الف لیلہٰ داستان ۲۰۱۸ ۔ قسط نمبر ۲۵

ہوائی اڈے کی عمارت دیکھ کر عش عش کرتا دوسرے مسافروں کے پیچھے پیچھے چلتا گیا۔ جو چند کاغذات زلیخا نے ایک تھیلی میں ڈال کر دیئے تھے کہ کوئی کہیں بھی روکے یہ دکھا دینا اور اشارے سے سمجھا دینا کہ زبان نہیں آتی۔ وہ خود ہی مدد کردیں گے۔ حسن نے من و عن وہی کیا جو زلیخا نے کہا اور سکھایا اور یوں حسن بخیر و عافیت ہوائی اڈے سے باہر آیا۔
شہر میں آیا تو اونچی اونچی عمارتیں، عظیم الشان سڑکیں اور انسانوں کا انبوہِ کثیر دیکھ کر اس قدر حیران و ششدر ہوا کہ حیطہئ تحریر سے خارج ہے۔ زلیخا نے یہ بات سمجھائی تھی اور تصویر بھی دکھائی تھی کہ اس شکل کی گاڑی جسے cab کہتے ہیں، روکنا اور فلاں ہوٹل کا نام لینا، وہ وہاں پہنچا دے گا۔ یوں حسن افتاں و خیزاں وہاں سے چلا اور ہوٹل پہنچا تو اسے بے حد آراستہ پایا، پھول و پھل اور عطر و عنبر سے پیراستہ پایا۔ دم کے دم میں وہاں کے لوگوں نے اسے ایک کمرے میں پہنچایا۔ حسن نے صعوبتِ سفر کے بعد آرام پایا۔
چونکہ حسن تمام راستہ سوتا آیا تھا، لہٰذا منہ ہاتھ دھو کر تازہ دم ہوا اور باہر نکلنے کا ارادہ کیا۔ نیچے گیا تو ڈیوڑھی میں ایک عورت نظر آئی۔ حسن کو دیکھا تو اخلاق کے ساتھ جھک کر سلام کیا۔ شاید بھانپ گئی تھی کہ یہ مردِ شریف صاحبِ جودو سخا ہے، ذی مروت و باوفا ہے۔ سلام کے بعد چینی زبان میں کچھ بڑبڑائی جو حسن کو مطلق سمجھ نہ آئی۔ 
حسن نے کہا:”اے خاتونِ مہربان، میں غریب الوطن، دو راز دیار ہوں، اچنبھے میں گرفتار ہوں۔ خدا جانے دل میں کیا سمائی کہ یہاں آنے کی نوبت آئی۔ اب نہ یہاں مجھے کسی کی سمجھ آتی ہے نہ کسی کو میری۔ خیر یہ سب میرے بخت ِنارسا کا قصور ہے، بندہ مجبور ہے۔“
یہ تقریرِ دلپذیر سن کر وہ وردی پوش خاتون مسکرائی، بہت جھک کر تسلیم بجا لائی اور سعادت مندی سے بولی:”یس سر!“
یہ سن کر حسن بہت خوش ہوا۔ تالی بجا کر بولا:”اخاہ! یہ زبان آپ کو بھی آتی ہے؟ میں بھی اس زبان میں صاحبِ علم و فن ہوں، گرچہ بہت ہی خاموش و کم سخن ہوں۔“
یہ کہہ کر جیب سے پرچہ نکال کر اس خاتونِ جمیلہ کو تھمایا اور یہ کلمہ زبان پر لایا:”اے خاتونِ مہربان، اس وقت تو میں جاتا ہوں، شام کو آؤں گا، تمہاری میزبانی کا لطف اٹھاؤں گا۔ اس وقت تمہارا جو جی چاہے مجھے کھلاؤ، مرغ کے کباب لاؤ یاقابیں گیلانی خشکے کی منگاؤ۔ ہاں بس ایک بات کا خیال رہے نو پورک…… نو پورک۔“
یہ سن کر وہ خاتون خوش ہوئی۔ جھک کر سلام بجا لائی اور سعادت مندی سے بولی:”اوکے سر، نو پورک۔“
یہ مسئلہ حل کرکے حسن خوش خوش وہاں سے روانہ ہوا۔ چلتے چلتے میز پر رکھی قاب سے چند پھل اٹھا کر تھیلے میں رکھ لیا کہ راستے میں کھاؤں گا، بھوک بہلاؤں گا اور پھر واپس آکر پلاؤ کباب ڈٹ کر کھاؤں گا۔
زلیخا نے کچھ لوگوں کا پتا حسن کو لکھ کر دیا تھا۔ حسن اس پتے پر پہنچا تو انہوں نے خوش اخلاقی سے حسن کا استقبال کیا۔ ان میں سے ایک شخص پاکستانی تھا اور اردو بولتا تھا۔ وہ کہنے لگا:”مجھے مس زلیخا کی ای میل مل گئی تھی۔ ہماری کمپنی کپڑا بھی مینو فیکچر کرتی ہے اور مشینیں بھی۔ ہمارے پاس کپڑا بننے کی مشینیں بھی ہیں اور کڑھائی والی مشینیں بھی۔“ 
یہ کہہ کر حسن کو ساتھ لیا اور کارخانے کا دورہ کرایا۔ حسن یہ دیکھ کر حیران ہوا کہ وسیع و عریض کمرے میں دیوہیکل مشینیں لگی ہیں جن پر تھان کے تھان چڑھائے جاتے ہیں اور وہ کھٹاکھٹ انواع و اقسام کے نمونے ان پر کاڑھ کر باہر نکال دیتی ہیں۔
شام تک حسن وہاں رہا۔ اس مردِ بااخلاق نے حسن کو بازار بھی گھمایا جہاں کپڑے کی ہر قسم دستیاب تھی۔ ان میں حسن کو وہ مشینیں ہی سب سے زیادہ پسند آئیں جو کپڑا کاڑھتی تھیں اور سادہ کپڑے کو نور افشاں، زرق برق، فوق البھڑک بنا دیتی تھیں۔
مشینوں کا سودا کرکے حسن خوش خوش ہوٹل میں واپس آیا اور نہا دھوکر کپڑے بدلے اور کھانا کھانے کمرہئ طعام میں آیا۔ اتنے میں وہی خاتون آتی دکھائی دی جو صبح ملی تھی۔ ہاتھ میں ایک قاب تھی جس میں کچھ پکی سبزیاں اور گوشت کے تلے ہوئے ٹکڑے پڑے تھے۔ حسن کو بہت ناگوار ہوا، سبزیاں دیکھ کر بیزار ہوا۔ ناراض ہوکر کہا:”نہ کباب ہے نہ پلاؤ ہے، دل لگی کا اچھا برتاؤ ہے۔ بندے کی بڑی عزت افزائی ہوئی کہ حضور کے درِ دولت تک مجھ ناچیز کی رسائی ہوئی۔ اب یہاں یہ گھاس پھونس کھاتا ہوں، تسلیم بجا لاتا ہوں۔“
یہ سن کروہ خاتون سمجھ گئی کہ کھانا پسند نہیں آیا۔ سوچ سوچ کر بولی:”سر!یو سیڈ…… نو پورک……نو پورک سر، آل ویجی ٹیبل۔“
حسن سمجھ گیا کہ اس خاتون سے بحث فضول ہے، اس کی زبان ہی نامعقول ہے۔
بادل نخواستہ، چار و ناچار دل بڑا کرکے کھانے لگا۔ کچھ بھوک بھی لگی تھی۔ کچھ سبزی بھی اچھی پکی تھی۔ کھایا تو مزے دار لگا اور حسن ایک ساتھ ہی دو تین چمچے بھر کر کھا گیا۔ اب جو غور کیا تو گوشت کچھ عجیب وضع کا نظر آیا۔ چند قتلے اٹھا کر کھائے۔ معلوم ہوا گوشت نہیں مچھلی ہے اور سبزیوں کے ذائقے کو دوبالا کرنے کو ڈالی گئی ہے۔ لیکن اگر مچھلی تھی تو عجیب نسل کی مچھلی تھی کہ کہیں سے موٹی کہیں سے پتلی تھی اور چمڑے کی مانند اکڑی تھی۔ دو تین قتلے اس مچھلی کے اور کھائے تھے کہ جی گھبرایا، دل میں آیا کہ اطمینان کرلینا چاہیے کہ مچھلی کے بھیس میں کہیں پورک نہ کھلاتے ہوں، مجھ غریب الوطن کو الوّ بناتے ہوں۔
 یہ سوچ کر اس خاتون وردی پوش کو اشارے میں بلایا اور کہا:”یہ گوشت کاہے کا ہے؟کبھی بکرے کا لگتا ہے کبھی مچھلی کا۔ ذرا یہ تو بتاؤ کہ کہیں پورک تو نہیں۔“

Loading

Read Previous

الف لیلہٰ داستان ۲۰۱۸ ۔ قسط نمبر ۲۴

Read Next

الف لیلہٰ داستان ۲۰۱۸ ۔ قسط نمبر ۲۶ ۔ آخری قسط

Leave a Reply

آپ کا ای میل ایڈریس شائع نہیں کیا جائے گا۔ ضروری خانوں کو * سے نشان زد کیا گیا ہے

error: Content is protected !!