الف لیلہٰ داستان ۲۰۱۸ ۔ قسط نمبر ۲۵

ایک دن حسن گھر آیا اور زلیخا سے کہا:”اے زلیخا! آج مجھے کسی مردِ بزرگ کے تین قول یاد آئے ہیں کہ وفات کا دن یومِ ولات سے بہتر ہے اور زندہ کتا مرے ہوئے شیر پر ترجیح رکھتا ہے اور قبر کو قصر ِمعلیٰ پر فوق ہے۔“
زلیخا نے گھبرا کر کہا:”اب پلیز ذرا اردو میں بتا دو اس کا کیا مطلب ہے۔“
حسن نے کہا:”مطلب یہ کہ درِ مقصود اس وقت تک حاصل نہیں ہوسکتا جب تک انسان سمندر میں غوطہ نہ لگائے اور بے محنتِ شاقہ اور خواب و خود حرام کیے بغیر کوئی دنیا میں نیک نامی اور کامیابی حاصل نہیں کرسکتا۔“
زلیخا نے سر تھام کر کہا:”پلیز حسن، مجھے سیدھا سیدھا بتاؤ تم کرنا کیا چاہتے ہو؟“
حسن نے کہا:”میں نے جی میں ٹھان لی ہے کہ جی توڑ کے محنت کروں گا۔ اپنے وطن کی مشہور اشیاء خرید کرکے سفرِ بحری کروں گا اور بصرہ اور دیگر شہروں اور جزیروں سے ہوتا دمشق جاؤں گا اور اعلیٰ ترین کپڑا لے کر آؤں گا۔ تجارت میں نام کماؤں گا۔“
زلیخا ہنس پڑی، بولی:”پہلی بات تو یہ کہ اب دمشق کوئی نہیں جاتا، وہاں کچھ نہیں رکھا۔ اب لوگ چِین جاتے ہیں۔ دوسری بات یہ کہ اتنے مہینوں کا سفر کرنے کی ضرورت نہیں ہے، پانچ گھنٹے کی فلائٹ ہے۔ رات کو یہاں سے جہاز میں بیٹھو، صبح چین میں ہو گے۔“
حسن نے ششدر ہوکر کہا:”اے زلیخا،یہ تو بتاؤ کہ کیا تم نے نشہ شروع کردیا ہے؟ کیا چرس استعمال میں لاتی ہو یا بھنگ پیتی ہو یا افیم کھاتی ہو؟ شب کو لاہور میں سوؤں اور صبح چین میں بیدار ہوں؟ کجا لاہور کجا چین؟ ماروں گھٹنا پھوٹے آنکھ۔“
زلیخا ہنسنے لگی، اتنا ہنسی کہ کچھ بول ہی نہ پائی۔
حسن نے گھبرا کر کہا:”دیکھو زلیخا،میں بتائے دیتا ہوں کہ جناب رسولِ ثقلین کا قطعی حکم ہے کہ نشے کے قریب نہ جانا، اس مردار کو ہرگز منہ نہ لگانا۔“
زلیخا نے ہنستے ہنستے آنکھوں میں آیا پانی پونچھا اور بولی:”اوہ حسن، میں سچ کہہ رہی ہوں۔ دیکھو جس طرح ایک جہاز پانی پر چلتا ہے نا، اسی طرح ایک جہاز ہوا میں اُڑتا ہے۔ وہ راتوں رات تمہیں چین پہنچا دے گا۔“
حسن نے جو یہ سنا تو زلیخا کی حالت پر رحم کھایا۔ بڑا ترس آیا۔ مغموم ہوکر کہا۔:”خدا کی قسم، بالکل مجنون ہوگئی ہو۔ لے اب اپنے ہوش میں آئیے، اول جلول تقریر نہ سنائیے۔“ 
یہ سن کر زلیخا نے فون اٹھایا، کوئی پرزہ دبایا اور ایک منظر رفیع الشان فون پر روشن ہوا۔ کیا دیکھتا ہے کہ ایک وسیع و عریض کمرہ ہے اور وضع قطع اس کی ایسی عجیب ہے کہ معلوم ہوتا ہے لمبوتری سی ایک بند کشتی ہے جس کے اطراف میں کھڑکیاں اور نیچے پہیے لگے ہیں۔ اندر کرسیاں لگی تھیں جس میں لوگ بیٹھے تھے اور پر ایسے وسیع و فراخ ہیں کہ کبھی دیکھنے نہ سنے۔ تھوڑی ہی دیر میں اس عجیب الخلقت سمندِ وغا پسند کے جی میں جانے کیا آئی کہ بڑی تیزی سے چلنے لگا۔ ابھی حسن اس کی یہ چال ملاحظہ ہی کرتا تھا کہ نہ جانے کس نے اسے ایڑلگائی کہ اس نے اپنی چونچ ہوا میں اٹھائی۔ دیکھتے ہی دیکھتے یہ عجیب و غریب پرندہ آسمان کی خبر لایا اور چشمِ زدن میں نظروں سے اوجھل ہوگیا۔
حسن نے فوراً لاحول پڑھی اور کہا:”اے زلیخا، یہ تو صاف دجال کی سواری ہے جس کے دونوں کانوں کے بیچ گزوں کا فاصلہ ہے اور جو اپنے پیر اپنے پیٹ میں دبا لیتا ہے اور جس کی رفتار اتنی تیز ہے کہ کوسوں کا فاصلہ لمحوں میں طے کرتا ہے۔ اگر تم یہ چاہتی ہو کہ میں اس اڑن کھٹولے پر سوار ہوں تو میں تو ہرگز نہ جاؤں گا، یوں مفت میں نہ مارا جاؤں گا۔“
 زلیخا نے ہنس کر کہا:”یاد ہے، جب میں تم پہلی مرتبہ گاڑی میں بیٹھے تھے تب بھی تم نے یہی شور مچایا تھا کہ یہ دجال کی سواری ہے؟ اب دیکھو تم ایک سے دوسری نظر نہیں ڈالتے گاڑیوں پر۔ اسی طرح یہ ہوائی جہاز بھی صرف ایک عام سواری ہے۔ ہزاروں لوگ اس پر سفر کرتے ہیں۔ تم بھی چین اس پر جاؤ۔ مزے سے پہنچ جاؤ گے، پتا بھی نہیں چلے گا۔“
حسن نے گھبرا کر کہا:”زلیخا، میں نے سنا ہے کہ برنال نامی ایک جزیرہ ہے جہاں تمام شب ڈھول اور طنبورے بجا کرتے ہیں اور اس میں دجال رہا کرتا ہے، اگر یہ جہاز مجھے اس جزیرے پر لے گیا تو؟“

Loading

Read Previous

الف لیلہٰ داستان ۲۰۱۸ ۔ قسط نمبر ۲۴

Read Next

الف لیلہٰ داستان ۲۰۱۸ ۔ قسط نمبر ۲۶ ۔ آخری قسط

Leave a Reply

آپ کا ای میل ایڈریس شائع نہیں کیا جائے گا۔ ضروری خانوں کو * سے نشان زد کیا گیا ہے

error: Content is protected !!