الف لیلہٰ داستان ۲۰۱۸ ۔ قسط نمبر ۲۳

نانی نے ملول ورنجور ہوکر کہا: ‘‘ہاں بیٹا۔ میں کل شام وہاں پہنچی تو وہاں تو سمجھو شادی کا سماں تھا۔ اتنی مٹھائی، اتنے پھل اور اتنے پھول کم از کم میں نے تو اپنی پوری زندگی میں ایک جگہ نہیں دیکھے۔ اس کا باپ تو ایسے خوش تھا جیسے صدرِ پاکستان سے شادی ہورہی ہو اس کی بیٹی کی۔ پھر بیٹا میں تو چپ کی چپ ہی رہ گئی۔ ہمت ہی نہیں ہوئی کچھ کہنے کی۔ جب نکاح ہی ہوگیا ہے تو کیا فائدہ رشتہ ڈالنے کا۔ میں مبارک دے کر چلی آئی۔’’
حسن نے بے قرار ی سے کہا: ‘‘یہ سب اس کے ملعون باپ کا کیا دھرا ہے۔ اس نکاح کی ترکیب یقینا اس نے لڑائی، ہم مظلوموں پر بڑی آفت ڈھائی۔ کرن غریب تو بہت روتی ہوگی ، رو رو کر جان کھوتی ہوگی۔’’
نانی نے بے ساختہ نظر اٹھا کر حسن کو دیکھا اور کچھ کہنے کے لئے منہ کھولا۔پھر یکا یک ان کی نگاہوں میں ترس، ہمدردی اور بے بسی اتر آئی۔کچھ کہتے کہتے رک گئیں اور نظریں چرالیں۔ پھر گہرا سانس لیا اور حسن کا ہاتھ تھپک کر بولیں:‘‘اب وہ کسی کی امانت ہے۔ تو ُ اسے بھول جا،میرے بچے۔’’
پیچھے سے آواز آئی: ‘‘دادی اماں ٹھیک کہتی ہیں۔ اس کا نکاح ہوچکا ۔ وہ کسی کی بیوی ہے۔ تم اسے بھول جاؤ۔’’
مڑ کر دیکھا تو زلیخا اپنا سفید جبہ پہنے کھڑی تھی۔ شاید کالج جارہی تھی۔
حسن نے تڑپ کر کہا: ‘‘کیسے بھول جاؤں۔ عشق تھا۔ کوئی چار دن کی دل لگی تو نہیں تھی کہ یوں چشمِ زدن میں بھول جاؤں۔’’
نانی کو یوں سرعام عاشقی معشوقی کی بات اچھی نہ لگی۔ خفا ہوکر بولیں:‘‘اس لئے کہتے ہیں کبھی کسی بڑے کی بات مان لینی چاہیے۔ کتنی دفعہ تجھے کہا کہ اپنے اُس دوست سے زلیخا کی بات چلا لیکن توُ نے بات ہی نہ سنی۔ لڑکا خوبصورت تھا، پڑھا لکھا تھا، امیر تھا۔ بھلا ایسے لڑکوں کو کمی ہوتی ہے؟ دیکھ ،لے اڑی نا اُسے وہ لڑکی۔’’
یہ کہہ کر بڑبڑاتی ہوئی اٹھیں اور سٹر پٹرکرتی اندر کو سدھاریں۔
حسن مغموم و ملول، بے قرار مضطرب وہاں بیٹھا رہ گیا۔ زلیخا آگے بڑھی اور حسن کے پاس آکھڑی ہوئی۔ ہاتھ میں پکڑی کتابیں دوسرے ہاتھ میں منتقل کیں اور خالی ہاتھ حسن کے کندھے پر رکھ دیا۔ بصد ہمدردی و محبت حسن کا کندھا تھپکا اور شفقت سے بولی: ‘‘دادی کی باتوں کا برا مت ماننا، تمہارا کوئی قصور نہیں۔ آہستہ آہستہ تمہیں صبر آہی جائے گا۔دیکھو ماما کو بھی تو اب صبر آنے لگا ہے ،ابا کی شادی کے معاملے پر ۔تمہیں بھی آجائے گا۔ ویسے بھی اب وہ کسی اور کی بیوی ہے……’’
حسن نے بات کاٹ کر کہا:‘‘ وہ کسی کی بیوی نہیں ہے۔’’
زلیخا نے ہمدردی سے حسن کو یوں دیکھا گویا اس کا دماغ چل گیا ہو۔ ترس کھا کربولی:‘‘اوہ حسن، جب نکاح ہوجاتا ہے تو……’’
حسن نے بے قرار ی سے کہا: ‘‘اس کا عاصم سے نکاح نہیں ہوا۔۔۔ یعنی ہو ا تو لیکن اصل میں ہوا نہیں۔ہو ہی نہیں سکتا۔’’
زلیخا نے چکر اکر پوچھا۔ ‘‘کیا کہہ رہے ہو؟ نکاح ہو گیا تو اب ہو کیوں نہیں سکتا ؟’’
حسن نے دلگیر ہوکر کہا۔ ‘‘کیونکہ عاصم …… عاصم …… قومِ لوط سے ہے۔’’
زلیخا کے ہاتھ سے کتابیں گرپڑیں۔ بھونچکا ہوکر بولی۔ ‘‘کیا؟ او ہ مائی گاڈ…… او ہ مائی گاڈ۔ کرن بے چاری کو تو پتا بھی نہیں ہوگا! تمہیں اسے بتانا چاہیے حسن، خبردار کرنا چاہیے۔’’
حسن نے بے قرار ی سے کہا: ‘‘میں ایک مرتبہ اس سے ملنا چاہتا ہوں۔ وہ بھی میری طرح تڑپتی ہوگی۔ کچھ بعید نہیں کہ غش آتے ہوں۔ لیکن ملنے کی کوئی صورت نظر نہیں آتی، کوئی تدبیر بن نہیں پاتی۔کروں تو کیا کروں؟’’
زلیخا نے گہراسانس لیا اور کہا:‘‘میں ملواؤں گی تمہیں اس سے۔۔۔ چاہے مجھے جھوٹ ہی کیوں نہ بولنا پڑے۔ لیکن میں اپنے سامنے ایک لڑکی کی زندگی تباہ ہوتے نہیں دیکھ سکتی۔ آؤ میرے ساتھ!’’
چنانچہ حسن بدر الدین زلیخا کے ساتھ گھر سے نکلا اور اس محبوبہ پری رخسار کے مکان پر پہنچا۔ وہاں زلیخا نے اسے ایک درخت کے پیچھے چھپایا اور دروازہ کھٹکھٹایا۔ جب کرن کا دیوزاد باپ باہر نکلا تو اس سے کہا۔‘‘انکل، میں کرن کو نکاح کی مبارک باد دینے آئی ہوں۔ وہ گھر پر ہے؟’’

Loading

Read Previous

الف لیلہٰ داستان ۲۰۱۸ ۔ قسط نمبر ۲۲

Read Next

الف لیلہٰ داستان ۲۰۱۸ ۔ قسط نمبر ۲۴

Leave a Reply

آپ کا ای میل ایڈریس شائع نہیں کیا جائے گا۔ ضروری خانوں کو * سے نشان زد کیا گیا ہے

error: Content is protected !!