الف لیلہٰ داستان ۲۰۱۸ ۔ قسط نمبر ۲۳

حسن نے بے قرار ی سے کہا: ‘‘لیکن تمہیں تو دل و جان سے میراپیار تھا، میں بھی عاشق و جانثار تھا پھر کیونکر مجھ سے منہ موڑا، عاصم سے ناطہ کیوں جوڑا؟’’
وہ مسکرائی اور بولی: ‘‘اتنی دیر سے آپ کو بتارہی ہوں ، آپ کو اب تک سمجھ نہیں آئی؟ چلیں صاف صاف سننا چاہتے ہیں تو سنیں۔آپ کا اور عاصم کا کو ئی میچ ہی نہیں۔ آپ کے پاس ایک پھٹی پرانی بائیک۔ اس کے پاس لینڈ کروزر۔ آپ کے بینک میں ٹوٹل رقم تین لاکھ روپے، اس کا بینک بیلنس تین کروڑ روپے۔ اس کے ابا ایک بڑے زمیندار ، ایم این اے اور آپ ؟ آپ کے تو ابا ہی نہیں۔’’
یہ کہہ کر تمسخر سے ہنسی اور بولی۔ ‘‘بس لے دے کے ایک ماموں ہیں جو دوسری شادی کرکے گھر سے بھاگ گئے ہیں۔ عاصم کی بہنیں ارب پتی خاندانوں میں بیاہی ہوئی اور آپ کی بہنیں؟ ایک وہ نسیمہ آپا، سکینڈل کوئین، خاوند سے طلاق لے کر اس کے سوتیلے باپ سے شادی کرلی ۔ اوردوسری وہ کالی کلوٹی زلیخا۔ ہونہہ۔’’
وہ زنکہء سفاک یوں حسن کو کونچے دیتی تھی اور حسن کا یہ حال کہ سخت غمناک ود لفگار ہوا جاتا تھا، حال بہت زار ہواجاتا تھا۔ کانوں پر یقین نہ آتا تھا، آنکھوں کے آگے اندھیرا چھاتا تھا۔
حسن کی اس حالت سے بے خبر وہ حسینہ ماہ جبینہ کہتی رہی: ‘‘پہلے میں نے سوچا تھا آپ کا ڈرامہ آئے گاتو آپ سپر سٹار بن جائیں گے ،لیکن ڈرامہ بھی آپ کا فلاپ ہوگیا۔ دکان سے بھلا آپ کتنا کمالیں گے؟ دکان بھی وہ جس میں اتنے حصہ دار ہیں۔ اور ویسے بھی، ایک دکاندار جو سارا دن دکان پر بیٹھ کر عورتوں کو کپڑے بیچتا ہو، وہ اچھا ہے یا وہ شخص جس کا باپ ایم این اے ہو اور کل کو کسی بڑے سرکاری عہدے پر بیٹھنے کا اسکا بڑا چانس ہو؟’’
حسن کے پاس اس سوال کا جواب نہ تھا۔ ہوتا بھی تو دے نہ پاتا کیونکہ اس کا سانس بند ہوچلا تھا، دل رک رک کر چلنے لگا تھااور جسم سے جان نکلتی محسوس ہوتی تھی۔
کرن نے ایک استہزائیہ نظر حسن پر ڈالی اور بولی : ‘‘وہ تیرہ لاکھ کا ایک ہیراخریدتا ہے اور آپ مجھے کس چیز پر ٹرخاتے ہیں؟ اپنی ماں کی پرانی شیشے جڑی انگوٹھی پر۔’’
حسن نے گہرا سانس لیا اور بمشکل کہا: ‘‘وہ ہیرا عاصم نے مجھ ہی سے خریدا تھا۔ اور میری ماں کی انگوٹھی انمول ہے۔ آج بیچنے نکلوں تو کوئی قیمت نہ دے سکے۔’’
کرن نے قہقہہ لگایا اور بولی: ‘‘اور کچھ ہو نہ ہو سینس آف ہیومر بڑی اچھی ہے آپ کی۔ ہیرا اور آپ سے خریدا؟ ماں کی انگوٹھی انمول ؟ ہاہاہا۔’’
وہ قہقہے لگاتی تھی اور حسن اسے یوں دیکھتا تھا گویا پہلی مرتبہ دیکھ رہا ہو۔
ہنسی تھمی تو وہ جادو نگاہ ، رشکِ ماہ تیکھے لہجے میں بولی : ‘‘اتنے کوئی ہیرے تھے آپ کے پاس تو کوئی ڈھنگ کی گھڑی ہی لے لیتے، کوئی کام کا موبائل ہی خرید لیتے۔ اُن کے پاس تو لیٹسٹ آئی فون ہے۔ رولیکس پہنتے ہیں۔ آپ اپنا باواآدم کے زمانے کا نوکیا لے کر پھرتے ہیں، اور یہ سستی سی گھڑی پہنی ہوئی ہے۔ بھئی مرد کی شان ہوتی ہے گھڑی۔’’
حسن نے استہزائیہ سے کہا۔ ‘‘مرد؟’’
وہ اپنی دھن میں کہتی رہی۔ ‘‘اور آپ کے پاس تو اپنا گھر کیا کوئی پلاٹ بھی نہیں۔ ماموں کے پھٹیچر گھر میں ایک چھوٹا ترین کمرہ ملا ہوا ہے۔ اس میں سے بھی جب ممانی کا دل کرتا ہے دھکے مار کر نکال دیتی ہیں، جب دل کرتا ہے واپس رکھ لیتی ہیں۔ انسان نہ ہوا کتا ہوگیا۔ جب دل کیا ٹھڈا مار کر بھگا دیا، جب دل کیا ہڈی ڈال کربلالیا۔’’
حسن یک ٹک کرن کو دیکھتا تھا۔ اس کے منہ سے اپنی اوقات سنتا تھا، اس کی آنکھوں میں اپنے لئے وہتحقیردیکھتا تھا جو کبھی کہیں کسی کے لئے نہیں دیکھی تھی۔ اس کے لہجے میں اپنے لئے وہ تذلیل محسوس کرتا تھا کہ اپنی زندگی کے دونوں ادوار میں، دونوں زمانوں میں کبھی نہ محسوس کی تھی۔

Loading

Read Previous

الف لیلہٰ داستان ۲۰۱۸ ۔ قسط نمبر ۲۲

Read Next

الف لیلہٰ داستان ۲۰۱۸ ۔ قسط نمبر ۲۴

Leave a Reply

آپ کا ای میل ایڈریس شائع نہیں کیا جائے گا۔ ضروری خانوں کو * سے نشان زد کیا گیا ہے

error: Content is protected !!