الف لیلہٰ داستان ۲۰۱۸ ۔ قسط نمبر ۲۵

اتنے میں زلیخا کا فون آیا، پوچھا:”کیا خبر ہے؟“
حسن نے مغموم ہوکر کہا:”زلیخا، یہ بڑی ٹیڑھی کھیر ہے، بہت بڑا اندھیرہے۔ یہاں انسانوں کاکھانا نایاب ہے، بس میرا دل ہی سیخ کباب ہے۔ آخر اب کیا کیا جائے؟ بندہ کیونکر اس مصیبت سے چھٹکارہ پائے؟“
زلیخا نے تسلی دیتے ہوئے کہا:”فکر نہ کرو، میں نے پتا کیا ہے۔ تمہیں یہاں کہیں سبزیوں کے رول مل جائیں گے، اپنے سامنے بنوا کر کھانا، ان میں کسی قسم کا گوشت نہ ڈلوانا۔“
حسن نے بے چارگی سے پوچھا:”ان کا پتا میں کیونکر پاؤں گا؟ یہاں کس کو اپنی زبان سمجھاؤں گا؟“
زلیخا نے کہا:”میں تمہیں ایک لفظ بتاتی ہوں، اسے یاد کرلو اور یہاں کسی سے بھی وہ لفظ کہہ کر اشارے سے پوچھ لو کہ کہاں ملے گا۔“
چنانچہ زلیخا نے جو لفظ بتایا، حسن نے اچھی طرح دہرایا اور جب ایک راہگیر سے پوچھا تو اس نے حسن کو ایک خاتون تک پہنچایا جو ایک چھوٹی سی میز پر چولہا اور چولہے پر توا رکھے اس پر روٹیاں پکا رہی تھی۔ پاس بہت سی سبزیاں رکھی تھیں۔
حسن نے چند سبزیوں کی طرف اشارہ کیا اور اشارے سے دو روٹیاں دینے کا کہا۔ اس مادرِ مہربان نے جھٹ پٹ روٹیاں سینکیں۔ ان میں سبزیاں بھریں اور لپیٹ کر حسن کے ہاتھ میں تھمائیں۔ حسن نے پیٹ بھر کر کھائیں اور باری تعالیٰ کا شکر بجا لایا۔
لیکن ابھی حسن کی مصیبتیں ختم نہ ہوئی تھیں۔ پیٹ بھر کر بازار سے نکلا اور ہوٹل کی طرف چلا تو راستہ بھول گیا اور کسی اندھیری گمنام جگہ جا نکلا۔ عجیب و غریب گلیاں تھیں، اندھیری بھول بھلیاں تھیں۔ رات زیادہ ہورہی تھی اور حسن گھبرایا ہوا، حیران پریشان ادھر ادھر بھٹکتا پھرتا تھا۔ ایک اندھیری گلی سے نکلتا تو اس سے بھی زیادہ اندھیری گلی میں جا نکلتا۔ حسن کا مارے فکر کے برا حال ہوا، چوروں اور ڈاکوؤں کا خیال ہوا کہ ایسا نہ ہوکر مجھے لوٹ کر رقم چرا لے جائیں اور مجھ غریب الوطن کو ستائیں اور مفلس بنائیں۔ 
یہ سوچ کر اندھا دھند بھاگا اور ایک ایسی جگہ جا نکلا جہاں گھپ اندھیرا تھا اور ہاتھ کو ہاتھ سجھائی نہ دیتا تھا۔ دونوں طرف کی اونچی عمارتوں کے سبب آسمان بھی نظر نہ آتا تھا۔ اب تو حسن بہت گھبرایا کہ آدھی رات کا وقت ہے اور بلیوں کے رونے اور جھینگروں کی آواز کے سوا انسان کا نام و نشان نہیں۔ مغموم ہوکر سوچا:”یاالٰہی، میں تو اس نیت سے آیا تھا کہ تجارت چمکاؤں گا اور مال بناؤں گا، یہاں آیا تو جان کے لالے پڑے اور مال کا خدا حافظ۔“
اچانک دائیں طرف ایک سایہ سا لہرایا اور ایک ہاتھ آگے آیا اور حسن کا بازو دبوچ لیا۔
 حسن کی چیخ نکل گئی۔ بے ساختہ منہ سے نکلا:”کون ہے؟ کون ہے؟“
سائے نے گھبرا کر کہا:”یاالٰہی، میں تو اس نیت سے آیا تھا کہ تجارت چمکاؤں گا اور مال بناؤں گا، یہاں آیا تو جان کے لالے پڑے اور مال کا خدا حافظ۔“
اچانک دائیں طرف ایک سایہ سا لہرایا اور ایک ہاتھ آگے آیا اور حسن کا بازو دبوچ لیا۔
 حسن کی چیخ نکل گئی۔ بے ساختہ منہ سے نکلا:”کون ہے؟ کون ہے؟“
سائے نے گھبرا کر کہا:”ابے چیختا کیوں ہے؟ ایک تو سالے اس گلی میں بلب بھی نہیں لگاتے۔ ابھی میں رپٹتا تو سالا بازو ٹوٹ جاتا میرا۔“ 
یہ کہہ کر خاموش ہوا، جانے کس کام میں مصروف ہوا۔ پھر آواز آئی:”یہ رہا، ایک تو یہ سالا فون بھی وقت پر نہیں چلتا۔“
یہ کہہ کر فون کی روشنی جلائی اور حسن کے چہرے پر لپکائی۔ حسن کو دیکھ کر دانت نکالے اور خوش ہوکر پوچھا:”پاکستانی ہو؟“
حسن کے دل کو ڈھارس بندھی، ہم زبان کو دیکھ کر راحت ہوئی کہا:”ہاں، اے نوجوان، میں غریب الوطن مسافر ہوں، یہاں آیا اور رستہ بھول گیا۔ اب تم نظر آئے ہو تو جانِ تازہ پائی، خدا نے جان بچائی۔“
نوجوان نے جو حسن کی خوش زبانی ملاحظہ کی تو سمجھا کہ یہ شخص کوئی تاجرِ باتوقیر ہے، ضرور کوئی امیر کبیر ہے۔ خوش ہوکر پہلے دانت نکالے اور کہا:”بزنس کے لیے آئے ہیں آپ؟ پھر تو ٹھیک جگہ پہنچے ہیں۔“ یہ کہہ کر ادھر ادھر دیکھا اور راز داری سے بولا:”ہر برانڈ کی گھڑی، پرس، پرفیوم، جیولری، اے پلس کاپی، ماسٹر، رپلیکا ہمارے پاس دستیاب ہے۔ مارکیٹ سے ہاف ریٹ ہے سر۔ بے فکر ہوکر خریدیں۔ پاکستان سے جتنے لوگ آتے ہیں ہم سے ہی خریدتے ہیں سر۔ سالا دکان کا کرایہ نہیں دیا جاتا اس لیے یہاں سے بیچتے ہیں۔ آئیں نا سر آئیں۔“

Loading

Read Previous

الف لیلہٰ داستان ۲۰۱۸ ۔ قسط نمبر ۲۴

Read Next

الف لیلہٰ داستان ۲۰۱۸ ۔ قسط نمبر ۲۶ ۔ آخری قسط

Leave a Reply

آپ کا ای میل ایڈریس شائع نہیں کیا جائے گا۔ ضروری خانوں کو * سے نشان زد کیا گیا ہے

error: Content is protected !!