الف لیلہٰ داستان ۲۰۱۸ ۔ قسط نمبر ۲۵

حسن کچھ گھبرایا، دبدبھا میں آیا، سوچا، جاؤں نہ جاؤں؟ یہ نہ ہو ساتھ لے جا کر مجھے نقصان پہنچائے۔ پھر سوچا، نقصان پہنچانا ہوتا تو یہاں کیا امر مانع تھا؟ بہتر ہے کہ تن بہ تقدیر رہوں۔ شاید خدا کچھ خیر کا سبب بنائے اور یہ شخص مجھے واپس ہوٹل پہنچائے۔
یہ سوچ کر حسن اس کے ساتھ ہو لیا۔فون کی روشنی میں اندھیری سیڑھیاں چڑھ کر چوتھی منزل پر ایک کمرے میں پہنچے جہاں نیم اندھیرا تھا اور دو اشخاص بیٹھے تھے۔ انہیں آتا دیکھ کر اٹھ کھڑے ہوئے  لپک جھپک کر بتیاں روشن کیں اور حسن کو بصد عزت و احترام ایک ٹوٹی ہوئی کرسی پر بٹھا دیا۔ فوراً ہی طرح طرح کے ڈبے اور تھیلے اور پوٹلیاں لانے لگے اور کھول کھول کر حسن کو دکھانے لگے۔ طرح طرح کا اسبابِ تجارت دیکھ کر حسن اپنی مشکل یکسر بھولا اور قیمت سنی تو اور بھی خوش ہوا۔ بہت دیر بات چیت رہی اور حسن نے دکان کے لیے ان سے معاہدہ کیا اور ہر ماہ سامان منگوانے کا سودا کیا۔ اٹھتے اٹھتے اس نے زلیخا، ممانی، نانی اور نسیمہ باجی کے لیے کچھ تحفے خریدے اور بطریقِ اخلاق ان نوجوانوں کا شکریہ ادا کیا اور دل میں باری تعالیٰ کا سپاس گزار ہوا کہ جس نے خوف کے بعد امن کا وقت دکھایا اور ان اجنبیوں کو اس کے لیے باعث ِخیر و برکت بنایا۔
وہ نوجوان جو حسن کو یہاں لایا تھا اس نے  حسن کے فون میں کچھ ایسے کل پرزے دبائے کہ یہاں سے لے کر ہوٹل کا راستہ ایک سرخ لکیر کی صورت نمودار ہوا، حسن کو بہت استعجاب ہوا۔
اس نوجوان نے کہا:”یہ لیں سر، میں نے GPS آن کردیا ہے، اس کے سہارے آپ پہنچ جائیں گے۔ بے فکر ہو کے جائیں، کسی سالے کی مجال نہیں آپ کو کچھ کہے۔“
حسن نے دل میں سوچا، اگر میری کہانی میرے زمانے کے کسی شخص کو سنائی جائے تو اسے یوں معلوم ہوگا کہ کوئی دیو مالائی داستان سنتا ہے۔ ان کہانیوں میں شہزادے اڑن کھٹولے میں بیٹھ کر کسی اجنبی دیس میں جا نکلتے تھے جہاں وہ رستہ بھول جاتے تھے اور پھر کوئی مردِ بزرگ انہیں جادوئی گیند دے کر رستے میں لڑھکانے کی تلقین کرتا تھا اور اس کے پیچھے پیچھے وہ منزل ِمطلوب تک پہنچ جاتے تھے۔ میری بھی بعینہ وہی کہانی ہے۔ عجب بو العجبی ہے۔
ان مہربان نوجوانوں سے رخصت ہوکر سیڑھیوں کی طرف چلا۔ ٹوٹی پھوٹی اندھیری سیڑھیوں میں حسن پھونک پھونک کر قدم رکھتا تھا، دل ہی دل میں ڈرتا تھا۔ ابھی ایک منزل ہی اترا تھا کہ پاؤں پھسلا اور بندہئ درگاہ لڑھکنیاں کھاتے سیڑھیوں سے رپٹتے مزید ایک منزل نیچے جا پڑے۔ کہنیاں چھل گئیں۔ گھٹنوں پر رگڑ آئی اور گھر والوں کے تحفے ادھر ادھر بکھر گئے۔
یوں گرنے اور چوٹوں کے سبب حسن کے حواس غائب ہوئے اور مت بھنگی ہوگیا۔ وہیں پڑے پڑے اپنی حالت پر غور کرنے لگا کہ ایک مصیبت سے نکلتا ہوں تو دوسری میں پھنستا ہوں۔ عجب حال ہے، ڈھنگ سے جینا محال ہے۔
ابھی وہاں پڑا اپنی حالت پر غور کر ہی رہا تھا کہ جس دروازے کے آگے گرا پڑا تھا، وہ دروازہ کھلا اور ایک زنِ پیر نمودار ہوئی۔ چہرے پر ان گنت جھریاں، بال گویا روئی کے گالے، جھکی کمر، تن پر لباسِ فقر، حسن وہیں زمین پر پڑا اسے دیکھے گیا۔ وہ ضعیفہ آہستہ سے دو قدم چل کر حسن کے قریب آکھڑی ہوئی۔ ہاتھ میں پکڑی شمع بلند کرکے غور سے حسن کا چہرہ دیکھا اور سرگوشی میں بولی:”حسن بدرالدین؟“
حسن ششدر رہ گیا۔ ہڑ بڑا کر اٹھ بیٹھا۔ گھبرا کر پوچھا:”اے مادرِ مہربان، آپ کون ہیں؟ اور مجھے کیسے جانتی ہیں؟“
وہ زنِ پیر مسکرائی اور بولی:”آؤ، اندر آجاؤ۔“

Loading

Read Previous

الف لیلہٰ داستان ۲۰۱۸ ۔ قسط نمبر ۲۴

Read Next

الف لیلہٰ داستان ۲۰۱۸ ۔ قسط نمبر ۲۶ ۔ آخری قسط

Leave a Reply

آپ کا ای میل ایڈریس شائع نہیں کیا جائے گا۔ ضروری خانوں کو * سے نشان زد کیا گیا ہے

error: Content is protected !!