الف لیلہٰ داستان ۲۰۱۸ ۔ قسط نمبر ۲۵

یہ کہہ کر دروازے سے اندر کو سدھاری۔ حسن نے حواس ٹھکانے کیے اور جلدی سے اٹھ کر اس کے پیچھے پیچھے چلا۔ اندر گیا تو کیا دیکھتا ہے کہ اندھیرے کمرے میں وہ ضعیفہ ایک کرسی پر بیٹھی ہے۔ اس کے سامنے ایک تپائی ہے جس پر ایک بلوریں گولا رکھا ہے اور اس میں سے روشنی پھوٹتی ہے۔ اس گولے کی نرم روشنی کے سوا کمرے میں کوئی روشنی نہ تھی اور اس روشنی میں بڑھیا کا چہرہ صدیوں پرانا معلوم ہوتا تھا۔
حسن نے ڈرتے ڈرتے قدم بڑھایا اور جا کر بلوریں گول کی میز کے پاس رکھی دوسری کرسی پر بیٹھ گیا۔ اس کا دل دھک دھک کرتا تھا، بہت ڈرتا تھا۔ بلوریں گولے پر نظر جمائی تو اندر دھوئیں کی لہر نظر آئی۔ حسن گھبرایا، دل میں سوچا، یہ کیا اسرار ہے؟ بڑا خلفشار ہے۔
بڑھیا سے بہت کچھ پوچھنا چاہتا تھا مگر وہ گولے پر نظریں جمائے بیٹھی تھی اور گویا کسی اور ہی دنیا کی سیر کرتی تھی۔ حسن کا دل کہتا تھا کہ اس اسرار کا تعلق خود اس کی ذات سے ہے اور پردہئ خفی سے جو بھی ظہور میں آئے گا، اس کے لیے کوئی خبر لائے گا۔
ابھی یہ باتیں سوچ ہی رہا تھا کہ اچانک بلوریں گولے میں چکا چوند کا عالم ہوا۔ یکایک یوں معلوم ہوا کہ بدلی میں بجلی چمک گئی، دامنی دنک گئی۔ جب یہ چمک ماند پڑی تو حسن نے دیکھا کہ بلوریں گولے میں دھواں تحلیل ہورہا ہے اور اس دھوئیں میں حسن کی شکل نظر آنے لگی۔ حسن دم بخود بیٹھا اپنے آپ کو گولے میں ابھرتے دیکھتا رہا۔ اس نے دیکھا کہ وہ ایک باغ میں چلا جاتا ہے۔ ایک مقام پر تھک کر رکتا  ہے اور بیٹھ کر روٹی نکال کر کھاتا ہے۔ اسی وقت وہاں پر ایک عورت آتی ہے۔ وہ عورت کمال لطف و الفت سے کچھ بات کرتی ہے۔ حسن انکار میں سر ہلاتا ہے۔ وہ عورت غصے میں آکر حسن کو ایک ہاتھ میں اٹھا کر سر سے اوپر گھماتی ہے اور کہیں دے مارتی ہے۔ حسن کا چاقو بجلی کی طرح چمکتا ہے اورعورت کے سینے میں پیوست ہو جاتا ہے۔ وہ عورت زمین پر گر جاتی ہے اور حسن منظر سے غائب ہو جاتا ہے۔
حسن دم بخود بیٹھا اس صدمہئ حیرت انگیز کو خود پر بیتتے دیکھتا رہا۔ یہ اس کی زندگی کا وہ دن تھا جس نے اس کی کایا پلٹ دی تھی۔ اسے یکہ و تنہا اس کے زمانے سے نوچ کر وقت کی ٹھوکریں کھانے کے لیے سال دو ہزار اٹھارہ میں پھینک دیا تھا۔یہ دن اس کی زندگی میں نہ آتا تو وہ کاہے کو اتنے دکھ اٹھاتا؟
بلوریں گولے میں ایک مرتبہ پھر دھویں کے بادل چکرانے لگے تھے۔ حسن نے گولے سے نظریں اٹھا کر بڑھیا کو دیکھا تو اسے اپنی طرف دیکھتا پایا۔ حسن اس سے ہزاروں سوال پوچھنا چاہتا تھا لیکن فیصلہ نہ کر پاتا تھا کہ پہلے کون سا سوال پوچھے۔
اس سے پہلے کہ حسن کچھ پوچھنے پاتا، اس زنِ پیر نے کہا:”میں سب جانتی ہوں، جب سے تمہاری کہانی معلوم ہوئی تھی تمہاری کھوج میں رہتی تھی، میں نے ہی تمہارے دماغ میں تجارت کا خیال ڈال کر تمہیں یہاں بلوایا، میں نے ہی اپنے علم سے تمہیں ان گلیوں میں بھٹکایا۔ ان سیڑھیوں پر میں نے ہی پانی ڈال کر پھسلن کی تھی تاکہ تم سیدھے میرے دروازے کے آگے آگرو۔ خوش آمدید حسن بدرالدین، آخر ایک سال کی کھوج کے بعد میں نے تمہیں پا ہی لیا۔“
حسن کا مارے استعجاب کے یہ حال تھا کہ منہ کھلے کا کھلا تھا، آنکھیں پھٹی تھیں اور منہ پر بات نہ آتی تھی، دنگ تھا، خاموش تھا، پنبہ درگوش تھا۔
اس زنِ پیر نے جو حسن کی یہ حالت دیکھی تو ہنسی اور کہا:”تم سوچ رہے ہو کہ میں کون ہوں اور تمہیں کیسے جانتی ہوں؟ تو سنو، میرا تعلق ہندوستان سے ہے اور میں ایک ساحرہ ہوں۔ سحر کا یہ علم میرے خاندان میں سینہ بہ سینہ چلا آتا ہے، لیکن ہم لوگوں کے سامنے نہیں آتے اور اپنے علم کو کسی برائی کے لیے استعمال نہیں کرتے۔ زندگی بھر کی ریاضت کے بعد آخر میں سحر کی حرفت میں اس مقام پر پہنچی کہ میرا رابطہ پرانے زمانے کی ایک ساحرہ سے ہوگیا۔ تمہارے حالات مجھے اسی ساحرہ سے معلوم ہوئے۔“ 
حسن نے اپنے دھڑکتے دل کو سنبھالا اور پوچھا:”وہ ساحرہ کون تھی؟ مجھے کیسے جانتی تھی؟ آپ نے مجھے یہاں کیوں بلوایا؟ خدارا اس اسرار سے پردہ اٹھائیے، راز نہائی نہ چھپائیے۔“
بڑھیا ہنسی اور بولی:”وہ ساحرہ ”تھی“ نہیں ”ہے“ یعنی اب بھی موجود ہے اور تمہارے زمانے میں جی رہی ہے۔ بات اصل میں یہ ہے کہ قدرت کا نظام انسانوں کے چھوٹے سے دماغ میں نہیں سما سکتا۔ وقت کسی ایک پل یا گھڑی کا نام نہیں ہے۔ یہ ازل سے ہے اور ہمہ دم جاری ہے۔ اسی کائنات کے ساتھ ایک دوسری کائنات ہے جہاں تم اپنے ماضی یا مستقبل میں جی رہے ہو۔ وہ زمانہ جو تم چھوڑ آئے ہو، اس کائنات میں جاری و ساری ہے اور جو زمانہ تم آنے والے وقت میں جیو گے وہ بھی ساتھ ساتھ چل رہا ہے۔ ایک حسن بدرالدین تم تھے جو اس زمانے میں اپنے ماں باپ کے ساتھ رہ رہے تھے اور دوسرا حسن بدر الدین وہ تھا جو آج کے زمانے میں اپنے گھر میں رہا تھا۔ جب اس جادوگرنی نے تمہیں وقت کی گردش میں پھینکا تو اس کا ارادہ تمہیں قیامت تک اس گردش میں گھن چکر بنا کر گھمانے کا تھا، لیکن چونکہ تم نے چھری سے اس کا کام تمام کرنے کی کوشش کی لہٰذا وہ پوری طاقت سے تمہیں پھینک نہ سکی اور تم سال دو ہزار اٹھارہ میں آگرے۔“

Loading

Read Previous

الف لیلہٰ داستان ۲۰۱۸ ۔ قسط نمبر ۲۴

Read Next

الف لیلہٰ داستان ۲۰۱۸ ۔ قسط نمبر ۲۶ ۔ آخری قسط

Leave a Reply

آپ کا ای میل ایڈریس شائع نہیں کیا جائے گا۔ ضروری خانوں کو * سے نشان زد کیا گیا ہے

error: Content is protected !!