امربیل — قسط نمبر ۳

”یس کم ان!”
اندر سے عمر کی آواز ابھری تھی۔
وہ آہستہ سے دروازہ کھول کر اندر داخل ہو گئی۔ عمر کارپٹ پر ایک بیگ کھولے کچھ چیزیں اس میں رکھنے میں مصروف تھا۔ علیزہ کو دیکھ کر کچھ حیران ہواتھامگر پھر اس کے چہرے پر ایک مسکراہٹ نمودار ہوئی تھی۔
”آؤ علیزہ !” وہ بدستور اپنے کام میں مصروف تھا۔
”بیٹھ جاؤ!” ایک بار پھر علیزہ کو دیکھتے ہوئے کہاتھا۔
”میں بیٹھنے کے لئے نہیں آئی۔” اس نے خفگی سے کہا تھا۔




وہ چونک کر اس کی طرف متوجہ ہوا تھا اور پھر ہولے سے ہنس دیا۔ ”اچھا۔” وہ ایک بار پھر اپنے کام میں مصروف ہو گیا تھا۔
”آپ نے نانو سے میرے بارے میں کیا کہا ہے؟” اس نے سر اٹھا کر اس کی طرف دیکھا۔
”کچھ بھی نہیں!”
”آپ جھوٹ بول رہے ہیں ، آپ نے نانوسے کہا کہ میں نے آپ کو اس گھر سے جانے کے لئے کہا ہے۔”
”کم آن علیزہ ! میں نے ایسا کچھ نہیں کہا!”
اس بار اس نے ایک بار پھر بڑے پر سکون اور ٹھہرے ہوئے لہجے میں کہا۔
”آپ نے نانو سے کہا کہ میں یہاں آپ کا رہنا پسند نہیں کرتی۔”
”ہاں یہ میں نے کہا تھا۔” اس کا لہجہ اب بھی پر سکون تھا۔
”آپ نے یہ کیوں کہا تھا؟” وہ تیز آواز میں بولی تھی۔
”کیا میں نے غلط کہا ہے؟” اس نے بہت سیدھا سوال کیا گیا تھا۔ وہ چند لمحے اس کا چہرہ دیکھتی رہی ۔ وہ اس کے جواب کا انتظار کئے بغیر ایک بار پھر اپنے کام میں مصروف ہو گیا۔
”آپ نے نانو کو میرے خلاف کر دیا ہے۔” وہ کتابوں کے شیلف کی طرف جاتے جاتے مڑا تھا۔ ”میں نے ایسا کچھ نہیں کیا۔”
”آپ نے کیا ہے!”
”میں نے جو کچھ بھی کیا ہے، وہ تمہاری خوشی اور convenience (سہولت) کے لئے کیا ہے اور اس میں گرینی کو تمہارے خلاف کر نے کی احمقانہ حرکت شامل نہیں ہے۔” وہ اب کتابیں شیلف پر سے اٹھا رہا تھا۔
”آپ کی وجہ سے نانو مجھ سے ٹھیک سے بات بھی نہیں کر رہیں!” اس بار وہ روہانسی ہو گئی تھی۔
اس نے مڑ کر علیزہ کو دیکھا تھا اور پھر بڑی نرمی سے کہا تھا۔ ”وہ اگر ایسا کر رہی ہیں تو غلط کر رہی ہیں، میں ان سے بات کروں گا۔”
”آپ کو اب ان سے کوئی بات کرنے کی ضرورت نہیں ہے۔ میں آپ کو بہت اچھی طرح سے سمجھ چکی ہوں، You are a crook”
اس بار اس کے ریمارکس پر پہلی بار عمر کے ماتھے پر کچھ بل آئے تھے مگر اس نے کچھ کہا نہیں تھا، صرف خاموشی سے اسے دیکھتا رہا۔
”آپ صرف نانو کو یہ بتائیں کہ میں نے آپ سے یہاں رہنے کے بارے میں کچھ بھی نہیں کہا،نہ ہی میں نے آپ کے یہاں رہنے پر کوئی اعتراض کیا ہے۔”
وہ اب بھی خاموش تھا۔
”آپ نانو کو جاکر کہیں کہ میں نے آپ کے یہاں رہنے پر کوئی ناپسندیدگی کا اظہار نہیں کیا۔”
”حالانکہ تم میرے یہاں رہنے کو ناپسند کرتی ہو۔”
”میں نے آپ سے ایسا کب کہا۔”
”تم نے کہا نہیں مگرپھر بھی تم میرا یہاں رہنا پسند نہیں کرتی۔”
”آپ غلط کہہ رہے ہیں۔”
”علیزہ میں کوئی بچہ نہیں ہوں اور صحیح غلط تم سے بہت اچھے طریقے سے سمجھ سکتا ہوں۔ تمہیں یاد ہے اس دن جب میں تمہیں پرفیومز دکھا رہا تھا ،اور میں نے اپنا فیورٹ پرفیوم تمہیں دکھایا تو تم نے اسے گرا دیا۔”
علیزہ کا رنگ اڑ گیا تھا۔ ”میں نے جان بوجھ کر پرفیوم نہیں گرایا تھا۔ میرے ہاتھ ….. !”
”علیزہ میں بے وقوف نہیں ہوں،نہ ہی مجھے بے وقوف سمجھو۔” وہ بات کرتے ہوئے بے حد پر سکون تھا۔
”اسی طرح اس دن پلانٹس کی کٹنگ کرتے ہوئے، میں نے تم سے کہاں یہ میرا فیورٹ پلانٹ ہے اور تم نے اس کی سب سے خوبصورت شاخ کاٹ دی۔” اس بار وہ کچھ بول نہ سکی ، عمر واقعی بے وقوف نہیں تھا۔
”میں نے بہت پہلے تمہیں بتا دیا تھا کہ میں یہاں تمہاری جگہ لینے نہیں آیا ہوں۔ تھوڑے عرصہ کے لئے آیا ہوں پھر واپس چلا جاؤں گا۔ مگر اس کے باوجود مجھے محسوس ہوا کہ تم میری طرف سے اپنا دل صاف نہیں کر پائیں۔ شاید تمہارے دل میں میری طرف سے کچھ خدشات تھے، اور میں کوشش کے باوجود انہیں ختم نہیں کر پایا۔ اس لئے میں نے بہتر یہی سمجھا کہ یہ جگہ چھوڑ دوں۔ بس اتنی سی بات تھی اور میں نے گرینی سے بھی ان سب باتوں کے بارے میں کچھ بھی نہیں بتایا۔ انہوں نے جب میرے باہر جانے کے فیصلے کے بارے میں بہت اصرار کیا تو میں نے ان سے صرف اتنا کہا کہ تم میرے یہاں رہنے کو پسند نہیں کرتیں۔ اس سے زیادہ میں نے ان سے کچھ نہیں کہا۔”
وہ بہت سنجیدگی سے اسے بتاتا جا رہا تھا۔ وہ ایک بار پھر اپنے کام میں مصروف ہو گیاتھا۔ وہ سرخ چہرے کے ساتھ اسے دیکھتی رہی۔ وہ اب اس کی طرف متوجہ نہیں تھا۔
”پلیز ! آپ واپس آجائیں!”
عمر نے ایک گہری سانس لے کر اسے دیکھا تھا۔” آئی ایم سوری۔”




Loading

Read Previous

امربیل — قسط نمبر ۲

Read Next

امربیل — قسط نمبر ۴

Leave a Reply

آپ کا ای میل ایڈریس شائع نہیں کیا جائے گا۔ ضروری خانوں کو * سے نشان زد کیا گیا ہے

error: Content is protected !!