امربیل — قسط نمبر ۳

”اچھا ہے !”
اس نے مختصر جواب دیاتھا۔
”ملنے آ جایا کرو کبھی کبھی ، تم صرف تب ہی آتی ہو جب تمہارے پاپا آتے ہیں۔”
انہوں نے شکوہ کیا تھا یا دعوت دی تھی۔ اسے اندازہ نہیں ہو سکا تھا۔ اسے اندازہ لگانے میں کبھی بھی مہارت نہیں رہی تھی۔ وہ ان سے یہ نہیں کہہ سکی کہ اسے صرف پاپا کے آنے پر ہی بلایا جاتا ہے۔ وہ خاموش رہی۔
”اپنی ممی سے ملتی رہتی ہو؟”
انہوں نے اچانک پوچھا تھا۔
علیزہ نے انہیں دیکھا وہ بہت متجسس نظر آ رہی تھیں۔




”ہاں ! ممی کے پاس تو جاتی رہتی ہوں ، ہر سال چھٹیاں وہیں ان کے پاس گزارتی ہوں۔ وہ چاہتی ہیں کہ میں ان کے پاس وہیں رہوں لیکن یہ مجھے بہت مشکل لگتا ہے۔ یہاں نانا اور نانو ہیں میرے بغیر وہ بالکل اکیلے ہو جاتے ہیں۔ ان کے بغیر میر اکہیں اور دل نہیں لگتا۔ اس لئے میں ہر بار ممی کو ناراض کر کے واپس آجاتی ہوں۔”
اس نے ایک بار پھر جھوٹ کا جال بننا شروع کر دیا۔ آنٹی شمامہ نے بھی جواباً کچھ نہیں کہا تھا۔
”کتنے دن کے لئے آئی ہو؟”
کچھ دیر بعد انہوں نے اچانک پوچھا تھا۔
“یہ تو پاپا پر ڈیپینڈ کرتا ہے، وہ چاہ رہے ہیں کہ جب تک یہاں ہیں میں ان کے پاس رہوں۔”
اس نے جال کو ایک اور گرہ لگائی تھی۔
”یعنی دو ہفتوں کے لئے۔”
شمامہ آنٹی نے کہاتھا۔
علیزہ کچھ حیران ہوئی تھی۔
”کیا پاپا اس بار صرف دو ہفتوں کے لئے آ ئے ہیں؟”
”نہیں سکندر بھائی کو تو پاکستان آئے یہ چوتھا مہینہ ہے، اب تو دو ہفتہ بعد وہ واپس جانے والے ہیں۔”
آنٹی شمامہ نے اس کا چہرہ دیکھتے ہوئے پر سکون انداز میں کہاتھا۔ گرہ ایک دم سے جیسے کھل گئی تھی اور علیزہ کو بری طرح سے جھٹکا لگاتھا۔
”چار ماہ سے پاپا یہاں ہیں ، یعنی میرے آسٹریلیا جانے سے بھی بہت پہلے پاپا پاکستان آئے تھے اور تب فون پر بات کرنے کے باوجود انہوں نے مجھے بتایا نہیں۔ انہیں میرا خیال اس وقت آیا جب وہ واپس جارہے ہیں۔”
وہ کچھ نہیں بول سکی۔
”کیا پاپا کو بالکل ہی میری ضرورت محسوس نہیں ہوئی۔”
اس نے سوچا۔
”مگر کل انہوں نے مجھ سے کہا تھا کہ وہ بھی مجھے مس کرتے ہیں تو کیا وہ جھوٹ بول رہے تھے؟”
وہ الجھ گئی تھی۔
”میں پاپا کی اکلوتی بیٹی ہوں۔ یہ کیسے ہو سکتا ہے کہ پاپا مجھے مس نہ کرتے ہوں ، ہو سکتا ہے وہ واقعی مصروف ہوں۔”
اس نے ایک بار پھر خود کو بہلانے کی کوشش کی۔ آنٹی شمامہ اس سے کچھ کہہ رہی تھیں وہ چونک کر ان کی طرف متوجہ ہو گئی۔
”سکندر بھائی اگلے سال پاکستان شفٹ ہو رہے ہیں۔”
اس کے لئے یہ خبر بھی حیران کن تھی۔
”پاپا نے مجھے نہیں بتایا۔”
اس نے سوچا تھا۔
”اگلے سال؟”
اس نے آنٹی شمامہ سے پوچھا تھا۔
”ہاں اگلے سال تک ان کا گھر مکمل ہو جائے گا۔”
آج شاید اس کے لئے حیرانیوں کا دن تھا۔
”پاپا گھر بنوا رہے ہیں؟”
”ہاں گھر تو انہوں نے پچھلے سال بنوانا شروع کر دیا تھا، اب تو کافی حد تک مکمل بھی ہو گیا ہے۔ اگلے سال تک فرنشنگ بھی ہو جائے گی اور وہ پاکستان شفٹ ہو جائیں گے۔”
وہ گم صم سی آنٹی شمامہ کی بات سنتی رہی سکندر نے اس سے اس بات کا ذکر بھی نہیں کیا تھا۔
”ہو سکتا ہے کہ ان کے ذہن سے نکل گیا ہو اور ابھی ان سے میری تفصیلی بات بھی کہاں ہوئی ہے۔ شاید وہ مجھے بتائیں۔”ہمیشہ کی طرح اس نے خود کوغلط فہمیوں میں مبتلا کرناشروع کر دیاتھا۔
”مگر پچھلے سال سے اب تک پاپا سے بات ہوئی ہے انہوں نے ایک بار بھی اس بات کا ذکر نہیں کیا نہ ہی اس بات کا کہ وہ پاکستان شفٹ ہونا چاہ رہے ہیں۔”
وہ چاہنے کے باوجود مطمئن نہیں ہو سکی تھی۔
گیٹ پر ہارن کی آواز سنائی دی تھی ”لگتا ہے ، تمہارے پاپا آگئے ہیں۔”




Loading

Read Previous

امربیل — قسط نمبر ۲

Read Next

امربیل — قسط نمبر ۴

Leave a Reply

آپ کا ای میل ایڈریس شائع نہیں کیا جائے گا۔ ضروری خانوں کو * سے نشان زد کیا گیا ہے

error: Content is protected !!