اور جنّت مرگئی — دلشاد نسیم (دوسرا اور آخری حصّہ)

پوری یونیورسٹی میں یہ خبر جنگل کی آگ کی طرح پھیل چکی تھی کہ جنت نے خودکشی کر لی۔ اس کے فیس بک اکاوؑنٹ پر بڑا بڑا RIP لکھا ہوا تھا۔
نجیب نے دیکھا، تو اس کی آنکھوں کے سامنے اندھیرا چھا گیا۔ جنت مر گئی۔
زندگی اس کے ساتھ کیسی چال چل گئی اس کی سمجھ نہیں آرہا تھا یہ کیسے ہو سکتا ہے۔ حسین سنہری دھوپ جیسی آنکھوں والی لڑکی ہمیشہ کے لیے اندھیرا کر گئی۔ حسین آنکھیں بند ہو گئیں وہ اپنی عزت سے ڈر گئی ہو گی۔
میری بے وفائی سے خوف زدہ ہو گئی ہو گی۔
نجیب نے گھبرا کر اِدھر اُدھر دیکھا۔
نہیں اس کی وجہ یہی ہے کہ اس کی عمر اتنی ہی ہو گی۔
خود کو بہلانے کے لیے نجیب نے بے وقوفی سے سوچا، لیکن خودکشی گناہ ہے کچھ بھی سہی جنت کو یہ گناہ نہیں کرنا چاہیے تھا۔
نجیب کا دل جیسے کسی نے مٹھی میں لے کر بھینچا۔ گناہ و ثواب کی باتیں وہ کیسے کر سکتا ہے۔ وہ کون ہوتا ہے کرنے والا۔
اس دن گھر آکر بھی وہ بہت بے چین رہا کسی بہت بھیانک خواب سے جاگنے کے بعد آنکھیں بند ہونے سے بھی ڈرنے لگتی ہیں۔ بالکل ایسے ہی نجیب نے موبائل پہ فیس بک کو ڈیلیٹ کر دیا، لیکن ظاہر ہے ڈیلیٹ نہیں ہوئی تھی۔ وہیں موجود تھی۔ ڈیلیٹ تو صرف موبائل سے ہوئی تھی۔
ندا نے کھانے کا پوچھا۔ نجیب نے انکار کر دیا۔
امی نے طبیعت کا پوچھا۔ نجیب نے ’’ٹھیک ہوں‘‘ کہہ کے ٹال دیا۔ ابو نے امتحانوں کا پوچھا اس نے جھوٹے لفظوں سے تسلی دے دی۔
جھوٹے سچے لفظ چننا، تو اس کے بائیں ہاتھ کا کھیل تھا۔
نجیب نے اپنا بایاں ہاتھ دیکھا ابھی کل ہی تو جنت نے اس کا ہاتھ پکڑ کر التجا کی تھی۔ کل صرف چند گھنٹے پہلے اس نے کہا تھا۔
’’نجیب، میری تو زندگی تم ہو۔‘‘
نجیب نے اس کا ہاتھ جھٹک دیا۔
جنت کی سنہری آنکھیں آبدیدہ ہو گئیں۔
نجیب نے کہا۔
’’تم جیسی لڑکیاں اپنا گناہ چھپانے کے لیے کچھ بھی کہہ سکتی ہیں۔ تم جیسی لڑکیاں کسی کے ساتھ بھی وقت گزار سکتی ہیں۔ تم جیسی… تم جیسی…‘‘
نجیب اندھیرے کمرے میں بیٹھا ان دولفظوں کی تکرار سے گھبرا گیا۔

(adsbygoogle = window.adsbygoogle || []).push({});

(adsbygoogle = window.adsbygoogle || []).push({});
ساری رات جاگ کر گزاری۔ اس ایک رات نے اس کو بالکل بدل دیا۔
کسی کی موت کی وجہ بننے کے بارے میں، تو اس نے کبھی سوچا ہی نہیں تھا۔ اس نے تو زندگی کو صرف قہقہہ سمجھا۔
اس نے کسی کی زندگی کو موت کا پھندہ بنا دیا۔ وہ کلاس روم میں بیٹھے بیٹھے گم ہو جاتا۔ عبداللہ نے ایسے میں اس کا سچا دوست ہونے کا ثبوت دیا۔ جب جب وہ گم ہوتا عبداللہ اُسے ٹوک دیتا۔ اس کو ماضی سے کھینچ لاتا۔
اس دن بھی وہ یونی کے سنسان کونے میں آنکھیں صاف کر رہا تھا جب عبداللہ نے کہا تھا۔
’’یار بس آگے چل کب تک پلٹ پلٹ کر دیکھتا رہے گا؟‘‘
نجیب نے عبداللہ کو اس طرح دیکھا جیسے پوچھ رہا ہو کیا یہ اتنا آسان ہے۔
عبداللہ نے سچے دوست کی طرح نجیب کے غم کو محسوس کیا۔ اس کے ہاتھ پر ہاتھ رکھا اور بولا۔
’’یہ سب بہت مشکل ہے، لیکن اگر تو سمجھتا ہے زندگی مشکلات کا نام ہے، تو غلط ہے۔ زندگی مشکلات کے حل کا نام ہے۔ ہم ایک جگہ الجھ کر نہیں بیٹھ سکتے میرے یار۔
مجھے جنت سے محبت نہیں تھی۔ کاش ہوتی۔ ہو پاتی، لیکن اس وقت تو میں کسی سے بھی محبت نہیں کر رہا تھا۔ میرے اندر اس احساس نے کبھی سر ہی نہیں اٹھایا ، مگر اس کی موت کا غم مل گیا۔
’’شاید مجھے اس کی موت کا غم نہیں ہے، وجہ موت بن جانے کا غم ہے۔‘‘نجیب نے خود سے کہا۔
’’ہاں شاید۔‘‘ اُس نے جیسے سانس لی۔ دکھی آزردہ سانس۔
نجیب ساری شام عبداللہ سے بے معنی گفتگو کرتا رہا۔
’’یار کسی کے لیے کوئی مر بھی سکتا ہے؟‘‘
’’مر بھی سکتا ہے، لیکن اس کو تیری بے وفائی سے زیادہ اس بات کا غم مار گیا کہ وہ اس حالت میں ہے اور کسی کو کیا منہ دکھائے گی۔‘‘
’’اس کے پاس مرنے کی بہت زیادہ وجہیں تھیں اور ہر وجہ میں تھا۔‘‘ نجیب نے عبداللہ کے سامنے مجرمانہ اقرار کیا۔
’’اچھا آج جی بھر کے باتیں کر اچھی بری ساری۔ ساری بھڑاس نکال دے اور کل صبح نماز پڑھ کے اللہ سے اپنے لیے دعا کرنا۔ حاجت کی نماز پڑھنا اور اللہ سے گڑگڑا کے توبہ کرنا۔ وہ توبہ قبول کرنے والا ہے۔‘‘
نجیب نے عبداللہ کو حیران ہو کر دیکھا اور پھیکی ہنسی کے ساتھ بولا۔
’’جس اللہ کی مخلوق نے میری وجہ سے خودکشی کی اسی اللہ سے معافی مانگوں۔ وہ کیسے معاف کرے گا؟‘‘
’’کر دے گا۔‘‘ عبداللہ نے یقین سے کہا۔
’’کیوں کہ وہ اللہ ہے اور اللہ ہی اس بات پر قادر ہے۔وہ کس کو معاف کرے کس کو نہ کرے۔‘‘
’’اور اگر معافی نہ ملی تو؟‘‘ نجیب نے خوف زدہ ہو کر سوچا۔
’’ملے گی۔ ضرور ملے گی۔‘‘
نجیب، عبداللہ کی بات پر واقعی بہل گیا جس نے ایک عرصے سے سجدے میں سر نہیں جھکایا تھا۔ فجر کے وقت الارم لگا کر سویا اور سویا بھی کیا خاک سارا وقت الارم اور اذان کے انتظار میں تھوڑی دیر دیر میں جاگتا رہا۔ الارم اور اذان سے پہلے وہ آنکھیں کھول کے چھت والے پنکھے کو گھور رہا تھا۔ الارم بند کر کے وہ وضو کرنے چلا گیا۔ واش بیسن کے سامنے اس نے اپنا چہرہ دیکھا۔ آنکھوں کے نیچے سیاہی تھی۔ خود بہ خود آنکھوں میں آنسو آگئے اور شاید کئی آنسو اس نے وضو کرتے بہا دیے تھے۔
نماز کے بعد نفل پڑھ کے کتنی دیر وہ اللہ سے باتیں کرتا رہا۔ سجدہ اتنا لمبا ہو گیا کہ اگر کوئی دیکھ لیتا تو یہی سوچتا نجیب مر چکا ہے اور واقعی حقیقت دیکھی جائے تو نجیب زندہ ہی کہاں تھا۔
بہت دیر بعد سر اٹھایا۔ جائے نماز بھیگ چکی اور آنکھیں رونے سے بھاری ہو گئی تھیں۔ سر تو کئی دنوں سے بوجھل تھا۔
ناشتے کی میز پر ابو نے سب سے پہلے نوٹس کیا۔
’’تم صبح بہت جلدی اٹھ گئے تھے۔‘‘
’’جی۔‘‘ نجیب نے سرجھکا کر یوں اقرار کیا گویا کوئی جرم کیا ہو۔
’’میں نماز کے لیے اٹھا، تو نجیب جاگ رہا تھا۔ عابدہ‘‘
انہوں نے اپنی حیرت میں بیوی کو بھی شامل کیا۔
عابدہ حیران ہو کر بولیں۔ ’’نماز کے لیے اٹھے تھے؟‘‘
’’نماز ہی پڑھ رہا تھا۔‘‘
نجیب نے باپ کی بات پر چونک کے سر اٹھایا۔
’’آپ میرے کمرے میں آئے تھے؟‘‘
’’آیا تھا۔‘‘
’’اوہ۔ مجھے پتا ہی نہیں چلا۔‘‘
ابو نے مسکرا کے تھوڑی شرارت سے کہا۔ ’’میاں اتنے لمبے سجدے تو خاص وقت میں ہی ہوا کرتے ہیں۔‘‘
نجیب ایک لمحے تو گڑبڑا گیا۔
’’کسی سے محبت ہو گئی ہے کیا؟‘‘
ندا کالج جا چکی تھی ورنہ وہ بھی ابو کی صاف گوئی پر حیران ہوتی۔ عابدہ مسکرا دیں۔ نجیب خفت سے ہنس دیا۔
’’نہیں ابو۔‘‘
وہ حیرت سے ہونٹوں کو لٹکا کر بولے۔’’حیرت ہے۔‘‘ اور ساتھ ہی مسکرا دیے۔
’’اچھا… اللہ تمہارے سجدے قبول کرے۔ ناشتا کرو۔‘‘
ناشتا پھر کس کم بخت نے کرنا تھا اس کے حلق میں پانی روٹی کے سخت نوالے کی طرح پھنس گیا۔
ابو اٹھے تو عابدہ نے نجیب کے سنورے ہوئے بالوں میں انگلیاں پھنسائیں اور محبت سے کہا۔
’’کیا بات ہے بیٹا؟‘‘
نجیب نے عابدہ کے ہاتھوں پر پیار کیا۔
’’کچھ نہیں امی۔‘‘
’’جانے ماں اتنی وہمی کیوں ہوتی ہے لفظوں کی ہیرا پھیری سمجھ ہی نہیں پاتی۔‘‘ عابدہ بھی دہل گئیں کہنے لگیں۔
’’اللہ نہ کرے کچھ ہو۔‘‘
نجیب نے چائے کا آخری گھونٹ بھرا اور اٹھ گیا۔ عابدہ کو گلے لگا کے پیار کیا۔ آج وہ بہت آسودہ تھا۔ اس کو تو معلوم ہی نہیں تھا کہ اللہ کے سامنے رونے سے جی اتنا ہلکا ہو جاتا ہے۔
٭…٭…٭
خیر پہلے جیسا معاملہ تو نہیں تھا ،لیکن حالات قدرے بہتر ہو گئے۔ اس نے عبداللہ کا شکریہ بھی ادا کیا تھا۔ پڑھائی میں دل لگانے کی بھرپور کوشش شروع کی تھی۔ فیس بک پر مکمل پرائیویسی لگ چکی تھی۔
میسجز کے آخر میں نجیب کی محنت رنگ لائی اچھنے نمبرز سے پاس ہونے کی نوید نے اُسے یقین دلا دیا کہ اس کا معافی نامہ قبول ہو چکا ہے۔ اس کے ذہن پر اب پہلے جیسا بوجھ بھی نہیں رہا۔ یوں بھی وقت کی مرحمی طبیعت سے کون واقف نہیں۔
بڑے سے بڑے غم پر ایسے کھرنڈ لے آتا ہے جیسے کبھی کوئی زخم ملا ہی نہ ہو یا پھر یوں سمجھ لیں نشان رہ بھی جائے زخموں کا درد جاتا رہتا ہے۔ یہ بات وہی تھی۔ اس نے ایک اور کلاس فیلو سے یونی کے مشاعرے کی تصویریں شیئر کیں۔ تب اسے اپنی پرائیویسی کھولنی پڑی۔
فیس بک کھل گیا جن یادوں کے دفتر کو تالا لگا تھا وہ بھی کھل گئے۔ وہ دبے پاؤں کئی پیر پکڑی غم زدہ تصویروں سے بچتا بچاتا مشاعرے کی تصویروں تک پہنچا۔ بہت اچھا مشاعرہ تھا۔ اس کو دوبارہ سن کر بھی اچھا لگ رہا تھا۔ اس میں اچانک نوٹیفکیشن کی بیپ بجی۔
زارا کی فرینڈ ریکویسٹ سامنے تھی۔
نجیب شاہ نے اگنور کر دیا۔
میسنجر پہ میسج آیا۔ Add me.
نجیب کے ذہن میں ایک چھناکا ہوا۔
اس نے کتنے دن جنت کے در پر ٹکریں ماری تھیں۔
Add me. Add me.
زارا کی درخواست کو اگنور کر کے وہ آگے نکل گیا، مگر کئی دن یہ درخواست دستک دیتی رہی۔

(adsbygoogle = window.adsbygoogle || []).push({});

(adsbygoogle = window.adsbygoogle || []).push({});

Loading

Read Previous

اور جنّت مرگئی — دلشاد نسیم (حصّہ اول)

Read Next

ڈھال — نازیہ خان

Leave a Reply

آپ کا ای میل ایڈریس شائع نہیں کیا جائے گا۔ ضروری خانوں کو * سے نشان زد کیا گیا ہے

error: Content is protected !!