الف لیلہٰ داستان ۲۰۱۸ ۔ قسط نمبر ۲۳


تعریف اس خدا کی جس نے جذباتی عورتیں اور غیر جذباتی مرد پیدا کئے۔ جب عورت دو جمع دو چار کرنے لگے اور مرد جذباتیت کا دم بھرنے لگے تو پھر وہی ہوتا ہے جو کرن اور حسن کے ساتھ ہوا۔ کرن نے اپنی عزت ِنفس داؤ پر لگائی ، حسن کے دل پر تباہی آئی۔ کرن نے چند ٹکوں کے عوض آبرو میں بٹا لگایا۔ حسن نے اندھا دھند عشق میں بڑاصدمہ اٹھایا۔
کرن کے گھر سے واپس آیاتو مارے غم کے حسن کا یہ حال تھا کہ دیوانہ ہوگیا تھا۔ ماہی ء بے آب کی طرح مضطرب حال و پریشاں روزگار، ہدفِ نشانہء ادبار۔۔۔ دل میں کہرا م مچا ہوا، دماغ میں محشر بپا ہوا۔ رہ رہ کر کرن کی باتیں یاد آتی تھیں، دل میں کچوکے لگاتی تھیں۔ اس کے لہجے کا وہ استہزاء، اس کی آنکھوں کی وہ تحقیر ، اس کا وہ حسن کو دو کوڑی کا باور کرنا، اس کے خاندان ، گھر، کاروبار اور حیثیت کی تذلیل کرنا، حسن کو کتے سے تشبیہ دینا، عاصم کی دولت کو حسن کی محبت پر ترجیح دینا۔
لیکن یہ سب باتیں ایک طرف اور وہ آخر کی دعوتِ گناہ ایک طرف۔ وہ کُتاکہتی منظور تھا، ذلیل سمجھتی ٹھیک تھا، نیچ اوقات باور کرتی گوارا تھا، لیکن اس نے کیا سمجھ کے اِس یقین سے یہ کہا کہ : ‘‘اس کے لئے آپ ہیں نا۔’’ یہ رنج حسن کے دل سے جاتا نہ تھا کہ وہ اسے شادی کے لئے اپنے قابل نہ سمجھتی تھی لیکن اس چیز کے لئے پالتو غلام رکھنا چاہتی تھی جو اس کا شوہر اسے نہ دے سکتا تھا۔
شادی کسی اور سے، شوقِ وصلت کسی اور سے؟
اور کیا سمجھاتھا اس نے حسن کو کہ کس نیچ خاندان کا ا ور کس بدکردار خون کا تھا کہ کسی کی زوجہ منکوحہ کے ساتھ عشق لڑاتا، شرافت کو بٹا لگاتا؟
اپنے کمرے میں پڑ احسن یہ باتیں سوچا کیا اور کلیجہ کھرچا کیا۔ شام تک ہلہلا کر بخار چڑھا، سانس کا لینا مشکل ہوگیا اور صورت ایسی بدل گئی جیسے چھ مہینے کا بیمار ، خستہ وحزیں و دلفگار۔
شام کو زلیخا کالج سے آئی تو سیدھی حسن کے کمرے میں آئی ۔ آکر شفقت سے حسن کے ماتھے پر ہاتھ رکھا اور ہمدردی سے پوچھا : ‘‘کیاحال ہے حسن؟’’
حسن نے آنکھیں کھولیں۔ زلیخا پر نظرپڑی تو دل بھر آیا ۔ آنکھوں سے آنسو بہنے لگے لیکن زبان پر کوئی لفظ نہ لایا۔ زلیخا سمجھ گئی کہ صعوبتِ عشق نے یہ دن دکھایا ہے، اور فراقِ یار کے خیال نے اس قدر ستایا ہے۔
گرم دودھ کی پیالی لاکر پلائی ، دواکے نام پر کچھ کڑوی سی چیز کھلائی اور حسن کو یوں نیند آئی کہ گویا غشی طاری ہوئی، عقل عاری ہوئی۔ ہوش وخرد سے بیگانہ ہوا، نیند کی وادی کو روانہ ہوا۔
صبح آنکھ کھلی تو پہلا خیال معشوقہ اور اس کی بے وفائی کا آیا، بڑاصدمہ اٹھایا۔ دل چاہا گریبان پھاڑ ڈالے اور دیوانہ وار جنگلوں کو نکل جائے، پھر کبھی صورت نہ دکھائے۔ لیکن اول تو لاہور کے اردگرد کوئی جنگل نہ تھااور اگرتھا بھی تو حسن کو اس کا رستہ نہ آتا تھا۔ اور دوئم یہ معلوم نہ تھا کہ اس جنگل میں کوئی شیر چیتے موذی جانور تھے یا نہیں۔ بے شک اس صدمہء جگر دوز سے بڑا ملال تھا، بُرا حال تھا، لیکن طبیعت خود کشی کی طرف مائل نہ تھی۔ جان پیاری چیز ہے، ہر دل عزیز ہے۔
مثل مشہور ہے چھوٹی گائے بھیسلے کھڑی۔ حسن بھی اٹھا اور زلیخا کی تلاش میں باہر نکلا۔ اس وقت اس کے درد کا درماں اور کوئی نہ ہوسکتا تھا۔ صحن میں نکلا تو زلیخا تو نہ ملی البتہ کسی کے زارو زار رونے کی آواز آئی۔ دیکھا تو کنیز ِبے تمیز چلی آتی ہے اور رو رو کر آسمان سر پر اٹھاتی ہے۔

Loading

Read Previous

الف لیلہٰ داستان ۲۰۱۸ ۔ قسط نمبر ۲۲

Read Next

الف لیلہٰ داستان ۲۰۱۸ ۔ قسط نمبر ۲۴

Leave a Reply

آپ کا ای میل ایڈریس شائع نہیں کیا جائے گا۔ ضروری خانوں کو * سے نشان زد کیا گیا ہے

error: Content is protected !!