اور جنّت مرگئی — دلشاد نسیم (دوسرا اور آخری حصّہ)

پلیز۔ پلیز۔ Add me. Add me.
نجیب نے زارا کی وال آن کی۔ بالکل ایسے جیسے بچہ ایک جگہ سے چوٹ کھا کے اس جگہ سے گزرنا چاہتا ہے، مگر احتیاط کے ساتھ آہستہ قدموں سے سرجھکا کے۔
وال کا چکر لگایا، تو زارا کے خیرہ کر دینے والے حسن نے اُسے چونکا دیا۔ ایسا احساس جو کبھی نہ ہوا تھا ہونے لگا۔ یک لخت دل کی دھڑکن تیز ہونے لگی۔ وہ زارا کی ریکویسٹ منظور کرے یا نہیں عجیب مخمصے میں تھا۔
عبداللہ سے بہتر تو اس کا کوئی دوست نہیں تھا۔ اس نے عبداللہ کو بتایا۔ زارا کی وال کھول کے دونوں دوست بیٹھے رہے۔
عبداللہ نے وکیلوں کی سی جرح کے ساتھ ماتھے پر دو انگلیاں رگڑ کر باری باری دونوں بھنوئیں اچکا کر نجیب سے پوچھا۔
’’کون ہو سکتی ہے یہ؟‘‘
نجیب نے سر پیٹ لیا۔ ’’مجھے کیا پتا؟‘‘
’’تجھے ہی کیوں ایڈ کرنا چاہتی ہے؟‘‘
نجیب نے پریشانی سے کہا۔ ’’مجھے کیا پتا؟‘‘
’’کسی دوست کی دوست ہے؟‘‘
نجیب نے پھر وہی لفظ دہرائے۔ ’’مجھے کیا پتا؟‘‘
’’ہم میں سے کوئی بھی اس کا میچول فرینڈ نہیں ہے، تو تم ہی کیوں؟‘‘
نجیب زچ ہو گیا۔ ’’مجھے کیا پتا؟‘‘
عبداللہ نے یک لخت Accept کا بٹن دبا دیا۔
نجیب نے آنکھیں پھاڑ کے کہا۔ ’’یہ تو نے کیا کیا؟‘‘
عبداللہ نے اطمینان سے کہا۔ ’’قبول۔ لیکن تیری طرف سے یار پتا تو چلے کون ہے، کہاں سے آئی ہے اور تجھے کیسے جانتی ہے۔‘‘
دوسرے ہی لمحے میسنجر پر شکریے کے ساتھ مسکراتے ہوئے کئی ایموجی اور پھولوں کے تحفے آنے لگے۔
عبداللہ نے سارے پھول اور ایموجی دیکھے اور ہنس کر بولا۔ ’’چل تیری زندگی میں بھی بہار آئی۔‘‘
عبداللہ نے دوستانہ ہاتھ ملایا اور چلا گیا۔ نجیب کی انگلیاں بے ساختہ زارا کی وال کھولنے میں لگ گئیں۔ صاف شفاف پیج۔ نہ کوئی کارٹون، نہ لطیفہ، چند شعر اور پھول اور بس۔
زیادہ سے زیادہ دس فرینڈز تھے جن میں ایک بھائی تھا اور باقی سہیلیاں تھیں۔
نجیب اور زارا کی دوستی نے پہلی بے تکلفی کی دیوار اس وقت گرائی جب مجھے میرے گھر زارا کی طرف سے پھول اور کیک میری سالگرہ پر ڈاک سے آئے۔
ساتھ ہی میسنجر پر لکھا تھا۔ ’’تازہ ہیں۔ گوگل سے نہیں اٹھائے۔‘‘

(adsbygoogle = window.adsbygoogle || []).push({});

(adsbygoogle = window.adsbygoogle || []).push({});
’’اوہ خدایا۔‘‘ نجیب دہل گیا۔ یہ لفظ یہ جملے تو اس کی یادداشت میں محفوظ تھے، لیکن جنت مر چکی تھی۔ ان لفظوں کی خالق اب خالق دو جہاں کے پاس تھی اور یہ حقیقی زندگی تھی۔ کوئی فلم نہیں کہ دوسرے جنم کا قصہ سچ ہو جاتا۔ یہ وہ لفظ تھے جو لوگ عموماً استعمال کرتے ہوں گے۔‘‘
’’تم نے یہ تکلف کیوں کیا؟‘‘
نجیب آپ سے تم پر آگیا۔
’’کیوں کہ تحفوں کے لین دین سے محبت بڑھتی ہے۔‘‘ جواب آیا۔
’’گویا تم محبت بڑھانا چاہتی ہو۔‘‘ نجیب نے سنجیدگی سے سوال کیا۔
’’ہاں۔‘‘ بہت بے تکلف جواب تھا قطعی اور حتمی۔
’’بہت مشکل سفر ہے یہ۔‘‘ نجیب نے کہا۔
’’مسافر محبت کی انگلی تھام لے، تو سفر آسان ہو جاتا ہے۔‘‘
نجیب نے ایک لمحے کو فون ایک طرف رکھ دیا اور بے چارگی سے اِدھر اُدھر دیکھنے لگا۔
’’شاید آپ کو برا لگا میں لڑکی ہو کر اظہارِ محبت کر بیٹھی ہوں۔‘‘
نجیب نے میسج ٹون کو دیکھا، تو پوری جان سے کانپ گیا۔
’’اظہارِ محبت۔‘‘ نجیب نے زیرِلب دہرایا۔
اس نے پھر کوئی جواب نہیں دیا۔ وہ اپنی پریشانی میں اتنا غرق تھا کہ کب ندا آئی اس کو پتا نہیں چلا۔
ندا کچھ دیر تو ایسے ہی کھڑی رہی پھر فکرمندی سے بولی۔
’’کیا بات ہے بھائی۔ پریشان ہیں؟‘‘
’’ہاں۔‘‘ اس نے بالکل ایسے اقرار کیا جیسے ابھی کچھ دیر پہلے زارا نے کہا تھا۔
’’مجھے نہیں بتائیں گے؟‘‘
نجیب نے چپ چاپ موبائل ندا کے حوالے کر دیا۔
ندا نے سارے میسج پڑھے اور ایک لمحے کو خاموشی اختیار کی۔
نجیب نے اٹھ کر ٹہلنا شروع کر دیا۔
ندا نے موبائل بند کر کے بہت آسانی سے کہا۔ ’’ہو سکتا ہے اللہ نے آپ کو معاف کر دیا ہو۔‘‘
نجیب چونکا۔
’’آپ نے کتنی دعائیں مانگی ہیں اپنے لیے، اپنی غلطی کے لیے۔ وہ غلطی جو بہت انجانے میں ہوئی۔‘‘
نجیب اب بھی خاموش تھا۔
’’اللہ تو دل کا حال جانتا ہے۔‘‘
نجیب قدرے ریلیکس ہوا۔
’’ایک بات کہوں؟‘‘
نجیب نے صرف دیکھا۔
’’آپ ان سے جنت کے بارے میں کبھی بات نہ کیجیے گا۔‘‘
ندا مشورہ دے کر چلی گئی۔ نجیب وہیں کھڑا تھا۔ ہاتھ میں موبائل لیے سوچتا رہا۔
’’جنت کی بات چھپانا اس قدر آسان نہیں ہے۔‘‘
’’لیکن اس کو کیسے پتا چلے گا اگر میں نہیں بتاؤں گا تو۔‘‘ نجیب کو قدرے دلاسا ہوا۔
’’سنا ہے اگر ہمیں کوئی اچھا لگتا ہے، تو ضرور ہم بھی اسے اچھے لگتے ہوں گے۔‘‘ زارا کی طرف سے یہ ایک آس بھرا آخری میسج تھا۔
ایک دن۔ دو دن۔ تین… اُف نجیب گھبرا گیا اور پانچویں دن اس کی بس ہو چکی تھی۔ اس کے ذہن سے جنت کو ری سلیٹ کی طرح مٹ چکی تھی۔ کوئی پچھلا فلرٹ، محبت، عشق ذہن میں نہیں تھا۔ کوئی رنجش، کوئی احساس، کوئی جرم کچھ نہ تھا۔
’’ندا نے ٹھیک کہا ہے۔ اللہ نے میری غلطی معاف کر دی ہے۔ وہ غلطی جو میں نے کی ہی نہیں تھی جس کو میں خواہ مخواہ اپنے سر ڈالے بیٹھا ہوں۔‘‘
نجیب نے سوچا۔ چہرے پریوں ہاتھ پھیرا جیسے صدیوں کی مسافت، گرد اور تھکن کو اتار پھینکنا چاہ رہا ہو اور سچ کر دیا۔
’’میں ہارا۔ تم جیتیں۔‘‘ نجیب نے میسج کیا۔
جواب نہ آیا۔ نجیب ڈر گیا۔ بار بار موبائل دیکھتا رہا۔ رات آنکھوں آنکھوں میں کٹ گئی۔
’’کیا مجھ سے ایک بار پھر غلطی ہو چکی ہے؟‘‘
اسی سوچ نے اس کو بے کل کر دیا تھا۔
صبح یونیورسٹی میں عبداللہ کو ساری بات بتا کر وہ اور بے چین ہو گیا۔
عبداللہ نے ساری بات سنی اور مسکرا دیا۔
’’یار فکر نہ کرو۔ وہ انجوائے کر رہی ہو گی۔‘‘
نجیب نے حیران ہو کر پوچھا۔ ’’کیا انجوائے؟‘‘
عبداللہ نے اطمینان سے سورج کی روشنی سے بچنے کے لیے آنکھیں چندھیا کے کہا۔ ’’ہاں۔ تیری ہار کو۔‘‘
نجیب اب سے پہلے سب سے بڑا کہانی باز مشہور تھا۔ سب لڑکوں کا خیال تھا اگر نجیب ڈیانا کے وقتوں میں ہوتا، تو ڈیانا کبھی چارلس کی نہ ہوتی۔ یا کم سے کم ڈوڈی کی تو ہو ہی نہیں سکتی تھی اور اب ایسے لگتا ہے جیسے اسے کچھ آتا ہی نہ ہو۔بات بات پر پریشان ہو جانا۔
’’یہ جو لڑکیاں ہوتی ہیں نا۔ اپنی جیت پر ہمیشہ بہت ناز کرتی ہیں۔ ان کو ہرا کر خوشی ہوتی ہے۔ انہیں اچھا لگتا ہے مرد تابعداری میں رہے۔ جی حضوری کرتا رہے۔‘‘
لیکن مجھے بتائے تو سہی۔‘‘
’’تو نے دوبارہ میسج کیا؟‘‘
نجیب نے انکار میں سرہلایا اور کہا۔ ’’نہیں۔‘‘
’’تو کر نا۔ یہ کیسی ہار ہے۔ ہار میں ایک بار کا اقرار کافی نہیں ہوتا۔‘‘
نجیب نے چند تانیے سوچا اور میسج کر دیا۔
’’کہا ناں۔ میں ہار گیا ہوں۔‘‘
دوسرے ہی لمحے جواب آگیا۔ عبداللہ اپنی کامیابی پر خوش ہوا۔
نجیب کے چہرے پر سرخیدوڑ گئی۔ میسج کی ٹون کے ساتھ ایسے دل دھڑکا کہ اس کی آواز کو خود نجیب نے اپنے کانوں سے سنا۔
’’اس ہار کو میں کیا سمجھوں؟‘‘
نجیب نے مسکرا کے عبداللہ کو میسج کا جواب سنایا۔
عبداللہ نے قہقہہ لگایا۔ ’’دے اب جواب۔‘‘
نجیب کچھ شوخ ہوا لکھا۔ ’’محبت۔‘‘
جواب میں ’’ہاہاہاہا‘‘ کے ساتھ شوخ سے ایموجی بنے آگئے۔
نجیب نے چند پھول بھیجے۔
اور دونوں محبت کے بندھن میں بندھ گئے۔ نجیب نے اپنا موبائل نمبر بھیجا تاکہ میسجز سے نجات ملے۔ زارا نے کال کر لی۔
نجیب کو اپنی قسمت پر یقین ہی نہیں آرہا تھا۔
’’ہیلو!‘‘
نجیب کی آواز میں ہلکی سی لرزش ہوئی۔ اس نے گلا صاف کیا اور کہا۔
’’ہیلو!‘‘
زارا ہنسی۔ اس کی آواز کی کھنک نے نجیب کے دل کے کئی تار چھیڑ دیے۔
’’کہتے ہیں سچی محبت ایسی ہی ہوتی ہے۔ بات کرنے سے پہلے انسان کئی بار سوچتا ہے، ہکلاتا ہے، آواز میں جذبے کی نمی کانپتی ہے۔ اور…‘‘
’’بس کرو۔ شرمندہ کر رہی ہو۔‘‘ نجیب واقعی شرمندہ ہو گیا۔
’’کیا ایسا نہیں ہے؟‘‘ سوال ہوا۔
نجیب نے پھر پہلو بدلا۔ ’’ہے تو ایسا ہی، لیکن تفصیل میں کیوں جا رہی ہو؟‘‘
’’یہ جو آپ مجھے تم کہتے ہو تو بہت اچھا لگتا ہے۔ بہت اپنائیت کا احساس ہوتا ہے۔‘‘
’’مجھے بھی یہ احساس چاہیے۔‘‘
زارا کھلکھلا کے ہنسی۔
’’تمہیں کسی نے بتایا ہے کہ جب تم ہنستی ہو تو پھول کھلتے ہیں۔‘‘
زارا نے ہنسی روکی اور کہا۔ ’’جی بتایا ہے۔‘‘
نجیب یک دم سنجیدہ ہو گیا اور سرد سے لہجے میں پوچھا۔ ’’کس نے؟‘‘

(adsbygoogle = window.adsbygoogle || []).push({});

(adsbygoogle = window.adsbygoogle || []).push({});

Loading

Read Previous

اور جنّت مرگئی — دلشاد نسیم (حصّہ اول)

Read Next

ڈھال — نازیہ خان

Leave a Reply

آپ کا ای میل ایڈریس شائع نہیں کیا جائے گا۔ ضروری خانوں کو * سے نشان زد کیا گیا ہے

error: Content is protected !!