الف لیلہٰ داستان ۲۰۱۸ ۔ قسط نمبر ۲۳

حسن گھبرایا کہ یا الٰہی یہ کیا روزِ بد دیکھنے میں آیا؟ کنیز نے صحن میں حسن کو کھڑا دیکھا تو اور بھی پھوٹ پھوٹ کر رونے لگی، اشکوں سے منہ دھونے لگی۔ حسن سخت گھبرایا۔ پوچھا:
‘‘یہ کیاماجرا ہے؟ کیا صدمہ ء جاں گزاہے؟ کس کی قضا ہے؟’’
اس نے دوپٹے سے ناک پونچھا اور روتے ہوئے بولی: ‘‘ہائے حسن بھائی جان، میرے ساتھ ظلم ہوا ہے۔ بڑا دھوکہ ہوا ہے۔’’
حسن نے حیران ہوکر کہا: ‘‘کس نے تجھ پر ظلم روا کیا ؟درِتعدی وا کیا؟’’
وہ زارزار روتے ہوئے بولی:‘‘کرن باجی نے۔’’
محبوبہء بے وفاکا نام سنا، حسن کے دل پر گھونسہ لگا۔ پوچھا: ‘‘اس نے تیرے ساتھ کیا ظلم کیا؟’’
کنیرِبے تمیز ناک سڑک کر بولی: ‘‘آپ کو تو پتا ہی ہے کہ پچھلے محلے والے آفتاب بھائی کرن باجی سے رشتہ کرانے کے لئے مجھے پیسے دیتے رہتے تھے۔ کبھی دو ہزار، کبھی پانچ ہزار ، سونے کی بالیاں بھی بنواکردیں۔ کرن باجی سے میں نے جب بھی رشتے کی بات کی انہوں نے ہنس کے دکھا دیا۔ کبھی سیدھا جواب ہی نہیں دیا۔ میں سمجھتی رہی راضی ہیں۔ میں آفتاب بھائی کو کہتی رہی کہ بس رشتہ ہوا ہی ہوا۔ وہ خوش ہوکے مجھے اور پیسے دیتے رہے۔’’
اتنا کہہ کر پھوٹ پھوٹ کر رونے لگی اور ہچکیوں کے ساتھ بولی: ‘‘اور دیکھیں یہ کرن باجی نے کیاکیا۔ چپ چپاتے اچانک نکاح کرلیا۔ اشارہ تک نہیں ہونے دیا کہ یہ حرکت کرنے لگی ہیں۔ اوراب وہ آفتا ب بھائی بندوق لے کر میرے پیچھے پڑگئے ہیں ۔ کہتے ہیں تو ُنے مجھے دھوکہ دیاہے۔ کہتے ہیں میرے سارے پیسے واپس کرورنہ گولی مار دوں گا۔’’
حسن نے بددماغ ہوکر کہا: ‘‘اے خانہ ء براندازِپارسائی، فروغِ باز ارِ بے حیائی۔ یہ جو کچھ ہوا ہے تیری وجہ سے ہوا ہے۔ تو ہی اس کی بانی ہے، یہ سب تیری ہی کارستانی ہے! توُہی لوگوں کے پیغام لے لے کر اس تک جاتی تھی، اسے خوب چڑھاتی تھی۔ اب بھگت۔’’
کنیز نے روتے ہوئے کہا: ‘‘ہائے حسن بھائی، مجھے آپ کا دل دکھانے کی سزا ملی ہے۔ میں جان جان کے آپ کو تنگ کرتی تھی، آفتا ب بھائی کا نام لے لے کے جلاتی تھی۔ اب وہی آفتاب بھائی مجھے جلانے کو پھررہے ہیں۔’’
حسن نے بے اعتنائی سے کہا: ‘‘اچھا ہوا کہ تو اپنی سز اکو پہنچی۔ جو کیا، وہ پایا۔ افعال ِبد اور حرکاتِ ناشائستہ نے یہ دن دکھایا۔ جوحرکتیں توُ میرا دل جلانے کو کرتی تھی وہی سامنے آئیں۔ کوئی اور ہوتا تو شرم سے ڈوب مرتا مگر بے حیا کی رسی دراز ہے۔ اچھوں کے لئے اجل کا باب بھی بازہے۔ لیکن فکر نہ کر جتنی توُ شیطانی ہے، تیری موت بھی جلد آنی ہے۔’’
کنیز نے آنکھیں پونچھ کرکہا: ‘‘ہاں ،تو یہ تو آفتاب بھائی بھی مجھے یہی کہتے ہیں۔ آپ کو پتا ہے کتنا قرضہ بنادیاہے انہوں نے میرا؟ ایک لاکھ روپے۔’’
حسن نے بھونچکا ہوکر کہا: ‘‘یا الٰہی ! اے زنِ مکارہ و کنیزِ عیارہ ! تو نے ایک لاکھ روپیہ کہاں اڑادیا؟’’
کنیز نے آبدیدہ ہوکر کہا: ‘ہم جیسے لوگوں کوپیسہ اڑانے کے لئے کہاں ملتا ہے، حسن بھائی؟ میری بڑی بہن بیوہ ہے۔ اس کا ایک ہی ایک بچہ ہے۔ اس کے دماغ میں رسولی ہوگئی۔ ڈاکٹر نے سات گھنٹے کا آپریشن کیا۔ سرمیں تین جگہ چیرے دے کر رسولی نکالی۔’’
یہ سننا تھا کہ حسن بدر الدین ، کہ انتہا کا رحمدل اور رقیق القلب نوجوان تھا، سخت گھبرایا۔
پوچھا: ‘‘تین چیرے دیئے؟ وہ بچہ بچ گیا یا نہیں؟’’
کنیزنے دکھی ہوکرکہا: ‘‘بچ تو گیا پر اس کے آپریشن پر اتنا پیسہ لگاکہ گھرکے برتن تک بک گئے۔ میں نے بالیاں اپنی شادی کے لئے رکھی ہوئی تھیں ،وہ بھی بک گئیں ۔ پچھلی بارشوں میں گھر کی چھت گرپڑی تھی۔ وہ ڈلوانے کے لئے بھی میں نے آفتاب بھائی سے پیسے لئے تھے۔’’
یہ کہہ کر رنج و غم کے مارے پھر سے رونے لگی اور مغموم ہو بولی: ‘‘اور اب وہ یہ سارے پیسے واپس مانگ رہے ہیں۔میں کہاں سے دوں گی، حسن بھائی؟’’
حسن نے گہرا سا نس لیا۔ آگے بڑھ کر کنیز کے سر پر ہاتھ رکھا اور کہا:‘‘میں چکاؤں گا تیرا قرضہ۔ اور ہاں، آئندہ خبردار اُس آفتاب سے پیسے مانگے تو! میں مر نہیں گیا ۔ جب تک زندہ ہوں تیرے یتیم بھانجے کا خرچ اٹھاؤں گا، کوئی کمی نہ لاؤں گا۔’’
چند لمحے تک کنیزششدر ہوکر حسن کی صور ت دیکھتی رہی پھر یکا یک اس کے پیروں میں گر پڑی اور دھاڑیں مار کر رونے لگی۔
حسن نے گھبرا کر پیرچھڑانے کی کوشش کی، اور کہا:‘‘ارے کیا کرتی ہے ؟ چھوڑ میرے پیر۔’’
لیکن اس نے اور بھی زور سے پکڑ لئے ۔ زارزار رونے لگی، اپنے آنسوؤں سے حسن کے پیر بھگونے لگی۔
ہچکیاں لیتے ہوئے بولی: ‘‘آ پ انسان نہیں ہیں فرشتہ ہیں، بھائی جان۔ میں نے ہمیشہ آپ کو تنگ کیا اور آپ نے ہمیشہ میرے ساتھ نیکی کی۔ آپ بڑی نیک ماں کے بیٹے ہیں ،بھائی جان۔ اپنی ماں کے صدقے مجھے معاف کردیں۔’’
حسن کی آنکھیں ڈبڈاآئیں۔ گلو گیر ہوکرکہا:‘‘جا،میں نے تجھے معاف کیا۔ اگلے ہفتے آکر مجھ سے پیسے لے جانا۔’’
اتنے میں زلیخا باہر نکلی ۔ یہ منظر دیکھ کر بے حد حیران ہوئی، بڑی پریشان ہوئی۔ گھبرا کر پوچھا: ‘‘یہ کیا ہورہاہے؟’’
کنیز اٹھ کر کھڑی ہوئی اور آنسو پونچھتے ہوئے بولی۔ ‘‘حسن بھائی انسان نہیں فرشتہ ہیں۔ میں آپ کو سچی بات بتاؤں؟ کرن باجی ان کے قابل نہیں تھیں۔ ان کے قابل تو صرف آپ ہیں۔’’
یہ کہہ کر سسکیاں لیتے ہوئے وہاں سے سدھاری۔
کنیز کی بات سن کر زلیخا تو بڑاگڑبڑائی، لیکن حسن کو نئے سرے سے محبوبہء بے وفا کی یاد آئی۔ بڑا ملال ہوا، محبوبہ کا ذکر جی کا جنجال ہوا۔ مضمحل ہوکر وہیں تخت پر بیٹھ گیا۔

Loading

Read Previous

الف لیلہٰ داستان ۲۰۱۸ ۔ قسط نمبر ۲۲

Read Next

الف لیلہٰ داستان ۲۰۱۸ ۔ قسط نمبر ۲۴

Leave a Reply

آپ کا ای میل ایڈریس شائع نہیں کیا جائے گا۔ ضروری خانوں کو * سے نشان زد کیا گیا ہے

error: Content is protected !!