امربیل — قسط نمبر ۳

اور عمر جہانگیر کے لئے اس کی ناپسندیدگی میں کچھ اور ہی اضافہ ہوگیاتھا۔
دوپہر کو مرید کے بلانے پر بھی وہ لنچ کے لئے نہیں آئی ، اس کا خیال تھا کہ نانو اسے آکر خود ہی لنچ کے لئے کہیں گی ، لیکن ایسا نہیں ہوا۔ نانو نے اسے دوبارہ لنچ کے لئے نہیں کہا اور وہ بھی اپنے کمرے سے نہیں نکلی۔
شام کو سو کر اٹھنے کے بعد وہ نہانے کے لئے باتھ روم میں چلی گئی۔ اس وقت اسے واقعی بھوک لگ رہی تھی نہانے کے بعد نیم دلی سے وہ اپنے کمرے سے نکل آئی تھی۔ لاؤنج میں داخل ہوتے ہی کانوں میں پڑنے والی آواز سے اس کا خون کھولنے لگا تھا۔ وہ عمر کی آواز تھی۔ اگر وہ لاؤنج میں داخل نہ ہوئی ہوتی اور نانو اور عمر نے اسے نہ دیکھا ہوتا تو وہ وہیں سے واپس اپنے کمرے میں چلی جاتی۔ اس وقت وہ کسی صورت بھی عمر کی شکل دیکھنا نہیں چاہتی تھی مگر لاؤنج میں داخل ہوتے ہی عمر کی نظر اس پر پڑ گئی تھی۔ نہ صرف اس نے علیزہ کو دیکھ لیا تھا، بلکہ فوراً اسے مخاطب بھی کیاتھا۔
”ہیلو علیزہ ! اتنی جلدی واپسی؟”




اس نے کچھ حیرانی سے علیزہ سے پوچھاتھا۔ علیزہ نے ایک نظر صوفہ پر بیٹھے ہوئے عمر پر ڈالی اور پھر نانو کی ساری نصیحتوں کو بالائے طاق رکھتے ہوئے کوئی جواب دیئے بغیر کچن میں چلی گئی۔ اپنے پیچھے سے ایک بار پھر عمر کو اپنا نام پکارتے ہوئے سنا۔ مگر اس وقت وہ دنیا کا آخری شخص تھا، جس سے وہ بات نہ کرنا چاہتی تھی۔
”اگر یہ یہاں سے چلا گیا ہے تو اب یہاں کیا لینے آیا ہے۔”
اس نے کچن میں داخل ہوتے ہوئے تلخی سے سوچاتھا۔
”اور اسے اس بات سے کیا کہ میں اتنی جلدی واپس کیوں آئی ہوں۔”
اس وقت اس کا غصہ آسمان سے باتیں کر رہا تھا۔
”مرید بابا ! مجھے کچھ کھانے کے لئے دے دیں۔”
اس نے کچن میں داخل ہوتے ہی خانساماں سے کہا تھا۔
”علیزہ بی بی ! آپ کچھ دیر انتظار کرلیں۔ میں ابھی کھانا لگانے ہی والا ہوں۔ پھر آپ سب کے ساتھ ہی کھانا کھا لیجئے گا۔” خانساماں نے اس سے کہا تھا۔
”نہیں مجھے ابھی کچھ کھانا ہے اور ان سب کے ساتھ بیٹھ کر کچھ نہیں کھانا ۔”
اس نے ضد کی تھی۔ خانساماں نے کچھ حیرانی سے اسے دیکھا۔ علیزہ نے کبھی ضد نہ کی تھی، اور پھر اس طر ح کی ضد……اس نے کچھ کہنے کی بجائے کھانے کی کچھ چیزیں کچن کی ٹیبل پر رکھنی شروع کر دیں۔ اس وقت علیزہ نے لاؤنج میں سے نانا کی آواز سنی تھی۔ وہ اس کا نام پکار رہے تھے۔ وہ بے اختیار کچن سے باہر نکل آئی۔
”علیزہ تم رات کو بھی مجھ سے ملی ہی نہیں۔ آتے ہی سو گئیں۔”’
انہوں نے اسے دیکھتے ہی شکوہ کیاتھا۔
”کراچی سے اتنی جلدی کیوں واپس آگئیں؟”
انہوں نے اسے اپنے ساتھ لگاتے ہوئے کہا۔
”بس میر ا دل نہیں لگا وہاں ، حالانکہ پاپا تو بہت کہہ رہے تھے اور ناراض بھی ہو گئے تھے میرے اس طرح سے جلدی چلے آنے پرمگر میں آپ لوگوں کو مس کر رہی تھی۔” اس نے ایک بار پھر جھوٹ بولنا شروع کر دیا تھا۔
”بہت اچھا کیا اتنی جلدی واپس آکر!”
نانا نے اس کا کندھا تھپتھپاتے ہوئے کہا تھا، اور وہ کچھ مطمئن ہو گئی تھی کم از کم نانا تواس سے ناراض نہیں تھے۔ اس نے سوچا عمر نانو کے ساتھ صوفہ پر بیٹھا بڑی خاموشی سے اس کی نانا کے ساتھ ہونے والی گفتگو سن رہا تھا۔ اس بار اس نے علیزہ کو مخاطب کرنے کی کوشش نہیں کی تھی۔
”مرید سے کہو کھانا لگا دے!”
نانا نے نانو سے کہاتھا۔
”گرینڈ پا ! میں تو کھانا نہیں کھاؤں گا۔”
عمر اٹھ کھڑا ہوا تھا۔
”کیوں، اب تمہیں کیا ہوا ہے؟”
”کچھ بھی نہیں بس مجھے ابھی تھوڑی دیر میں واک پر جانا ہے اور اب میں نے کھانا واک سے واپسی پر کھانا شروع کر دیا ہے۔”
”یہ ایک انتہائی احمقانہ حرکت ہے۔ واک سے واپسی پر کھانا۔”
نانا نے اسے جھڑکتے ہوئے کہا۔
”میں تو اپنی کچھ چیزیں لینے آیا تھا ۔یہ تو بس گرینی نے پکڑ کر بٹھا لیا۔”
اس نے مسکراتے ہوئے کہاتھا۔
”جو چیزیں تمہیں لینی ہیں، ضرور لو لیکن کھانا کھائے بغیر تم یہاں سے نہیں جا سکتے۔ سمجھے تم!”
نانا نے اسے ڈانٹتے ہوئے کہاتھا۔
اس نے کچھ اور کہنے کی کوشش کی تھی لیکن انہوں نے اس کی بات نہیں سنی تھی۔ علیزہ کو ایک بار پھر اپنا آپ بیک گراؤنڈ میں جاتا ہوا محسوس ہوا تھا۔ یوں لگ رہا تھا وہاں صرف عمر اور نانا، نانو ہی تھے، کوئی چوتھا شخص نہیں۔ کسی چوتھے شخص کی ضرورت ہی نہیں تھی۔ نانا کی پوری توجہ اب عمر پر مرکوز تھی۔ وہ ملول ہونے لگی تھی۔
خانساماں نے کھانا لگا دیا تھا اور علیزہ نے بڑی خاموشی کے ساتھ کھانا کھا یا تھا۔ عمر کے ساتھ ٹیبل پر اس کی دوبارہ کوئی بات نہیں ہوئی تھی ، نہ ہی وہ اس کی طرف متوجہ تھا۔ وہ نانا سے باتوں میں مشغول تھا،اور کھانا کھانے کے بعد نانا کپڑے بدلنے اپنے کمرے میں چلے گئے تھے۔ نانو کافی بنانے کے لئے کچن میں گئی تھیں اور ان کے جانے کے بعد عمر بھی اپنے کمرے میں چلا گیا تھا۔ علیزہ ڈائننگ ٹیبل پر بالکل اکیلی بیٹھی رہ گئی تھی۔ بڑی بے دلی کے ساتھ وہ اپنی پلیٹ میں موجود کھانا کھاتی رہی۔ پھر یک دم پلیٹ چھوڑ کر اٹھ کھڑی ہوئی تھی۔
عمر کے کمرے کے دروازے پر دستک دینے سے پہلے وہ ہچکچائی تھی پھر اس نے دروازے پر دستک دی۔




Loading

Read Previous

امربیل — قسط نمبر ۲

Read Next

امربیل — قسط نمبر ۴

Leave a Reply

آپ کا ای میل ایڈریس شائع نہیں کیا جائے گا۔ ضروری خانوں کو * سے نشان زد کیا گیا ہے

error: Content is protected !!