الف لیلہٰ داستان ۲۰۱۸ ۔ قسط نمبر ۲۵

یہ سنا تو حسن نے اس سے وہ سوال پوچھا جو آج بھی اسے سمجھ نہ آتا تھا:”اگر میں حسن ہوں تو میں کہاں گیا؟ اور اگر میں، میں ہوں تو حسن کہاں گیا؟“
بڑھیا نے ہنس کر کہا:”تم دونوں کہیں نہیں گئے۔ دونوں ضم ہوگئے، ایک ہوگئے، اب تم ہی سینکڑوں سال پہلے کے حسن بدرالدین ہو اور تم ہی زمانہء حال کے حسن بدرالدین۔ کبھی تم نے سوچا کہ تم زمانوں کا سفر طے کرکے صدیوں بعد کے زمانے میں آئے تو اتنی جلد نئے زمانے میں ڈھل کیسے گئے؟ بے شک پرانے زمانے کے حسن کی شخصیت نئے زمانے کے حسن پر حاوی ہوئی اور تمہاری یادداشت، زبان، فطرت اسی کی رہی لیکن کہیں کچھ جھلک نئے حسن کی بھی تم میں آئی اور تم نے اس کے گھر والوں، دوستوں کو دل سے اپنا لیا۔ نئے زمانے کے بدلے ہوئے رنگ ڈھنگ نے تمہیں پاگل نہیں کردیا بلکہ تم نے انہیں قبول کیا اور اس دنیا میں ترقی کی جو تمہارے لیے بالکل اجنبی تھی۔“
حسن دم بخود بیٹھا یہ گتھیاں سلجھتے دیکھتا تھا اور وہ باتیں سنتا تھا جو اس نے کبھی خواب و خیال میں بھی نہ سوچی تھیں۔
بڑھیا نے کہا:”اور اب تمہارے دوسرے سوال کا جواب، میں تم سے کیوں ملنا چاہتی تھی؟ اس لیے کہ تمام عمر کی محنت اور ریاضت کے بعد میرا علم اس قابل ہوگیا ہے کہ میں زمانوں کا سفر کرسکوں یا یوں کہو کہ کسی کو کرا سکوں۔ میری سہیلی وہ ساحرہ جو تمہارے زمانے میں رہتی ہے، میری مددگار ہے، میں اسے یہاں سے بہت سی چیزیں بھیج چکی ہوں۔ اب تمہیں بھیجنا چاہتی ہوں۔ بولو! اپنے زمانے میں واپس جانا پسند کرو گے؟“ 
حسن کا دل دھڑکنا بھول گیا۔ یوں لگا صدیوں سے وہ جس وقت کے انتظار میں جی رہا تھا وہ آخر کار آگیا ہے۔ دھڑکتے دل سے پوچھا:”کیا یہ ممکن ہے؟ کیا میں واقعی اپنے وقت میں واپس جاسکتا ہوں؟ اپنے ماں باپ کو پھر سے پاسکتا ہوں؟“
اس زن ِخدا ترس نے افسوس سے کہا:”افسوس کہ یہ ممکن نہیں کہ تم مرے ہوؤں کو دوبارہ پاؤ، میں تمہیں صرف اس لمحے میں بھیج سکتی ہوں جس لمحے میں تم وہاں سے غائب ہوئے تھے، تم اسی لمحے میں دوبارہ جاؤ اور اپنی زندگی اس وقت سے شروع کرو، جہاں سے اس ساحرہ نے ختم کرنے کوشش کی تھی۔“
حسن مایوس ہوا۔ لیکن اس کا دل اب بھی تیزی سے دھڑک رہا تھا اور ایک انہونی کے خیال سے پھڑک رہا تھا۔ اس نے پوچھا:”میرے دو سوال ہیں کیا میں یہاں سے کچھ اپنے ساتھ لے جاسکتا ہوں؟ اور کیا نئے زمانے کا حسن بدرالدین بھی مجھ میں سمایا ہوا میرے ساتھ جائے گا؟“
بڑھیا نے کہا:”تم جو چاہو اپنے ساتھ لے جاسکتے ہو اور لاہور کا حسن بدرالدین تم سے علیحدہ ہوکر اپنی زندگی جیتا رہے گا، اسے کچھ فرق نہیں پڑے گا۔“
آخر کار بڑی دیر کے بعد حسن کے چہرے پر مسکراہٹ آئی اور اس نے کہا:”اے مادرِ مہربان! آپ نے آج مجھے وہ خوشی دی ہے کہ تا زندگی آپ کا ممنونِ احسان رہوں گا۔ میرے پاس میری ماں کے کچھ جواہر ہیں جو میں ساتھ لایا ہوں۔ اجازت دیجیے کہ جا کر وہ لاؤں اور انہیں اپنے ساتھ اپنے زمانے میں لے جاؤں۔“
اس خاتونِ معقول پسند و عقلمند نے ازراہِ کرم اجازت دی اور کہا:”کل صبح صبح میرے پاس پہنچ جانا۔ دوپہر ہونے سے پہلے پہلے تم اپنے زمانے میں ہوگے۔“

اتنے میں قلندرِ فلک کاسہئ خورشید لے کر گدائی کو نکلا اور شہر زاد نے تڑکے کا سہانا سماں اور درو دیوار کو نور افشاں دیکھ کر بادشاہ سے کہا:”جہاں پناہ! جب آج شام ہوگی تو کہانی بشرط زیست تمام ہوگی۔“

………………..

(آخری قسط آئندہ)

Loading

Read Previous

الف لیلہٰ داستان ۲۰۱۸ ۔ قسط نمبر ۲۴

Read Next

الف لیلہٰ داستان ۲۰۱۸ ۔ قسط نمبر ۲۶ ۔ آخری قسط

Leave a Reply

آپ کا ای میل ایڈریس شائع نہیں کیا جائے گا۔ ضروری خانوں کو * سے نشان زد کیا گیا ہے

error: Content is protected !!