں میں آ چکی تھی۔ ڈینیل پہلی بار کسی لڑکی سے اتنی دیر تک گفتگو کرتا رہا تھا اور وہ بھی مسکراتے ہوئے اور کیرولین پورے ٹور دوران اس کے ساتھ ہی لگی رہی تھی۔ کلاس کی لڑکیوں کے لیے یہ جیسے ایک شاک تھا۔
دوسرے دن جب ڈینیل اسکول آیا تھا تو پہلے کی طرح آتے ہی کلاس میں چلے جانے کے بجائے وہ کیرولین کے ساتھ اسکول کے گراؤنڈ میں پھرتا رہا تھا اس کی زندگی میں ایک نئے باب کا اضافہ ہو گیا تھا۔
*…*…*
رات کو سبل ڈنر تیار کر رہی تھی جب فون کی گھنٹی بجی تھی۔ فون اٹھانے پر ایک لڑکی نے اپنا تعارف ڈینیل کی دوست کے حوالے سے کروایا اور ڈینیل کو بلوانے کے لیے کہا۔ سبل کو ایک جھٹکا لگا تھا۔ ڈینیل نے اسے اپنے کسی دوست کے بارے میں نہیں بتایا تھا اور پھر گرل فرینڈ؟ وہ بے حد حیران ہوئی۔ وہ ڈینیل کے کمرے کی طرف گئی۔ دروازہ کھٹکھٹا کر وہ اندر داخل ہوئی۔ ڈینیل اسٹڈی ٹیبل پر بیٹھا کچھ لکھ رہا تھا۔ اس نے مڑ کر ماں کی طرف دیکھا۔
”تمہارا فون ہے۔” سبل نے غور سے اسے دیکھتے ہوئے کہا۔
”میرا فون؟” وہ کچھ حیران ہوا۔
”ہاں تمہاری دوست ہے کیرولین۔”
ڈینیل کے چہرے پر ایک رنگ آ کر گزر گیا۔ یک دم اس نے ماں کے چہرے سے نظر ہٹا لی۔
”میں ابھی آتا ہوں۔” اس نے مدھم آواز میں کہا۔ سبل کچھ کہے بغیر اس کے کمرے سے نکل آئی۔
وہ کچھ دیر کے بعد لونگ روم میں داخل ہوا اور فون پر آہستہ آواز میں باتیں کرنے لگا۔ سبل نے کچن سے اسے دیکھا تھا۔ چند منٹ بات کرنے کے بعد اس نے فون بند کر دیا اور واپس اپنے کمرے میں چلا گیا۔ اس دن سبل نے اس سے کیرولین کے سلسلے میں کوئی بات نہیں کی۔
اگلے دن صبح اسے اسکول لے جاتے ہوئے اس نے ڈینیل سے پوچھا۔
”تم نے دوست بنا لیے؟”
ڈینیل نے ڈرائیونگ کرتی ہوئی ماں کو دیکھا۔ ”زیادہ نہیں بس ایک۔”
سبل نے مسکرا کر اسے دیکھتے ہوئے کہا۔ ”کیرولین؟”
وہ بھی جواباً اثباتی انداز میں مسکرایا۔




Loading

Read Previous

ایمان، امید اور محبت — قسط نمبر ۱

Read Next

حسنہ اور حسن آرا — عمیرہ احمد

Leave a Reply

آپ کا ای میل ایڈریس شائع نہیں کیا جائے گا۔ ضروری خانوں کو * سے نشان زد کیا گیا ہے

error: Content is protected !!