اور جنّت مرگئی — دلشاد نسیم (دوسرا اور آخری حصّہ)

’’پھر بھی بتانا تو چاہیے تھا۔‘‘
’’کیا بتاتا؟‘‘
’’وہی جو اس نے اپنی پوسٹ پر لگایا تھا۔‘‘
نجیب بدمزہ ہو گیا۔ ’’وہ تو پاگل ہے۔‘‘
’’محبت میں یہی پرابلم ہے پہلے عقل پر حملہ کرتی ہے اور لوگ سمجھتے ہیں اس کا تعلق دل سے ہے۔‘‘
زارا نے ہنس کے کہا۔
’’نجیب کو غصہ آیا، لیکن مسکرا کے بولا۔ ’’یہ جو عورت ہے نا بڑی بے وقوف ہوتی ہے۔‘‘
زارا کو شاید برا لگا۔ منہ بنا کے بولی۔ ’’سچ ہے۔ پیار کرنے والی عورت بہت بے وقوف ہوتی ہے۔ خیر میں نے اس کا اسٹیٹس دیکھا، تو اس کو میسنجر میں ہم دونوں کے تعلق کا بتا دیا کہ میں اور تم ایک دوسرے سے محبت کرتے ہیں اور جلد ہی شادی کرنے والے ہیں۔‘‘
’’او…‘‘ نجیب کا منہ کھلے کا کھلا رہ گیا۔ ’’اسی لیے وہ رو رہی تھی۔‘‘
زارا نے جواب نہیں دیا آئس کریم کا چمچ منہ میں ڈال کر مسکرائی۔ ’’اس کو رونا ہی چاہیے تھا۔‘‘
نجیب خاموش ہو گیا۔
’’میرے پیپرز ختم ہو گئے ہیں۔‘‘
نجیب نے دیکھا۔
’’تم ہمارے گھر آسکتے ہو۔‘‘
نجیب اس کی حرکتوں کی وجہ سے تھوڑا ڈسٹرب ہو رہا تھا، لیکن اس بات پر مسکرا دیا۔
’’اس اتوار کو آجاتے ہیں۔‘‘
’’موسٹ ویلکم‘‘ وہ مسکرائی۔
نجیب اتوار کو آنے کا وعدہ کر کے اسے سٹاپ تک چھوڑ کر عبداللہ کے پاس چلا گیا۔

(adsbygoogle = window.adsbygoogle || []).push({});

(adsbygoogle = window.adsbygoogle || []).push({});
نجیب نے پہلے اپنی حیرت شیئر کی۔ ’’یار عجیب بات نہیں وہ مزے سے میسنجر میں جا کر کسی کی بھی ایسی تیسی کر دیتی ہے۔‘‘
عبداللہ نے ہنس کے کہا۔ ’’تجھ سے محبت کرتی ہے۔‘‘
’’وہ ٹھیک ہے، لیکن میں سوچتا ہوں ایسی لڑکی میرے لیے عذاب نہ بن جائے کل کو شادی ہونی ہے۔ کوئی پرانا معاشقہ منظر عام پر آگیا تو۔‘‘
عبداللہ ہنسا۔ ’’بات تو تمہاری بھی ٹھیک ہے، لیکن وہ کیا کہتے ہیں۔ مشتری ہوشیار باش۔‘‘
’’شاید اس موقع پر یہ نہیں کہتے۔‘‘ نجیب نے منہ بنا کے کہا۔
’’خیر، تجھ سے محبت کرتی ہے۔‘‘ عبداللہ نے تسلی دی۔
نجیب نے پرسوچ انداز میں ماتھے پر انگلیاں رگڑیں۔
’’اس اتوار کو بلایا ہے اس نے۔‘‘
’’مبارک ہو۔ کسی کو نہ سہی تجھے تو تیری محبت ملی۔‘‘
نجیب مسکرا دیا۔ ’’شکر ہے۔‘‘
’’ڈسٹرب ہو۔‘‘
’’میں سوچ رہا ہوں اس قدر محبت کرنے والی کو میںیعنی نجیب قاسم Deserve نہیں کرتا۔‘‘
’’یہ با ت اس وقت سوچنے کی ہے؟‘‘ عبداللہ کو برا لگا۔
’’ویسے ہی کہہ رہا تھا۔‘‘
’’یہ بات تجھے ویسے بھی نہیں کہنی چاہیے۔ سوچ تیری دعائیں کام آئی ہیں اور بس۔‘‘
’’خیر جتنی میں اس سے محبت کرتا ہوں شاید وہ بھی نہیں سوچ سکتی۔ یہ تو میرا احساسِ ندامت ہے جو ایسا کہہ رہا ہوں۔‘‘
’’اس احساس کو اپنے پاس رکھ کر اور انجوائے کر۔ محبت نصیب والوں کو ملتی ہے۔‘‘
نجیب مسکرا دیا۔
وہ رات بہت حسین تھی۔ اس نے بارہا زارا کو دلہن کے روپ میں دیکھا۔ اس کی چوڑیوں کی کھنک کو کمرے میں محسوس کیا، مگر وہ زارا کے دوپٹے کی خوشبو سے مسحور ہو رہا ہے۔ کبھی اس کی قربت میں پگھلا جا رہا ہے ہر بار ہوش کی دنیا میں آنا پڑتا اور ہر بار وہ کھو جاتا۔
دو دن بعد اتوار تھا، لیکن دو صدیوں بعد یہ دو دن گزرے اور شام کو چھے بجے ابو امی اور ندا کو لے کر نجیب زارا کے گھر چل دیا۔ سارا راستہ اڑا اڑا رہا۔ اس کو تو اندازہ ہی نہیں تھا زارا سے اس کی محبت کا یہ عالم، دل تیز تیز دھڑک رہا تھا۔ کئی بار اچانک بریک لگانی پڑی جس پر ابو نے وارننگ بھی دی۔ اب ایک بھی بریک لگی میں خود گاڑی چلا لوں گا۔ نجیب سنبھل گیا۔ ندا مسکرا کر نجیب کا مذاق اڑا رہی تھی۔ اس نے بیک ویو مرر سے دیکھا۔ البتہ امی خاموش تھیں، لیکن نجیب کو یقین تھا وہ جب زارا کو دیکھیں گی سارے گلے شکوے بھول جائیں گی۔
گاڑی رکی، سب باہر نکلے، ملازم نے گیٹ کھولا۔ سب ملازم کی ہمراہی میں اندر چلے گئے۔ وہ زارا کے گھر کا لاؤنج تھا۔ بہت بڑا سادہ سا۔ سفید چادریں بچھی ہوئی تھیں فضا میں اگربتیوں کی اداس خوشبو رچی ہوئی تھی۔ نجیب بے چین ہو گیا۔ سب سوالیہ نظروں سے نجیب کو دیکھ رہے تھے۔ نجیب کے دل کی دھڑکن رکنے کو تھی کہ ایک درمیانی عمر کی باوقار عورت لاؤنج میں آئی۔ اس کے پیچھے لگ بھگ ساٹھ سال کے بزرگ تھے۔
نجیب سمیت سب کھڑے ہو گئے۔ سلام دعا کا تبادلہ ہوا، لیکن فضا کی اداسی کا راز افشا نہ ہوا۔
’’میں نعمان ہوں۔ ڈاکٹر نعمان زارا نعمان کا والد۔ اور یہ میری مسز گورنمنٹ کالج کی پروفیسر۔‘‘
’’ماشا اللہ بیٹی کو بھی بلا لیں۔‘‘ امی نے مسکرا کے کہا۔
’’پہلے چائے پی لیں۔‘‘ با وقار مسز نعمان نے لب کشائی کی۔
چائے آ گئی۔ چائے پی لی۔ ندا آنکھوں آنکھوں میں اشارے کرتی رہی نجیب پریشانی سے اس کو خاموش رہنے کو کہتا رہا، لیکن اس کی اپنی سمجھ میں نہیں آرہا تھا۔ تب ہی مسز نعمان نے ملازمہ سے کہا۔
’’ثریا ان کو سٹڈی میں لے جاؤ۔‘‘ ساتھ ہی رخ امی کی طرف کر کے کہنے لگیں۔’’اصل میں وہ کہہ کر گئی تھیں۔‘‘
نجیب اٹھنے لگا، تو سلمان صاحب نے اُسے روک لیا۔
’’اور میاں کیا کرتے ہو تم۔‘‘ نجیب کو رکنا پڑا۔
چند سوال ہی ہوئے تھے کہ امی ابو واپس آگئے اور ندا بھی۔ تینوں بہت خوش اتنی حسین لڑکی جو کہ ڈاکٹر بھی بننے جا رہی تھی کس کو انکار ہو سکتا ہے اور جس قدر وہ نجیب سے محبت کرتی ہے اس کی تو شاید مثال نہیں ملتی۔
’’ہمیں یہ رشتہ منظور ہے۔‘‘ ابو نے بے حد خوش ہو کر کہا۔
’’شکریہ۔‘‘ ڈاکٹر صاحب بولے۔ ’’لیکن میں چاہتا ہوں ایک بار لڑکا لڑکی مل لیں بات کر لیں۔‘‘
’’لیکن یہ تو رابطے میں رہتے ہیں ہمیشہ۔ کیوں نجیب۔‘‘ نجیب اس بات پر شرمندہ ہوا، لیکن خفت سے سرکھجا کے رہ گیا۔
’’ٹھیک ہے اگر نجیب نہیں ملنا چاہتا، تو اس کی مرضی۔‘‘
نجیب ہڑبڑا کے اٹھا۔ ملازمہ کھڑی تھی وہ ملازمہ کی زیر قیادت لاؤنج سے نکلا۔ بے حد طرز سے بنے گھر میں بہت سوگواری تھی۔ وہ کسی سے بھی نہیں پوچھ سکتا تھا کہ کیوں… یہ سوگواری کیوں ہے؟ سٹڈی کا دروازہ کھل گیا۔ بہت بڑا کمرا نہیں تھا ،لیکن دروازہ کھلتے ہی کتابوں کی شیلف دیکھ کر اندازہ ہو رہا تھا سب کس قدر صاحب ذوق ہیں۔ زارا اس سے اسی طرح ملی۔ متانت سے، سنجیدگی سے، محبت سے اور ملازمہ چلی۔
’’اور تم آگئے۔‘‘
نجیب مسکرا دیا۔ بس تمہیں کھونے کے تصور سے مرنے لگتا ہوں۔
زارا خاموشی سے مسکرا دی اور اسٹڈی روم کی نیم تاریکی کو ختم کرنے کے لیے ایک اور ٹیوب لائٹ جلا دی۔ روشنی ہوئی نجیب پر سب کچھ آشکار ہو گیا۔ آنکھیں چندھیا گئیں۔ یہ کیسی روشنی تھی جس نے دنیا تاریک کر دی۔ نجیب حواس کھو بیٹھا۔
’’تم نے محسوس کیا آج فضا میں کس قدر اداسی ہے۔‘‘ نجیب سن کہاں رہا تھا۔
لاؤنج میں بچھی چادریں ، اگربتی کی خاموش اداس مہک۔ تپائی پر رکھے سپارے۔ تم نے مجھ سے پوچھا نہیں یہ سب کیوں ہے؟‘‘
زارا کی آنکھوں سے آنسو بہ نکلے۔
’’آج جنت کی دوسری برسی ہے۔ دوسری۔ سات سو تیس دن ہو گئے اسے دیکھے۔ میری معصوم نازُک بہن منوں مٹی اوڑھ کے سو گئی۔ صرف تمہاری وجہ سے۔ نجیب صرف تمہاری وجہ سے۔ کاش تم جان سکتے محبت کی کسک کیا ہوتی ہے۔ کاش تم نے اس کی محبت کو محسوس کیا ہوتا۔ اس کے کورے دل پر لکھی اپنے نام کی تختی دیکھی ہوتی۔ کاش۔ کاش۔‘‘
زارا نے آنسو بہاتے بہاتے خود کو سنبھالا۔ آنسو صاف کیے۔
’’مجھے تم سے شادی کرنے پر اب بھی کوئی اعتراض نہیں بس شرط یہ ہے کہ تمہیں جنت کو بھولنا ہو گا۔ میں ایسے کسی دل میں نہیں رہ سکتی جہاں پہلے کسی کا بسیرا ہو۔ تمہیں اُسے مکمل طور پر دل سے نکالنا ہو گا۔ منظور ہے تو ابو کو ہاں کہہ دو۔‘‘
نجیب سے پہلے وہ کمرے سے نکل گئی۔ سٹڈی کی لمبی سفید دیوار کے اوپر مستطیل فریم میں کھلکھلاتی ہوئی جنت اور زارا کی تصویر تھی۔
اس کے پاؤں من کے ہو رہے تھے۔ اس سے قدم نہیں اٹھ رہے تھے۔ اُسے نہیں معلوم وہ کتنی صدیوں میں سٹڈی سے نکلا اور کتنے جنموں میں زارا کے گھر سے۔
امی ابو اور ندا حیران تھے۔ پریشان تھے کہ نجیب کو کیا ہو گیا ہے۔ وہ روز بہ روز کس غم میں گھلتا جا رہا ہے، لیکن جب عبداللہ نے اس کی چپ کو توڑا تو نجیب سے برداشت نہ ہوا۔ تڑپ کر رو دیا بہت دیر تک روتا رہا۔
عبداللہ نے نجیب کو جھنجھوڑا۔ ’’کیا ہوا کچھ تو کہو؟‘‘
’’جنت ایک بار پھر مر گئی۔‘‘ وہ عبداللہ کے گلے لگ کے رو دیا۔

(ختم شد)

(adsbygoogle = window.adsbygoogle || []).push({});

(adsbygoogle = window.adsbygoogle || []).push({});

Loading

Read Previous

اور جنّت مرگئی — دلشاد نسیم (حصّہ اول)

Read Next

ڈھال — نازیہ خان

Leave a Reply

آپ کا ای میل ایڈریس شائع نہیں کیا جائے گا۔ ضروری خانوں کو * سے نشان زد کیا گیا ہے

error: Content is protected !!