امربیل — قسط نمبر ۳

اس کی چچی نے اسے مخاطب کرتے ہوتے کہا تھا۔
اس نے خاموشی سے پلیٹ اپنے آگے سرکا لی اور اس میں چاول ڈالنے لگی۔ سکندر ابھی بھی اپنے والد سے باتوں میں مصروف تھے۔ چچی اور طلحہ خاموشی سے کھانا کھا رہے تھے، اور وہ جو کل سے یہ سوچ رہی تھی کہ یہاں آتے ہی سب اسے خاص اہمیت دیں گے۔ کیونکہ وہ چار سال کے بعد وہاں آئی تھی۔ بے حد دل گرفتہ تھی۔ یہاں کسی کو اس کے ہونے یا نہ ہونے سے کوئی خاص فرق نہیں پڑاتھا۔




”حتیٰ کہ میرے پاپا کو بھی نہیں ،جو کل یہ کہہ رہے تھے کہ وہ مجھے بہت مس کر رہے ہیں۔”
اس نے بے دلی سے چاول کھاتے ہوئے سوچا۔ چچی نے کھانے کے دوران دو چار بار ڈشز اس کی طرف بڑھائی تھیں، مگر جب اس نے کھانے میں دلچسپی ظاہر نہیں کی تو ان کا جوش و خروش بھی ٹھنڈا پڑگیا۔
اس نے اندازہ لگانے کی کوشش کی تھی کہ نانو کے ساتھ کھانا کھانے اور پاپا کے ساتھ کھانے میں کیا فرق ہے؟ اسے احساس ہو ا تھا دونوں جگہ اس کے لئے کوئی خاص تبدیلی نہیں تھی۔
کھانے کے دوران اس کے دادا ابو نے دو ، تین بار اسے مخاطب کیا تھا۔ اور پھر کھانے سے فارغ ہو کر وہ اپنے کمرے میں چلے گئے تھے۔ آنٹی شمامہ بھی طلحہ کے ساتھ ڈائننگ روم میں سے نکل گئی تھی۔ تب اس کے پاپا نے اس سے دوبارہ گفتگو کا سلسلہ شروع کیاتھا۔
”اسٹڈیز کیسی جارہی ہیں تمہاری؟”
انہوں نے سویٹ ڈش نکالتے ہوئے پوچھاتھا۔
”بہت اچھی !”
وہ باپ کے مخاطب کرنے پر ایک بار پھر خوش ہو گئی تھی۔
”کونسی کلاس میں ہو؟”
اسے ان کے سوال پر یک دم دھچکا لگاتھا۔ اس کا خیا ل تھا انہیں یہ یاد ہو گا ہر بار فون پر وہ انہیں اپنی کلاس کے بارے میں ضرور بتایا کرتی تھی۔
”اے۔ لیولز میں”
مدھم آواز میں اس نے کہا تھا ۔
”آگے کیا کرنے کا ارادہ ہے؟”
”آگے کے بارے میں ابھی سوچانہیں ، آپ بتائیں پاپا! مجھے آگے کیا کرنا چاہئے؟”
اس نے بڑے اشتیاق سے سکندر سے پوچھاتھا۔
”جو تم کرنا چاہتی ہو وہ کرو۔”
انہوں نے اسے دیکھتے ہوئے کہاتھا۔
”مگر میں وہ کرنا چاہتی ہوں جو آپ چاہتے ہیں!”
”بھئی، میں کیا بتا سکتا ہوں کہ تمہیں کیا کرنا چاہئے یہ تو تمہیں خو د طے کرنا ہے یا پھر تمہاری ممی اور نانو طے کریں گی۔”
سکندر نے کندھے اچکاتے ہوئے کہاتھا۔
”نو پاپا ! ان سے نہیں آپ سے گائیڈینس لینا چاہتی ہوں، یقین کریں میں وہی کروں گی جو آپ مشورہ دیں گے۔”
اس نے کندھے پر ہاتھ رکھتے ہوئے جیسے انہیں یقین دلانے کی کوشش کی تھی۔
اس کے پاپا نے غور سے اس کا چہرہ دیکھا تھا۔
”جو میں کہوں گا۔ چلو ٹھیک ہے اس پر بعد میں بات کریں گے۔”
انہوں نے بات کا موضوع بدل دیا تھا۔
”تمہارے نانا نانی کیسے ہیں؟”
”بالکل ٹھیک ہیں!”
”تمہارا خیال رکھتے ہیں ؟”
انہوں نے جیسے کچھ جانچنے کے لئے غور سے اس کی طرف دیکھتے ہو ئے پوچھا تھا۔
”بہت زیادہ خیال رکھتے ہیں ، اور نانو تو ایک منٹ بھی میرے بغیر نہیں رہ سکتیں۔ نانا بھی بہت کیئرنگ ہیں۔ ابھی بھی یہاں آنے پر وہ دونوں بہت اداس ہو رہے تھے۔ کہہ رہے تھے کہ وہ مجھے بہت مس کریں گے۔ اصل میں ان دونوں کو میری بہت عادت ہو گئی ہے۔ میں نہیں ہوتی تو وہ تنہائی کا شکار ہو جاتے ہیں۔ نانو تو آنے ہی نہیں دے رہی تھیں کہ میں ابھی چند ہفتہ پہلے ہی آسٹریلیا سے آئی ہوں، اور اب پھر جارہی ہوں۔ مگر میں ضد کر کے آئی ہوں، وہ مجھ سے بہت محبت کرتے ہیں، پھر بھی پاپا میرا وہاں دل نہیں لگتا۔” ا س نے جھوٹ کا ایک انبار جمع کرتے ہوئے کہاتھا۔ سکندر اس کی باتوں سے جیسے مطمئن ہو گئے تھے ،ایک بار پھر وہ سویٹ ڈش کی طرف متوجہ ہو گئے۔
”کیوں ! دل کیوں نہیں لگتا؟”
انہوں نے پوچھاتھا۔
”میں آپ کو بہت مس کرتی ہوں۔”
وہ کہنا چاہتی تھی کہ وہ ان کے ساتھ رہنا چاہتی ہے، مگر وہ کچھ جھجک کر بات بدل گئی تھی۔
”تمہیں ان کی محبت کی قدر کرنی چاہئے۔آخر وہ تمہاری اتنی پرواہ کرتے ہیں ، تمہیں کوشش کرنی چاہئے کہ تمہارا دل بھی وہاں لگا رہے!”
انہوں نے جو کہا تھا۔ وہ ان سے نہیں سننا چاہتی تھی۔ کچھ مایوس ہو کر اس نے باپ کی طرف دیکھاتھا۔
”میں کوشش کرتی ہوں۔”




Loading

Read Previous

امربیل — قسط نمبر ۲

Read Next

امربیل — قسط نمبر ۴

Leave a Reply

آپ کا ای میل ایڈریس شائع نہیں کیا جائے گا۔ ضروری خانوں کو * سے نشان زد کیا گیا ہے

error: Content is protected !!