اور جنّت مرگئی — دلشاد نسیم (دوسرا اور آخری حصّہ)

زارا نے پھر پھول کھلائے۔ ’’تم نے۔ ابھی۔ ابھی۔‘‘
نجیب ہنسا اور ہنستا ہی چلا گیا۔
لفظوں کی بنت بدلی، لہجے کے انداز بدلے، خیال بدلے، فاصلے سمٹ گئے۔
نجیب سب کچھ بھول گیا۔ اگر اس کو اب یاد تھا تو صرف زارا۔
زارا نے اس کی زندگی بدل دی تھی۔ وہ بہت خوش رہنے لگا تھا۔ پیپرز ہوئے۔ وہ بہت اچھے نمبروں سے پاس ہو گیا۔ بہت اچھی نوکری اور پھر ماں کے دل میں روایتی دستک ہوئی۔ ان دیکھی حسین بہو لانے کی خواہش نے سر اٹھایا۔ نجیب ابھی شادی کرنا نہیں چاہتا تھا۔ اس کی وجہ بھی زارا تھی۔
وہ ایک بہت خوبصورت شام تھی۔ جب لارنس گارڈن کی قائداعظم لائبریری کی سفید عمارت کے سامنے سے گزرتے ہوئے نجیب نے زارا کو پرپوز کیا تھا۔
زارا سنجیدہ ہو گئی۔ سارا منظر ایک جگہ پر رک گیا۔ نجیب بہت پریشان ہو گیا۔
’’کیا تمہیں کوئی اعتراض ہے؟ انکار ہے؟‘‘
’’مجھے انکار نہیں۔‘‘ زارا نے کہا۔ کائنات میں زندگی کی لہر دوڑی نجیب نے رکا ہوا سانس بحال کیا۔
’’لیکن میں ابھی شادی نہیں کر سکتی۔ میری سٹڈیز ہیں۔ ایک سال کا فائنل ائیر اور ایک سال کا ہاؤس جاب۔ پھر اس کے بعد۔‘‘
نجیب نے اطمینان سے کہا۔ ’’نو پرابلم۔ تم جو چاہو کرو۔ بس تم میری ہو۔‘‘
زارا نے ہنس کے کہا۔ ’’تمہاری قسم۔ صرف تمہاری۔‘‘
نجیب کے دل پر آب شار کی نرم پھوار پڑنے لگی۔
’’لیکن ہم بات طے بھی تو کر سکتے ہیں نا؟‘‘
زارا نے حیران ہو کر دیکھا۔ ’’تو کیا طے نہیں ہوئی؟‘‘
نجیب نے الجھ کر کہا۔ ’’میں چاہ رہا تھا بڑوں میں طے ہو جائے۔‘‘
’’اوکے۔‘‘ زارا نے اطمینان سے کہا۔
’’میں فائنل کر لوں؟‘‘
اس نے معصومیت سے سوال کیا۔ انکار کون کرتا۔ نجیب مسکرا دیا۔

(adsbygoogle = window.adsbygoogle || []).push({});

(adsbygoogle = window.adsbygoogle || []).push({});
گویا طے پایا۔ زارا کے فائنل پیپرز کے بعد نجیب اور زارا کی بات پکی ہو جائے گی اور شادی ہاوؑس جاب کے بعد ہو گی۔
لیکن زارا نے ایک عجیب سی شرط لگا دی۔ نجیب کے لیے اس کی ساری باتیں ماننا مجبوری بھی تھی۔ اس نے کہا جب تک گھر والوں کو کچھ نہ بتانا۔
نجیب نے مسکرا کے سر تسلیم خم کیا۔
محبت کا اپنا ہی مذہب ہوتا ہے۔ یہاں صرف محبوب کا سکہ چلتا ہے۔ ایسا سکہ جس کے دونوں طرف محبوب ہی کا نام لکھا ہوتا ہے۔ یہ دل یہ حکومت کا مذہب ہے۔
نجیب کے دل پر زارا کی حکومت ایسی تھی کہ نجیب سر اٹھانے کے قابل ہی نہ رہا۔ کچھ تو ایسا تھا زارا میں کہ نجیب ماضی بھلا کر عشق میں توحید کا قائل ہو گیا تھا۔ کچھ تو سمجھنے سے تھا نجیب۔
زارا اور نجیب کے وعدے سے ٹھیک ایک کے بعد کی بات ہے جب رات کھانے کے بعد گرم قہوے کا کپ لے کر ندا کے بجائے امی خود نجیب کے کمرے میں آئی تھیں۔ نجیب نے مسکرا کے شکریہ کہا۔
امی شکریے کے جواب میں وہیں بیٹھ گئیں۔ نجیب بھی سیدھا ہو گیا۔
’’تمہارے ابو کو تو خیال آتا نہیں۔‘‘ یہ امی کا خاص جملہ تھا۔ وہ بات شروع کرنے سے پہلے یہ شکوہ لازمی کیا کرتی تھیں۔ ابو سن کر ہمیشہ مسکرا دیتے۔
’’تم نے نوکری شروع کر دی۔ اچھا پڑھ لکھ گئے ہو اب شادی کرنی ہے تمہاری۔‘‘ نجیب نے ابھی قہوے کا گھونٹ بھرا ہی تھا کہ حلق سے اتارنا مشکل ہو گیا۔
’’امی ابھی ایسی کیا جلدی ہے کر لیں گے شادی۔‘‘
’’وہی بات جو تمہارے ابو کہتے ہیں۔‘‘
’’ابو ٹھیک کہتے ہیں۔‘‘
’’سنو!‘‘ امی نے وارن کیا۔ ’’میں نے تمہاری اور ندا کی شادی ایک ساتھ کرنی ہے۔‘‘
ہم دونوں ایک دوسرے کی شادی کو انجوائے نہیں کر پائیں گے۔ اس لیے اس کی پہلے کر دیں۔
’’میں نے لڑکی والوں کو زبان دے دی ہے۔‘‘
امی نے ایک اور شاک دیا۔
’’کہاں؟‘‘
’’تمہارے ابو کے دوست کی بیٹی ہے۔‘‘
’’مجھ سے پوچھے بغیر؟‘‘ نجیب کی آنکھیں پھٹ گئیں۔
’’لڑکی خوبصورت ہے، پڑھی لکھی ہے، اچھے خاندانی لوگ ہیں اور کیا چاہیے ہوتا ہے۔‘‘
’’لیکن امی…‘‘
لیکن امی نے کہاں سننا تھا۔ اُٹھتے ہوئے فیصلہ سنا کر چلی گئیں۔
نجیب کی جان پر بن گئی۔ اس کی سمجھ میں نہیں آرہا تھا کیا کرے۔
وہ سوچ نہیں سکتا تھا کہ زارا کے علاوہ اس کی زندگی میں کوئی آسکتا ہے۔ اس کے مضبوط سینے میں مٹھی بھر دل کسی بے کل پرندے کی طرح پھڑپھڑانے لگا۔
نجیب نے بے چین ہو کر ندا کو میسج کیا۔ ’’جاگ رہی ہو؟‘‘
رات کے ایک بجے ندا شاید امتحانوں سے نمٹنے کے لیے سر توڑ کوشش میں جاگ رہی تھی۔ نجیب کا میسج پڑھ کر جواب دینے کے بجائے منٹ بھر میں نجیب کے کمرے میں آگئی۔
’’خیر ہے بھائی؟‘‘ اس نے آتے ہی پوچھا۔ ’’میں پڑھ رہی تھی۔‘‘
نجیب نے پریشان ہو کر کہا۔ ’’اصل میں امی نے بتایا ہے کہ انہوں نے میری بات پکی کر دی ہے۔ مطلب ابو کے دوست کی بیٹی سے۔‘‘
ندا نے لمبا سانس لیا۔ ’’میں تو ڈر ہی گئی تھی کہ پتا نہیں کیا ہو گیا۔‘‘
’’یہ چھوٹی بات نہیں ہے۔‘‘
’’آپ منع کر دیں۔‘‘
’’امی نے انکار نہیں سننا۔ فیصلہ سنایا ہے اور میں زارا کے علاوہ کسی سے شادی کا سوچ بھی نہیں سکتا۔‘‘
’’بھائی اگر زارا آپ کے نصیب میں ہے، تو اُسے آپ سے کوئی نہیں چھین سکتا۔ نہ امی نہ ابو کے دوست کی بیٹی۔‘‘
بات تو سچ تھی۔ بالکل درست لیکن، نجیب کو بہت آسان اور درست سی یہ بات سمجھ نہیں آرہی تھی۔
’’آپ بالکل فکر نہ کریں میں بات کروں گی امی سے۔‘‘
نجیب نے پہلو بدلا۔ ’’امی نہیں مانیں گی۔‘‘
ندا نے ہنس کے کہا۔ ’’جب بہنیں ساتھ ہوں بھائیوں کو فکر نہیں کرنی چاہیے۔‘‘
نجیب نے خفت سے سر کھپایا۔
’’اب آپ سکون سے سو جائیں۔ صبح ہوتے ہی میں امی ابو سے بات کروں گی۔‘‘ ندا کہہ کر چلی گئی۔
نجیب نے سکون کا سانس لیا، مگر بے چینی بہت تھی۔ جو سانس سکون کا لیا تھا دراصل وہ بہت لمحاتی تھا۔
’’اگر امی نہ مانیں۔ وہ کہہ رہی تھیں کہ انہوں نے زبان دے دی ہے۔‘‘ نجیب نے سوچا اور ایک نیا فیصلہ کیا۔
’’میں زارا سے بات کروں گا اور اس سے کہوں گا میں تمہارے فائنل کا انتظار نہیں کر سکتا۔‘‘
یہ سوچ کر نجیب زیادہ مطمئن ہو گیا۔
کروٹیں بدل کر فجر کی اذان کے ساتھ ہی اٹھ بیٹھا۔ وہ سویا ہی کب تھا جو اس کو جاگنا مشکل ہوتا۔
وضو کرتے ہوئے اس کے ذہن میں صرف ایک بات تھی۔
اس نے زارا سے بات کرنی ہے۔ اللہ سے کیا بات کرنی ہے۔ اس کو یاد ہی نہ تھا۔
نماز کے لیے کھڑا ہوا تو رٹے رٹائے الفاظ زبان سے خودبہ خود ادا ہو رہے تھے۔ ذہن تو کسی اور کام پر لگا ہوا تھا۔ بس دعا مانگتے ہوئے اس نے اللہ سے معافی مانگی کیوں کہ اس کو بالکل یاد نہیں تھا کہ اس نے کیا پڑھا تھا۔
کون سی صورت، کتنی رکعتیں۔ وہ شرمندہ ہو گیا۔
دل کے گداز نے آنکھوں میں نمی بھر دی۔ نجیب نے آنکھیں خشک کیں۔ جائے نماز اٹھائی اور بھاری دل کے ساتھ باہر نکل آیا۔
اسی وقت اس کے موبائل پر زارا کا میسج آیا فریش مارننگ کا میسج آیا۔
نجیب کے ہونٹ بے ساختہ مسکرا دیے۔ وہ ریلیکس ہو گیا۔اس نے سوچا۔ ’’میری ساری عمر کی تازگی تم ہو زارا۔ صرف تم۔‘‘
٭…٭…٭
جیسے تیسے دن گزرا۔ شام ہوئی۔ چھٹی کا آج اسے زیادہ انتظار تھا۔
یہ محبت بھی کیا چیز ہے۔ نہیں۔ شاید اب بات محبت سے بہت آگے جا چکی تھی۔ اب تو کھو جانے کے اندیشے دل کی دھڑکنوں کو اتھل پتھل کر رہے تھے۔
وہی مخصوص جگہ۔ قائداعظم لائبریری سے ہوتے ہوئے آگے دائیں طرف بنے لکڑی کے بینچ پر جہاں ان دونوں نے کئی ملاقاتیں کیں تھیں۔ جب نجیب پہنچا زارا منتظر تھی۔ زارا نجیب کو دیکھ کر دلنوازی سے مسکرائی۔ نجیب کا دل جو رات سے عجیب عجیب سے وسوسوں میں تھا ہمت میں آگیا۔
’’کیسے ہو؟‘‘
’’ہمیشہ کی طرح۔‘‘ نجیب مسکرایا۔
زارا نے ایک اچٹتی سی نگاہ ڈالی اور ہنس کے بولی۔ ’’ہمیشہ کی طرح تو نہیں ہو۔ آنکھوں سے تو لگ رہا ہے رات بھر سوئے نہیں۔‘‘
نجیب ایک لمحے کی خاموشی کے بعد مسکرایا۔
’’ہاں جاگتا رہا ہوں۔‘‘
اس اقرار میں شادمانی تھی۔ پہچانے جانے کی شادمانی۔ خوشی۔
’’کیوں؟‘‘ اس نے ہونٹوں کا ’’او‘‘ بنایا اور کافی دیر اسی زاویے سے بیٹھی مسلسل نجیب کے حوصلے کو آزماتی رہی۔
’’ایک بہت ضروری بات کہنے کے لیے بلایا ہے۔‘‘
زارا نے کچھ کہا نہیں، لیکن نظریں بھی نہیں ہٹائیں۔
’’میں تمہارے گھر آنا چاہتا ہوں۔‘‘
زارا نے اطمینان سے سنا اور مسکرا کے کہا۔ ’’ضرور لیکن ممی پاپا اسلام آباد گئے ہوئے ہیں۔ وہ آجائیں تو آجانا۔‘‘
’’ایکچوئلی۔‘‘ نجیب نے پہلو بولا۔ ’’میں پرپوزل بھیجنا چاہتا ہوں۔‘‘
زارا مسکرائی۔ ’’وہ تو طے ہے کہ میرے فائنل کے بعد۔‘‘
’’میں اتنا ویٹ نہیں کر سکتا۔‘‘
زارا چونکی پھر مسکرائی۔ پھر کھلکھلا دی۔
’’کیا کہنا چاہتے ہو؟‘‘
اور نجیب کو ساری بات بتانا پڑی۔

(adsbygoogle = window.adsbygoogle || []).push({});

(adsbygoogle = window.adsbygoogle || []).push({});

Loading

Read Previous

اور جنّت مرگئی — دلشاد نسیم (حصّہ اول)

Read Next

ڈھال — نازیہ خان

Leave a Reply

آپ کا ای میل ایڈریس شائع نہیں کیا جائے گا۔ ضروری خانوں کو * سے نشان زد کیا گیا ہے

error: Content is protected !!