الف لیلہٰ داستان ۲۰۱۸ ۔ قسط نمبر ۲۵

وہ بولی:”نو سر! نو پورک…… نو پورک۔“
حسن نے کہا:”میرے دل کو تسلی نہیں ہورہی، برائے مہربانی باورچی کو بلواؤ یا خود جاؤ اور پوچھ کر آؤ کہ یہ گوشت کس جانور کا ہے تاکہ یقین ہو جائے کہ پورک نہیں کھاتا ہوں۔ بدگمانی دور ہو جائے، دل مسرور ہو جائے۔“
اگرچہ حسن کی شیریں زبانی و خوش بیانی میں کچھ کلام نہ تھا لیکن اس خاتون ِ مہربان کو اردو زبان سے کوئی کام نہ تھا۔ لہٰذا دیر تک اشاروں اور یس سر، نو سر میں گفتگو ہوا کی۔ آخر بصد دشواری حسن اپنا مطلب سمجھانے میں کامیاب ہوگیا اور اس خاتون نے بھی اشاروں میں سمجھا دیا کہ ابھی ابھی مطبخ کو جاتی ہوں، دم کے دم میں پوچھ کے آتی ہوں تاکہ تم یہ طعامِ لذیذ و نفیس نوش جان کرو اور ہم پر احسان کرو۔
چنانچہ حسن ہاتھ پر ہاتھ دھر کر بیٹھ رہا اور وہ خاتون مہربان گئی اور دم کے دم میں واپس آئی۔ کوئی خوشخبری لائی کیونکہ باچھیں کھلی ہوئی تھیں اور بے حد مطمئن نظر آتی تھی۔
 خوش خوش حسن کے قریب آئی اور جھک کر سلام بجا لائی اور مسکراتے ہوئے بولی:”سر نو وری، دس نو پورک، دس ڈاگ۔“
حسن کے ہاتھ سے چمچہ چھوٹ کر گر پڑا۔ آنکھوں کے آگے اندھیرا چھایا، آتش غضب کی تاب نہ لایا۔ اچھل کر کھڑا ہوا اور چلاّکر بولا:”ڈی او جی ڈاگ معنے کتا؟ یعنی کہ کتا؟ اے نابکار عیارہ، ملعون مکارہ، شقی القلب عورت! توُ نے مجھے کتا خور بنایا، یہ حرام گوشت کھلایا؟ اے جعلسازہئ بلند و بالا، دغا بازوں کی افسرِاعلیٰ!تجھے جس قدر سزا دی جائے بجا ہے، تجھ پر رحم کرنا کسی آئین میں نہیں روا ہے۔“
حسن کو یوں بددماغ پایا تو وہ سمجھ گئی کہ یہ کوئی نیا منجھدار ہے، یہ شخص درپئے آزار ہے۔ گھبرا کر بولی:”Sir, you said no pork, this no pork, this only dog.“
حسن نے اس سے بحث کرنا فضول جانا۔ وہاں سے بھاگا اور اندھا دھند ایک غسل خانے میں جا گھسا۔ وہاں پہنچ کر حلق میں انگلی ڈالی اور جو شے کھائی تھی باہر نکالی۔ بہت دیر الٹیاں کرتا رہا۔ آخر جب اطمینان ہوگیا کہ اب کتنے کا گوشت تو کجا کتے کی گرد بھی پیٹ میں نہیں بچی ہوگی تو اچھی طرح کلیاں کیں اور باہر نکلا۔ باہر آیا تو دیکھا اس خاتونِ چینی عیارہ و جلعساز کے ساتھ بالکل اسی کی وضع قطع کے وردی پوش لوگ کھڑے تھے۔ خدا جانے اب کس ستم پر اڑے تھے۔ 
حسن گھبرایا، سوچا:”پہلے انہوں نے مجھے دھوکے سے ڈی او جی ڈاگ کھلا دیا، اب نہ جانے کیا کھلائیں، کون سا ظلم ڈھائیں۔ بہتر ہے کہ ٹھنڈے ٹھنڈے کھسک لوں اور اپنا ایمان بچا لوں۔“
یہ سوچ کر وہاں سے بھاگا اور ہوٹل سے نکل کر گلیوں گلیوں بھاگتا بہت دور نکل گیا۔
جب تسلی ہوگئی کہ اب کوئی پیچھے نہیں آتا ہے اور پکڑ کر کتا نہیں کھلاتا ہے تو رک کر سانس بحال کیا اور فون نکال کر زلیخا کو فون کیا۔
زلیخا کے فون اٹھاتے ہی حسن پھٹ پڑا اور تمام ماجرائے وحشت خیز اس کے گوش گزار کیا۔ زلیخا یہ ماجرا سن کر ہنس پڑی۔ بولی:”واقعی یہ تو مجھے خیال ہی نہیں رہا کہ وہاں صرف پورک کا مسئلہ نہیں اور بھی بہت چیزیں ہیں جو وہ کھاتے ہیں۔ اچھا تم ایسا کرو، انہیں گلیوں میں چلتے جاؤ،وہاں سڑک کے کنارے بھی بہت سے لوگ کھانے پینے کی چیزیں بیچ رہے ہوتے ہیں۔ وہیں اگر کوئی مطلب کی چیز نظر آئے تو اپنے سامنے تازہ بنوا کر کھا لینا۔ مچھلی وغیرہ تو تمہیں ضرور مل جائے گی۔“
یہ سن کر حسن ک دل کو ڈھارس ہوئی۔ فون بند کیا اور چلا۔
بہت دیر چلتے رہنے کے بعد آخر ایک بازار میں پہنچا جہاں دو رویہ میزیں سجی تھیں اور تکہ کباب کی خوشبوئیں آتی تھیں۔ حسن بے حد خوش و مسرور ہوا کہ اب پیٹ پوجا کا اہتمام بالضرور ہوا۔ بے تاب ہوکر آگے بڑھا تو دیکھا کہ لال انگارہ کوئلوں پرسیخیں پڑی ہیں اور ان سیخوں پر موٹی موٹی چھپکلیاں چڑھی ہیں۔ حسن چکرایا، وہاں سے خود کو بھگایا، لیکن بھاگ کر کہاں جاتا؟ جس دکان پر بھی گیا، وہاں یہی کچھ پایا۔ کہیں سانپ بھونے جارہے تھے تو کہیں مینڈک تلے جارہے تھے۔ کہیں کیڑے مکوڑوں کی سیکائی جاری تھی تو کہیں بلیوں کے کبابوں کی تیاری تھی۔

Loading

Read Previous

الف لیلہٰ داستان ۲۰۱۸ ۔ قسط نمبر ۲۴

Read Next

الف لیلہٰ داستان ۲۰۱۸ ۔ قسط نمبر ۲۶ ۔ آخری قسط

Leave a Reply

آپ کا ای میل ایڈریس شائع نہیں کیا جائے گا۔ ضروری خانوں کو * سے نشان زد کیا گیا ہے

error: Content is protected !!