امربیل — قسط نمبر ۳

اس نے ان کی یاد دہانی کو سنی ان سنی کرتے ہوئے کہاتھا۔
کھانے سے فارغ ہو کر وہ نانو کے ساتھ لاؤنج میں بیٹھ گئی۔ ٹی وی پر پروگرام دیکھتے ہوئے وہ ساتھ ساتھ عمر کے بارے میں بھی باتیں کر تی جا رہی تھیں۔
ایک بجے انہوں نے باہر گاڑی کے اسٹارٹ ہو کر جانے کی آ واز سنی تھی۔ گھڑی کی سوئیاں بہت سست رفتاری سے آگے بڑھ رہی تھیں۔
ڈیڑھ……دو……ڈھائی……تین……




سوا تین بجے انہوں نے گیٹ پر ہارن کی آواز سنی تھی۔
”عمر آگیا ہے۔”
بے اختیار علیزہ کے منہ سے نکلا تھا۔ وہ نانو کے ساتھ لاؤنج کا دروازہ کھول کر باہر آگئی تھی۔ گاڑی پورچ میں داخل ہو رہی تھی۔
علیزہ کو ایک جھٹکا لگاتھا۔ گاڑی میں کوئی بھی نہیں تھا۔ اس نے حیرا نی سے دیکھا۔
”نانو! گاڑی میں عمرنہیں ہے۔”
”پتہ نہیں کیا بات ہے؟”
نانو بڑ بڑائی تھیں۔ ڈرائیور گاڑی کا دروازہ کھول کر باہر آگیاتھا۔
”کیا ہوا اعظم؟ عمر کہاں ہے؟ نانو نے اس سے پوچھا۔
”وہ جی فلائیٹ کینسل ہو گئی موسم کی وجہ سے۔”
”کیا ، فلائیٹ کیسے کینسل ہو گئی؟ مجھے تو عمر نے کوئی اطلاع نہیں دی ، اگر ایسا کچھ ہو تا تو وہ مجھے بتا تو دیتا ۔ تمہیں کوئی غلط فہمی ہو گئی ہے۔”
نانو نے فکر مندی سے کہا تھا۔
”نہیں جی، میں نے تو انکوائری کاؤنٹر سے پتہ کروایا تھا۔ آپ بے شک خود ہی فون کر کے پتہ کر لیں، میں نے تو کچھ لوگوں سے بھی پوچھا تھا، انہوں نے بھی یہی کہا تھا۔”
نانو ابھی بھی بے یقینی تھی۔
” سمجھ میں نہیں آرہا، کہ اس نے مجھے بتایا کیوں نہیں۔”
”ہو سکتا ہے عمر بھول گیا ہو!”
علیزہ نے کچھ مایوسی سے کہاتھا۔
”نہیں ! عمر اتنا لا پرواہ تو نہیں ہو سکتا۔”
”بیگم صاحبہ! اب میں کیا کروں؟”
ڈرائیور نے پوچھا تھا۔
”ٹھیک ہے تم بھی جا کر سو جاؤ!”
علیزہ نے نانو کے ساتھ اندر جاتے ہوئے کہا۔
”عمر کو اطلاع دینی چاہئے تھی۔”
نانو اب بھی فکر مند تھیں۔
”ہو سکتا ہے ابھی کچھ دیر تک اس کا فون آ جائے ، یا صبح فون کردے۔”
علیزہ نے نانو کو تسلی دی تھی ۔
”ہاں ، ہو سکتا ہے۔”
”اب آپ سو جائیں نانو!”
”ہاں، میں تو سو جاؤں گی۔ تم بھی جاکر سو جاؤ!”
وہ سر ہلا کر وہاں سے ہٹ گئی۔ وہ بے دلی کے ساتھ اپنے کمرے میں آئی تھی اس کی آنکھوں سے نیند مکمل طور پر غائب ہو چکی تھی۔ وہ اب جھنجھلا رہی تھی۔
”کیا فائدہ ہوا اس طر ح احمقوں کی طرح انتظار کرنے کا۔ نانو ٹھیک کہتی ہیں، بعض دفعہ کہ میں واقعی حد کر دیتی ہوں حماقت کی۔”
اس کی آنکھوں میں ہلکی سی نمی آگئی تھی۔
”عمر کو نہ آنے پر اطلاع تو دینی چاہئے تھی۔ اسے سوچنا چاہئے تھا،یہاں سب لوگ اس کا انتظار کر رہے ہوں گے۔”
وہ اپنے کمرے سے باہر نکل آئی تھی۔ بے اختیار اس کے قدم عمر کے کمرے کی طرف اٹھ گئے تھے۔ کمرے کی لائٹ جلا کر اس نے چاروں طرف نظر دوڑائی تھی ۔ اسے کمرہ یکدم بہت اداس لگنے لگا تھا۔کچھ دیر پہلے مکمل نظر آنے والی ہر چیز یک دم نامکمل نظر آنے لگی تھی۔ وہ کچھ اور دل گرفتہ ہو گئی۔ کمرے میں رکھی تازہ پھولوں کی ارینج مینٹس کو لے کر وہ بیڈ پر بیٹھ گئی اور اس نے انہیں دوبارہ ترتیب دینا شروع کردیا چند منٹوں میں یہ مصروفیت بھی ختم ہو گئی تھی۔ اس نے انہیں نئی جگہوں پر رکھا تھا۔ مدھم آواز میں سٹیریو آن کر دیا تھا۔ کل کمرے کی صفائی کرواتے ہوئے بھی وہ یہی کیسٹ سن رہی تھی۔
” Every thing I do I do it for you!”
برائن ایڈمز کی خو بصورت آواز کمرے میں لہرانے لگی تھی۔
”اگر وہ آ جاتا تو اس وقت یہ کمرہ اتنا اداس اوراکیلا نہ ہوتا۔”
وہ لاشعوری طور سے ایک بار پھر اس کے بارے میں سوچ رہی تھی۔ ریک میں پڑا ہو ا ایک ناول اٹھا کر وہ بیڈ پر بیٹھ گئی تھی، وہ جیسے کمرے کی تنہائی اور اداسی کو دور کرنے کی کوشش کر رہی تھی۔جیسے عمر کی کمی کو پورا کرنا چاہ رہی ہو۔




Loading

Read Previous

امربیل — قسط نمبر ۲

Read Next

امربیل — قسط نمبر ۴

Leave a Reply

آپ کا ای میل ایڈریس شائع نہیں کیا جائے گا۔ ضروری خانوں کو * سے نشان زد کیا گیا ہے

error: Content is protected !!