اور جنّت مرگئی — دلشاد نسیم (دوسرا اور آخری حصّہ)

امی کا آنا، ابو کے دوست کی بیٹی کے بارے میں بات کرنا۔ ندا کا تسلی دینا۔ خود اس کا آدھی رات گڑگڑا کر اللہ سے زارا کو مانگنا سب کچھ کہہ کر نجیب نے لمبا سانس لیا۔ زارا اس قدر خاموشی سے ساری بات سنتی رہی جیسے کسی بڑے محکمے میں انٹرویو لینے والا۔ انٹرویو دینے والے کو بغور دیکھتا ہے سنجیدگی سے ایک لمحے کو اندازہ نہیں ہوتا وہ ریجیکٹ ہونے والا ہے یا منظور کر لیا جائے گا۔
نجیب کا سانس جکڑا جکڑا سا لگ رہا تھا۔ جب تک زارا نہ مسکرائی تو لفظ ادا نہ کرتی نجیب کو کومے والی حالت میں ہی رہنا تھا۔
زارا کی مسکراہٹ اس کی باتیں ہونٹوں کی خفیف سی جنبش نجیب کی سانسیں انہی چند شرطوں پر قائم تھیں۔
زارا مسکراتی ہے۔ کہنے لگی۔ ’’نام کیا ہے اس کا؟‘‘
’’قرات العین، لیکن گھر میں اس کو قرأت کہتے ہیں۔‘‘
نجیب نے تعارف کرایا۔
’’ہوں۔‘‘ زارا نے ہنکارا بھرا۔
’’تمہیں برا تو نہیں لگا؟‘‘
زارا نے نجیب کی آنکھوں میں آنکھیں ڈالیں۔ ’’برا نہیں۔ لگنا چاہیے؟‘‘
سوال ہی جواب تھا۔
’’اسی لیے تو کہہ رہا ہوں مجھے اپنے گھر آنے دو۔‘‘ نجیب نے زچ ہو کر کہا۔
’’میں نے ابھی گھر بات نہیں کی۔‘‘ زارا نے سپاٹ لہجے میں کہا۔
نجیب کو غصہ تو بہت آیا، لیکن یہ وقت نہیں تھا غصہ کرنے کا اس لیے دھیرے سے بولا۔ ’’تو اب کر لو۔‘‘
زارا نے سمجھ دار سی ہاں کی اور سر ہلا دیا۔

(adsbygoogle = window.adsbygoogle || []).push({});

(adsbygoogle = window.adsbygoogle || []).push({});
نجیب کچھ سمجھ نہیں سکا کہ زارا کی اس ہاں کا مطلب کیا ہے، لیکن اگلے دن اس کی خوشی کی انتہا نہ رہی جب قرأت کے گھر والوں نے آنے سے صاف انکار کر دیا۔
امی ابو بہت تلملائے۔ ندا حیران رہ گئی۔ نجیب کی خوشی کا کوئی ٹھکانہ نہیں تھا۔ زارا نے قرأت العین کے میسنجر میں جا کے اپنی اور نجیب کی محبت قرأت کے ساتھ شیئر کر دی۔ وہ انکار نہ کرتی تو کیا کرتی۔
نجیب مجرموں کی طرح سرجھکا کر کھڑا تھا۔ ابو جنہوں نے کبھی غصہ نہیں کیا تھا سخت لہجے میں بولے۔
’’تم جانتے ہو میری اور سردار ایوب کی دوستی کتنی پرانی ہے؟‘‘
نجیب خاموش رہا۔
’’جانتے ہو۔‘‘ ابو نے ڈپٹ کے پوچھا۔
’’جی!‘‘ نجیب کی مدھم آواز آئی۔
امی نے نجیب کی بالکل طرف داری نہیں کی۔
’’کتنی؟‘‘ ابو نے پھر سوال کیا۔
’’چونتیس سال پرانی۔‘‘ آپ نے بتایا تھا۔
’’جس وقت بتایا تھا اس بات کو بھی چار سال گزر چکے ہیں۔‘‘
نجیب کیا جواب دیتا۔ سکوت چھا گیا۔
’’بات ختم ہو گئی۔‘‘
ابو نے ایسے کہا جیسے موت ہو گئی ہو۔ آواز رندھ گئی۔ چہرے پر ملال تھا۔ امی نے قہرآلود نظروں سے نجیب کو دیکھا۔
نجیب بہت سیلفش ہو رہا تھا۔
’’اتنی چھوٹی بات پر برسوں کی دوستی ختم کر دی انہوں نے۔‘‘
ابو نے تڑپ کے دیکھا۔ نجیب کو تو یہ حیرت ہوئی وہ اس قدر سفاک کیوں ہو گیا تھا۔
’’بات دوستی کی ہوتی تو خیر تھی بیٹا۔ آج ہمارا ایک دوسرے پر مان ختم ہو گیا۔‘‘
’’تم زارا کو کب سے جانتے ہو۔‘‘ امی نے ایک دم حملہ کیا۔
’’ایک ڈیڑھ سال سے۔‘‘
’’تم تو یہ بھی یقین سے نہیں کہہ سکتے کہ ایک یا ڈیڑھ سال سے اور تم نے ابو کی سالوں پرانی دوستی خراب کر دی۔‘‘
نجیب کو امی جذباتی فلم کی ماں لگیں۔
’’امی میں نے آپ کو منع تو کیا تھا۔‘‘
’’اگر نجیب نے منع کیا تھا، تو آپ کو مجھے بتانا چاہیے تھا عابدہ۔‘‘ ابو مجھے چھوڑ کر امی سے شکوہ کرنے لگے۔
’’خیر میں نہیں چاہتا تمہیں کوئی پریشانی کوئی دکھ ہو۔ بہتر ہے تم ہمیں کیا نام ہے اس لڑکی کا۔ ابو نے ذہن پر زور دیا۔‘‘
’’زارا‘‘ نجیب نے فوراً کہا۔
’’ہاں۔ اس کے گھر لے چلو۔‘‘
’’ابو وہ میڈیسن کے فائنل ائیر میں ہے پیپرز ہو جائیں تو۔‘‘
ابو نے گہری اور سنجیدہ نظر سے دیکھا نجیب سے جملہ بھی پورا نہیں ہوا۔
’’چلتا ہوں۔‘‘ نجیب نے جملہ ادھورا ہی رہنے دیا اور کمرے سے نکل آیا۔
ابھی اس نے کمرے سے باہر قدم نکالا ہی تھا کہ ندا بغلگیر ہو گئی۔ اس کو گھسیٹتی کمرے میں آگئی اور بھنگڑا ڈالنے لگی۔ نجیب بھی بہت خوش تھا۔
’’ٹریٹ۔ ہمیں تو ٹریٹ چاہیے۔‘‘
’’کیا چاہیے؟‘‘
’’بھابھی کا دیدار۔‘‘
نجیب زور سے ہنس دیا پھر یک دم سنجیدہ ہو گیا۔ ’’بہت مہنگی ہے زارا۔ اتنی آسانی سے نہیں ہو گا۔‘‘
ندا نے حیرت سے دیکھا۔
’’یہ آپ مجھ سے کہہ رہے ہیں؟‘‘
نجیب ہنس دیا۔ دل سے محبت کی ہنسی۔
ایک طرف ابو کی چونتیس سال کی دوستی دوسری طرف زارا اکیلی۔
’’محبت تو جیت ہی جاتی ہے۔‘‘ ندا نے بیپروائی سے کہا۔
’’ہمیشہ ایسا نہیں ہوتا کبھی کبھی فرض کی جیت ہوتی ہے۔‘‘
ندا ہنسی۔ ’’صرف فلموں میں۔‘‘
نجیب بھی ہنس دیا۔
اگلے دن اس نے ندا کو تو نہیں زارا کو شہر کے بہترین ہوٹل سے لنچ کرایا۔ اسے اپنی محبت کا یقین ہو گیا۔ ایک لڑکی اتنا بڑا قدم اٹھا سکتی ہے، تو وہ کیا نہیں کر سکتی۔ نجیب خود پر جتنا ناز کرتا کم تھا۔
’’تمہیں اندازہ ہو ہی گیا ہو گا۔ میں تم سے کس قدر محبت کرتی ہوں۔‘‘
اس شام کھانے کے بعد دونوں پھر لارنس میں تھے۔
’’جان گیا ہوں۔‘‘
’’آئندہ خیال رہے۔‘‘
نجیب مطمئن ہو گیا۔ اس سے زارا کو دنیا کی کوئی طاقت نہیں چھین سکتی تھی۔
زارا کے پیپرز شروع ہوئے۔ دونوں کے درمیان رابطہ قدرے کم ہو گیا، لیکن محبت بڑھتی گئی۔ نجیب کو لگتا اس کا سانس بند ہو جائے گا اگر وہ زارا کو نہیں دیکھے گا، تو بہت مشکل سے رخصتی ہجر سہ رہا تھا۔
ادھر زارا موٹی موٹی کتابوں میں سر دے کر موبائل آف کر کے بے نیاز سٹڈی میں مصروف تھی۔
انہی دنوں آفس میں نئی اپوائنٹمنٹ ہوئی نجیب کو اس سے کیا غرض کوئی بھی آئے لیکن اس نے دیکھا آفس کا ہر لڑکا حتیٰ کہ پی اون تک نوشی کے گن گا رہا تھا تب وہ ذرا سا چونکا۔ اس نے نوشی کو نوٹس کیا۔ عبداللہ جو یہاں بھی اس کے ساتھ تھا ایک دن مسکراتا ہوا کچھ کہتا، کچھ چھپاتا اس کے سامنے آکے بولا۔
’’واؤ رومیو۔ کیا بات ہے تیری۔‘‘
’’کیوں کیا ہوا؟‘‘ نجیب نے حیرت سے پوچھا۔
’’یہ پوچھو کیا نہیں ہوا۔‘‘
’’بتا کیا نہیں ہوا؟‘‘ نجیب نے زچ ہو کر سوال کیا۔
’’بس خودکشی نہیں ہوئی۔‘‘
نجیب خودکشی کا لفظ سن کر کانپ گیا۔
’’یہ تو کیا کہہ رہا ہے یار؟‘‘
’’نوشی نے تیرے عشق میں…‘‘
’’کیا بکواس ہے۔‘‘ نجیب نے عبداللہ کی بات کاٹی۔
’’بکواس نہیں حقیقت ہے۔‘‘
’’لیکن میں تو اس سے بات تک نہیں کرتا۔‘‘
’’چار دن پہلے تم نے اسے پلٹ کر دیکھا تھا؟‘‘
نجیب کو ہنسی آ گئی۔
’’ہاں تم اس کے لیے اتنے سینٹی ہو رہے تھے اس لیے دیکھا تھا۔‘‘
’’وہ اس پلٹ کے دیکھنے کے بعد تمہیں D.W.D.L.J.G والا شاہ رخ سمجھی۔
’’یہ کیا ہے؟‘‘ نجیب نے حیرت سے پوچھا۔
’’دل والے دلہنیا لے جائیں گے۔‘‘
نجیب زور سے ہنسا۔
’’ہنسنے کی بات نہیں ہے۔ اس نے سٹیٹس لگا دیا ہے ایف بی پر۔‘‘
’’کیا۔‘‘ نجیب نے عام سے انداز میں پوچھا۔
’’I am in Love.‘‘
’’So؟‘‘ نجیب نے کندھے اچکائے۔
’’اس کیپشن میں تصویر تمہاری ہے۔‘‘
’’What?‘‘
نجیب کو بے انتہا غصہ آیا۔ اس نے آؤ دیکھا نہ تاؤ آفس کے کمرے سے نکلا اور نوشی کے کیبن میں چلا گیا۔ نوشی نے اس کو دیکھا تک نہیں، مگر وہ مسلسل روئے جا رہی تھی۔ نجیب بہت کچھ سوچ کر آیا تھا بہت سے بے ہودہ لفظ تھے جس سے اس نے نوشی کی سرزنش کرنی تھی، لیکن اس کو روتا دیکھ کر اس کے اپنے ہاتھ پاؤں پھول گئے۔ نوشی ایک ان کہا سوال بن گئی۔ نہ سوال نہ جواب۔ اس دن کے بعد سے وہ آفس نہیں آئی۔ وہ کہاں گئی۔ کہاں نہیں کسی کو نہیں معلوم۔ وہ چلی گئی اس نے اپنی پوسٹ بھی ڈیلیٹ کر دی، لیکن بدقسمتی سے وہ پوسٹ نوشی کے ڈیلیٹ کرنے سے پہلے ہی زارا نے دیکھ لی تھی۔
جس دن زارا کا آخری پیپر تھا۔ ٹھیک یہ اسی دن کی بات تھی۔ نجیب نے کچھ دن اس کو سلجھانے کی کوشش کی کہ نوشی کو کیا ہوا تھا وہ کہاں گئی ہے، لیکن اس سوال کے جواب کے آگے بند گلی کا سائن تھا لہٰذا نجیب نے اپنی سوچوں کا رخ بدل لیا اور انتظار کرنے لگا کہ زارا اپنے امتحانوں سے فارغ ہو تو وہ دونوں خوب باتیں کریں۔ یہ وہی دن تھا۔
نجیب نے آفس ہاف ڈے لیا اور زارا کو پک کر لیا۔ کھانا کھایا اور اس روز زارا نے کہا کہ وہ یہیں بیٹھے گی۔ بہت تھک گئی ہے۔ بات ماننے والی تھی کئی دنوں کی پڑھائی نے اس کو خاصا کمزور بھی کر دیا تھا۔ وہ دونوں آئس کریم کھا رہے تھے جب زارا نے مخصوص انداز میں پوچھا۔
’’تم نے نوشی کے بارے میں کچھ بھی نہیں بتایا۔‘‘
نجیب قدرے چونکا۔ حیران ہوا۔ پھر سنبھلا۔
’’تم اسے جانتی ہو؟‘‘
’’نہیں۔‘‘ اس نے اطمینان سے کہا۔

(adsbygoogle = window.adsbygoogle || []).push({});

(adsbygoogle = window.adsbygoogle || []).push({});

Loading

Read Previous

اور جنّت مرگئی — دلشاد نسیم (حصّہ اول)

Read Next

ڈھال — نازیہ خان

Leave a Reply

آپ کا ای میل ایڈریس شائع نہیں کیا جائے گا۔ ضروری خانوں کو * سے نشان زد کیا گیا ہے

error: Content is protected !!